باغبانی پر کشمیری معیشت کا دارومدار

molana
کشمیری اقتصادیات کا ایک بڑا حصہ پھلوں پر مبنی ہے ان میں  صرف سیب کی باغبانی ۱۶۴۷۴۲ ہیکٹیئر رقبے میں کی جاتی ہے، جس سے سال ۲۰۱۸-۱۹ میں سیب کی کل پیداوار ۱ء۸ ملین
(۱۸ لاکھ ۸۲ ہزار ۳۱۹) میٹرک ٹن سے زیادہ ہوئی (ڈائریکٹوریٹ برائے باغبانی، کشمیر کا ڈیٹا) یہاں کے محکمہ باغبانی کا تخمینہ ہے کہ جموں و کشمیر میں باغبانی (بشمول سیب) ۳۳ لاکھ لوگوں کا ذریعۂ معاش ہے اور یہ صنعت ۸-۱۰ ہزار کروڑ روپے کی ہے،مزید برآں اس یونین ٹیریٹری میں باہر سے آنے والے مزدوروں کو پوری وادیٔ کشمیر میں پھیلے باغات میں روزگار ملتا ہے
باغبانی شعبہ جموں و کشمیر کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حثیت رکھتا ہے اور اس شعبے سے بالواسطہ یا بلا واسط طور پر ستر فیصد آبادی منسلک ہوکر اپنا روزگار حاصل کرتی ہے اور شعبہ باغبانی کشمیر میں شوق اور جنون کی شکل اختیار کر چکا ہے یہی وجہ ہے کہ یہاں بہت سے لوگ اپنے گھروں کے صحن یا آنگن کو ضائع کئے بغیر  سبزی یا پھل کی کاشت کررہے ہیں ۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ کئی نوجوان اور دیگر لوگ اپنے گھروں  میں گملوں، پلاسٹک کے تھیلوں، پرانے ٹائر، بوتلوں، لکڑی اور پلاسٹک کے کریٹ میں سبزیاں اگاکر خوب فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ گھریلو باغبانی  ایک ایسا شوق ہے جو ڈپریشن کو کم کرتا ہے ، آنکھوں کو فرحت بخشتا ہے، خالص غذا کی فراہمی کا باعث بنتا ہے اور جیب پر بوجھ کو کم کرتا ہے۔ اس طرح گھر بیٹھے تازہ سبزی بھی مل جاتی ہے اور ایک بہترین مشغلہ بھی ہاتھ آجا تا ہے  صحن یا آنگن میں زیادہ تر پھول کے پودے اُگائے جاتےہیں لیکن وادی میں  اب لوگ  گھروں کے صحن یا آنگن  کو ضائع کرنے کے بجائے ان  میں سے تازہ سبزی اگانے کی پہل کرتے ہیں باغبانی وادی میں بہت پھل پھول رہا تھا لیکن اچانک احتجاجوں (ہڑتال یا ’عوامی کرفیو‘) کی وجہ یہ شعبہ معطل ہونے سے تاجروں کو بڑے پیمانے پر مالی نقصان ہونے کے ساتھ ساتھ اس سے منسلک لاکھوں نوجوانوں کا روزگار بھی چھن گیاہے اور تمام منڈیاں بند پڑی رہ گئیں اور حکومت کے ذریعے نشان زد منڈی تک پیداوار کو لے جانے پر کافی دشواری کاسامنا کرنا پڑتا ہے
کیونکہ سخت تلاشی کے بعد ہی ٹرکوں کو منڈیوں تک لے جانے کی اجازت دی جاتی ہے اور آج بھی کشمیری تاجروں کو  کافی تفتیشی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے اور بہت مرتبہ سامان بروقت منڈیوں تک نہیں پہنچ پاتا ہے جس کی وجہ تاجروں کو کافی نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ان حالات کے پیش نظر مرکزی حکومت  کو کشمیر میں کاروبار اور تجارت کی بہتری کیلئے کئی اقدامات کر نے کی ضرورت ہے کشمیری زعفران کو جغرافیائی اشارہ جاتی ٹیگ دیا جانا اچھا عمل ہے اس سے خطے کی تجارت عالمی جہت حاصل کرے گا ،اور سرکاری اسکیموں کے تحت سیب خریدنے کا  بہتر عمل جاری ہو اور کشمیر میں تجارت دوستانہ ماحول قائم کرنے کے لئے کوشاں رہنا ہوگا  تا کہ کسانوں کو اپنی پیداوار کی اچھی خاصی قیمت حاصل ہو ،اور  پرانے نظام میں جدت لائی جائے تاکہ خطے میں تجارتی سرگرمیوں کو دوام حاصل ہو سکے ۔ اس رو سے کشمیر میں تجارت کرنا مزید آسان ہو گا اور تجارت دوست ماحول قائم کرنے میں بھی مدد ملے گی   اور اس کی بدولت ریاست میں اقتصادی سرگرمیوں کو تقویت حاصل ہو گی اور روز گار کے زیادہ سے زیادہ مواقعے بھی پیدا ہوں گے ۔ ۔وادی  میں نجی کار خانہ دارو ں کی حوصلہ افزائی کے لئے مزید کولڈ اسٹوریج قائم کئے جائیں تاکہ باغ مالکان کو ’’اے گریڈ ‘‘  پیداوار بڑھانے میں مدد ملے ۔اس سلسلے میں باغ مالکان کو  سبسڈی فراہم کی جائے   ۔ کولڈ اسٹوریج میں گنجائش زیادہ ہو  اور اسے مرکزی معاونت والی مشن فار انٹگریٹیڈ ڈیولپمنٹ آف ہارٹیکلچر سکیم کے تحت قائم کیا جائے۔  میوہ کاشتکاروں کو ہائی ڈینسٹی پلانٹیشن کی جانب راغب کرنے کے لیے زرعی یونیورسٹی اور محکمہ ہارٹیکلچر کسانوں کو جانکاری دینے کے ساتھ ساتھ کئی اسکیمیں چلا چاہیے ، تاکہ میوہ کاشتکار اپنی آمدنی میں اضافہ کر سکیں،اور ان کے علاوہ  کشمیریوں کی فلاح وبہبود اور ان کو تجارت کرنے کے لئے اقتصادی پیکیج کے علاوہ وادی میں ان کے املاک کو ہوئے نقصان کا معاوضہ ادا کیا جائے  اور مرکز کی طرف سے کشمیری عوام کو یقین دلایا جائے  کہ اُن کے جائز مسائل اور اُن کی جانب سے پیش کی گئی مانگوں کا بغور جائزہ لیکر انہیں فوری طور پورا کیا جائے گا  اورسیب کی پیداوار کرنے والوں کو ایک مؤثر مارکیٹنگ پلیٹ فارم مہیا کرایا جائیگا  جو مقامی لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرے گا۔  سیب کے لیے محنت کی قیمتوں کو یقینی بنائے گا، جس سے جموں و کشمیر میں کسانوں کی مجموعی آمدنی میں اضافہ ہوگا اور بے روزگاری دور ہوگی اور  کشمیری تمام شعبوں میں ترقی و بلندی سے ہمکنار ہوں گے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *