Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors
Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

باغبانی پر کشمیری معیشت کا دارومدار

by | Dec 11, 2020

molana
کشمیری اقتصادیات کا ایک بڑا حصہ پھلوں پر مبنی ہے ان میں  صرف سیب کی باغبانی ۱۶۴۷۴۲ ہیکٹیئر رقبے میں کی جاتی ہے، جس سے سال ۲۰۱۸-۱۹ میں سیب کی کل پیداوار ۱ء۸ ملین
(۱۸ لاکھ ۸۲ ہزار ۳۱۹) میٹرک ٹن سے زیادہ ہوئی (ڈائریکٹوریٹ برائے باغبانی، کشمیر کا ڈیٹا) یہاں کے محکمہ باغبانی کا تخمینہ ہے کہ جموں و کشمیر میں باغبانی (بشمول سیب) ۳۳ لاکھ لوگوں کا ذریعۂ معاش ہے اور یہ صنعت ۸-۱۰ ہزار کروڑ روپے کی ہے،مزید برآں اس یونین ٹیریٹری میں باہر سے آنے والے مزدوروں کو پوری وادیٔ کشمیر میں پھیلے باغات میں روزگار ملتا ہے
باغبانی شعبہ جموں و کشمیر کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حثیت رکھتا ہے اور اس شعبے سے بالواسطہ یا بلا واسط طور پر ستر فیصد آبادی منسلک ہوکر اپنا روزگار حاصل کرتی ہے اور شعبہ باغبانی کشمیر میں شوق اور جنون کی شکل اختیار کر چکا ہے یہی وجہ ہے کہ یہاں بہت سے لوگ اپنے گھروں کے صحن یا آنگن کو ضائع کئے بغیر  سبزی یا پھل کی کاشت کررہے ہیں ۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ کئی نوجوان اور دیگر لوگ اپنے گھروں  میں گملوں، پلاسٹک کے تھیلوں، پرانے ٹائر، بوتلوں، لکڑی اور پلاسٹک کے کریٹ میں سبزیاں اگاکر خوب فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ گھریلو باغبانی  ایک ایسا شوق ہے جو ڈپریشن کو کم کرتا ہے ، آنکھوں کو فرحت بخشتا ہے، خالص غذا کی فراہمی کا باعث بنتا ہے اور جیب پر بوجھ کو کم کرتا ہے۔ اس طرح گھر بیٹھے تازہ سبزی بھی مل جاتی ہے اور ایک بہترین مشغلہ بھی ہاتھ آجا تا ہے  صحن یا آنگن میں زیادہ تر پھول کے پودے اُگائے جاتےہیں لیکن وادی میں  اب لوگ  گھروں کے صحن یا آنگن  کو ضائع کرنے کے بجائے ان  میں سے تازہ سبزی اگانے کی پہل کرتے ہیں باغبانی وادی میں بہت پھل پھول رہا تھا لیکن اچانک احتجاجوں (ہڑتال یا ’عوامی کرفیو‘) کی وجہ یہ شعبہ معطل ہونے سے تاجروں کو بڑے پیمانے پر مالی نقصان ہونے کے ساتھ ساتھ اس سے منسلک لاکھوں نوجوانوں کا روزگار بھی چھن گیاہے اور تمام منڈیاں بند پڑی رہ گئیں اور حکومت کے ذریعے نشان زد منڈی تک پیداوار کو لے جانے پر کافی دشواری کاسامنا کرنا پڑتا ہے
کیونکہ سخت تلاشی کے بعد ہی ٹرکوں کو منڈیوں تک لے جانے کی اجازت دی جاتی ہے اور آج بھی کشمیری تاجروں کو  کافی تفتیشی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے اور بہت مرتبہ سامان بروقت منڈیوں تک نہیں پہنچ پاتا ہے جس کی وجہ تاجروں کو کافی نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ان حالات کے پیش نظر مرکزی حکومت  کو کشمیر میں کاروبار اور تجارت کی بہتری کیلئے کئی اقدامات کر نے کی ضرورت ہے کشمیری زعفران کو جغرافیائی اشارہ جاتی ٹیگ دیا جانا اچھا عمل ہے اس سے خطے کی تجارت عالمی جہت حاصل کرے گا ،اور سرکاری اسکیموں کے تحت سیب خریدنے کا  بہتر عمل جاری ہو اور کشمیر میں تجارت دوستانہ ماحول قائم کرنے کے لئے کوشاں رہنا ہوگا  تا کہ کسانوں کو اپنی پیداوار کی اچھی خاصی قیمت حاصل ہو ،اور  پرانے نظام میں جدت لائی جائے تاکہ خطے میں تجارتی سرگرمیوں کو دوام حاصل ہو سکے ۔ اس رو سے کشمیر میں تجارت کرنا مزید آسان ہو گا اور تجارت دوست ماحول قائم کرنے میں بھی مدد ملے گی   اور اس کی بدولت ریاست میں اقتصادی سرگرمیوں کو تقویت حاصل ہو گی اور روز گار کے زیادہ سے زیادہ مواقعے بھی پیدا ہوں گے ۔ ۔وادی  میں نجی کار خانہ دارو ں کی حوصلہ افزائی کے لئے مزید کولڈ اسٹوریج قائم کئے جائیں تاکہ باغ مالکان کو ’’اے گریڈ ‘‘  پیداوار بڑھانے میں مدد ملے ۔اس سلسلے میں باغ مالکان کو  سبسڈی فراہم کی جائے   ۔ کولڈ اسٹوریج میں گنجائش زیادہ ہو  اور اسے مرکزی معاونت والی مشن فار انٹگریٹیڈ ڈیولپمنٹ آف ہارٹیکلچر سکیم کے تحت قائم کیا جائے۔  میوہ کاشتکاروں کو ہائی ڈینسٹی پلانٹیشن کی جانب راغب کرنے کے لیے زرعی یونیورسٹی اور محکمہ ہارٹیکلچر کسانوں کو جانکاری دینے کے ساتھ ساتھ کئی اسکیمیں چلا چاہیے ، تاکہ میوہ کاشتکار اپنی آمدنی میں اضافہ کر سکیں،اور ان کے علاوہ  کشمیریوں کی فلاح وبہبود اور ان کو تجارت کرنے کے لئے اقتصادی پیکیج کے علاوہ وادی میں ان کے املاک کو ہوئے نقصان کا معاوضہ ادا کیا جائے  اور مرکز کی طرف سے کشمیری عوام کو یقین دلایا جائے  کہ اُن کے جائز مسائل اور اُن کی جانب سے پیش کی گئی مانگوں کا بغور جائزہ لیکر انہیں فوری طور پورا کیا جائے گا  اورسیب کی پیداوار کرنے والوں کو ایک مؤثر مارکیٹنگ پلیٹ فارم مہیا کرایا جائیگا  جو مقامی لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرے گا۔  سیب کے لیے محنت کی قیمتوں کو یقینی بنائے گا، جس سے جموں و کشمیر میں کسانوں کی مجموعی آمدنی میں اضافہ ہوگا اور بے روزگاری دور ہوگی اور  کشمیری تمام شعبوں میں ترقی و بلندی سے ہمکنار ہوں گے۔

Recent Posts

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

ڈاکٹر سلیم انصاری ،جھاپا، نیپال نیپال میں مسلم یونیورسٹی کے قیام کی بات برسوں سے ہمارے علمی، ملی، تنظیمی اور سیاسی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔ اگرچہ اس خواب کو حقیقت بنانے کی متعدد کوششیں کی گئیں، مگر مختلف وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ...

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

ڈاکٹر سید خورشید، باندرہ، ممبئیغزہ کی پٹی میں جاری تنازع نے اس خطے کی سب سے کمزور آبادی بچوںپر ناقابل تصور تباہی مچائی ہے۔ فلسطین کی آزادی کے لئے سرگرم عمل حماس کوزیر کرنے کے بیانیہ کے ساتھ اسرائیلی فوجی کارروائی نے ایک انسانی تباہی کو جنم دیا ہے، جسے عالمی تنظیموں،...

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

دانش ریاض ،معیشت،ممبئی روزنامہ اردو ٹائمز نے جن لوگوں سے، ممبئی آنے سے قبل، واقفیت کرائی ان میں ایک نام عمر فراہی کا بھی ہے۔ جمعہ کے خاص شمارے میں عمر فراہی موجود ہوتے اور لوگ باگ بڑی دلچسپی سے ان کا مضمون پڑھتے۔ فراہی کا لاحقہ مجھ جیسے مبتدی کو اس لئے متاثر کرتا کہ...

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

دانش ریاض،معیشت،ممبئی غالبؔ کے ندیم تو بہت تھےجن سے وہ بھانت بھانت کی فرمائشیں کیا کرتے تھے اوراپنی ندامت چھپائے بغیر باغ باغ جاکرآموں کے درختوں پر اپنا نام ڈھونڈاکرتےتھے ، حد تو یہ تھی کہ ٹوکری بھر گھر بھی منگوالیاکرتےتھے لیکن عبد اللہ کے ’’ندیم ‘‘ مخصوص ہیں چونکہ ان...