
ڈاکٹر مظفر حسین غزالی
ڈاکٹر مظفر حسین غزالی
نئے زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کے احتجاج کو تین ہفتے ہو چکے ہیں۔ آزاد بھارت کی تاریخ میں ایسے مواقع کم آئے ہیں، جب ملک کی راجدھانی کو اس طرح گھیرا گیا ہو۔ یہ گھیراو ¿ ان زرعی بلوں کے خلاف ہے جو کورونا سے بنے حالات کا فائدہ اٹھا کر حکومت کسانوں پر لادنا چاہتی ہے۔ حالانکہ پارلیمنٹ میں ان پر بحث کے دوران اپوزیشن پارٹیوں کا رخ سخت تھا لیکن حکومت نے اس کی کوئی پرواہ نہیں کی، اور نہ ہی ان قوانین کو لانے سے پہلے کسانوں سے صلاح ومشورہ کیا گیا۔ شروع میں کسانوں کے احتجاج پر بھی کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ پنجاب میں لمبے عرصے سے ریل پٹریوں پر جاری دھرنے کو نظر انداز کر دیا گیا۔ کسانوں کی ان دیکھی کا یہ پہلا معاملہ نہیں ہے۔ اس سے قبل جنوبی ہند کے کسان بھی اپنی مانگوں کو لے کر کئی ماہ دہلی کے جنتر منتر پر ڈیرا ڈال چکے ہیں۔ حکومت نے انہیں بھی سرے سے نظر انداز کر دیا تھا۔ جبکہ بی جے پی’بہت ہوا کسانوں پر اتیاچار- اب کی بار مودی سرکار‘ کے نعرے اور سوامی ناتھن کمیشن کی سفارشات کو لاگو کرنے کے وعدہ پر اقتدار میں آئی تھی۔
بہرحال جب کسان پنجاب سے دہلی کےلئے نکلے تو ہریانہ میں انہیں روکنے کیلئے راستہ میں بیریکیڈ لگا دیئے گئے۔ سڑکیں کھود دی گئیں، آنسو گیس کے گولے داغے گئے اور سردی کے موسم میں ٹھنڈے گندے پانی کی بوچھار کی گئی۔ اس میں کئی کسان زخمی ہوئے اور ایک کی موت ہو گئی۔ اب تک اس احتجاج میں چار جانیں جا چکی ہیں۔ ساری رکاوٹیں پار کرکے کسان سندھو بارڈر تک تو پہنچ گئے لیکن انہیں دہلی میں داخلہ کی اجازت نہیں ملی۔ کسانوں کے دہلی میں داخلہ کی ضد پر حکومت کی جانب سے کہا گیا کہ اگر وہ ست سنگ گراو ¿نڈ میں آ جائیں تو بات ہو سکتی ہے۔ کسانوں نے حکومت کی اس تجویز کو قبول نہیں کیا اور دہلی کے بارڈر پر ہی پڑاو ¿ ڈال دیا۔ اس کے بعد ایک طرف بات چیت کا سلسلہ شروع ہوا اور دوسری طرف بی جے پی کے پرچار تنتر نے کسانوں کے آندولن کو توڑنے، بدنام کرنے کی مہم شروع کر دی۔ ابتدا میں کہا گیا کہ زرعی قوانین کی مخالفت صرف پنجاب کے مٹھی بھر کسان کر رہے ہیں۔ باقی کسانوں کو سرکار پر پورا بھروسہ ہے، انہیں کوئی شکایت نہیں ہے۔ لیکن جب اس تحریک میں شامل ملک کے دوسرے حصوں سے آئے کسانوں نے اپنی پہچان بتائی تو کبھی انہیں پاکستان، چین کا ورغلایا ہوا، کبھی خالصتانی بتایا گیا۔ ملک نے جب ان باتوں کو مسترد کر دیا تو اس تحریک کو بچولیوں کا اسپانسر اور اپوزیشن کی چال کہا گیا۔ شاہین باغ سے جوڑ کر بھی اسے کمزور کرنے کی کوشش کی گئی۔ کسانوں کے مسائل پر سنجیدگی سے غور کرنے کے بجائے سرکار نے ان کے درمیان تفریق پیدا کرکے احتجاج کو ختم کرنے کی قواعد شروع کر دی۔ فرضی کسان تنظیموں کے ذریعہ زرعی قوانین کی حمایت میں وزیر زراعت کو میمورنڈم دلوانا اسی کا حصہ ہے۔ یہ سلسلہ بی جے پی اقتدار والی ریاستوں میں ہنوز جاری ہے۔
ایسے میں کسانوں اور سرکار کے بیچ مصالحت کی کوئی صورت نہیں بن پا رہی ہے۔ جبکہ کسانوں کی حکومت کے ساتھ کئی دور کی بات چیت ہو چکی ہے۔ پہلے سے طے پروگرام کے بغیر خود وزیر داخلہ امت شاہ نے کسان نیتاو ¿ں سے مل کر حکومت کی جانب سے تحریری تجاویز بھیجی تھیں۔ سرکار قبول کرے یا نہ کرے لیکن اسے احساس ہو گیا ہے کہ کسانوں سے بات کئے بنا زرعی اصلاحات قوانین بنانے میں اس سے چوک ہوئی ہے۔ کسانوں نے حکومت کے ذریعہ بھیجی گئی تحریری تجاویز کو ٹھکرا دیا، ساتھ ہی اپنے احتجاج کو اور تیز کرنے کا اعلان کر دیا۔ حالانکہ ان تجاویز میں کسانوں کے اشکالات کو دور کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ حکومت کی جانب سے ایک ہی بات بار بار کہی جا رہی ہے کہ وہ کسانوں کے تمام شک و شبہات اور تشویش کو دور کرنا چاہتی ہے۔ اس کی طرف سے قانون میں ترمیم کا پیغام بھی دیا گیا ہے مگر وہ اسے واپس لینے کو تیار نہیں ہے۔ نہ ہی وہ اپنی بات چیت اور رویہ سے کسانوں کا بھروسہ حاصل کر پا رہی ہے۔ اسی لئے سڑکوں پر اترے کسانوں کو حکومت کی کسی بھی بات پر یقین نہیں ہو رہا ہے۔
دراصل کسان سمجھ چکا ہے کہ اگر یہ تین قانون لاگو ہو گئے تو وہ اپنی ہی زمین پر غلام ہو جائے گا۔ ابھی جو حالات ہیں، وہ اس سے بھی خراب حالت میں پہنچ جائے گا۔ اسے دو جون کی روٹی کے بھی لالے پڑ جائیں گے۔ کسانی ختم ہو جائے گی یا پھر زمین کارپوریٹ کے ہاتھوں میں چلی جائے گی۔ کسان مزدور بن کر فصل اگائے گا اور اس سے منافع کارپوریٹ کمائے گا۔ یعنی زراعت ایک انڈسڑی بن جائے گی۔ ان زرعی اصلاحات کا یہی مقصد ہے کیونکہ ان میں کسان کہیں بھی نہیں ہے۔ کسان تنظیمیں ایم ایس پی کو قانون میں شامل کرنے کی مانگ پر اڑے ہیں۔ جبکہ حکومت ایم ایس پی کے موجودہ نظام کو جاری رکھنے کا یقین دلا رہی ہے۔ اس وقت صرف چھ فیصد اناج کی خرید ہی ایم ایس پی پر ہوتی ہے۔ باقی اناج کسانوں کو اونے پونے میں بیچنے پرمجبورہونا پڑتا ہے، جس کی وجہ سے کبھی کبھی اسے فصل کی لاگت بھی نہیں مل پاتی۔ اگر ایم ایس پی قانون کا حصہ بن گیا تو ساٹھ فیصد فصل حکومت کو ایم ایس پی پر خریدنی پڑے گی۔ اس سے سرکار پر پندرہ لاکھ کروڑ کا بوجھ پڑے گا۔ حکومت اس سے بچنا چاہتی ہے، اس لئے اس نے احتجاج کو ختم کرنے کےلئے دس نکاتی پروگرام بنایا ہے۔ اس میں میڈیا سے لے کر وزراءتک کو شامل کیا گیا ہے۔ سوامی ناتھن رپورٹ کی سفارشات کو لاگو کرنے کی بات شاید اب سرکار کے ایجنڈے میں نہیں ہے۔
حکومت چاہے تو فصل کی لاگت کم کر سکتی ہے۔ موجودہ تین نئے زرعی قوانین میں ایک بجلی سے متعلق ہے۔ بجلی پر حکومت کسانوں کو سبسڈی دیتی ہے۔ بجلی کا استعمال کسان آبپاشی کےلئے زمین سے پانی نکالنے میں کرتا ہے۔ بجلی نہ ہونے کی صورت میں اسے ڈیزل کا استعمال کرنا پڑتا ہے۔ سبسڈی کے باوجود بھی اسے پانی نکالنا بہت مہنگا پڑتا ہے۔ اگر حکومت آبپاشی کےلئے پانی فراہم کر دے تو فصل کی لاگت کم ہو سکتی ہے۔ مگر وہ پانی زراعت کے بجائے انڈسٹریز اور بلڈرز کو دستیاب کراتی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ زراعت جس پر ملک کی ستر فیصد آبادی کا انحصار ہے اور جس نے خراب حالات میں بھی ملک کی معیشت کو سنبھالے رکھا وہ حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔ البتہ تین ہزار سے زیادہ کمپنیوں کا کاروبار 12 کروڑ کسان اور 14 کروڑ کھیتی مزدوروں کے ذریعہ ا ±گائے گئے اناج، پھل، سبزیوں وغیرہ پر منحصر ہے۔ 18-2019 اور 19-2020 میں ملک کے کسانوں نے 102 ملین ٹن چاول، 106 ملین ٹن گیہوں، 26.30 ملین میٹرک ٹن دالیں، 191 ملین ٹن سبزیاں، 97.97 ملین ٹن پھل وغیرہ اگائے۔
یہ کمپنیاں کسانوں کی پیداوار سے اپنے تین لاکھ سے زیادہ ملازمین اور اتنے ہی باہر سے جڑے ہوئے لوگوں کی مدد سے 30 سے تین ہزار کروڑ روپے کا سالانہ منافع کماتی ہیں۔ ایک اندازہ کے مطابق انہیں ملنے والا کل فائدہ پندرہ لاکھ کروڑ روپے سالانہ سے زیادہ ہے۔ ان کو حکومت کی بھی پوری مدد حاصل ہے۔ پنیا پرسون باجپئی کی رپورٹ کے مطابق گوڈاو ¿ن بنانے والوں کو آٹھ ہزار فیصد، ریٹیل کاروبار کو 16 ہزار فیصد، ایکسپورٹ کرنے والوں کو چودہ ہزار فیصد، ایگرو کمپنیوں کو 7000 فیصد اور بیمہ کمپنیوں کو 9000 فیصد کا منافع ہوتا ہے۔ بنک بھی انہیں آسانی سے قرض دے دیتے ہے۔ جبکہ کسانوں کو بنک قرض نہیں دیتے۔ انہیں مہاجنوں سے کھیتی کےلئے پیسے ادھار لینے پڑتے ہیں۔ قرض ادا نہ کرنے کی صورت بے عزتی سے بچنے کیلئے انہیںخودکشی کرنا آسان لگتا ہے۔ سال در سال کسانوں کی خودکشی کے معاملے بڑھتے جا رہے ہیں۔ جبکہ کسان کی پیداوار سے جڑی یہ کمپنیاں اگر قرض کی ادائیگی نہیں کر پاتیں تو حکومت اسے معاف کر دیتی ہے۔ باقی جو کچھ بچتا ہے وہ این پی اے کا حصہ بنتا ہے۔
یہ وہ باتیں ہیں جن سے کسان واقف ہیں۔ اس لئے وہ اپنی آمدنی کو یقینی بنانے کےلئے آرپار کی لڑائی لڑنے کے موڈ میں ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ مسئلہ کا حل بات چیت سے ہی ممکن ہے لیکن اس کےلئے ماحول بنانے کی ذمہ داری کسانوں سے زیادہ حکومت کی ہے۔ سرکار کو بڑپن دکھاتے ہوئے کسانوں کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے ان قوانین کو واپس لے کر ان کی صلاح مشورہ سے نئے قانون بنانے چاہئے۔ جمہوریت میں عوام کے آگے جھکنے سے حکومت کی عزت گھٹتی نہیں اور بڑھ جاتی ہے۔ حکومت یقیناً کسانوں کا بھلا چاہتی ہے تو پھر اس کے نئے زرعی قوانین سے بھی اس کا احساس ہونا چاہئے۔ ابھی تو یہی لگ رہا ہے کہ اس کے زرعی قوانین کسانوں کے خلاف سخت ہیں لیکن کارپوریٹ یا بین الاقوامی ایگرو کاروبار کےلئے خصوصی طور پر نرم یا ان کےلئے راستہ کھولنے والے ہیں۔ حکومت کسانوں کے مسائل کو سنے اور اس پر سنجیدگی سے غور کرکے ان کا معقول حل پیش کرے۔ تاکہ ان داتا کے مرجھائے ہوئے چہرے پر تھوڑی مسکراہٹ آجائے۔