عبد اللہ زکریا
مولوی بیچارہ بہت مظلوم مخلوق ہے ۔ہمیشہ طنز اور تضحیک کا نشانہ بنتا ہے ،کبھی اپنی خوراک کے حوالہ سے ،کبھی کثرتِ اولاد کے تعلق سے ۔یوسفی کی شگفتہ بیانی دیکھئے”ہم نے آج تک کسی مولوی کو دبلا پتلا اور ہارٹ اٹیک سے مرتے ہوئے نہیں دیکھا ۔اس کی تین وجہیں ہیں ۔مولوی مرغ سے نیچے کسی ڈِش کو ہاتھ نہیں لگاتا ہے ۔ایکسرسائز نہیں کرتا ہے اور کبھی آئینہ نہیں دیکھتا ہے “ دوسری جگہ ایک کثیر العیال مولانا کے خاکہ میں ،جنکی اوپر تلے نو اولاد ہیں اور انھوں نے ان کے نام مغل شہزادوں پر رکھے ہیں ،اس طرح رنگ بھرتے ہیں “مولانا کا حافظہ اور تاریخ کا مطالعہ بہت اچھا معلوم ہوتا تھا۔ایسالگتا تھا کہ لائحہ حمل بناتے وقت انہوں نے خاندانی منصوبہ شکنی کو تاریخِ مغلیہ کے تقاضوں اور تخت نشینی کی بڑھتی ہوئی ضروریات کے تابع رکھا ہے “یہ پیرا پڑھ کر آپ کو شاید ہنسی آئے لیکن جب آپ اسے” آب گم “میں context میں پڑھیں گے تو آپ کی آنکھیں نم ناک ہو جائیں گی ۔اقبال تک اسے “دو رکعت کا امام “کہہ گئے ہیں ۔پس منظر یقیناً الگ ہے لیکن “وقعت ” تو ضرور کم ہوئی ہے ۔
مولویوں میں بھی بڑا زبردست برہمنی نظام موجود ہے ۔کوئی شمش العلماء ہے ،کوئی علامہ ہے ،کوئی خطیب العصر ہے تو کوئی محدثِ دہر ہے ۔یقیناً ان کے چاہنے والوں نے ان کو یہ القاب دئے ہیں اور وہ اس کے حقدار بھی ہوسکتے ہیں ،لیکن ان میں سے اکثر اپنی” علمیت “کا اس درجہ شکار ہیں کہ اپنے ہم رتبہ اور ہم علم کو تو مولانا کہتے ہیں لیکن اپنے سے کمتر کو مولوی کہتے ہیں اور بطور تحقیر کہتے ہیں ۔
مولوی اگر کسی گاؤں کے مدرسہ اور مکتب میں پڑھا رہا ہوتا ہے تو سارا گاؤں اس کے کھانے پینے کا انتظام کرتا ہے ۔لوگ بہت عزت و تکریم سے پیش آتے ہیں اور حسبِ استطاعت مرغ سےلےکر انڈے تک سےاس کی خدمت کی جاتی ہے لیکن عزتِ نفس تو پھر بھی مجروح ہوتی ہے ۔ وہ دوسروں کا محتاج ہی رہتا ہے اور انتظار کرتا رہتا ہے کہ کب اس کا رزق ٹفن کی شکل میں اس تک پہنچےاور اگر غلطی سے کسی شہر کی مسجد کا امام ہے تو بیچارے کا پورا وقت ٹرسٹیان کا منھ چھونے اور ان کے چشم وابرو کا اشارہ پڑھنے میں گزر جاتا ہے ۔اسے اچھی طرح معلوم ہے کہ اگر غلطی سے بھی کسی ٹرسٹی صاحب کی انا کو ٹھیس پہنچ گئی تو وہ اس کے رزق کا دروازہ بند کرنے کی پوری کوشش کریں گے ۔
سب سے برا حال بیچارے ان مولویوں کا ہوتا ہے جن کے ذمہ چندے کی ذمہ داری بھی آجاتی ہے ۔رمضان کے مہینہ میں جب مدرسوں میں تعطیل ہوتی ہے تو ایک کثیر تعداد میں ان مولوی حضرات کو چندے کے لئے بڑے بڑے شہروں میں بھیج دیا جاتا ہے ۔یہاں بھی وہی برہمنی نظام ہے ۔بڑے مولانا لوگ تو گلف کے ممالک کا سفر پر تعیش کرتے ہیں اور بیچارے چھوٹے مولوی اپنی عزت اور اناداؤپر لگا کر بھوکے پیاسے مارے مارے پھرتے ہیں ۔ چپلوں کے ڈھیر کے پاس ،ایک صافہ بچھائے ،رسیدوں کو ترتیب سے لگائے اور تصدیق نامہ کھولے ،آنکھوں میں اک آس لئے یہ سفرا ء رمضان کے مبارک مہینہ میں ہر مسجد کے منظر نامہ کا لازمی حصہ ہیں ۔جب سب لوگ خدا سے مانگ رہے ہوتے ہیں ،یہ بے چارے لوگوں کے سامنے دستِ سوال دراز کئے دکھائی دیتے ہیں ۔ کچھ زکوۃ دینے والے تو زکاۃ بھی ایسے دیتے ہیں جیسے کوئی احسان کر رہے ہوں ۔یہی ذلت کافی نہیں ہے۔اگر کسی وجہ سے چندے میں کمی آجائے تو متکبر منتظمینِ مدرسہ بے نقط سناتے ہیں ۔
کچھ لوگوں کے نام میں مولوی کا لاحقہ لگ جاتا ہے لیکن وہ حقیقتاًمولوی نہیں ہوتے ہیں جیسے بابائے اردو مولوی عبد الحق ۔وہ اپنے بارے میں خود لکھتے ہیں کہ نماز روزہ سے انھیں کوئی خاص شغف نہیں تھا ،ہاں کئی بار داڑھی کی وجہ سے پھنس گئے تو نماز ضرور پڑھانی پڑی ۔
مشہور صحافی اور صاحبِ طرز ادیب مولوی چراغ حسن حسرت بھی مولوی نہیں تھے مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی والے مدن صاحب بھی مولوی نہیں تھے ۔
مولویوں کے بارے میں آج کل ایک بڑی بدگمانی پھیلی ہے کہ ان میں سے اکثر کا ایمان اتنا کمزور ہوگیا ہے کہ وہ زر وجواہر اور اقتدار کے بدلے اس کا سودا کرنے کو بھی تیار ہیں ۔صاحبو اس کی داغ بیل تو ابوالفضل اور فیضی اکبر کے دور میں ہی ڈال گئے ہیں ۔یہ کوئی نئی چیز تھوڑی ہی ہے اور جب سبھی اپنا ایمان بیچ رہے ہیں تو مولوی سے یہ توقع رکھنا،کہ وہ نہیں بکے گا، بڑی زیادتی ہے ۔آخر وہ بھی تو اسی معاشرے کا حصہ ہے۔
یہ سب اپنی جگہ لیکن مولوی پر اللہ کا خاص فضل ہے ۔ہم نے آج تک کسی مولوی کو بھوکا نہیں دیکھا ۔دعوتِ طعام مولوی کا پیدائشی حق ہے ۔ لوگ باگ ثواب کی نیت سے خوشی خوشی بلاتے ہیں ۔مولویوں کی خوش خوراکی کے بہت سارے قصے مشہور ہیں ۔ مولوی بیچارہ بے کار میں بدنام ہے ۔کھانے کو سبھی کھاتے ہیں ۔ہم البتہ اپنا ایمان اس حدیث سے ناپتے ہیں کہ مومن ایک آنت میں کھاتا ہے اور کافر سات آنتوں میں ۔
باقی رہے نام اللہ کا۔

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت
ڈاکٹر سلیم انصاری ،جھاپا، نیپال نیپال میں مسلم یونیورسٹی کے قیام کی بات برسوں سے ہمارے علمی، ملی، تنظیمی اور سیاسی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔ اگرچہ اس خواب کو حقیقت بنانے کی متعدد کوششیں کی گئیں، مگر مختلف وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ...