جی بہت چاہتا ہے سچ بولیں

 مشتاق احمد نوری
مشتاق احمد نوری

مشتاق احمد نوری

کسان آندولن نے پورے ملک کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ اس سے قبل شاہین باغ کے آندولن نے کافی شہرت پاٸی تھی جسے سرکار نے بہت خوبصورتی سے ٹھکانے لگا دیا لیکن بلقیس دادی نے ٹاٸم میگزین پر جگہ پاکر یہ ثابت کردیا کہ اس آندولن کی گونج پوری دنیا میں سنی گٸی۔اس کسان آندولن کو بھی سرکار نے شاہین باغ کی طرح ٹھکانہ لگانے کی کوشش کی لیکن سردی میں پانی کی شدید بوچھار نے پٹرول کا کام کیا اور آندولن کاریوں کے جذبے مزید مستحکم ہوگٸے۔کسان بل کیا ہے یہ اب ملک کا ہر شہری جانتا ہے کیوں اور کس کے لٸے ہے یہ بھی سب کو معلوم ہے۔
ایسٹ انڈیا کمپنی کے نٸے اوتار امبانی اور اڈانی کی خوشامد میں سرکار نے یہ بل پاس کیا جس پر کوٸی بحث ہی نہ کی گٸی بس میز تھپتھپا کر اسے پاس کردیا گیا۔یہ سب کو معلوم ہے جب بجٹ پیش کیا جاتا ہے تو بڑے ادّیوگ پتیوں کو بلاکر ان کے مشورے بھی لٸے جاتے ہیں لیکن اس کسان بل پر بحث کرنے کے لٸے نہ تو کسی کسان لیڈر سے گفتگو کی گٸی اور نہ ہی اپوزیشن سے مشورہ کیا گیا۔وجہ یہ تھی یہ بل بنا کہیں اور اور پاس ہوا پارلیامنٹ میں۔ یہ فیصلہ تو سرکار کے مکھیا نے بہت قبل اپنے دوستوں کے مشورے سے لے لیا تھا اور انہیں آگے کی تیاری کا اشارہ بھی دے دیا تھا اسی کے پیش نظر اڈانی نے ایک سو ایکڑ زمین پر بہت بڑا گودام قاٸم کیا اناج رکھنے کے لٸے بڑے بڑے کنٹینر بنواٸے ریلوے ٹریک بھی بنواٸے کہ مستقبل میں انڈین ریلوے کے مالک بھی وہی ہونے جارہے ہیں ۔
آپ کو دو تصویروں کی یاد دلاتا چلوں۔ایک تصویر میں مودی جی کے ایک ہاتھ میں امبانی کا ہاتھ دوسرے ہاتھ میں نِیتا امبانی کا ہاتھ ان کی نظر نیتا جی کے چہرے پر ہونٹوں پہ مسکان اور مکیش امبانی کا دوسرا ہاتھ مودی جی کی پشت پر۔ دوسری تصویر اڈانی کی بیگم کے سامنے مودی جی کا ہاتھ جوڑ کر رکوع کی پوزیش میں ابھیوادن پیش کرتے ہوٸے۔ یہ دونوں تصویر صرف تصویر نہیں ہے بلکہ ایک مکمل داستان کو بیان کررہی ہے۔
کسان تحریک سرکار کے گلے کی ہڈی بنی ہوٸ ہے وجہ ہے ایسٹ انڈیا کمپنی کے انڈین اوتار سے کیا گیا وعدہ جس پر اڈانی نے کڑوڑوں خرچ کردیا گوڈان بن کر تیار سارا روڈ میپ فاٸینل تو پھر ان حالات میں پیچھے ہٹنا بہت مشکل ہوگیا ہے۔کھاٶں کدھر کی چوٹ بچاٶں کدھر کی چوٹ والی کیفیت ہوگٸی ہے۔مودی جی یہ جانتے ہیں کہ کوٸ ان کا کچھ بگاڑ نہیں سکتا۔ پولیس ، عدلیہ اور طاقت ان کے ہاتھ میں تو کون بگاڑ سکتا ہے ان کا کھیل۔ لیکن یہاں وہ چوک کرگٸے اور ان کا پانسا الٹا پڑتا نظر آرہا ہے۔
کسانوں کایہ جتھا کمزور نہیں ہے وہ پوری تیاری کرکے سر سے کفن باندھ کر میدان میں اترا ہے۔سندھو باڈر پر پنچاب و ہریانہ کے کسان اس ٹھٹھرتی سردی میں بھی بنے ہوٸے ہیں وہ ساری تکالیف سے گزررہے ہیں اب تک ساٹھ سے زاید مرچکے ہیں کچھ نے خودکشی تک کرلی لیکن سرکار صرف مٹنگ کرنے میں مصروف ہے اور ہر مٹنگ میں یہ اعلان بھی کرتی ہے کہ یہ تینوں زرعی قانون واپس نہیں لٸے جاٸینگے اور کسان ہیں جو اس قانون کی مکمل واپسی پر اڑے ہیں ۔سرکار اپنی ضد پر اس لٸے قاٸم ہے کہ یاروں کو کیا منھ دیکھاٸینگے۔اس کے بدلے اسی کڑوڑ کسان برباد ہوجاٸیں دیش برباد ہوجاٸے اس سے انہیں کوٸی فرق نہیں پڑتا۔ کسان پریشان اسلٸے ہیں اس قانون کے لاگو ہونے سے وہ برباد ہوجاٸینگے ان کی ساری فصل سیدھے اڈانی امبانی کے گودام میں چلی جاٸے گی اور بعد میں پچاس روپٸے کیلو کا چاول عام لوگوں کو 500 سو روپٸے خریدنے پر مجبور ہونا پڑےگا۔ ایک معمولی پھول گوبی کسان میکسیمم پانچ سے دس روپٸے کیلو بیچتا ہے وہی گوبی پولیتھین میں پیک ہوکر 300 روپٸے میں آدھا کیلو امبانی کے اسٹور میں بک رہاہے۔
کسان کا استحصال میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔اکثر چھپرہ سے لوٹتے وقت دگھوارا ریلوے جنکشن پر گمٹی بند ملتی تھی۔میں نے دیکھا کہ کسان بورے میں بھر کر تازہ بیگن لایا اڑھتیا (ہول سیلر ) کے آدمی نے کانٹا لگا کر بیگن تولا۔ 70کیلو بیگن کی قیمت 70 روپٸے یعنی ایک روپٸے کیلو دی اور اسی جگہ اس بیگن کو ایک عورت 6 روپٸے کیلو بیچ رہی ہے غریب کسان لاچاری سے سب دیکھ رہا ہے۔ہر سبزی کا یہی حال تھا ۔ یہ واقعہ 2010 سے قبل کا ہے آج بھی استحصال کا وہی تماشہ ہورہا ہوگا۔
اس واقعے کی روشنی میں کسانوں کی یہ مانگ بہت معنی رکھتی ہے کہ ہر فصل کی ایک قیمت مقرر کردی جاٸے تاکہ کسانوں کو نقصان نہ ہو لیکن مرکزی سرکار یہ قانون پاس کرنا نہیں چاہتی کہ دوستوں کو دونوں ہاتھ سے منافع لوٹنے کا موقع ملے۔ کسانوں کو معلوم ہے کہ اگر یہ زرعی قانون واپس نہ ہوا تو آگے چل کر وہ کسان کی بجاٸے مزدور بن کر رہ جاٸینگے۔
26 جنوری کا واقعہ بھی خوب رنگ لایا کسانوں نے دہلی جاکر یوم جمہوریہ منانے کی التجا کی انہیں اپنے ٹریکٹر کے ساتھ دہلی جاکر جشن منانے کی اجازت بھی دے دی گٸ روٹ بھی طے کردٸے گٸے لیکن جب کسان طے روٹ سے دہلی روانہ ہوٸے تو وہاں بیریکیٹنگ لگا کر انہیں آگے بڑھنے سے روک دیا گیا۔غازی آباد بوڈر پر یوگی نے مزید پریشانی کھڑی کردی اور ٹریکٹر کو ڈیزل دینے پر پاپندی لگادی۔ راکش ٹکیٹ کا باغیانہ تیور اسی کالے قانون کا ردعمل تھا۔ کسانوں کے ضد کے سامنے کوٸ حربہ کارگر نہیں ہوا۔انہیں کسانوں کے ایک گروپ کو بھاجپا کے ہی ایک شخص نے لال قلعہ کے اندر داخل کروایا یہ طے شدہ پروگرام تھا اس لٸے پولیس نے بھی روکنے کی کوشش نہیں کی۔جوشیلے کسان اندر گٸے اور لال قلعے پر اپنا جھنڈا پھہرا دیا ۔ترنگے کا اپمان کوٸ بھی ہندوستانی برداشت نہیں کرسکتا ۔ان ساری کوششوں سے اس آندولن کو کمزور کرنے کی کوشش کی گٸی لیکن لوگ بھی کم سیانے نہیں جنہوں اس راز سے پردہ اٹھا دیا کہ بھاجپا کے جس جوان نے یہ سب کروایا وہ مودی اور امت شاہ کا بےحد قریبی ہے۔ساری تصاویر سامنے ہیں لیکن اس شخص کو پولیس گرفتار کرنے کو تیار نہیں۔
اس واقعے کی آڑ میں یوگی نے لگ بھگ غازی آباد باڈر کے آندولن کو سمیٹنے کی تیاری کرلی تھی لیکن راکیش ٹکیت نے ہمت نہیں ہاری۔کسانوں کو بہت بے رحمی سے پیٹا گیا اس بےدردی نے کسان نیتا ٹکیت کا دل توڑ دیا اور وہ بھاوک ہوگٸے اور ان کی آنکھوں سے آنسوں نکل پڑے آواز بھراگٸی اور انہوں نے کسانوں کو واپس ہونے کی آواز لگاٸی اور آناً فاناً لاکھوں کسان نے یوپی سے کوچ کر غازی آباد بوڈر کو آباد کردیا اب انہوں نے یہ بھی اعلان کردیا کہ اکتوبر تک ہم یہیں رہینگے۔
سندھو بوڈر پر کسان جمے ہوٸے ہیں ان کے لٸے یہ جان سے زیادہ آن کا معاملہ ہے وہ مرجاٸینگے لیکن پیچھے نہیں ہٹینگے۔ بھارت کا اپوزیشن بے حد کمزور ہے وہ خود کو مجبور پارہا ہے لیکن یوم جمہوریہ واقعے کے بعد انکی نیند بھی ٹوٹی ہے وہ کھل کر کسانوں کے حق میں آواز بلند کرنے لگے ہیں۔اب سرکار کو ایک اور ہتھ کنڈا مل گیا کہ یہ کسان آندولن نہیں بلکہ اپوزیشن کی سازش ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ہمارے کلاکار بھی چپ ہیں ایک محترمہ بھاجپا کی چمچہ گیری کرتے ہوٸے کسانوں کو دہشت گرد اور غدار کہ رہی ہیں باقی لوگ خاموشی میں ہی اپنی عافیت محسوس کررہے ہیں ان کی یہ بزدلی اور نامردی کو آنے والا وقت کبھی معاف نہیں کرےگا۔
ایک طرف مودی جی کا فرمان ہے کہ ہم کسانوں سے ایک فون کی دوری پر ہیں تو دوسری طرف دہلی آنے کے سبھی راستے مسدود کردٸے گٸے ہیں اور راستوں پر کٹیلے تاروں کا جال بجھا دیاگیا ہے۔بڑے بڑے کیل سڑکوں پر ٹھوک دٸے گٸے ہیں ہر وہ طریقہ اپنایا گیا جس سے سڑک پار کرنا مشکل ہو۔ان سب باتوں سے سرکار کی منشا صاف ہوگٸی ہے کہ وہ اپنے یاروں کے لٸے کسی بھی٦ حد تک جانے کے لٸے تیار ہے ۔
اب اس کھیل میں ایک اور ٹوسٹ آگیا ہے سرکار نے کسانوں کی انٹرنیٹ سیوا بند کردی ہے اس پر انٹرنشنل پاپ سنگر ریحانہ نے ایک چھوٹا ساجملہ کہا ” کوٸ اس سلسلے میں بات کیوں نہیں کررہا ہے “ یہ جملہ بم کی طرح پھٹا اور گودی میڈیا کو اس میں انٹرنشنل سازش کی بو محسوس ہونے لگی۔ریحانہ اگر مسلمان ہوتی تو اور نہ جانے کیا کیا سازش نظر آنے لگتی۔ ریحانہ کا شمار دنیا کے پانچ دولت مند ترین اشخاص میں ہوتا ہے اس کے فالورز کی تعداد 100 میلین سے زاید ہے اس نے کسان آندولن کی وہ تصویر بھی ٹیگ کردی جس میں پولیس جم کر لاٹھیاں برسارہی ہے اسے تین لاکھ سے زاید لوگ دیکھ چکے۔ دوسری سلیبریٹی گریٹا تھنبرگ کی ہے جنہوں نے ٹویٹ کرکے کہا ” ہم کسان آندولن پر ان کے ساتھ کھڑے ہیں “ انہوں نے بھی کسان آندولن کی تصویر ٹیگ …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *