Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors
Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

آخر موت سے کیوں ڈرایا جا رہا ہے؟ 

by | Apr 21, 2021

کرونا مریض

دانش ریاض،معیشت،ممبئی
بچپن میں ایک رباعی میرے ذہن و دماغ میں اس قدر راسخ ہوگئی تھی کہ میں جوکھم بھرے کام کا بیڑا بڑی آسانی سے اٹھا لیتا تھا اور اسے پوری دلجمعی سے مکمل کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ دھیرے دھیرے یہ ہونے لگا کہ دوست احباب جوکھم بھرے کام مجھے ہی سونپنے لگے اور انہیں یہ امید رہتی کہ میں اسے ضرور پایہ تکمیل تک پہنچا دوں گا ۔دراصل وہ چار مصرعے یوں تھے کہ
 کتنی ہی احتیاط کوئی کرجائے 
چھلکے کا جام زندگی جب بھر جائے
 جینا ہوتو بےکار ہے افعیٰ کا زہر
مرنا ہو تو زنبور کا کاٹا مرجائے۔
میرے استاد محترم ماسٹر محمد فیصل فلاحی حفظہ اللہ نے اس شعر کی وضاحت بچپن میں اس انداز میں کی تھی کہ میں بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق کی مثال پیش کرنے کی جسارت کرنے لگا تھا لیکن اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ موت و زیست پر میرا ایمان مضبوط سے مضبوط تر ہوتاچلاگیا۔زندگی کے اتار چڑھاؤ پر جب میں نظر ڈالتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ با رہا ایسا محسوس ہوا کہ اب بس سب کچھ ختم ہواچاہتا ہے لیکن دوسرے ہی لمحے امید کی کوئی ایسی کرن دکھائی دے گئی کہ تمام کلفتیں کافور ہوگئیں۔ پچھلے برس جب کرونا کا قہر شروع ہوا اور ہر طرف سے اموات کی خبریں موصول ہونی شروع ہوئیں تو میری سوسائٹی، دوست و احباب میں بھی خوف و ہراس پھیلنےلگا۔
شام کے وقت خوش گپیوں کے دوران جب حالات پر تجزیے پیش کئے جاتے تو لوگ باگ اسے لائق خاطر میںہی نہیں لاتے لیکن جب حالات نارمل ہوئے اور مقامی اموات کا تجزیہ ہوا تو محسوس ہوا کہ انتظامیہ کے ساتھ سوشل میڈیا نے کس قدر دہشت بپا کررکھی تھی۔ سوسائٹی کے ایک بزرگ کہنے لگے کہ پہلے میں ان باتوں کو سنجیدگی سے نہیں لیتا تھا لیکن جیسے جیسے حقیقت حال کا علم ہوا تو محسوس ہوا کہ وہ باتیں جو ہم خوش گپیوں میں کیاکرتے تھے درست تھیں۔ اس وقت جبکہ دوسری لہر چل رہی ہے تواسی کیفیت کو شدت کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے چونکہ پہلی کارروائی میں متاثرین مسلمان تھے تو ہمارا قومی میڈیا اسے ’’کرونا جہاد‘‘ قرار دے رہا تھا لیکن اب جبکہ دوسری لہر میں بڑی تعداد میں غیر مسلم بھی شکار ہورہے ہیں تو اسے عالمی وبا قرار دے کر ’’مہاکنبھ‘‘ میں ڈبکی لگائی جارہی ہے۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ کرونا اپنے اثرات دکھا رہا ہے اور وہ لوگ جو کسی وجہ کر اسپتالوں میں داخل ہو رہے ہیں کرونا سے جنگ ہارتے جارہے ہیں۔کہا یہ جارہا ہے کہ کرونا ایک ایسی عالمی شیطانی وبا ہے جسے موقع و مناسبت سے مخصوص خطوں میں پھیلایاجارہا ہے ۔جس خطے میں شیطانی مقتدرہ اپنے تحفظات چاہتا ہو وہاں کبھی وہ بیماری کی باڑھ لے آتا ہے اور جیسے ہی اس کے مفادات پایہ تکمیل تک پہنچتے ہوں وہ کسی اور جگہ کا رخ اختیار کرلیتا ہے۔اس وبا سے نمٹنے کے لئے جو احتیاطی تدابیر بتائی جارہی ہیں وہ اس قدر بھونڈی ہیں کہ تجزیہ نگار جنہیں طبی معاملات پر بھی عبور حاصل ہے کہتے ہیں کہ یہ محض طفل تسلی ہے۔
دراصل اس وقت ہمیں تین چیزوں کا تجزیہ کرنا چاہئے اولاً یہ کہہ جو امواتیں ہورہی ہیں اس میں دوسری بیماریوں کا کتنا عمل دخل ہے؟ دوم جن اموات کو کرونا کے کھاتے میں ڈالا جارہا ہے ،موت سے قبل ان کی طبی حالت کیا تھی؟تیسری یہ کہہ جن علاقوں میں اموات ہورہی ہیں وہاں کی فضایا آب و ہواکیسی ہے اور اسی کے قریب جہاں یہ قہر نازل نہیں ہوا ہےان علاقوں کے قرب وجوار کی فضا یا آب و ہواکیسی ہے؟
اموات کی بیشتر داستانوں میں اسپتال کی لاپرواہی اموات پر سوالیہ نشان لگا رہی ہیں۔وہیں دیگر امراض سے ہونے والے اموات کو بھی کرونا کے کھاتے میں ڈال کر یہ باور کرایا جارہا ہے کہ کرونا سے موت کی کثرت ہوگئی ہے۔غالب گمان یہ ہے کہ فضا میں ایسی چیزیں تحلیل کردی جارہی ہیں کہ لوگوں کا نظام تنفس کمزور پڑتاجارہا ہے اور پھر آکسیجن نہ ملنے کی وجہ سے بھی لوگ زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھ رہے ہیں۔
قرب قیامت کی احادیث میں جہاں موت کی کثرت کا ذکر کیا گیا ہے وہیں دجال کی صفات میں زندگی عطا کرنے والا بھی کہا گیا ہے۔دجال کا فتنہ کتنا شدید ہوگا کہ ہمارے آقا و مولیٰ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے انتہائی شدت سے اس سے پناہ مانگنے کے لئے کہا ہے۔اب یہ دیکھیں کہ موت کا خوف ذہن و دماغ پر اس قدر طاری کردیا گیا ہے کہ بعض لوگ یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ وہ زندہ رہنے کے لئے آئے تھے لیکن کرونا آکر انہیں مارنا چاہتا ہے لہذا احتیاط کے نام پر انہیں شیطانی ٹوٹکوں کو استعمال میں لارہے ہیں جس سے شیطان خوشی کے شادیانے بجا رہا ہے اور انسان تمام احتیاط ،تمام ویکسی نیشن اور وینٹی لیٹر پر جاکر بھی دم توڑ دے رہا ہے۔
دراصل اس وقت ایک شیطانی کھیل پوری دنیا میں کھیلا جارہا ہے۔ان دنوںہندوستان دوبارہ اس کی زد میں ہے۔ لہذا سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر ایک عام آدمی کیا کرے؟جس کا بہت ہی آسان جواب یہ ہے کہ کرونا پھیلانے والے شیاطین کرونا سے بچنے کے لئے جو تدابیر بتا رہے ہیں عام انسان اس سے مکمل اجتناب کرے بلکہ اس کے بالمقابل ان احتیاطی تدابیر کو اختیار کرے جسے عام طور پر وبائی بیماریوں میں اختیار کیا جاتا ہے۔جو لوگ جہاں مقیم ہوں وہیں قیام کئے رہیں بلکہ گھروں کے اندر ہی رہیں تو زیادہ مناسب ہے۔چونکہ یہ شیطانی کھیل ہے لہذا دعا و استغفار کے ساتھ جسمانی نظام کا چست و تدرست رکھنا انتہائی ضروری ہے۔غذائوں کے استعمال میں بھی وہ چیزیں جو سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہوں، اگر ان کا استعمال کریں تو جسمانی و روحانی دونوں قوت میسر آئے گی۔
کرونا کے اس دور میں سب سے بڑا کھیل موت کے خوف کا کھیل ہے جس کے ذریعہ اعصاب پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی جارہی ہے لہذا ان تمام چیزوں سے اجتناب انتہائی ضروری ہے جو کسی بھی طور پر اعصاب پر اثر انداز ہونے والے ہوں۔کمزور اعصاب پر عموماً شیاطین کا غلبہ ہوجاتا ہے لہذا کوشش اس بات کی کریں کہ شیاطین اعصاب پر حاوی نہ ہوں جبکہ سب سے ہم یہ کہ اللہ ہی زندگی اور موت کا مالک ہے کیونکہ ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف لوٹ کرجانا ہے۔

Recent Posts

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

دانش ریاض ،معیشت،ممبئی روزنامہ اردو ٹائمز نے جن لوگوں سے، ممبئی آنے سے قبل، واقفیت کرائی ان میں ایک نام عمر فراہی کا بھی ہے۔ جمعہ کے خاص شمارے میں عمر فراہی موجود ہوتے اور لوگ باگ بڑی دلچسپی سے ان کا مضمون پڑھتے۔ فراہی کا لاحقہ مجھ جیسے مبتدی کو اس لئے متاثر کرتا کہ...

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

دانش ریاض،معیشت،ممبئی غالبؔ کے ندیم تو بہت تھےجن سے وہ بھانت بھانت کی فرمائشیں کیا کرتے تھے اوراپنی ندامت چھپائے بغیر باغ باغ جاکرآموں کے درختوں پر اپنا نام ڈھونڈاکرتےتھے ، حد تو یہ تھی کہ ٹوکری بھر گھر بھی منگوالیاکرتےتھے لیکن عبد اللہ کے ’’ندیم ‘‘ مخصوص ہیں چونکہ ان...

جمیل صدیقی : سیرت رسول ﷺ کا مثالی پیامبر

جمیل صدیقی : سیرت رسول ﷺ کا مثالی پیامبر

دانش ریاض، معیشت،ممبئی جن بزرگوں سے میں نے اکتساب فیض کیا ان میں ایک نام داعی و مصلح مولانا جمیل صدیقی کا ہے۔ میتھ میٹکس کے استاد آخر دعوت و اصلاح سے کیسے وابستہ ہوگئے اس پر گفتگو تو شاید بہت سارے بند دروازے کھول دے اس لئے بہتر ہے کہ اگر ان کی شخصیت کو جانناہےتوان کی...

اور جب امارت شرعیہ میں نماز مغرب کی امامت کرنی پڑی

اور جب امارت شرعیہ میں نماز مغرب کی امامت کرنی پڑی

دانش ریاض، معیشت، ممبئی ڈاکٹر سید ریحان غنی سے ملاقات اور امارت شرعیہ کے قضیہ پر تفصیلی گفتگو کے بعد جب میں پٹنہ سے پھلواری شریف لوٹ رہا تھا تو لب مغرب امارت کی بلڈنگ سے گذرتے ہوئے خواہش ہوئی کہ کیوں نہ نماز مغرب یہیں ادا کی جائے، لہذا میں نے گاڑی رکوائی اور امارت...