مولوی محمد باقر

برصغیر پاک و ہند میں اردوصحافت کے اولیں سرخیل۔۔ شہیدمولوی محمد باقر دہلوی

نثار علی ترمذی

مجاہدِ آزادی اور دہلی کے مشہور صحافی تھے۔ جنگ آزادی ہند 1857ء میں اپنی جان قربان کرنے والے پہلے صحافی تھے۔مولوی محمد باقر 1780ء میں دہلی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد مولوی محمد اکبر علی دہلی کے روحانی رہنما تھے۔شہیدمولوی محمد باقرنے تعلیم دہلی کالج سے حاصل کی۔ 1836ء میں جب حکومت نے اخبارات کی اشاعت کی اجازت دے دی تو انہوں میں اردو زبان کا ہفت روزہ ”دہلی اخبار“ شروع کیا۔انیسویں صدی کے آغاز سے پہلے ۱1830میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے حکومتی سطح پر فارسی زبان کی عدالتی حیثیت ختم کرکے اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دیدیا ۔یہ وہ عہد تھا کہ جب انگریزی نظام کے خلاف انقلابی افراد علم بغاوت بلند کررہے تھے ۔ 1857ء کی جنگ آزادی سے پہلے مولوی محمد باقر نے محسوس کیا کہ انقلابی ہندوستانیوں کی اپنی کوئی آواز نہیں ہے جو ایوان حکومت کی پتھریلی دیواروں سے چھن کر آمروں اور جابروں کے کانوں تک پہونچ سکے ۔لہذا انہوں نے وقت کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے ہفت روزہ اخبار کی بنیاد رکھی ۔1825میں لیتھو گرافی کی ایجاد ہوچکی تھی اور 1836میں نئے اخبار نکالنے کی اجازت بھی مل چکی تھی۔یعنی 1857ء کی جنگ آزادی شروع ہونے سے قبل اخبار نکالنے کی اجازت کا ملنا ہندوستانیوں کے لئے بڑی خبر تھی اور انقلابی باغیوں کے لئے ذرائع ابلاغ کی افادیت کا سمجھنا بہت اہم تھا ۔ایسے ماحول میں شہیدمولوی محمد باقرنے ہفت روزہ ’’دہلی اردو اخبار ‘‘ نکالنے کا عزم لیا اور ہندوستانیوں کی کمزور آواز کو تقویت بخشنے میں مصروف ہوگئے ۔1836کے آس پاس انہوں نے اپنا پریس خریدا تاکہ اپنی تصنیف و تالیفات کی اشاعت کو آسان بناسکیں ،پریس کی خریداری کے بعد 1836 میں’’اردو اخبار دہلی‘‘ کا آغاز کیا۔
یہ اخبار 21 برسوں تک جاری رہا اس دوران میں اس کا دو مرتبہ نام تبدیل ہوا۔ اردو کا اخبار پہلا ایسا عوامی اخبار تھا جو دربار شاہی سے لے کر کمپنی کی خبروں تک اور قومی و بین الاقوامی خبریں بھی شائع کررہا تھا۔
’’دہلی اردو اخبار‘‘ کے پہلے صفحہ پر ’’ حضوروالا‘‘ کے عنوان کے تحت مغل بادشاہ وشہزادوں کی خبروں کے ساتھ قلعۂ معلی کی نقل و حرکات اور ’’صاحب کلاں‘‘ عنوان کے تحت ایسٹ انڈیا کمپنی کی خبریں چھپتی تھیں۔ اخبار میں مذہبی مضامین کے ساتھ ادبی گوشہ بھی ہوتا تھا جس میں مومن، ذوق، غالب، بہادرشاہ ظفر، زینت محل اور دیگر شعرا کا کلام چھپتا ۔وہ ہندوستان میں جدید تعلیم کے فروغ کی اہمیت پر بھی زور دیا کرتے تھے۔شہیدمولوی محمد باقردہلوی کا شمار ایسے مسلم مجاہدین آزادی میں ہوتا ہے جو حب الوطنی کو نصف ایمان کا درجہ دیتے تھے۔ وہ ایک ایسے بے خوف اور باحوصلہ صحافی تھے جنھوں نے اپنی صحافت کے ذریعہ انگریزوں کی چولیں ہلا کر رکھ دی تھی۔ مولوی باقر کو انگریز حکومت سے سخت نفرت تھی اور ایک لمحہ کے لیے بھی غلامی کی زندگی برداشت نہیں کرنا چاہتے تھے
1857ء کی جنگ آزادی شروع ہو ئی تو تحریک آزادی کے عروج کے وقت جب دہلی شہر میں ہندوؤں کے خلاف جہاد کے اعلان پر مبنی اشتہار لگا ئے گئے جن میں انگریزوں کو اہل کتاب بھائی کہا گیا تھا، تو مولوی محمد باقر نے تحریک آزادی کی صفوں میں انتشار اور داخلی جنگ پیدا کرنے کی اس سازش کو پہچان لیا اور اپنے اخبار میں اس سازش کے خلاف لکھا ۔ آپ نے اخبار میں لکھا کہ آج اگر ہندوؤں کی باری ہے تو کل ہماری باری ہو گی، انہوں نے مزید لکھا کہ ہندو تو مسلمانوں کے ساتھ شانہ بشانہ انگریزوں کے خلاف لڑ رہے ہیں۔
درگاہ پنجہ شریف دہلی کے قریب ہی ان کی تعمیر کردہ امام بارگاہ تھی جسے” آزاد منزل “کے نام سے جانا جاتاتھا۔ سید احمد بریلوی کی تحریک کے نتیجے میں بڑھتی ہوئی فرقہ واریت کی وجہ سے رد عمل کے طور پر دہلی کے شیعوں میں تبرا کا رواج ہونے لگا تو علامہ باقر دہلوی نے اس سلسلے کو روکنے کی کوشش کی اور اپنے امام بارگاہ میں تبرا پر پابندی لگائی۔
شہید مولوی محمد باقر خوش فکر عالم دین ہونے کے ساتھ ایک مدبر اور دوراندیش شخص بھی تھے۔ اسکا اندازہ اس وقت ہوتاہےجب انہوں نے اپنے ’’ جعفریہ پریس‘‘ کا نام بدل کر ’’ اردو اخبار پریس کردیا۔گویا انہیں یہ احساس ہوگیا تھا کہ ایسے پرآشوب حالات میں مسلکی سطح سے اوپر اٹھ کر کام کرنےکی ضرورت ہے ورنہ جو کام ’’اردو اخبار پریس ‘‘ میں ہوتا تھا وہی کام ’’جعفریہ پریس‘ میں بھی ممکن تھا ۔یعنی ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے مولویت کو مسلکی حد بندیوں اور فرقہ وارانہ عصبیت سے بچانے کی کوشش کی ۔آگے چل کر انکا اخبار بھی بلا قید مذہب و مسلک ہر ہندوستانی کی آواز بن کر منظر عام پر آیا اور مقبولیت حاصل کی.انہوں نے اکتوبر 1843ء میں مظہر الحق کے نام سے بھی ایک اردو اخبار نکالا تھا، جس میں شیعہ مسلک سے مخصوص مذہبی مضامین شائع ہوتے تھے جن میں غلامی کے خلاف شیعہ نظریہ کی وضاحت کی جاتی تھی۔ مولوی محمد باقر کے خاندان میں تمام حضرات علم دین کے ماہر فقہ، حدیث، تاریخ اور تفسیر کے عالم تھے ،عروج لکھنؤ سے قبل یہ لوگ دہلی میں مرکزی حیثیت رکھتے تھے ،مولوی محمد باقر صاحب کے والد مولانا محمد اکبر نہایت پائے کے مدرس تھے ان کے شاگردوں میں مولانا رجب علی شاہ، ارسطو جاہ اور مولانا سید قاری جعفر علی صاحب جارچوی کے اسماء بہت مشہور ہیں مولانا محمد اکبر کا اپنا ایک حوزہ علمیہ تھا جو دہلی میں ملک کے اہل تشیع حضرات کے دینی و علمی مسائل کو حل کرنے میں مصروف تھا ، کہا جاتا ہے کہ مولانا کے دینی مدرسہ میں کثیر تعداد میں طلاب علوم دین تحصیل علم میں مصروف رہا کرتے تھے۔
جنگ آزادی 1857ء میں انہوں نے فکری قیادت کا کردار ادا کرتے ہوئے اپنے اخبار کو آزادئ ہند کے لیے وقف کر دیا تھا۔
معلوم ہوتا ہے کہ مولوی محمد باقر کا صحافتی نیٹ ورک اتنا وسیع تھاکہ دوردراز کے شہروں کی خبریں انہیں بروقت مل جاتی تھیں۔ آپ نے خصوصی طور پر آزادی کے لیے لڑنے والے فوجیوں کو اپنی صفوں میں اتحاد قائم رکھنے کی تلقین کی۔
مولوی محمد باقر نے اپنے اخبار میں رئیسوں اور راجاؤں کے لیے لکھا کہ انھیں اپنے ہم وطن عوام کے خلاف انگریزوں کا ساتھ نہیں دینا چاہئیے اور یاد رکھنا چاہئیے کہ انگریز دھوکے باز ہیں۔
معلومات، خبروں، قیادت اور نظم و ضبط کی جنگ میں انگریز جیت گئے۔ چار ماہ بعد دہلی پر انگریزوں کا دوبارہ قبضہ ہو گیا تو مولوی محمد باقر پر ایک انگریز کے قتل کا مقدمہ چلا کر 16 ستمبر 1857,ء کو گولی مار دی گئی، حالانکہ جس کو دہلی میں ہجوم نے پیٹ کر ہلاک کر ڈالا تھا یوں یہ تحریک آزادی ہند کے پہلے شہید صحافی بن گئے۔ ان کے بیٹے مولانا محمد حسین آزاد لاہور چلے گئے اور وہ بھی اردو کے مایہ ناز ادیب ہوئے۔شہیدمولوی محمد باقر کو گولی مارنے والا شخص ولیم اسٹیفن رائیکس ہوڈسن تھا، جسے ایک سال بعد (1858ء میں) لکھنؤ میں واقع بیگم کوٹھی میں کسی نے گولی مار دی تھی۔
مختصر یہ کہ آج بھی شہید مولوی محمد باقر دہلوی کی خدمات کوانکے شایان شان یاد نہیں کیا جاتا ہے۔انکی قربانیاں اور ادبی و صحافتی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔دہلی اردو اخبار کو بیس سالوں تک کامیابی کے ساتھ نکالنا ہی انکا کارنامہ نہیں ہے بلکہ جد و جہد آزادی میں انکا بے مثال کردار اور تحریک آزادی میں ’’دہلی اردواخبار‘‘ کی اہمیت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔
مگر لگتا یہ ہے کہ شہید مولوی محمد باقر کو آج بھی مسلکی عصبیت کی بنیاد پر شاید نظر انداز کیا جاتاہے ۔تذکروں اور تاریخ کی کتابوں میں بھی انکی شخصیت اور خدمات پر سیر حاصل گفتگو نہیں ملتی یہ افسوسناک صورتحال ہے۔
ماخذ: 1- اردو صحافت اور مولوی محمد باقر دہلوی، ایک تجزیاتی مطالعہ، از عادل فراز2-مطلع الانوار از علامہ مرتضٰی حسین صدر
الافاضل3-تذکرہ بے بہاء از مولانا محمد حسین4-تزکرہ علماء امامیہ از حسین عارف نقوی، مرحوم5- مجمع محققین ہند

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *