
جی ہاں! آپ ہندو راشٹر میںجی رہے ہیں
دانش ریاض،معیشت،ممبئی
مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ابھی بھی اس خوش گمانی میں جی رہی ہے کہ چونکہ ان کے باپ دادا حکمران تھے لہذا انہیں بھی وہ حقوق چاہئیں جنہیں حکمراں طبقہ انجوائے کرتا ہے۔پدرم سلطان بود کا بھوت اس قدر سوار ہے کہ جب وہ اپنے حلقہ احباب میں ہوتےہیں تو اپنے آپ کو ظل الہی تصور کرتے ہیں اور اس خیال میں دیگیں پکواتے ہیں کہ ابھی بھی ان کی رعیت انہیں ہی بادشاہ سمجھتی ہے۔وہ کثیر آبادی رکھنے والوں کو ایسی صلواتیں سناتے ہیں کہ اگر ان کی اپنی انجمن میں کوئی اس پر تبصرہ کردے تو کفر لازم آجاتا ہے۔اپنی آبادیوں میں رہ کر وہ ایسی شیخی بگھارتے ہیں کہ گویا بہرام خان آج بھی سپہ سالار ہو اور اس کی غلطیوں پر صرف نظر کرنے کے لئے جلال الدین محمداکبر موجود ہو۔تصورات کی دنیا میں جینے کا اثر یہ ہے کہ آج بھی جیلوں میں ان لوگوں کی تعداد زیادہ ہے جو اپنے آپ کو طرم خاں سمجھا کرتے تھے۔ممکن ہے کہ بڑی تعداد بے گناہوں کی ہو لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ’’ممبئی کے شانے‘‘ ہاتھ کی صفائی میں آج بھی مہارت رکھتے ہیں۔
ملک بدل گیا ہے۔تعبیرات و تشریحات بدل گئی ہیں لیکن ملّی قائدین آج بھی امید لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ ’’جمہوریت ‘‘کے ڈنڈے سے’’آمریت‘‘کا خاتمہ کردیں گے اور اس بڑی آبادی کو دوبارہ غلام بنالیں گے جو ہزارہا برس سے فرشی سلام مارتی چلی آرہی تھی۔
ہندو یواواہنی نے مسلمانوں کے قتل عام کے لئے جو’’ سنکلپ‘‘لیا ہےاس کے ویڈیوز اکثریتی آبادی کے درمیان اس طرح گھمائے جارہے ہیں کہ گویا ہندوستان پہلی بار ’’سورویروں‘‘ سے متعارف ہوا ہے۔’’گیروادھاری ‘‘تیرشول کی نوک کے ساتھ تلواروں کو صیقل کررہے ہیں اور مشہور صحافی رویش کمار کی رپورٹ کے مطابق ’’شاید عنقریب مینمار کی تاریخ ہندوستان میں دہرائی جائے‘‘۔ماب لنچنگ نے ایک ریہرسل تو کرواہی دیا ہے کہ کسی بڑی بھیڑ کے ساتھ لوگوں کو موت کےگھاٹ اتارا جاسکتا ہےاور قاتلین جو کہانیاں سنائیں وہی لائق اعتبارسمجھی جائے گی۔عدالتوں نے بھی مہر تصدیق ثبت کردی ہے کہ ’’آستھا‘‘کسی بھی قانون و انتظامیہ سے بڑا ہے اور ’’آستھا‘‘کے نام پر خلاف انسانیت کام کرنے میں بھی کوئی برائی نہیں ہے۔
ہندو راشٹر کا بھوت اب اکثریتی طبقہ پر اس قدر سوار ہے کہ انہیں وہ تمام باتیں جو 2014سے پہلے ناگوار گذرتی تھیں ،بھلی لگنے لگی ہیں۔مہنگائی کی مار جھیل کر بھی وہ خوش اس بات پر ہیں کہ ’’مخصوص طبقہ‘‘کو ہزیمت دینے کے لئے ان مراحل سے گذرنا انتہائی ضروری ہے۔
کیا آپ نے کبھی یہ غور کیا کہ آخر ہندوستان کے پولس اسٹیشنوں میں ’’ایک مخصوص طبقہ‘‘ کے عبادت خانے ہی کیوں تعمیر کئے جاتے ہیں؟
آخر کیا وجہ ہے کہ عدالتوں میں مسلم ملزمان غیر مسلم وکلاء کرنا زیادہ مناسب سمجھتے ہیں کہ ان کی شنوائی زیادہ ہوتی ہے اور کارروائی کے مثبت نتائج برآمد ہوتے ہیں؟
آخر کیا وجہ ہے کہ حکومت کے وہ ادارے جنہیں حساس قرار دیا جاتا ہے وہاں مسلمانوں کی موجودگی حرام سمجھی جاتی ہے؟
آخر کیا وجہ ہے کہ وہ مقامات جنہیں حساس سمجھا جاتا ہے وہاں مسلمان جاتے ہوئے بھی گھبراتا ہے؟
ایسے درجنوں سوالات قائم کئےجاسکتے ہیں لیکن ہم یہ سمجھانے سے قاصر ہیں کہ آخر’’سازش اور سازشی نظریات‘‘نے کیا کچھ بدل دیا ہے۔ہمارا باہوش طبقہ دبی زبان میں یہ ضرور کہتا ہے کہ حالات بہت خراب ہیں لیکن تفصیلات کے ساتھ تدارک پر گفتگو کریں تو عموماً چپّی سادھ لیتا ہے۔اسے یہ خوف ستائے رہتا ہے کہ ’’دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں‘‘اور وہ عموماً خاموش رہ کر ہر اس ستم کو جھیل جاتا ہے جسے کوئی مہذب معاشرہ برداشت نہیں کرتا۔
ہندو راشٹر کی تعبیر و تشریح میں اکثریتی طبقہ کے کچھ لوگوں کو اگر اختلاف ہے تو وہ طریقہ کار کا اختلاف ہے ورنہ دوسرے اور تیسرے درجہ کے شہری بنائے جانے پرتمام لوگ خوش ہیں۔آخر وہ کون لوگ ہیں جنہوں نے سیاسی طور پر نرم اور گرم ہندتوا کی اصطلاح رائج کی ہے؟ یہ اصطلاح کن معنوں میں رائج ہوئی ہے اب اس تفصیل کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔دراصل ہمارا باشعور طبقہ جس قدر جلد اس حقیقت کو سمجھ جائے اسی سرعت کے ساتھ ہم مسائل کے حل کی طرف توجہ کرسکیں گے ورنہ اقبال تو بہت پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں