
کرناٹک حجاب کیس : منگل کوآئے گا فیصلہ ، اسکول اور کالج بند ۔دفعہ144نافذ
بنگلورو: لیجئے !فیصلہ کا وقت آگیا۔ حجاب کے تنازعہ پر ملک کی نظریں ٹکی ہیں ۔اب کرناٹک ہائی کورٹ منگل کو حجاب تنازعہ پر اپنا فیصلہ سنائے گی۔یاد رہے کہ زبردست بحث اور دلائل کے بعد 25 فروری کو عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔ اہم بات یہ ہے کہ اس کیس کی سماعت 11 دن تک جاری رہی تھی۔ اس سال کے شروع میں کرناٹک کے اڈپی کے ایک اسکول نے لڑکیوں کے حجاب پہننے پر پابندی لگا دی تھی جس کے بعد کافی ہنگامہ ہواب تھا۔ ہنگامہ آرائی کے بعد 4 لڑکیوں نے ہائی کورٹ میں عرضی دائر کی تھی۔ کرناٹک ہائی کورٹ میں چیف جسٹس ریتو راج اوستھی، جسٹس کرشنا ایس۔ دکشت اور جسٹس جے ایم قاضی کی تین رکنی بنچ نے تمام فریقوں کےدلائل سننے کے بعد اپنا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
ہائی کورٹ کل 15 مارچ کو صبح 10:30 بجے اپنا فیصلہ سنانے والی ہے۔
فیصلے سے پہلے، ریاستی حکومت نے “عوامی امن و امان برقرار رکھنے” کے لیے ریاستی دارالحکومت بنگلورو میں ایک ہفتے کے لیے بڑے اجتماعات پر پابندی لگا دی ہے۔
بنگلورو میں، حکام نے 15 مارچ سے شروع ہونے والے ایک ہفتے کے لیے شہر میں ضابطہ فوجداری کی دفعہ 144 نافذ کر دی ہے۔
شہر میں کسی بھی قسم کے احتجاج یا اجتماع کی اجازت نہیں ہے۔
اُڈپی کے طلباء کا ایک گروپ عدالت گیا تھا اور ریاست کے تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی کو چیلنج کیا تھا۔ جنہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ تعلیمی اداروں میں اسکارف کے استعمال پر کوئی پابندی نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حجاب کو آئین کی طرف سے دی گئی مذہبی آزادیوں کے تحت تحفظ حاصل ہے اور کوئی بھی کالج ڈیولپمنٹ باڈی یہ فیصلہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہے کہ آیا امن عامہ کی خلاف ورزی کے پیش نظر اس پر پابندی لگائی جا سکتی ہے۔
کرناٹک حکومت نے عدالت کو بتایا ہے کہ ہندوستان میں حجاب پہننے پر کوئی پابندی نہیں ہے سوائے معقول پابندیوں کے جو ادارہ جاتی نظم و ضبط سے مشروط ہے۔
آخری دن بھی ایک درخواست گزارکی جانب سے عدالت میں پیش ہونے والے سینئر وکیل یوسف مچھالا نے دلائل پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ کالج کی جانب سے طالبات کو حجاب پہننے سے روکنا غلط ہے کیونکہ حدیث میں حجاب پہننا لازمی قرار دیا گیا ہے۔انہوں نے دلیل دی تھی کہ ضروری مذہبی عمل کو ضمیر کی آزادی سے نہیں جوڑا جا سکتا۔ اس پر مداخلت کرتے ہوئے ایڈوکیٹ جنرل پربھولنگ نودگی نے کہا تھاکہ حجاب پہننا قرآن کا لازمی عمل نہیں ہے۔
انہوں نے کہا تھاکہ اگر اسے لازمی سمجھا جاتا ہے تو یہ سائرہ بانو کیس میں عدالت کے فیصلے کے خلاف ہوگا۔ دوسری طرف سینئر ایڈوکیٹ روی ورما کمار نے دلیل دی تھی کہ مقامی ایم ایل اے کو تھالی میں کالج سونپ دیا ہے، جس کے پاس کالج ڈیولپمنٹ کمیٹی کے 11 دیگر ارکان کو نامزد کرنے کااختیار حاصل ہے۔ انہوں نے کہاتھا کہ “ایک اسمبلی ممبر کو ایگزیکٹو پاور سونپنا ناقابل قبول ہے۔ ایم ایل اے کی کوئی جوابدہی نہیں ہوتی ہے۔
طالبات نے کہا تھا
حجاب کیس ملک بھر میں توجہ کا مرکز بنا جس کو کرناٹک کے اڈپی کی چھ طالبات ہائی کورٹ میں لے گئی تھیں،مگر اس دوران سیاست اور میڈیا ٹرائل کے سبب ان طالبات کے لیے بھی زندگی مشکل ہوگئی تھی ۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ ان طالبات کے ساتھ ان کے والدین کو بھی نشانہ بنایا جارہا تھا۔ کسی کے والد کے ہوٹل پر حملہ ہوا تو اس کا بھائی زخمی ہوا تھا۔اب اڈپی کی سرکاری گرلز پی یو کالج میں حجاب پر پابندی کے بعد انصاف مانگنے کے لئے ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانے والی طالبات نے اس بات پر اپنی ناراضی کا اظہار کیا تھا کہ وہ اپنے حق کی لڑائی خود لڑ رہی ہیں اور اس معاملہ میں خواہ مخواہ ان کے والدین اور گھر والوں کو گھسیٹا جارہا ہے ۔
بات حجاب کی نہیں یونیفارم کی ہے
حجاب تنازعہ پر کرناٹک ہائی کورٹ میں بحث کے دوران نویں دن چیف جسٹس ریتو راج اوستھی نے کہا تھاکہ حکم واضح ہے کہ یہ صرف ان اسکولوں اور کالجوں کے لیے ہے جہاں یونیفارم کا تعین کیا گیا ہے۔
اگر یونیفارم مقرر ہے تو انہیں اس پر عمل کرنا ہوگا، چاہے وہ ڈگری کالج ہو یا پی یو کالج۔ چیف جسٹس اوستھی نے کہا تھا ہے کہ اسکولوں اور کالجوں میں مذہبی لباس استعمال نے کرنے کی ہائی کورٹ کی تجویز صرف طلباء پر لاگو ہوتی ہے اساتذہ پر نہیں۔
کرناٹک کے ایک پرائیویٹ کالج کی ایک گیسٹ لیکچرر نے اس وقت استعفیٰ دے دیا تھا جب اس سے مبینہ طور پر حجاب نہ پہننے یا کوئی مذہبی علامت ظاہر نہ کرنے کو کہا گیا تھا
میڈیا کے خلاف عرضی
کرناٹک ہائی کورٹ میں 60 سے زیادہ میڈیا ہاؤسز کے خلاف ایک مفاد عامہ کی عرضی دائر کی گئی تھی۔ جس میں طلبا اور اساتذہ کو حجاب پہنے اسکولوں اور کالجوں کے راستے میں ان تعاقب کرنے اور ویڈیو گرافی کرنے سے روکنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔درخواست میں میڈیا ہاؤسز کے علاوہ فیس بک، ٹوئٹر، گوگل، یاہو، انسٹاگرام، یوٹیوب اور واٹس ایپ کو مدعا علیہ نامزد کیا گیا تھا۔عبدالمنصور، محمد خلیل اور آصف احمد کی جانب سے دائر کی گئی درخواست میں کہا گیا تھا کہ کچھ مفاد پرستوں کی طرف سے اکسائے جانے والے میڈیا ہاؤسز طلباء کی تذلیل کر رہے ہیں اور ان کے عقیدے، عقیدے، شناخت، ثقافت وغیرہ کو مجرم قرار دے رہے ہیں۔
پٹیشن میں کہا گیا تھا کہ ’’نفرت، بے عزتی اور انتقام کا زہر گھول کر طلبہ برادری کو پولرائز کرنے، تقسیم کرنے اور فرقہ وارانہ بنانے کی بار بار کوششیں کی جارہی ہیں، جس کا نتیجہ بالآخر پرتشدد کارروائیوں اور ردعمل کی صورت میں نکلتا ہے۔ اس نے استدلال کیا کہ مسلم کمیونٹی کے کئی ارکان اس طریقے سے ناراض ہیں جس میں مسلم خواتین اور بچوں کو ہائی کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسکول کے گیٹ کے باہر سرعام حجاب اور برقعہ اتارنے پر مجبور کیا گیاتھا ۔
مسلمانوں کا موقف مثبت رہا
حجاب تنازعہ پر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے اپیل کی تھی کہ اس معاملہ کو سڑکو ںپر نہ لایا جائے بلکہ اس کو قانونی طور پر سلجھایا جائے۔
بات چیت سے ہی مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔فرقہ پرستوں نے اس کو مسلمانوں کے خلاف نفرت بھڑکانے کے لئے ایک عنوان بنالیا ہے، اور نوجوان طلبہ و طالبات اس سے متاثر ہورہے ہیں۔
خالد سیف اللہ رحمانی جنرل سکریٹری نے ایک بیان میں کہا تھا کہ اس مسئلہ کو سڑکوں پر لانے سے بہتر ہے کہ قانونی طورنپٹا جائے ۔کیونکہ اس مہم کے خلاف کھڑے لوگ معاشرے میں زہر گھولنے کا کام کررہے ہیں۔یہی نہیں طالبات اور اساتذہ کے درمیان بھی تناو ہونے کا خدشہ ہے۔