Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors
Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

اونچی ذات جو ملک کا پیدائشی قائد سمجھتا ہے

by | Aug 16, 2022

مشرف شمسی 
ممبئی کے مغربی مضافات میں موجود میرا روڈ سبھی بنیادی سہولیات سے آراستہ ایک خوبصورت شہر ہے ۔اس شہر کی ایک خاص بات یہاں جھونپڑے نہیں ملینگے ۔لیکن میرا  آج میرا روڈ پر کوئی مضمون لکھنے کا ارادہ نہیں ہے ۔میرا روڈ میں ریلوے لائن سے لگ کر ایک خوبصورت اور بڑا گارڈن جاگرز پارک ہے جہاں میرا روڈ کے لوگ صبح اور شام اپنی جسمانی فٹنس درست کرنے کے لئے آتے ہیں ۔عورت ،مرد،بوڑھے اور بچّے سبھی اس گارڈن سے فیضیاب ہوتے ہیں ۔میں بھی کئی سالوں سے صبح صبح اس گارڈن میں اپنی جسمانی فٹنس کو بنائے رکھنے کے لئے جاتا رہا ہوں ۔جیسا کہ ممبئی کے تقریباً سبھی گارڈن کی طرح اس گارڈن میں بھی آر ایس ایس کے کارکن یا اس نظریہ کی حمایت کرنے والوں کا بول بالا ہے۔آر ایس ایس کے بارے میں بتا دوں اس تنظیم کی ہزاروں اسکولیں پورے بھارت میں چل رہے ہیں جہاں وہ اپنے نظریے کو فروغ دیتے ہیں اور ان اسکولوں میں پڑھ کر نکلنے والے میں کچھ آر ایس ایس کی رکنیت حاصل کرتے ہیں لیکن ممبئی جیسے بڑے میٹرو پولیٹن سٹی میں آر ایس ایس کے لوگ ہر ایک پارک اور گارڈن میں اپنی نظر بنائے رکھتے ہیں جہاں نوجوان لڑکوں کو اپنی تنظیم سے جوڑنے کا کام کرتے ہیں ۔میرا روڈ کے جوگرس پارک میں زیادہ تر اونچے طبقے کے لوگ یعنی دوسرے لفظوں میں کہا جائے تو پیٹ بھرے لوگ نظر آتے ہیں۔ویسے بھی ممبئی کی زندگی سے جو لوگ واقف ہیں اُنھیں معلوم ہے کہ ممبئی کی بھاگ دوڑ زندگی میں آفس سے گھر اور گھر سے آفس آنے جانے میں پوری زندگی بیت جاتی ہے۔جسمانی فٹنس کے لئے گھنٹے دو گھنٹے نکالنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہو جاتا ہے۔کئی سال سے مسلسل  اس جاگرس پارک میں جانے سے اپنا بھی ایک حلقہ بن گیا ہے۔ایک ڈیڑھ گھنٹہ ورک آؤٹ کرنے کے بعد کچھ دیر ہملوگ آپس میں میرا بھایندر سمیت ملک کی سیاست پر بھی بات چیت کر لیتے ہیں۔سیاست پر جب بات چیت کرتے ہیں تو نظریے کا اختلافات ہوتے ہیں لیکن کوئی بھی بحث مباحثہ دل شکنی تک نہیں پہنچ پاتا ہے ۔ہاں ہم سب ایک دوسرے کو سمجھ چکے ہوتے ہیں کہ کس کا تعلق کس سیاسی جماعت سے ہے يا كس نظریے سے ہے ۔  لیکن یہ پارک صرف ایک دوسرے سے پہچان تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اس پارک کو اچھی طرح سے مشاہدہ کریں تو  ملک میں موجود ذات پات اور اس سے بنا سماجی ڈھانچہ یہاں صاف نظر آتا ہے۔صرف ذات پات ہی نہیں بلکہ ہندوؤں کی اونچی ذات عام مسلمانوں سے نفرت اور خوفزدہ کیوں ہے اسکا جواب بھی آسانی سے مل جائے گا ۔پارک میں میرے ملنے والوں میں ایک اسٹیٹ ایجنٹ کا کاروبار کرنے والے گپتا جی بھی ہیں۔ایک دن ایکسرسائز کر کے هملوگ پارک میں موجود جھولا پر ساتھ بیٹھے محو گفتگو تھے تو گپتا جی نے اچانک پوچھا کہ مشرف بھائی اس پارک میں زیادہ تر تیواری،شکلا ،پانڈے اور دوبے ہی نظر آتے ہیں ۔نچلی ذات کے لوگ تو نظر ہی نہیں آتے ہیں ۔جو بھی ملتا ہے اونچی ذات سے تعلق رکھنے والا ملتا  ہے یا پھر مسلم ہے۔میں نے گپتا جی سے کہا نچلی ذات کے لوگ بھی یہاں آتے ہونگے کیونکہ ھملوگ سبھی کو نہیں جانتے ہیں لیکن وہ لوگ نیتا گیری نہیں کرتے ہیں اسلئے وہ نظر نہیں آتے ہیں ہاں اُنکی تعداد بہت ہی کم ہے۔گپتا جی سے میں نے کہا کہ گارڈن میں دو گھنٹے کا وقت کون دے سکتا ہے تو انہوں کہا کون میں نے کہا جس کے پیٹ بھرے ہوتے ہیں۔اُنہونے کہا کہ یہ تو اپنے صحیح کہا ورنہ صبح لوکل پکڑنے والے کہاں گارڈن آئینگے ۔پھر گپتا جی نے کہا کہ میں آپکی بات سمجھ گئے کہ ملک میں جن سماج  سے زیادہ تر پیٹ بھرے لوگ آتے ہیں وہ ہندوؤں کی اونچی ذات سے آتے ہیں ۔پھر میں نے پوچھا یہ لوگ مسلمانوں سے کیوں نفرت کرتے ہیں ۔تو گپتا جی نے کہا کیوں؟ تو میں نے کہا کہ ان اونچی ذات کے ہندوؤں سے آنکھ سے آنکھ ملا کر اور انکے پروپیگنڈے اور جھوٹ کو بے نقاب کرنے کا حوصلھ کون دکھاتا ہے تو وہ مسلمان ہے۔میں نے کہا کہ یہ پارک مسلم محلوں سے کافی دور ہے۔پھر بھی کافی لوگ مسلم محلّہ نیا نگر سے یہاں آتے ہیں اور اپنی شناخت کے ساتھ آتے ہیں ۔عورتیں برقع پہن کر آتی ہیں اور  داڑھی ٹوپی والے مسلم مردوں کی تعداد  بھی اچھی خاصی ہیں۔اسلئے ان اونچی ذات کے لوگوں کے پیٹ میں درد ہوتا ہے ۔ساتھ ہی پڑھیے لکھے مسلم سے یہ اونچی ذات کے لوگ جو اپنے آپ کو پیدائشی ملک کا رہنما مانتے ہیں کسی بھی موضوع پر بات نہیں کر سکتے ہیں۔میں نے گپتا جی سے کہا کہ اس پارک سے آپ پورے بھارت  کی سماجی سسٹم کی تصویر کو دیکھ سکتے ہیں ۔میں نے کہا کہ گپتا جی یہ اونچی ذات کے لوگ صرف اس پارک پر ہی نہیں ملک کی سبھی سسٹم پر قبضہ کیئے بیٹھے ہیں اور انہیں چیلنج صرف مسلمان کرتا ہے تو مسلمانوں سے یہ اونچی ذات اپنے دم پر کسی بھی محاذ پر مقابلہ نہیں کر سکتے ہیں ۔جب مقابلہ نہیں کر سکتے ہیں تو ہندو ایکتا کی بات کرنے لگتے ہیں ۔گپتا جی نے کہا کہ آپ سو فیصدی صحیح بات کر رہے ہیں ۔یہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ ملک کی رہنمائی میرے ہاتھ سے نکل جائے۔گپتا جی نے کہا کہ مسلمان دلت اور نچلی ذاتوں کے ساتھ مل جاتے ہیں تو ان کی اجاداری سماج اور سیاست سے ختم ہو جاتی ہے ۔اسلئے یہ اونچی ذات کے لوگ مسلمانوں کا ڈر دیکھا کر ہندو ایکتا کی بات کرتے ہیں لیکن دلت اور پچھڑی ذات کو کسی طرح کی ریایت نہیں دینا چاہتے ہیں ۔گپتا جی کو میں نے کہا جس دن یہ مسلمانوں کی سیاسی اور سماجی حثیت ختم کر دیئے اس دن سے پندرہ فیصد اس اونچی ذات کی اجارادی کو ختم کرنے اور ان کی غلامی سے مکت ہونے  میں پچاسی فیصد ہندوؤں کو پتہ نہیں کتنے سال لگیں گے ۔لیکن ان پچاسی فیصد ہندوؤں کو ابھی کچھ نہیں سمجھ میں آ رہا ہے ۔

Recent Posts

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

دانش ریاض ،معیشت،ممبئی روزنامہ اردو ٹائمز نے جن لوگوں سے، ممبئی آنے سے قبل، واقفیت کرائی ان میں ایک نام عمر فراہی کا بھی ہے۔ جمعہ کے خاص شمارے میں عمر فراہی موجود ہوتے اور لوگ باگ بڑی دلچسپی سے ان کا مضمون پڑھتے۔ فراہی کا لاحقہ مجھ جیسے مبتدی کو اس لئے متاثر کرتا کہ...

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

دانش ریاض،معیشت،ممبئی غالبؔ کے ندیم تو بہت تھےجن سے وہ بھانت بھانت کی فرمائشیں کیا کرتے تھے اوراپنی ندامت چھپائے بغیر باغ باغ جاکرآموں کے درختوں پر اپنا نام ڈھونڈاکرتےتھے ، حد تو یہ تھی کہ ٹوکری بھر گھر بھی منگوالیاکرتےتھے لیکن عبد اللہ کے ’’ندیم ‘‘ مخصوص ہیں چونکہ ان...

جمیل صدیقی : سیرت رسول ﷺ کا مثالی پیامبر

جمیل صدیقی : سیرت رسول ﷺ کا مثالی پیامبر

دانش ریاض، معیشت،ممبئی جن بزرگوں سے میں نے اکتساب فیض کیا ان میں ایک نام داعی و مصلح مولانا جمیل صدیقی کا ہے۔ میتھ میٹکس کے استاد آخر دعوت و اصلاح سے کیسے وابستہ ہوگئے اس پر گفتگو تو شاید بہت سارے بند دروازے کھول دے اس لئے بہتر ہے کہ اگر ان کی شخصیت کو جانناہےتوان کی...

اور جب امارت شرعیہ میں نماز مغرب کی امامت کرنی پڑی

اور جب امارت شرعیہ میں نماز مغرب کی امامت کرنی پڑی

دانش ریاض، معیشت، ممبئی ڈاکٹر سید ریحان غنی سے ملاقات اور امارت شرعیہ کے قضیہ پر تفصیلی گفتگو کے بعد جب میں پٹنہ سے پھلواری شریف لوٹ رہا تھا تو لب مغرب امارت کی بلڈنگ سے گذرتے ہوئے خواہش ہوئی کہ کیوں نہ نماز مغرب یہیں ادا کی جائے، لہذا میں نے گاڑی رکوائی اور امارت...