*جمعیۃ کی حفاظت امت کی ضرورت*

جمعیۃ کے اکابرین کی عزت نیلام ہونے سے بچائیں*

عبداللہ شہیدی لکھنؤ۔

 

جمعیت علمائے ہند کی بنیاد چند متحرک اور فعال علماء ہند کے ذریعے آج سے تقریباً 103 سال پہلے 19 نومبر 1919ء میں رکھی گئی تھی۔ بنیاد رکھنے والوں میں مولانا عبدالباری فرنگی محلی، مفتی کفایت اللہ دہلوی، مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی اور مولانا ثناء اللہ امرتسری، مولانا احمد سعید دہلوی، مولانا عبد الحلیم گیاوی، مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد، آزاد سبحانی، محمد بخش امرتسری، ابراہیم دربھنگوی، خدا بخش مظفرپوری، خواجہ غلام نظام الدین، محمد مظہر الدین، محمد عبد اللہ، محمد اکرم خان، محمد انیس، محمد اسد اللہ سندھی، محمد امام سندھی، محمد فاخر، محمد صادق، منیر الزماں خان، قدیر بخش، سید اسماعیل، سید کمال الدین، سید محمد داؤد اور تاج محمد سمیت اکابر علمائے کرام کی ایک بڑی جماعت شامل تھی۔

جمعیۃ نے انڈین نیشنل کانگریس کے اشتراک سے تحریک خلافت میں بہت سرگرم رول ادا کیا تھا۔

جمعیۃ نے جنگ آزادی میں اہم کردار ادا کیا۔

جمعیۃ نے تقسیم ہند کی مخالفت کی۔

جمعیۃ نے ملک میں متحدہ قومیت کا موقف اختیار کیا۔

اور انگریزی سامراجیت کے خلاف مضبوط آہنی دیوار بن کر سامنے آئی۔

جمعیۃ نے امت مسلمہ ہندیہ میں خود اعتمادی کے ساتھ جینے کا حوصلہ پیدا کیا۔

اور ملک میں اسلامی تشخص کو برقرار رکھنے میں سماجی سطح پر بڑی جد وجہد کی ہے۔

جمعیۃ کے آئین کا مسودہ مفتی کفایت اللہ دہلوی نے تیار کیا تھا۔

اس مقدس جمعیۃ کا مقصد:

ملک و ملت کے تحفظ کے لیے ظلم و زیادتی کے خلاف کھڑا ہونا، برطانوی سامراج کے خلاف افراد کار تیار کرنا، مسلم تشخص کو برقرار رکھنا اور ملک کی آزادی کے لیے سرگرم رول ادا کرنا تھا۔ ظالم کے ساتھ سمجھوتہ یا ذاتی اور خاندانی مفاد کے لیے ظالم اور دشمن کے ساتھ نرم رویہ اختیار کرنا یا خاموشی برتنا اکابرین جمعیۃ کے مزاج سے کوسوں دور تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایسا سوچنا بھی بانیین جمعیۃ کو گالی دینے کے مترادف ہے۔ اگر آپ کو یقین نہیں آتا تو بانیین کی لسٹ پر ایک نظر پھر سے ڈال لیں۔

آج 2022ء تک یہ بھارت کی متعدد ریاستوں میں کام کر رہی ہے، مجاہدین آزادی اور اکابرین امت کی قدیم جماعت ہونے کی وجہ سے اس کو عوامی رجحان اور تعاون بھی حاصل ہے؛ مگر آج اس کے پاس کرنے کے ایک بھی کام نہیں ہے۔ لے دے کے فسادات کا انتظار کرنا، ہو جائے تو خاموشی اختیار کرنا اور قوم کا پیسہ لے کر مسیحا بننے کا ناٹک کرنا بچ گیا ہے۔ 

ہاں ایک اور کام، ناگہانی آفات: سیلاب اور حادثات میں حکومت، قوم اور اہل ثروت سے خطیر رقم لے کر مخصوص خاندان کا سائن بورڈ لگانا بھی ایک بڑا کام رہ گیا ہے۔

باقی قوم و ملت کے تحفظ کے لیے، تعلیم کے ساتھ مختلف فیلڈ میں ترقی کے لیے اور ہر قسم کی خودمختاری دلانے کے لیے نہ تو موجودہ جمعیۃ کے پاس کوئی ایجنڈا ہے نہ ہی کوئی ایسی سوچ۔ وہ نہ اس طرح کا جوکھم اٹھانا چاہتی ہے اور نہ ہی کسی کو اس فیلڈ میں آگے بڑھتا دیکھنا پسند کرتی ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال ملک کی سب سے منظم اور تمام مظلوموں کے لیے کام کرنے والی تنظیم *پاپولر فرنٹ آف انڈیا* کے خلاف کارروائی ہے۔ جس پر جمعیۃ علماء ہند کے کسی ایک مخلص اور امت کے خیر خواہ لیڈر نے ایک بھی تردیدی بیان تک جاری کرنا گوارا نہیں سمجھا؛ بلکہ الٹا جب جماعت اسلامی ہند، وحدت اسلامی، پرسنل لا بورڈ اور دیگر مختلف تنظیموں کے ذمے داروں نے بیانات جاری کیے تو (خفیہ آقاؤں کے اشارے پر) انھیں بند کمرے میں بلا کر ڈرانے اور مصلحت سمجھانے کا کام کر رہی ہے۔

یہیں پر امت کے اکابرین کی روحوں کو تکلیف پہنچانے والے، جمعیۃ کے موجودہ نااہل قائدین کا اخلاص بھی سامنے آ گیا اور مسلم ہمدردی اور خدمت خلق اور فدائے قوم و ملت کے جتنے مکھوٹے لگائے ہوے تھے سارے خود بہ خود اتر گئے۔

بلکہ قابل اعتماد ذرائع سے ملی اطلاع کے مطابق (یہ نیوز پیپر میں بھی آ چکا ہے) پاپولر فرنٹ آف انڈیا کے خلاف کارروائی کے پیچھے جمعیۃ کے موجودہ قائدین کا بی جے پی اور آر ایس ایس کے ساتھ سانٹھ گانٹھ کا بہت بڑا رول رہا ہے۔

اس سے جمعیۃ کے موجودہ، خود ساختہ، موروثی قائدین کی دور اندیشی اور قوم و ملت کے تعلق سے اخلاص و للہیت بھی کھل کر سامنے آگئی ہے۔

آج جمعیۃ کے پاس اصلاح معاشرہ کا پروگرام کرنا، قوم کو بے وقوف بنانے کے لیے سال میں ایک دو بڑی کانفرنسیں کر لینا، بے شعور اور سراپا مطیع و فرماں بردار مخلصین علماء و ائمہ کو بلا کر انھیں آر ایس ایس کے ہندو راشٹر کے لیے ہر ظلم سہنے پر آمادہ کرنا، رام کی عزت کرانا اور دیوی دیوتاؤں کو بھگوان بنانے کی دعوت دینا، بلکہ کھلے عام شرک کی دعوت دینا ایک شیوہ بنتا جا رہا ہے۔ جو بیان جاری کیا جاتا ہے اس کے پیچھے سنگھ پریوار کا مفاد ہمیشہ مقدم رکھا جاتا ہے اور تو اور تعلیم کے نام پر بھی ڈھنڈورا پیٹ پیٹ کر صرف ایک خاص خاندان کے افراد کو ذرائع معاش کے طور پر، قوم کے پیسے سے ادارے بنا بنا کر دینا بھی ایک مشغلہ بن گیا ہے۔

 موجودہ دھوکے باز قائدین کی قیادت میں جمعیۃ نے ماضی قریب میں چند بڑے نمایاں کارنامے بھی انجام دیے ہیں۔ 

١) جیسے ادارہ مباحث فقہیہ کا قیام جو کام فقہ اکیڈمی انڈیا پہلے سے کر رہا تھا، اس نے مسائل کے تعلق سے کئی مختلف فیہ شوشے چھوڑے ہیں جو مستقل موضوع بحث ہے۔

یہ کتنا بڑا کارنامہ انجام دیا ہے اندازہ لگانا مشکل ہے!.

٢) جمعیۃ علما لیگل سیل، یہ بھی ایک مثالی کارنامہ ہے جس کا کام خود گرفتار کر وانے کے بعد کچھ لوگوں کو رہا کراکے مسیحا بننا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال مولانا عمر گوتم، مفتی جہاں گیر، مفتی عبدالسمیع اور مولانا کلیم صدیقی کی گرفتاری کے بعد سب سامنے آئی ہے۔ (فیلڈ میں کام کرنے والے قابل اعتماد بہت سے لیڈران کا کہنا ہے کہ ان سب کی گرفتاری کے پیچھے جمعیۃ کا ہاتھ ہے اور جو بھی جمعیۃ کی گندی سیاست کی مخالفت کرتا ہے اس سے جمعیۃ اسی طرح انتقام لیتی ہے) اگر یہ صحیح ہے تو پھر امت کے لیے یہ بہت بڑا لمحہء فکریہ ہے۔

 ٣) جمعیۃ نیشنل اوپن اسکول، یہ سب اپنے خاندانی افراد کے لیے ذرائع معاش فراہم کرنے کے لیے قوم و ملت کے ساتھ بہت بڑا دھوکا کیا جا رہا ہے۔ کیوں کہ پیسہ قوم کا، سرمایہ ملت کا مگر ملکیت خاندان کی۔

٤) جمعیۃ علماء ہند حلال ٹرسٹ۔ یہ دنیا کا سب سے بڑا تاریخی کارنامہ ہے جو جمعیۃ نے انجام دیا ہے۔ لگتا ہے جمعیۃ انھیں جیسے عظیم الشان کارنامے کے لیے بنائی گئی تھی۔

٥) خطیر رقم لے کر مدارسِ اسلامیہ کو چندہ وصول کرنے کے لیے تصدیقات فراہم کرنا، یہ بھی موجودہ جمعیۃ کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ لیکن یاد رکھیے کہ جتنے مدارس جمعیۃ سے تصدیق نامے حاصل کر رہے ہیں، ان سب کی ساری تفصیلات بی جے پی اور آر ایس ایس کے حوالے کیے جاتے ہیں؛ تاکہ ان مدارس کے خلاف کارروائی کرنے میں ان کو زیادہ تکلیف نہ اٹھانی پڑے۔ اس کا تجربہ یوپی میں حال ہی میں مدارس سروے کی حمایت سے ہوا ہے، جمعیۃ نے صرف حمایت ہی نہیں کی؛ بلکہ بی جے پی حکومت کو سارے مدارس کی لسٹ فراہم کری ہے کہ یوپی میں اتنے مدارس ہیں اور یہاں یہاں ہیں۔ تم ان کا سروے اور ان کے خلاف کارروائی کرو۔

٦) جمعیۃ یوتھ کلب، اس ادارے کا قیام بھی جمعیۃ کا امت کے لیے بہت بڑا وردان ہے۔ اسی لیے تو اس کے ذمے کانوڑیوں کی خدمت سونپی گئی ہے۔ دراصل اس کا مقصد پاپولر فرنٹ آف انڈیا کی نقل تھی اور پاپولر فرنٹ کی طرف بڑھتی عوامی رجحان کو جمعیۃ کی طرف مبذول کرنا تھا۔ جس میں ناکامی کے بعد بوکھلاہٹ سامنے آئی اور پی ایف آئی پر پابندی عائد کرنے کے لیے فسطائی حکومت کے ساتھ پردے کے پیچھے رہ کر اتحاد کر لیا گیا۔

ورنہ اگر اس یوتھ کلب کے قیام کے پیچھے ذرا بھی اخلاص رہتا تو پھر کانوڑیوں کی خدمات کی بجائے جہاں جہاں فسادات ہوے ہیں وہاں مسلمانوں کے تحفظ کے لیے یہ نظر آتے مگر مثالے ندارد۔

ظلم بالائے ظلم یہ ہے کہ ان مطلب پرست قائدین اور ملت فروش رہنماؤں نے امت مسلمہ ہندیہ کو سامان تجارت کی طرح استعمال کیا ہے اور بڑی تیز رفتاری کے ساتھ خرید و فروخت کا یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔ آپ اندازہ کیجیے:

جب کشمیر جل رہا تھا تو جنیوا میں جاکر بیان دیا گیا کہ ہندستان میں سب ٹھیک چل رہا ہے۔ جب ہر طرف ماب لنچنگ ہو رہی ہے تو اعلان کیا جاتا ہے کہ پوری دنیا میں سب سے اچھے حالات میں مسلمان یہاں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ بیان کس کے مشورے سے دیا جاتا ہے: اجیت دھوبال، موہن بھاگوت یا امت شاہ کے مشورے سے؟

مذہب کی بنیاد پر بل پاس ہو گیا، مگر ان کو احساس تک نہیں ہوا۔ سی اے اے اور این آر سی کا فیصلہ جمعیۃ کے ناعاقبت اندیش قائدین نے مل کر پاس کروایا تھا۔ آخر کیوں؟ اس کے پیچھے کیا حکمت پوشیدہ تھی؟

بابری مسجد کے خلاف غیر منصفانہ فیصلے پر قوم کو پہلے سے ہی سر تسلیم خم کرنے کے لیے اعلامیہ کس نے جاری کیا اور کس بنیاد پر یہ اعلان کیا گیا کہ ہم ہر فیصلہ مانیں گے؟

بارہ بنکی نوری مسجد، حیدرآباد مسجد اور دیگر مساجد کی شہادت پر خاموشی اختیار کرنے والی سب سے بڑی متحرک تنظیم جمعیۃ علماء ہند ہے۔

گیان واپی، مسجد تقوی، متھرا شاہی عیدگاہ اور ہزاروں مساجد کی مسماری کی سازش پر جمعیۃ کی پر اسرار خاموشی کیا بتا رہی ہے؟

مذہبی تشخص کو ختم کر کے پورے ملک میں مسلم قوم کو دوسرے درجے کے شہری بنانے پر سمجھوتہ بھی جمعیۃ ہی کے پلڑے میں آیا ہے۔

ان سارے عظیم کارناموں کی وجہ سے آج جمعیۃ کی موجودہ قیادت مکمل طور پر بے اعتمادی کا شکار ہے۔ اور اسی عدم اعتماد کی کشمکش سے نکلنے کے لیے یہ ساری گھناؤنی حرکتیں کی جا رہی ہیں۔ لیکن ان پر کسی بھی طرح سے اعتماد بحال کرنا مشکل ہے؛ کیوں کہ لوگ جاگ رہے ہیں، وہ اپنے ساتھ ہونے والے مسلسل دھوکوں کو سمجھنے لگے ہیں۔

یہ وقت مخلص قائدین کے اپنے منافقانہ رویے پر نظر ثانی کرنے کا ہے، عوام و خواص کو اور بے وقوف بنانے کی پلاننگ کرنے کا نہیں۔

ابھی تک ہم نے جمعیۃ کے موجودہ قائدین کا رویہ دیکھا ہے۔ تھوڑا آگے بڑھیں گے تو ان کا تساہل و تسامح خاص طور سے پوری امت کے بارے میں بہت ہی خراب اور سمجھوتہ پسند رہا ہے؛ یہ خود کو، اپنے خاندان کو اور اپنے سرمائے کو بچانے اور گرفتار ہونے سے بچنے کے لیے پوری قوم کو تباہی کے سمندر میں دھکیل سکتے ہیں؛ اس لیے مستقبل میں ان مطلب پرست اور ناعاقبت اندیش قائدین پر اعتماد کرنا کوئی دانشمندی نہیں ہے۔ الا یہ کہ وہ اپنی ورش پر نظر ثانی کرکے فوراً تلافی مافات کے ساتھ اصلاح کرلیں۔

اب پانی سر سے اوپر نہیں؛ بلکہ چھت سے اوپر بہنے لگا ہے۔ اب امت کے ہر فرد اور فکرمند لوگوں کو تمام مخلص قائدین سے سوال کرنا ہوگا کہ:

جمعیۃ خاندانی مفاد کے لیے سرگرم رہے گی یا پھر امت مسلمہ کے مفاد کے لیے؟

موجودہ قائدین کب تک سنگھ پریوار کی غلامی کرتے رہیں گے اور پوری امت مسلمہ کو ان ظالموں کے ظلم کی بھٹی میں جھونکتے رہیں گے؟

ابھی پاپولر فرنٹ پر پابندی لگی ہے اور پرسنل لا بورڈ پر پابندی لگانے کی بات چل رہی ہے۔ کیا جمعیۃ ساری تنظیموں پر پابندی لگانے کا انتظار کر رہی ہے؟

کیا جمعیۃ یہ چاہتی ہے کہ جمعیۃ کے علاوہ کوئی بھی جماعت یا تنظیم ہندستان میں باقی نہ رہے؟ اور وہ اسی طرح قوم و ملت فروشی کا بزنس کرتی رہے؟

کیا ماب لنچنگ، قتل ناحق، عصمت دری،  ارتداد، فسادات، سی اے اے، کشمیر فائل، علماء کی گرفتاری، میڈیا ٹرائل، اسلام کی بے حرمتی، شان رسالت میں گستاخی، مساجد کی شہادت، مدارس کا سروے، دستوری حقوق چھیننے کی سازش، ملکی دستور بدلنے کی کوشش، مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے کی تحریک، علماء کی گرفتاری ، نوجوانوں پر ظلم وزیادتی، دستوری تنظیموں پر پابندی، حلال، حلالہ، طلاق، شریعت، حجاب، اذان، نماز؛ حتی کہ کھانے تک کو نشانہ بنایا جانا جمعیۃ کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہے؟ یا پھر جمعیۃ اپنے مخصوص مفاد کے لیے سب کچھ ہضم کرنے کو ٹھان رکھی ہے؟

آخر کیا ہے راز سر بستہ جو جمعیۃ نے پوری امت کو داؤ پر لگا دی ہے اور کچھ بولنے تک کے لیے تیار نہیں ہے؟

اور آگے جمعیۃ کے خود ساختہ اور موروثی قائدین کیا کرنا چاہتے ہیں؟

یہ سارے سوالات موجودہ قیادت سے پوچھنے کی ضرورت ہے اور یہ پوچھنے کا حق ہر فرد ملت کو حاصل ہے۔ عقیدت اور احترام کا مطلب یہ نہیں ہوتا ہے کہ آنکھ بند کرکے پورا بدن ننگا کر دیا جائے۔

 تو اٹھیے! اور وقت نکلنے سے پہلے پوچھیے۔ بلاک سے ضلع تک اور صوبہ سے لے کر قومی سطح تک، سامنے آکر کھڑے ہو کر پوچھیے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ سوال پوچھنے کا موقع بھی آپ کھو بیٹھیں۔

سوالات کا مقصد مسائل کا حل ڈھونڈنا ہے، امت کو غلامی کے دلدل سے نکالنا ہے اور آنے والے وقت میں جمعیۃ جیسی مقدس، فعال اور اکابرین کی وراثت کو موجودہ نااہل اور مطلب پرست خاندانی قیادت کے شکنجے سے آزاد کرانا ہے۔

جمعیۃ کی موجودہ قیادت کو چاہیے کہ وہ اپنی روش کو بدلے، اٹھتے ہوئے سوالات کا صحیح جواب دے، ملت فروشی کی اصل وجہ امت کے سامنے رکھے۔ آر ایس ایس اور سنگھ پریوار کی خصیہ برداری کا سبب بتائے۔ نئی نسلوں اور پوری امت کو غلامی کی تعلیم دینے، رام کو خدا بنانے اور ہندوتو کے لیے قربان ہوجانے کے آدرش کے پیچھے کونسے اسرار و رموز پوشیدہ ہیں واضح کرے۔

یا پھر اخلاص اور للہیت کا ثبوت دیتے ہوے، آباء واجداد اور اکابرین جمعیۃ کی لاج رکھتے ہوے قیادت سے استعفی دے دیں؛ تاکہ قیادت، جرأت مند، مخلص اور امت کے حقیقی بہی خواہ افراد کے حوالے ہو جائے۔

اس وقت جمعیۃ کی خاندانی خیر اندیشی کی وجہ سے، سنگھی غلامی پر نہ جانے اکابرین جمعیۃ کی روحیں کتنی بے چین ہوں گی، کتنے قاسمی، مدنی اور ہندستانی اپنی قبروں میں تڑپ رہے ہوں گے؟!!

قسم بخدا! اس وقت جمعیۃ کا تحفظ بہت ضروری ہے۔ نہیں تو مصلحت پروری اور حکمت پسندی میں سب تباہ ہو جائے گا اور پھر آخر میں جمعیۃ بھی اپنی موت آپ مر جائے گی۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو شعور دے اور انجام بخیر فرمائے۔ آمین۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *