Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors
Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

*شاہ فیصل ایوارڈ یافتہ ، ماہر اسلامی معاشیات*

by | Nov 18, 2022

 *ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی رح سے ایک مختصر سی ملاقات*
—-(1931ء تا  2022ء )— 
بقلم : ڈاکٹر خلیل تماندار 
——( انٹاریو ، کینیڈا)——
 گمان  غالب ہے کہ 1990-1991ء کے ایام رہے ہوں گے ،   اللہ کے   فضل و کرم سے   اہلیہ محترمہ ام ابراہیم کے ہمراہ   عمرہ کا  ایک سفر طے ہوتا ہے   ، عمرے سے فارغ ہوکر ان دنوں  ہمارا  قیام جدہ میں ہمارے ایک عزیز  برادر محترم احمد محی الدین ( سابق موءظف  سعودی ائیر لائنز)  کے دولت کدہ پر  تھا کہ حسب سہولت ایک دو روز کے وقفے سے   عصر بعد جدہ تا مکہ مکرمہ کا سفر ہوتا ، مغرب و  عشاء کی نمازیں اور  طواف کے بعد  پھر جدہ واپسی ہوجایا کرتی تھی،  جدہ میں جہاں  ہمارا قیام تھا وہ  علاقہ عزیزیہ سے قریب  شارع موءلفین و شارع اربعین کی کراسنگ پر واقع تھا  اور  اس عمارت کے  عین مقابل ایک شاندار سی بلڈنگ اور مسجد بھی  تھی ، بلڈنگ کا نام
 ” ماشاءاللہ تبارک اللہ ” رکھا گیا  تھا –
ایک شب یوں  ہوا کہ “ماشاءاللہ تبارک اللہ بلڈنگ” کی چھت پر ڈھیر ساری  روشنی نظر آ رہی تھی کہ گویا چراغاں ہورہا ہے ، استفسار پر علم ہوا کہ آج ہندوستان کے ایک  معروف عالم دین حضرت مولانا محمد یوسف اصلاحی  مدظلہ العالی کا خطاب عام  ہے ،  حسن اتفاق کہ جدہ میں قیام کے دوران  مختلف کتابوں میں سے  خصوصا” سیرت  کے عنوان پر حضرت مولانا یوسف اصلاحی رح  کی  “داعی ء اعظم صلی اللہ علیہ و سلم” اور ”  آداب زندگی”   راقم السطور کے مطالعے میں آچکی تھیں  ، نور علی نور ،  آج صاحب کتاب کودیکھنے و سماعت کرنے کا بھی سنہری موقع  نصیب ہورہا تھا ، ان جذبات سے سرشار ناچیز اس بابرکت مجلس میں جا پہنچا  ، محترم  مولانا محمد  یوسف اصلاحی مدظلہ العالی کا خطاب شروع ہو چکا  تھا، قلم اور  چند صفحات کے  ساتھ جب  اس محفل میں قدم رنجا ہوا تو تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی کیوں کہ وقت متعین سے قبل ہی درجنوں حضرات وہاں کرسیوں پر براجمان ہو چکے  تھے ، چار و ناچار آخری صف میں یہ گمنام بھی چھت کی سطح پر عمود بنے  محترم مولانا کی دلنشیں تقریر کو سپرد قلم  کررہا تھا  ، دریں اثناء وہاں موجود والنٹئیرز  و منتظمین نے آخری صف میں چند کرسیوں کا اہتمام فرمایا ، مجھے کھڑے کھڑے لکھتے  ہوئے دیکھ کر ایک بزرگ و سنجیدہ قسم کے شخص نے آواز دی اور  اپنے قریب رکھی ہوئی  کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا ، ظاہر سی بات ہے ایسی اضطراری کیفیت میں وہ کرسی ناچیز کے لئے  یقینا” ایک  نعمت غیر مترقبہ سے کم نہ تھی ،   چند الفاظ میں ان بزرگ کا   شکریہ ادا کرتے ہوئے مولانا اصلاحی صاحب  کے کلمات کو سپرد قلم کرنے میں  مصروف ہوتا چلا گیا  ، دوران خطاب ناچیز  اس بات کا بھی مشاہدہ کررہا تھا کہ کہ بازو بیٹھے ہوئے وہ حضرت مولانا کا بیان سننے میں ہمہ تن گوش تھے لیکن ساتھ ہی ساتھ  ہاتھ میں موجود صفحات پر تیزی سے قلم چلاتے  ہوئے بھی دیکھ رہے تھے نیز  ناچیز کو  حوصلہ بھی دیتے جا رہے تھے  کہ  ماشاءاللہ بہت خوب آپ نے تو شاید مکمل خطاب ہی  قلمبند کرلیا ہے  ، ناچیز  ان بزرگ سے  قطعی طور پر واقف نہیں تھا البتہ  ان کے حسن سلوک ، شفقت و حوصلہ افزائی جیسے جذبات سے متاثر ضرور ہورہا تھا ،خطاب کے اختتام پر حضرت مولانا محمد یوسف اصلاحی مدظلہ العالی سے مصافحے کی نیت سے جب  بڑھا تو  اس وقت وہاں ایک ہجوم تھا ، حضرت مولانا یوسف اصلاحی رح کے خطاب کو سماعت کرنے ، اسے  سپرد قلم کرنے اور خطاب بعد آپ سے مختصر سی ملاقات و مصافحہ  کرنے کی خوشی میں ناچیز ان بزرگ کا نام تک نہیں پوچھ سکا  جن کے توسط سے وہ کرسی حاصل ہوئی تھی ، اسے محض  اللہ کا فضل ہی کہا جائے گا کہ  نشست کے اختتام پر میری  نگاہ سینکڑوں کے ہجوم میں  ان بزرگ پر پڑی اور اخلاقی  طور پر ناچیز  ایک  الوداعی مصافحہ  کرکے رخصت ہوا چاہتا تھا کہ آپ نے  اپنا ایک وزٹنگ کارڈ میرے ہاتھوں میں تھما دیا ، جدہ کی رہائش گاہ پہنچنے پر جب اس وزٹنگ کارڈ پر  نگاہ پڑی تو میرے پیروں تلے سے گویا زمین نکلتی محسوس ہوئی  کہ کارڈ پر ایک نام درج تھا  ” پروفیسر ڈاکٹر  نجات اللہ صدیقی صدر  شعبہء اسلامی معاشیات ، شاہ عبدالعزیز یونیورسٹی جدہ سعودی عربیہ  “
ناچیز   کف افسوس ملتا رہا  کہ ایسی قد آور شخصیت کا   سلیقے سے شکریہ  تک ادا نہیں کرسکا بعد ازیں   یکے بعد دیگرے حقائق   تہہ بہ تہہ واضح ہوتے چلے گئے کہ آپ سابق پروفیسر معاشیات مسلم یونیورسٹی علی گڑھ  ، پروفیسر اسلامی معاشیات جامعہ شاہ عبدالعزیز  جدہ ، ایڈوائزر اسلامک ڈیلوپمنٹ  بینک جدہ ، 1982ء میں عالمی سطح کا معروف عرب نوبل یا  شاہ فیصل ایوارڈ یافتہ ، دنیا کی بیشتر یونیورسیٹیز/ جامعات میں بحیثیت  گیسٹ اسپیکر،   انتہائی معروف و مقبول تصنیف غیر سودی بینک کاری کے مصنف اور عالمی شہرت یافتہ  ڈاکٹر
ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی تھے
 یہ واقعہ ہے کہ آپ کے علمی ورثے کو اردو و انگریزی کے علاوہ عربی ، فارسی ، ترکی ، انڈونیشیا ، ملیشیا  و تھائی زبانوں میں  بھی بذریعہء تراجم محفوظ کیا گیا ہے
دور حاضر کے  تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لئے  ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کی علمی لیاقت  سے انگریزی میں موجود مختلف تصانیف کی بدولت  بھی  اکتساب علم و فیض  کیا جا سکتا ہے مثلا”
● Issues in Islamic Banking .
● Banking without interest .
● Recent theories of Profit .
● A survey of contemporary  Literature.
● Partnership and Profit sharing in Islamic Law .
● Insurance in an Islamic Economy .
وغیرہ وغیرہ ،
 علاوہ ازیں اردو زبان میں ●شرکت و مضاریت کے شرعی اصول
●مقاصد شریعہ
●غیر سودی بینک کاری
مسلم پرسنل لاء
وغیرہ جیسی تصانیف  سے بھی  عصر حاضر مین استفادہ کیا جا سکتا ہے
شاہ فیصل ایوارڈ کے علاوہ آپ کی دینی و علمی خدمات کے پیش نظر  2003ء میں ڈاکٹر نجات اللہ  صدیقی رح کو
 *شاہ ولی اللہ محدث دہلوی* *رح ایوارڈ*  بھی تفویض کیا گیا تھا –
 اس مجلس میں مولانا محمد یوسف اصلاحی  رح کے خطاب  کے دوران مرحوم کا ناچیز کے ساتھ  شفقت آمیز رویہ ،  حسن سلوک اور  محترم مولانا اصلاحی رح کے خطاب  کو نوٹ کرتے  ہوئے حوصلہ افزائی کرنا  ایسے یاد گار لمحات تھے جنھیں کبھی بھی  فراموش  نہیں کیا  جا سکتا –
راقم تحریر ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی پر اپنے جذب دروں کو ضبط تحریر میں لارہا تھا کہ دریں اثناء کینیڈا میں مقیم  سابق  پروفیسر مسلم یونیورسٹی علی گڑھ  شعبہء کیمیاء پروفیسر ڈاکٹر نظام احمد  ابن قاری نیاز احمد نے کہا کہ جدہ منتقل ہونے سے قبل ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی صاحب اور ہمارا چند برسوں کا مسلم یونیورسٹی علی گڑھ  میں غالبا”1966ء تا 1969 ء کے درمیان کا  ساتھ رہا ،  مرحوم انتہائی اعلی اخلاق کے حامل  تھے ، دھیمے لہجے میں بڑی متانت سے گفتگو کیا کرتے تھے ، ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڑھ میں اکثر آپ کا آنا جانا رہتا تھا اور شمشاد  مارکیٹ علی گڑھ میں واقع مسجد میں نماز مغرب میں آپ سے  اکثر و بیشتر ملاقاتیں بھی ہوا  کرتی  تھیں ، آپ کی بہت ساری یادیں اب بھی ذہن میں  موجود ہیں  اللہ انھیں غریق رحمت فرمائے ( آمین )
مرحوم ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی جن کے ساتھ اب  رح  کا اضافہ کرنا پڑرہا ہے بروز جمعہ 11 نومبر 2022ء کو اللہ رب العزت کی بارگاہ میں پہنچ چکے ہیں، امریکہ کے ایک علاقے سانفرانسیسکو  میں آپ کی آخری آرام گاہ طے پائی ہے
عالم اسلام کے اس عظیم اسکالر کے انتقال پر آپ ہی کی ہینڈ رائٹنگ میں تحریر کردہ ایک پیغام نظر نواز ہوا ہے ، ایسے محسوس ہوا کہ گویا آنے والی نسلوں کے لئے مرحوم کی جانب سے یہ ایک بہترین پیغام  ہے
 *” حال کا مطالعہ کیجئے مگر اس میں الجھئیےنہیں تاکہ مستقبل کی تعمیر کے لئے ٹھوس تیاری کرسکیں*
 *محمد نجات اللہ صدیقی*
 *18 جولائی 1978ء “*
 اللہ پاک مرحوم نجات اللہ صدیقی  رح کو اعلی علیین میں جگہ عنایت فرمائے اور ان کی تمام تر خدمات کو ذخیرہء آخرت بنائے ( آمین )
سچ ہے تمہاری خوبیاں باقی ، تمہاری نیکیاں زندہ
بقلم : ڈاکٹر خلیل تماندار
ایم بی بی ایس( ممبئی )
ایم سی پی ایس
سابق فزیشن حرم مکی شریف مکہ مکرمہ
مقیم : انٹاریو کینیڈا

Recent Posts

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

ڈاکٹر سلیم انصاری ،جھاپا، نیپال نیپال میں مسلم یونیورسٹی کے قیام کی بات برسوں سے ہمارے علمی، ملی، تنظیمی اور سیاسی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔ اگرچہ اس خواب کو حقیقت بنانے کی متعدد کوششیں کی گئیں، مگر مختلف وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ...

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

ڈاکٹر سید خورشید، باندرہ، ممبئیغزہ کی پٹی میں جاری تنازع نے اس خطے کی سب سے کمزور آبادی بچوںپر ناقابل تصور تباہی مچائی ہے۔ فلسطین کی آزادی کے لئے سرگرم عمل حماس کوزیر کرنے کے بیانیہ کے ساتھ اسرائیلی فوجی کارروائی نے ایک انسانی تباہی کو جنم دیا ہے، جسے عالمی تنظیموں،...

ہندوستان میں گارمنٹس صنعت میں ترقی کے مواقع

ہندوستان میں گارمنٹس صنعت میں ترقی کے مواقع

ممبئی (معیشت نیوز ڈیسک )ہندوستان میں گارمنٹس (کپڑوں کی) صنعت معیشت کا ایک اہم ستون ہے، جو روزگار کے مواقع پیدا کرنے، برآمدات کو فروغ دینے اور عالمی مارکیٹ میں ہندوستان کی شناخت قائم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ یہ صنعت نہ صرف معاشی ترقی میں حصہ ڈالتی ہے بلکہ...

ہندوستانی مسلمانوں کا تعلیمی منظرنامہ

ہندوستانی مسلمانوں کا تعلیمی منظرنامہ

ممبئی (معیشت نیوز ڈیسک)ہندوستانی مسلمانوں کا تعلیمی منظرنامہ ایک پیچیدہ اور کثیر جہتی موضوع ہے جو تاریخی، سماجی، اقتصادی اور سیاسی عوامل سے متاثر ہے۔ ہندوستان میں مسلم آبادی تقریباً 20 کروڑ ہے، جو کل آبادی کا تقریباً 14-15 فیصد ہے۔ یہ کمیونٹی دنیا کی سب سے بڑی...