Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors
Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

اب تو مَہنگائی کے چرچے ہیں زلیخاؤں میں

by | Dec 16, 2022

۔مسعود محبوب خان (ممبئی)

 مَہنگائی کا تاریخی پس منظر
 مَہنگائی بڑھنے کے اسباب
 مَہنگائی میں ہندوستان کی صورتحال
 مَہنگائی اور عالمی صورتحال
 سیاست و معیشت باطل پرستوں کے نرغے میں
 سیاست اور مَہنگائی
 مَہنگائی اور میڈیا
اسلامی معاشی و اقتصادی نظام
 اسلام کی نظر میں مَہنگائی کے اسباب
 مَہنگائی کے دیو ہیکل بت کا سدِّ باب

نتیجہ اِفْراطِ زَر ایک ایسی حالت ہے جب کسی اقتصادی علاقے میں قیمتوں میں ایک وقفہ کے دوران عمومی اور مسلسل اضافہ ہوتا ہے۔ اسلامی نقطۂ نظر میں اِفْراطِ زَر کو ایک شے کے مقابلے میں رقم کی اکائی کی قدر میں کمی کی وجہ سے ایک مالیاتی رجحان سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ موجودہ قیمتوں میں اضافے کے ذریعہ یا وجہ کی بنیاد پر، اِفْراطِ زَر کو عام طور پر تین شکلوں میں تقسیم کیا جاتا ہے، یعنی ڈیمانڈ پل انفلیشن، لاگت کو بڑھانے والی اِفْراطِ زَر، مخلوط اِفْراطِ زَر۔ جب کہ اسلامی نقطۂ نظر میں، وجہ کی بنیاد پر اِفْراطِ زَر کو دو حصّوں میں تقسیم کیا گیا ہے، یعنی قدرتی اِفْراطِ زَر اور انسانی غلطی کی اِفْراطِ۔

ملٹن فریڈمین کی قیادت میں مالیاتی ماہرین کے مطابق، اِفْراطِ زَر صرف ایک مالیاتی رجحان ہی بتایا ہے۔ جب پیسے کی فراہمی میں اضافہ ہوتا ہے، تو لوگوں کے پاس ان کی خواہش سے زیادہ پیسہ ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں وہ اضافی رقم خرچ کرتے ہیں۔ چونکہ سامان اور خدمات مستقل ہیں قیمتیں بڑھ جائیں گی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ صارفین مالیاتی توسیع اور اِفْراطِ زَر کے ذمّہ دار ہوں۔

اس وقت بعض ممالک کو اِفْراطِ زَر اور اس کے باعث بڑھتی ہوئی مَہنگائی کے چیلنج سے سابقہ ہے۔ مالیاتی امور کے ماہرین کے مطابق اپنے اخراجات سے متعلق بہتر منصوبہ بندی کرکے اِفْراطِ زَر سے پیدا ہونے والی مَہنگائی کے اثرات کو کم کیا جاسکتا ہے۔ موجودہ مشکل صورت حال بنیادی طور پر اجناس کی سپر سائیکل، روس، یوکرین جنگ، عالمی کساد بازاری، پالیسی ریٹ میں اضافے اور سیلاب سے تباہی جیسے خارجی عوامل کا بھی نتیجہ ہے۔ مَہنگائی کے دلدل میں پھنسے ممالک اس کی وجہ، عالمی وباء کووڈ- 19 کے باعث پیدا ہونے والے اس عالمی مسئلے کو یوکرین پر روس کے حملے سے جوڑتے نظر آتے ہیں۔ ان کے نزدیک بگاڑ کی اہم وجہ یہی ہے۔

موجودہ حالات میں حکومتی سطح پر مَہنگائی اور بے روزگاری بڑے چیلنجز ہیں، جن کے خاتمے کے لیے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات نہ کیے گئے تو معاشرے میں بگاڑ مزید بڑھ جائے گا، جس کو سنبھالنا ممکن نہیں ہوگا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عالمی وباء کووڈ- 19 کے دوران پوری دنیا میں اخراجات اور قرض لینے میں اضافہ ہوا ہے، جس کی وجہ سے ٹیکس میں اضافہ ہوا جس نے زندگی کے روزمرہ اخراجات کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا، اس کے برعکس زیادہ تر لوگوں کی اجرت میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔

اس میں اب کوئی شبہ نہیں رہا کہ اس کووڈ- 19 کے لاک ڈاؤن کے بعد ابھرنے والے عہد نو میں دنیا کا معاشی نظام مختلف شکل اختیار کر گیا ہے اور مصنوعی طریقوں سے پھیلی ہوئی معیشتیں اپنی حقیقی اساس کی طرف سمٹ آ رہی ہیں۔ سودی قرضوں کے اجراء اور غریب مملکتوں کو مالی امداد فراہم کرنے کی روایت ختم ہوئی تو دنیا کی کمزور مملکتوں کو مالی معاونت کے سہارے وینٹی لیٹر پر زندہ رکھنے کا رواج بھی ختم ہوجائے گا۔ عالمی تجارت اپنے علاقائی دائروں میں سمٹ آئے گا۔ دور دراز کے ممالک کی بجائے سب کو اپنے پڑوسی ملکوں سے تجارتی تعلقات استوار کرنے کے مواقع میسر ہوں گے، جس سے ہر ملک کی تَزْوِیری حِکْمَتِ عَمَلی بھی از خود بدل جائے گی۔

مَہنگائی پر سید نصیر شاہ کا شعر دیکھئے ؎
اب کبھی بازار جانے پر بضد ہوتا نہیں
میری غربت نے مرے بچے کو دانا کردیا
واقعی تنخواہ دار طبقہ اس چیز سے شدید پریشان ہے کہ مہینے کا بجٹ کیسے بنائے۔ ویسے بھی ایک عام غریب کی زیست بہ مشکل سے کچھ ہی ہوتی ہیں، لاک ڈاؤن کی مار کے بعد اب تو وہ مظلوم گھر سے ملازمت کی جگہ جانے کے بھی قابل نہ رہا کہ جو کچھ کماتا ہے، وہ کرائے بھاڑے میں خرچ ہو جاتا ہے۔ حقیقتاً آج سب سے زیادہ مَہنگائی کی مار جھیلتا نچلہ طبقہ ہے، جس کی زندگی کا ایک بڑا حصّہ کئی سالوں سے کرایہ بھرتے بھرتے ختم ہوگیا ہے۔ گذشتہ کئی سالوں سے

مکانوں اور دکانوں کے بڑھتے ہوئے کرائے بھی مَہنگائی میں مسلسل اضافہ کر رہے ہیں جن کو کسی بھی حکومت نے کنٹرول کرنے کی کبھی نہ تو کوشش کی نہ ہی اس ضمن میں کبھی کوئی قانون سازی عمل میں آئی۔ بلکہ نئے بجٹ میں کرایہ داروں کے کرایے پر بھی ٹیکس ادا کرنے کا ایک بوجھ ڈال کر مزید ان کی زندگی اجیرن بنا دی گئی ہے۔

دولت کی غیر مساوی تقسیم بھی مَہنگائی کو بڑھاوا دیتی ہے کیونکہ دولت مند افراد کم وسائل کے حامل لوگوں کو لوٹنے لگ جاتے ہیں جو مَہنگائی کا باعث بنتے ہیں۔ حکومت جب تک ذاتی مفادات کے برعکس اقتصادی استحکام کو ترجیح نہیں دیتی معاشی عدم استحکام ختم نہیں ہو سکتا۔ لوگوں کے ذرائع آمدن پہلے ہی عالمی وباء کووڈ- 19 کے منفی اثرات کے باعث نصف سے بھی کم ہوچکے ہیں۔

مَہنگائی بڑھنے کے اسباب:

اشیاء کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ سرمایہ دارانہ نظام کا طرہئ امتیاز ہے، لہٰذا اس نظام میں ہر ملک اِفْراطِ زَر کے پیمانے کا حساب رکھتا ہے کہ وہ کس قدر تیزی سے بڑھ رہا ہے۔کَساد بازاری یا مندی (recession) میں قیمتیں گرتی ہیں، اس لیے منافع کی شرح گر جاتی ہے۔ کیوں کہ کسادبازاری Market Decline میں طلب کم ہونے کی وجہ سے کارخانے اپنی پیداوار میں کمی کر دیتے ہیں اور مزدوروں کی چھانٹی ہوجاتی ہے اور آخر کار اخراجات پورے نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنے کارخانے بند کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔

مصنوعی کاغذی کرنسی کے نتیجہ میں پیدا ہونے والا اِفْراطِ زَر، مَہنگائی پیدا کرنے والی بنیادی وجوہات میں سے بھی ایک بہت بڑی وجہ ہے۔ مَہنگائی میں اضافے کی وجوہات میں سے ایک بنیادی وجہ سرمایہ دارانہ معیشت میں ٹیکس کا نظام ہے جو بلواسطہ اور بلا واسطہ ٹیکسوں پر مشتمل ہے، یہ بے شمار ٹیکس بھی قیمتوں میں اضافے کا موجب بن رہے ہیں۔ حکومت کے ہاتھ بے بس و کمزور عوام کی جیبوں میں ہیں وہ عوام کی کمائی کا بڑا حصّہ بجلی، گیس، سیوریج اور ٹیکس کے نام پر لے لیتے ہیں اور عوام خاموشی کے ساتھ ان واجبات کو ادا کرتی ہے جس کی وہ اہل نہیں ہوتی۔

ذخیرہ اندوزی، ناجائزکالا بازاری (illegal black marketing) اور رسد (logistics) میں رکاوٹ بھی مَہنگائی کا باعث ہوتی ہے۔ سیاسی غیر ضروری مفادات کے پیش نظر، بے دریغ غیر ملکی قرضۂ جات بھی معاشیات کو کمزور کرتے ہیں، حکومتی اخراجات اور معاشی خسارہ پورا کرنے کے لئے بے تحاشہ نوٹ چھاپنے سے بھی اِفْراطِ زَر پھیلتا ہے۔عالمی بازار میں ملکی کرنسی یعنی ‘روپیہ’ ڈالر کی محکومیت کا شکار ہے، اس معاشی افراتفری میں اشیاء کی قیمتوں کا کنٹرول میں رہنا ممکن نظر نہیں آرہا۔ مَہنگائی یا قیمتیں بڑھنے کی ایک بڑی وجہ مارکیٹ کے اندر اجارہ داری اور مانیٹرنگ کے طریقہ کار متحرک نہ ہونا بھی ہے۔

مَہنگائی کی وجوہات میں سے ایک وجہ حکومت کی جانب سے ڈیمانڈ سپلائی کے میکانزم کی نگہداشت میں نااہلی اور کرپٹ حکومتی عہدیداروں کا اس عمل کی نگہداشت میں بڑے بڑے سرمایہ داروں کو سپورٹ کرنا ہے، جس سے مارکیٹ میں اشیائے ضرورت کی کمی کی وجہ سے ان کی قیمتوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے جمہوری حکمران عالمی طاقتوں اور مقامی سرمایہ داروں کے فرنٹ مین بن کر سپلائی چین کو ہائی جیک کرنے کی کوششوں میں کوئی مداخلت نہیں کرتے بلکہ الٹا ان کی بلیک میلنگ میں آکر ان کے سامنے سر جھکاتے ہیں۔ یہ سرمایہ دار ذخیرہ اندوزی کرکے اور ”کارٹیل” Cartel بنا کر سپلائی کی قلت پیدا کرتے ہیں تاکہ اشیاء کی قیمت بڑھا کر دن دوگنا، رات چوگنا منافع کما سکیں۔

جب کسی بھی شعبے یا صنعت میں کچھ مخصوص افراد یا کمپنیاں ضرورت سے زیادہ منافع یا اجارہ داری قائم کرنے کے لیے گٹھ جوڑ کرلیتی ہیں تو اسے ”کارٹیلائزیشن” cartelization کہتے ہیں۔ کارٹل بنانے کا مقصد زائد منافع حاصل کرنا اور قیمتوں کو ایک سطح سے نیچے آنے سے روکنا ہوتا ہے۔ اس کو کاروبار میں غیر مسابقتی رجحان تصور کیا جاتا ہے۔

نجکاری:
مَہنگائی میں اضافے کی ایک اور بڑی وجہ توانائی کی قیمت میں ہوش ربا اضافہ ہے جس سے کاروباری اور تجارتی سرگرمیوں کی لاگت میں اضافہ ہوتا ہے۔ بجلی بنانے کے کارخانوں کی نجکاری سے انرجی انفراسٹرکچر (Infra structure) عوامی اور ملکی کنٹرول سے نکل کر چند ملٹی نیشنل سرمایہ داروں کے قابو میں آ جاتا ہے جو توانائی کی فراہمی اور اس کی قیمتوں پر بڑی حد تک اثر انداز ہوتے ہیں۔ پورے ملک کے بجلی نظام کو منافع (Monetization) کے نام پر نجی کمپنیوں کو سونپا جارہا ہے۔ نجی کمپنیوں کے طرزِ امور اور من مانی سے عوام بہت پریشان ہیں۔

بجلی محکمہ کی نجکاری کسانوں کے لیے بجلی مَہنگی اور غریب دیہاتیوں پر ظلم اور معاشی استحصال کا باعث بنے گی جب کہ عام آدمی کا اس سے معاشی نقصان ہوگا۔ میٹر ریڈنگ کی نجکاری سے عوام پہلے ہی پریشان ہیں جو جان بوجھ کر غلط ریڈنگ کو بھرتے ہیں اور کسانوں اور دیہاتیوں کو ہراساں کرکے ان کا استحصال کرتے ہیں۔

نجکاری (privatization) کو مغربی نظام معیشت خصوصا سرمایہ دارانہ نظام میں خصوصی اہمیت حاصل ہیں لیکن اسلامی اقتصادی نظام میں اس کو محدود کیا گیا ہے۔ اسلامی اقتصادی نظام میں سرکاری اور عوامی ذرائع اور اداروں کی نجکاری نہیں کی جاسکتی۔ حکومتی اداروں کا نجی سرمایہ داروں کے ہاتھ منتقلی کا نام نج کاری ہے، نجکاری کا براہِ راست تعلق سرمایہ داری ہے۔ Capitalist ممالک میں نجکاری کا رواج عام ہے، اس طریقہ ہائے تجارت میں حکومتی افراد beaurocrats، سرمایہ دار (capitalist)، عوام کا ایک تکون بنتا ہے۔ جس میں پہلے دو افراد تیسرے کا استحصال کرنے کے لئے سمجھوتہ کر لیتے ہیں۔ نجکاری کے ضمن میں اسلامی نقطۂ نظر مختلف ہے۔ سنن ابوداؤد اور ابنِ ماجہ میں ابنِ عبّاسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللّٰہﷺ نے فرمایا، ”سارے مسلمان تین چیزوں میں شریک ہیں، پانی، چراگاہ اور آگ”۔

(جاری)

Recent Posts

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

ڈاکٹر سلیم انصاری ،جھاپا، نیپال نیپال میں مسلم یونیورسٹی کے قیام کی بات برسوں سے ہمارے علمی، ملی، تنظیمی اور سیاسی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔ اگرچہ اس خواب کو حقیقت بنانے کی متعدد کوششیں کی گئیں، مگر مختلف وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ...

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

ڈاکٹر سید خورشید، باندرہ، ممبئیغزہ کی پٹی میں جاری تنازع نے اس خطے کی سب سے کمزور آبادی بچوںپر ناقابل تصور تباہی مچائی ہے۔ فلسطین کی آزادی کے لئے سرگرم عمل حماس کوزیر کرنے کے بیانیہ کے ساتھ اسرائیلی فوجی کارروائی نے ایک انسانی تباہی کو جنم دیا ہے، جسے عالمی تنظیموں،...

ہندوستان کی آٹو موبائل انڈسٹری: مستقبل کے امکانات

ہندوستان کی آٹو موبائل انڈسٹری: مستقبل کے امکانات

ممبئی (معیشت نیوز ڈیسک ) ہندوستان کی آٹو موبائل انڈسٹری دنیا کی سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی صنعتوں میں سے ایک ہے اور آنے والے برسوں میں اس کے مستقبل کے امکانات بہت روشن ہیں۔ 2025 سے آگے، یہ صنعت تکنیکی ترقی، پالیسی اصلاحات، ماحولیاتی تقاضوں اور صارفین کے بدلتے...

ہندوستان میں گارمنٹس صنعت میں ترقی کے مواقع

ہندوستان میں گارمنٹس صنعت میں ترقی کے مواقع

ممبئی (معیشت نیوز ڈیسک )ہندوستان میں گارمنٹس (کپڑوں کی) صنعت معیشت کا ایک اہم ستون ہے، جو روزگار کے مواقع پیدا کرنے، برآمدات کو فروغ دینے اور عالمی مارکیٹ میں ہندوستان کی شناخت قائم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ یہ صنعت نہ صرف معاشی ترقی میں حصہ ڈالتی ہے بلکہ...