نئی دہلی
ایئر انڈیا نے ٹاٹا گروپ میں واپسی کے بعد جمعہ کو ایک سال مکمل کر لیا ہے۔ اس موقع پر ایئرلائن کے چیف ایگزیکٹو کیمبل ولسن نے بھی کمپنی کے ملازمین کو خط لکھ کر مبارکباد دی ہے۔ ۲۷؍جنوری ۲۰۲۲ء ٹاٹا سنز نے سرکاری کمپنی ایئر انڈیا کو باضابطہ طور پر سنبھال لیا۔ اس کے بعد ٹاٹا ملک کی دوسری سب سے بڑی ایئر لائن بن گئی تھی۔
ولسن نے نشاندہی کی کہ ایئر لائن نے ٹاٹا گروپ میں شامل ہونے کے بعد گزشتہ ایک سال میں کوویڈ وبائی امراض کے اثرات سے نمٹنے کے لیے کئی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ کمپنی حصول کی پہلی سالگرہ کے موقع پر کئی نئے طیاروں کا آرڈر دیا۔ قرض کی وجہ سے حکومت نے ٹاٹا کو بیچ دیا تھا ۔
ایئر انڈیا پچھلی دہائی کے دوران بہت زیادہ خسارے میں رہی ہے۔ اس پر ۳۱؍مارچ ۲۰۲۰ء تک ۷۰؍ہزار کروڑ روپے سے زیادہ کا قرض تھا۔ ایئر انڈیا کو مالی سال ۲۱۔۲۰۲۲ءمیں ۷؍ہزار کروڑ روپے سے زیادہ کا نقصان ہوا۔ اس وجہ سے حکومت نے ایئر لائن کو ٹاٹا کو بیچ دیا۔ ٹاٹا نے گزشتہ سال ایئر انڈیا کو ۱۸؍ہزار کروڑ روپے میں خریدا تھا۔
سال ۲۰۱۰۔۲۰۰۹ء میں اس کمپنی کا نقصان ۱۲؍ہزار کروڑ سے بڑھ گیا۔ نقصان کی ایک وجہ یہ بھی بتائی گئی کہ ۲۰۰۵ء میں ۱۱۱؍ خریدنے کا فیصلہ ایئر انڈیا کے لیے بحران بن گیا۔ اس سودے پر۷۰ ہزار کروڑ روپے خرچ ہوئے۔ دوسری وجہ یہ بھی تھی کہ اس عرصے میں نئی فضائی کمپنیوں نے کسٹمر سروس سے لے کر کم کرایوں تک کی حکمت عملی اپنائی۔ ایئر انڈیا اس میں بھی پیچھے رہ گیا۔ یہ کمپنی اکثر اپنی تاخیر کے لیے مشہور ہے۔
پرائیویٹ کمپنیوں کے طیارے دن میں کم ازکم ۱۴؍گھنٹے پرواز کرتے تھے جبکہ ایئر انڈیا کے طیارے ۱۰؍گھنٹے پرواز کرتے تھے۔ دوسری طرف جس روٹ پر پرائیویٹ کمپنیاں سروس فراہم کرنے سے کتراتی تھیں، وہاں ایئر انڈیا کا آپریشن کیا جاتا تھا، جو خسارے میں جانے والا راستہ تھا۔