نئی دہلی : جنوری کے مہینے میں ملک میں خوردہ مہنگائی بڑھکر ۶ء۵۲؍ فیصد ہوگئی۔ یہ تین ماہ میں خوردہ افراط زر کی بلند ترین سطح ہے۔دسمبر ۲۰۲۲ء میں یہ ۵ء۷۲؍فیصد اور نومبر ۲۰۲۲ء میں ۵ء۸۸؍فیصد تھی ۔
اشیائے خوردونوش بالخصوص دال، چاول اور سبزیوں کی قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی میں اضافہ ہوا ہےجس کے سبب جنوری ۲۰۲۳ء میں خوراک کی افراط زر بڑھ کر ۵ء۹۴؍فیصد ہوگئی
افراط زر کا براہ راست تعلق قوت خرید سے ہے۔ مثال کے طور پر، اگر افراط زر کی شرح ۷؍فیصد ہے تو کمائے گئے ۱۰۰؍روپے کی قیمت صرف ۹۳؍روپے ہوگی۔ اس لیے سرمایہ کاری مہنگائی کو مدنظر رکھ کر کی جانی چاہیے۔ ورنہ آپ کے پیسے کی قدر کم ہو جائے گی۔
افراط زر کے بڑھنے اور ہونے کا انحصار مصنوعات کی طلب اور رسد پر ہے۔ اگر لوگوں کے پاس زیادہ پیسہ ہے تو وہ زیادہ چیزیں خریدیں گے۔ زیادہ چیزیں خریدنے سے چیزوں کی مانگ بڑھ جائے گی اور اگر طلب کے مطابق سپلائی نہ ہو تو ان چیزوں کی قیمتیں بڑھ جائیں گی۔
اس طرح مارکیٹ مہنگائی کا شکار ہو جاتی ہے۔ سیدھے الفاظ میں، مارکیٹ میں پیسے کا زیادہ بہاؤ یا اشیا کی کمی مہنگائی کا سبب بنتی ہے۔ دوسری طرف اگر طلب کم اور رسد زیادہ ہو تو مہنگائی کم ہو گی۔
افراط زر کو کم کرنے کے لیے، مارکیٹ میں پیسے کے بہاؤ (لیکویڈیٹی) کو کم کیا جاتا ہے۔ اس کے لیے ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی) ریپو ریٹ میں اضافہ کرتا ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی سے پریشان آر بی آئی نے حال ہی میں ریپو ریٹ میں صفر اعشاریہ ۲۵؍ فیصد کا اضافہ کیا ہے۔
خام تیل، اجناس کی قیمتیں، پیداواری لاگت کے علاوہ اور بھی بہت سے عوامل ہیں جو خوردہ افراط زر کی شرح کا تعین کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔تقریباً ۲۹۹؍اشیاء ایسی ہیں جن کی قیمتوں کی بنیاد پر خوردہ افراط زر کی شرح طے کی جاتی ہے۔