نئی دہلی : اس سال جنوری میں ملک میں گیس، کھاد، کافی چائے، کپاس اور خوردنی تیل جیسی تقریباً ۱۰؍ اشیاء کی قیمتیں دگنی ہوگئیں۔ اس کے برعکس، یہی اشیاءبین الاقوامی منڈیوں میں ۴۸؍ فیصد تک سستے ہو گئے۔ پچھلے مہینے میں ملک میں خوردہ افراط زر کی شرح ایک بار پھر ساڑھے چھ فیصد تک پہنچنے کی یہ بھی ایک وجہ تھی۔ عالمی بازار میں گزشتہ سال نومبر اور دسمبر میں مہنگائی ۶؍ فیصد سے نیچے آگئی تھی۔
عالمی منڈی میں یوریا کی قیمت میں پچھلے مہینے میں سب سے زیادہ ۶ء۴۷؍ فیصد کمی آئی، لیکن ہندوستانی مارکیٹ میں اس کی تھوک مہنگائی کی شرح میں ۵؍فیصد کا اضافہ ہوگیا۔ سب سے بڑا فرق قدرتی گیس کے معاملے میں دیکھا گیا۔ جہاں بین الاقوامی مارکیٹ میں اس کی قیمت میں تقریباً ۲۸؍ فیصد کمی ہوئی، وہیں مقامی مارکیٹ میں اس کی قیمت میں ۹۵؍ فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا۔ بین الاقوامی مارکیٹ میں ۲۴؍فیصد کمی کے مقابلے مقامی مارکیٹ میں بھی روئی کی قیمتوں میں ۸ء۶؍ فیصد اضافہ ہوا ہے۔
کمزور روپے کی وجہ سے درآمدات مہنگی ہو رہی ہیں۔کیڈیا کموڈٹی کے ڈائریکٹر اجے کیڈیا کے مطابق مقامی مارکیٹ میں درآمدی اشیاء کی قیمتیں کم نہیں ہو پا رہی ہیں جس کی بنیادی وجہ ڈالر کے مقابلے روپے کی قدر میں کمی ہے۔ اس کے علاوہ کھپت میں اضافہ بھی اس کی ایک وجہ ہے۔ درآمد کے لیے گیس کو مائع کرنا مہنگا ہے، پھر اسے گیس میں تبدیل کرنے پر بھی بہت زیادہ خرچ آتا ہے۔معروف توانائی ماہر نریندر تنیجا نے کہا کہ ہندوستان تقریبا ۶۰؍ فیصد قدرتی گیس درآمد کرتا ہے۔ درآمد کرنے کے لیے اسے مائع کرنا پڑتا ہے۔ ملک میں آنے کے بعد اسے دوبارہ گیس میں تبدیل کرنا پڑتا ہے۔ اس پر بہت پیسہ خرچ ہوتا ہے۔ اسی لیے بھارت اور بین الاقوامی مارکیٹ میں گیس کی قیمتوں میں بڑا فرق دیکھا جا رہا ہے۔