مختارخان ، ممبئی
(جن وادی لیکھک سنگھ ، ممبئ)۔
ہندوستانی معاشرے کی ترقی اوربہتری میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کا بھی نمایاں رول رہا ہے۔ مردوں کی سماجی خدمات کا تذکرہ توتاریخ میں ملتا ہےلیکن خواتین کے سماجی کا رناموں کا ذکرشاذ ونادرہی پایا جا تا ہے۔
آئیےآج ہم ایسی ہی دوعظیم خواتین سے متعارف ہوتے ہیں۔ جنہوں نے 19 وی صدی کے نصف میں تلعیم نسواں اور پسماندہ طبقات کی ترقی کے لئے نما یا خدمت انجام دیں ۔ ان عظیم خواتین کےنام ہیں۔ ساوتری بائی پھولے اور فاطمہ شیخ
ساوتری بائ پھولے اور فاطمہ شیخ کو بھارت کی پہلی معلمہ ہونے کا اعزازحاصل ہے۔
ویسےمہاتما جوتی با پھولے اور ساوتری بائی پھولے کے نام سے سب واقف ہیں، لیکن فاطمہ شیخ کے متعلق بہت کم لوگ جانتے ہیں۔
ہندوستان میں تعلیم نسواں اورپسماندہ طبقہ کی بہتری کے لیے دونوں ایک ساتھ کوشاں رہیں۔ ان دونوں خواتین کا تعلق مہاراشٹرکے پونہ سے رہا۔ انیسویں صدی کی نصف دہائی میں مہاتما جوتی باپھولےاور ساوتری بائ نے پونہ سے سماجی بیداری کے مشن کی شروعات کی تھی۔ بہت جلد اس مشن سے فاطمہ شیخ بھی جڑگئیں۔ اس طرح آج سے تقریباً پونے دوسوسال پہلےسن 1848 میں بھارت میں تعلیم نسواں اوردلت طبقہ کی تعلیم کا آغاز ہوا۔
:ساوتری بائ پھولے
ساوتری بائ کا جنم مہاراشٹر میں ستارا کے پاس ایک گاؤں میں ،9 جنوری 1831 کو ہوا تھا۔
سن 1840 میں ساوتری بائی اور جوتی با پھولے کی شادی ہوئ ۔ جوتی با کے والد کا پھولوں کا کاروبار تھا۔ جوتی با کی پرورش انکی خالہ زاد بہن سگنا بائ نےکی تھی۔ سگنا بائ بڑی سلجھی ہوئی خاتون تھیں ۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ شادی کے بعد ساوتری ان ہی کی طرح گھرکی چار دیواری میں قید ہوکررہ جائے۔ جوتی با کی تعلیم توانہوں نے جاری رکھی۔ ساتھ ہی ساوتری بائی کو بھی انہوں نے تعلیم کی ترغیب دی۔ جوتی با اسکول میں پڑھتے اُسکے بعد گھرآکرساوتری بائ اورسگنا بائ دونوں کو پڑھاتے ۔بہت جلد دونوں نے مراٹھی زبان میں مہارت حاصل کرلی۔ مراٹھی سیکھنے کے بعد انہوں نے اسکول بورڈ کا امتحان بھی پاس کرلیا۔ اسکے بعد ساوتری بائی نےبا قائدہ مشنری سے ٹیچر ٹرینگ حاصل کی اور بہت جلد ایک تربیت یافتہ معلمہ بن گئیں۔
ذات پات کا نظام اور پسماندہ طبقات
مہارشٹرمیں برہمن پیشواؤں کی حکومت کا خاتمہ ابھی کچھ برسوں پہلے ہی ہوا تھا۔ مراٹھی معاشرہ پراب بھی برہمنی سنسکارکی پکڑ بنی ہوئی تھی ۔ پونہ کی فضاء میں ذات پات کے نام پر بڑے پیمانے پر تفریق کی جاتی۔ یہاں خواتین اوردلتوں پر طرح طرح کی سماجی پا بندیاں بھی عائد تھیں ۔ صدیوں کی دماغی غلامی کے چلتے شعوری سطح پرمعاشرہ کی عقل و فہم کے سارے دروازے بند تھے۔ جوتی با اورساوتری جانتے تھے کہ جب تک معاشرہ میں علم کی شمع روشن نہیں کی جاتی تب تک یہ تاریکی مٹنے والی نہیں ہے۔
اُنہوں نے من ہی منلدکلرکیون لڑکیوں اور دلتوں کی تعلیم کا منصوبہ بنا لیا۔ خواتین کی تعلیم کے میدان میں انکے سامنے سب سے بڑی رکاوٹ تھی ۔۔۔۔ کہ
خاتون ٹیچر کہاں سے آئے؟
اس ذمہ داری کو نبھانے خود ساوتری بائ آگے آئیں۔ اس طرح سن 1848 میں لڑکیوں کے لئے پونہ میں پہلی اسکول کا آغازہوا ۔
اعلیٰ طبقہ کی مخالفت
ساوتری بائ جب اپنے گھرلڑکیوں کو پڑھانے لگی تب انکے اس کام کی اشرفیہ طبقہ کے درمیان خوب مخالفت ہونے لگی۔ ان پرسماجی دباو بنا یا گیا۔ یہاں تک کہ انکے والد کھنڈوجی کو سماجی بائکاٹ جھیلنا پڑا۔ اعلیٰ ذات کے برہمن چراغ پا تھے۔ اُنہوں نے جوتی با کے والد گووند راؤ پر دباؤ بنایا۔ بیٹے بہو کے ذریعے کیے جا رہے ادھرم کے بارے میں بتایا۔ والد نے جوتی با کے سامنے اسکول کا کام بند کرنے یا گھر چھوڑکر چلے جانے کی شرط رکھی۔ ۔۔۔ جوتی با پھولے اپنے ارد ہ پر اٹل رہے۔ لیکن انہیں آبائی مکان خالیخرن کرنا پڑا۔
مکان کی تلاش میں ساوتری اورمہاتما پھولے بھٹکتے رہے لیکن شہرمیں کوئی بھی شخص پھولے کو سہارا دینے کے لئے تیار ںہ تھا۔ ہر طرف اُن کا سماجی بائیکاٹ ہو رہا تھا۔ ایسی مشکل گھڑی میں انہیں کے طالب علمی کے ساتھی عثمان شیخ فرشتہ بن کر سامنے آئے۔ انھوں نے جوتی با کو اپنے گھر پناہ ہی نہیں دی بلکہ اپنے باڑہ میں ہی لڑکیوں کے اسکول کا معقول انتظام بھی کروا دیا۔۔۔۔۔
فاطمہ شیخ
جوتی با پھولے کے دوست عثمان شیخ اپنی چھوٹی بہن کےساتھ پونہ کے گنج پیٹھ یعنی آج کے مومن پورہ میں ہی رہا کرتےتھے۔
ایسا قیاس لگا یا جاتا ہے کہ عثمان شیخ کے خاندان کا تعلق شمالی ہندوستان سےرہا ہے ۔ غدر سے پہلے ملک میں جوافرا تفری مچی تھی اس دوران جو قافلے شمالی ہندوستان سے مہاراشٹر کی طرف چل پڑے تھے ایسے ہی کسی قافلہ میں عثمان شیخ کا خاندان بھی شامل تھا۔ اس دوران جو مسلمان ہجرت کر کے مہارشٹر کی جانب مالیگاؤں، بھیونڈی اور ممبئی۔۔۔ جیسےعلاقوں میں بڑی تعداد میں آباد ہوئے۔۔ ایسے ہی کسی کافلے میں عثمان شیخ کا خاندان بھی مالیگاؤں سے ہوتا ہوا پونہ پہنچا تھا۔ یہاں آ کربہت جلد ہی یہ لوگ مقامی مراٹھی تہذیب ؤ ثقافت کے رنگ میں رچ بس گیے۔ اپنی چھوٹی بہن فاطمہ کوعثمان شیخ نے گھرپرہی تعلیم دلوائی تھی۔ فاطمہ نے اسکولی بورڈ پاس کیا تھا۔ ساوتری بائ کی رہ نمائی میں انھوں نے اب ٹیچرکی ٹرینگ مکمل کر فاطمہ ساوتری بائی کے مشن سے جڑ گئیں۔
آخردونوں کی محنت رنگ لائیں
فا طمہ شیخ جیسی ذہین اور کمیٹڈ خاتون کی حمایت پاکر ساوتری بائی کا حوصلہ دوگنا ہو گیا۔ دونوں اب تعلیم نسواں کے لئےایک ساتھ جدوجھد کرنے لگیں ۔۔ شروعاتی دنوں میں سرپرست اپنی لڑکیوں کے داخلہ کے لیے راضی ہی نہ ہوتے ۔
اس پرساوتری بائی اور فاطمہ خود گھر گھرجاتی بڑے پیارسے لوگوں سے مخاطب ہوتیں انہیں تعلیم کی اہمیت بتا یا کرتیں ۔ آخرایک دن انکی محنت رنگ لائی۔ کچھ سرپرست اپنی بیٹیوں کو مدرسہ میں روانہ کرنے کے لئے راضی ہوگیے۔ پہلے پہل صرف پانچ سے چھ لڑکیاں اسکول آنے لگیں ۔ اس طرح لڑکیوں کے پہلے اسکول کی دوبارہ شروعات ہو پائی۔
مہاراشٹرکی ترقی پسند روایت کا اثر
عثمان شیخ اور فاطمہ شیخ کا انیسوی صدی میں تعلیم نسواں جیسے سماجی کام کے لئے آگےآنا بڑی اہمیت کا حامل ہے۔
یاد رہے ساوتری بائ اورفاطمہ شیخ کی اس مہم کا آغاز 1848 میں ہوچکا تھا ۔ جبکہ سرسید احمد خان کی علی گڑھ تحریک کا آغاز 1872 کےآس پاس ہوتا ہے یعنی ساوتری بائ اور فاطمہ شیخ نے تعلیم نسواں کی شروعات سرسید سے بیس بائیس سال پہلے کردی تھی۔
صوبہ مہارشٹر میں سنت گیانشور، تکا رام، شاہ شریف جی جیسے صوفی سنتوں کے اصلاحی کاموں کی ایک پختہ روایت رہی ہے۔ ان تحریکوں کا اثر مقامی مسلمانوں پربھی دکھائی دیتا ہے ۔ خاص طور پرایسے مسلمان جنہوں نے مقامی زبان و تہذیبی ثقافتی ورثہ سے خود کو جوڑے رکھا، یعنی جن کی مادری زبان مراٹھی رہی اُنکے یہاں سماجی بیداری کا اثر ملک کے دیگر مسلمانوں کی بہ نسبت نمایاں نظرآتا ہے۔
مہاراشٹر کے ساحلی علاقہ کوکن اورمغربی مہاراشٹر کے مسلمانوں میں اس تحریک کےاثرکوواضح طورپردیکھا جا سکتا ہے ۔اس خطہ کے مسلمانوں میں فکری سطح پرروشن خیالی کے ساتھ ساتھ ترقی پسند رجحان بدرجہ اتم پایا جا تا ہے فاطمہ شیخ اسی روایت کی امین ہے ۔
فاطمہ شیخ اورساوتری بائی کا کمٹمنٹ
فاطمہ شیخ کے ساتھ جڑ جانے پرساوتری بائ کا کام بہت آسان ہو گیا۔ اب دونوں بستِی محلوں میں گشت لگاتیں ،عورتوں کو تعلیم کی اہمیت سے آگاہ کرواتیں۔ گھر کے مردوں کو سمجھاتیں۔ فاطمہ بھی مسلم بستیوں میں جاکر لڑکیوں کو تعلیم کی طرف راغب کرواتیں ۔ اعلیٰ طبقہ ساوتری بائ اورفاطمہ شیخ کی اس مہم سے خاصہ ناراض تھا ۔
اب ان کی مخالفت کی ہونے لگی ۔۔ راستہ چلتے لوگ ان پر پتّھر پھینکنے لگے۔ کبھی کبھی اُنکے کپڑوں پرگوبریا کیچڑ ڈال دیا جاتا۔ لیکن ساوتری بائ اور فاطمہ شیخ ثابت قدم رہیں ۔ دونوں لگن سے اپنے کام میں جٹی رہیں۔
1850سن
میں فاطمہ شیخ اور
ساوتری بائی نے دو تعلیمی ٹرسٹ قائم کیے۔ان کے نام تھے ’نیٹیو فِمیل اسکول، پونے۔ اورساتھ ہی پسماند ہ طبقے کے لئے
“سوسائٹی فار پرموٹنگ دی ایجوکیشن آف مہاراینڈ مانگ” ۔۔۔,
۔ ان دونوں ٹرسٹ کے دائرے میں ہی دیگ ادارے بھی قائم ہوئے ۔ جن کی قیادت ساوتری بائی پھولے اور فاطمہ شیخ نے کی۔ مختلف علاقوں میں اس طرح کے قریباً اٹھارہ اسکول قائم کیے گیے۔
جیسے جیسے اسکولوں کی تعداد بڑھنے لگی تب اساتذہ کی ڈمانڈ بھی بڑھنے لگی۔ اسی دوران پونہ میں ہی خواتین کے لئے ایک ٹیچرز ٹریننگ سینٹرکا بھی قیام عمل میں آیا۔
فاطمہ شیخ کی قابلیت
ساوتری بائ
کی غیرموجودگی میں ان اداروں کا پُورا مینیجمنٹ فاطمہ شیخ کے زمہ ہوتا۔
ایک بار ساوتری بائ شدید بیمارہوگئیں۔۔ اُنہیں کئی مہینوں تک دوسرے شہر ستارا میں رہنا پڑا ایسی صورت میں فاطمہ شیخ نے بڑی پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ سبھی اداروں کے کام کو دیکھا۔ ساوتری بائ نے تعلیم کے ساتھ ساتھ بے سہارا عورتوں کے لئے بھی آشرم قائم کیے۔ میں فاطمہ ہرمہم میں اُنکے ساتھ رہیں
فاطمہ شیخ کی قابلیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔ 1853 کی بات ہے۔ جوتی با کی اس تعلیمی مہم سے انگریز افسربہت خوش تھے۔ سرکار کی طرف سے جوتی با کو اُنکے اس سماجی کام کے اعزاز میں، اُنہیں کے اسکول میں ایک جلسہ منعقد کرنے کے لیے کہا گیا تاکہ مقامی لوگوں اور طلبہ کے سامنے جوتی با پھولے ، ساوتری بائ اور فاطمہ شیخ کے کا م کو سراہا جائے۔ میجر کینڈی اس جلسہ کے صدر کے طور پر مدعو تھے۔ اس موقع پر پورے جلسہ کا احتمام اور نظامت کی زمہ داری فاطمہ شیخ نے انجام دی ۔ جلسہ کے آخر میں میجر کینڈی نے فاطمہ شیخ کواس جلسہ کی کامیابی کے لیے خاص طور پرمبا رک باد دی انکی قابلیت اور ذہانت کی خوب پزیرائی کر اُنکا حوصله بڑھایا۔
فاطمہ شیخ کی وداعی تقریب
فاطمہ شیخ کے لئے
ساوتری بائ ایک مینٹر کی طرح تھیں۔
ہر قدم پر وہ فاطمہ کے ساتھ بنی رہیں ۔ انہیں فاطمہ کی شادی کی بہت فکر تھی ۔۔ فاطمہ کے لئے قابل لڑکے کی تلاش ہونے لگی۔ آخر ناسک کے پاس کسی مقام سے ایک قا بل لڑکے کا رشته فاطمہ کے لیے آیا۔ شادی کا آدھا خرچ خود ساوتری بائی نے اٹھایا۔ خوشی خوشی عثمان شیخ اور پھولے پریوار نے فاطمہ کووداع کیا۔۔
شادی کے کچھ دن بعدجب فاطمہ اپنے میکے پونہ لوٹی۔ تو فاطمہ شیخ کے اعزاز میں ساوتری بائی نے ایک وداعی تقریب کا احتمام کیا۔ جسکی صدارت خود ساوتری بائ نے فرمائیں ۔ اپنے صدارتی خطبہ میں ساوتری بائ پھولے نے فاطمہ شیخ کی لگن، محنت اور خواتین کی تعلیم کے لئے کی گئی انکی جددوجہد کوسب کے سامنے بڑے ہی جذباتی انداز میں پیش کیا۔
نم آنکھوں سے فاطمہ کو وداعیہ دیا گیا ۔
تعلیم نسواں کے میدان میں فاطمہ شیخ کے کام کی اہمیت اس لیے بھی اہمیت کی حامل ہے ۔ آج سے قریباً دو سوبرس پہلے ایک مسلم خاتون کا اس طرح آگے آکرپسماندہ طبقہ کی بچیوں کو تعلیم کی روشنی سے رو شناس کروانا، سماج کی مخالفت سہنا۔ایک انقلابی قدم ہے۔
ساوتری بائ پھولے کے کام سےآج بیشتر لوگ واقف ہیں۔
پونہ یونیورسٹی کا نام بھی ساوتری بائی کے نام سے منسوب ہے
اس کے برعکس فاطمہ شیخ تاریخ میں گمنام ہی بنی رہی۔ دوسری طرف مسلم معاشرہ نے بھی فاطمہ جیسی جا نبازخاتون کواپنا آئیڈیل نہیں بنا پایا۔
حال ہی میں 2014 کو مہارشٹراسٹیٹ ایجوکیشن بورڈ ’بال بھارتی، نےاس طرف توجہ دی اور اُردو زبان کی درسی کتاب میں فاطمہ شیخ کی خدمات پرایک مضمون دیا گیا۔
ساوتری بائی پھولے اورفاطمہ شیخ نے خواتین کی فلاح وبہبودکے لئےجوعلم کی شمع روشن کی تھی وہ آج بھی پوری آب وتاب کے ساتھ دمک رہی ہے۔
ساوتری بائی پھولے اور فا طمہ شیخ کی کاوشوں کا ہی نتایجہ ہے ک بھارت میں علم و ہنرکے ہرمیدان میں لڑکیاں کامیابی کے پرچم لہرا رہی ہے ہیں۔