ڈاکٹر علیم خان فلکی
صدر سوشیوریفارمس سوسائٹی، حیدرآباد
9642571721
ہم کو تصویر کے دونوں رُخ دیکھنے ہوں گے۔ تصویر کا ایک رخ ہے کہ مرکزی حکومت ہو کہ ریاستی حکومتیں، یہ ساری اوقافی جائدادوں پر اس طریقے سے قابض ہوچکی ہیں کہ اب ان کو خالی کروانا ناممکن ہے۔ دہلی میں بی جے پی نے 123 اوقافی جائدادوں بشمول 82 قبرستانوں کا انتظام وقف بورڈ اور متولیوں کے اختیارات کو معطّل کرکے راست اپنے اختیار میں لے لیا ہے۔ اس کے مقاصد کیا ہیں یہ تو ہم نہیں جانتے لیکن یہ جانتے ہیں کہ جو کچھ بھوپال بلکہ پورے مدھیہ پردیش، راجستھان، ہریانہ، تلنگانہ اور کرناٹک میں ہوا ہے وہی کچھ ہونے جارہا ہے۔ بھوپال میں کُل 187قبرستان تھے اب گھٹ کر 23 رہ گئے ہیں، اور شہریوں کو تدفین میں بہت تکلیف ہورہی ہے۔ تلنگانہ میں 77ہزار ایکڑ زمین اوقاف کی ملکیت تھی لیکن 55 ہزار ایکڑ پر قبضہ ہوچکا ہے، اور باقی اوقاف کے کنٹرول سے باہر ہے۔ ان قبضوں کے خلاف 3 ہزار مقدمات سالہاسال سے عدالتوں میں چل رہے ہیں، اور چلتے رہیں گے۔
تصویر کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ خود مسلمان قبضے کرنے میں سرکار سے پیچھے نہیں ہیں۔حیدرآباد کا ایک واقعہ یوٹیوب پر وائرل ہوچکا ہے، پچھلے ہفتہ NTR گارڈن کے قریب کسی میت کی اس کے ہڑواڑ میں دفن کرنے کے لئے جب قبر کھودی جارہی تھی تو متولی صاحب نے آکر کھدائی رکوادی۔ اور بتایا کہ وہ زمین انہوں نے کسی اور کو دے دی ہے۔ یہ نہیں کہا کہ بیچ دی ہے۔ ایسے واقعات پورے ملک میں اتنے زیادہ ہورہے ہیں کہ قبرستانوں میں پختہ مکان بن چکے ہیں، یہی نہیں بلکہ کسی نے قبضہ کرکے اصطبل بنالیا تو کسی نے ورکشاپ، کسی نے اپنے گائے بیل بکریاں باندھنی شروع کردی ہیں تو کسی نے دوکانیں تعمیر کرلی ہیں۔کئی قبرستانوں میں قبروں کی قیمت وصول کی جاتی ہے جس کے شرمناک واقعات کوویڈ کے دور میں لوگ دیکھ چکے ہیں۔بلکہ ہمیں ایک واقعہ یاد آگیا۔ ایک متولی صاحب جو سخت مالی پریشانیوں کا شکار تھے، کوویڈ کے بعد ان سے ملاقات ہوئی، خیر خیریت بتاتے ہوئے انہوں نے فرمایا کہ کوویڈ کے بعد الحمدلللہ حالات اچھے ہوگئے۔ اندھ بھکت ہر دھرم میں ہوتے ہیں، ہمارے ہاں بھی ہیں جن کا یہ عقیدہ ہے کہ ولی کی قبر کے قریب تدفین ہونے سے مغفرت یقینی ہوجاتی ہے، اسی لئے ایسے ایسے اولیااللہ کے قبرستان بھی ہیں جہاں ولی کی قبر کے قریب تدفین کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے، لیکن اگر پانچ دس لاکھ نذرانہ پیش کردیا جائے تو خالی جگہ نکل آتی ہے۔ جب خود مسلمانوں کا ہی یہ حال ہے تو حکومتوں سے کیا شکایت کی جائے۔ لیکن یہ تلخ حقیقت بھی جان لیں کہ چاہے کوئی سرکار ہوکہ لانکوہِلز جیسے بزنس ہاؤزس، جب تک ہمارے اپنے سیاستدان، سجّادے اور متولی دلّالی نہیں کرتے، کسی کی ہمت نہیں ہوسکتی کہ قبرستانوں یا اوقاف کی زمینوں پر قبضہ کرسکیں۔ یہ مقبوضہ زمینیں شکوہ کررہی ہیں کہ
گھر سے دشمن بھی نظارے کو تڑپ کر نکلا
مرے ہر زخم سے اک دوست کا خنجر نکلا۔
کئی سادہ لوح حضرات چھوٹی چھوٹی تنظیمیں بنا کر پولیس اور عدالت جانے کی بات کرتے ہیں، جلسے کرکے ایسی ایسی دھواں دھار تقریریں کرتے ہیں گویا پولیس فوری حرکت میں آجائیگی، حکومتیں ڈر جائینگی اور لینڈ گریبرز اور دلّال قبضے چھوڑ کر بھاگ جائیں گے۔ ان خوش فہمیوں میں کئی دہے گزر چکے ہیں۔ فائدہ توکچھ نہیں ہوا لیکن ان شعلہ بیانوں کو ایک چھوٹے موٹے درجہ کے لیڈر کہلانے کا حق مل گیا۔
اب کسی حکومت یا کورٹ سے انصاف کی توقع رکھنا فضول ہے۔ انصاف اِس وقت دنیا کی سب سے مہنگی ترین شئے ہے، لیکن مسلمان اپنی جیبوں سے پیسہ نہیں نکال نہیں سکتے۔ انصاف کے لئے سڑکوں پر آنا پڑتا ہے، نچلی ذاتیں تو یہ کرسکتی ہیں، لیکن مسلمانوں کی بزدلی اور خوف کا یہ عالم ہے کہ ان کو خوابوں میں بھی اب UAPA, ED اور POTA نظرآتے ہیں۔
سمجھداری کا یہ تقاضہ ہے کہ اب سکڑتے ہوئے قبرستانوں کا حل تلاش کریں۔ جو اختیار میں نہیں ہے اس کی بات نہ کریں بلکہ اس کی بات کریں جو ہمارے اختیار میں ہے۔ اس کا حل وہی ہے جو شریعت نے دیا ہے۔ مثلاً
۱۔ قبریں مکمل نبی ﷺ اور صحابہؓ کی قبروں کی طرح بنائیں
رسول اللہ ﷺ کے دنیا سے پردہ فرمانے کے 650 سال تک بھی ان کی قبرِمبارک کھلے آسمان کے نیچے زمین سے ایک بالشت اونچی رہی۔ اسی پر سے تپتی ہوئی دھوپ بھی گزرتی رہی، برسات بھی اور سردی بھی۔ پھر کسی حکمران نے قبرِ مبارک پر لکڑی کا ایک سائبان بنوایا۔ پھر 18th سنچری میں سلطنتِ عثمانیہ والوں نے اس کے اوپر سبز گنبد تعمیر کروائی۔ یہ اسلئے ضروری ہوا کہ مسجدِ نبوی میں نماز پڑھنے ساری دنیا سے لوگ آتے ہیں جن کو سائے کی ضرورت تھی۔ ورنہ نبیﷺ کی قبرِ مبارک آج بھی وہی کچی ہے جس کے اوپر لکڑی کے سائبان پر غلاف ڈال دیا گیا ہے تاکہ لوگ اس پر چٹھیاں اور ڈوریاں وغیرہ نہ پھینک سکیں۔ جنت البقیع میں مدفون ہزاروں قبریں جن میں بڑے بڑے صحابہؓ اور صحابیات ؓ کی قبریں بھی ہیں آج تک بھی کچی ہی ہیں۔ تقریباً سارے عرب ممالک میں قبرستانوں کایہی طرز ہے۔ حتی کہ سعودی عرب کے شاہ عبدالعزیز، فیصل، فہد یا عبداللہ ہوں کہ امارات کے نیہان، سب کی قبریں کچی ہیں۔ترکی میں بھی یہی رواج ہے۔ جن لوگوں نے ارتغرل سیرئیل دیکھی، وہ جانتے ہیں کہ قدیم ترکوں میں بھی قبر کو پکی بنانے کا کوئی رواج نہیں تھا۔
اسی کی بنیاد پر علمائے جمہور کا فتویٰ ہے کہ قبر اور آسمان کے درمیان کسی قسم کا کوئی پردہ حائل نہ ہو۔قبر کی تعمیر کا اسلامی شریعت میں طریقہ یہ ہے کہ خالی زمین مل جائے تو فبھا، ورنہ کسی بھی پرانی قبر میں اگر ہڈیاں بوسیدہ ہوچکی ہوں تو ان ہڈیوں کو ایک جانب کرکے ایک مٹی کی آڑ بنادی جائے اور نئی میّت کو وہیں دفنا دیا جائے۔ اور اگر کہیں میت صحیح سالم ملے، جیسا کہ کبھی کبھی اللہ کے نیک بندوں کی میّت کئی سال بعد بھی ایسی ہی ہوتی ہیں جیسے آج ہی تدفین ہوئی ہو، ایسی قبروں کو دوبارہ بند کردیا جائے۔ اگر تمام قبرستانوں کو جس طرح جنت البقیع میں کیا جاتا ہے، تمام قبروں کو برابر کرکے سعودی عرب، کویت اور امارات وغیرہ کے قبرستانوں کی طرح کردیا جائے، قبروں کو صرف مٹی کی بناکر زمین سے ایک بالشت اوپر رکھا جائے۔ قبر کے اندر کسی قسم کے پتھر، سِل یا اینٹ استعمال نہ ہوں۔ پھر قبروں میں ہڈّیاں بوسیدہ ہوجانے پر دوسری میت کو جگہ دے دی جائے تو کوئی بھی قبرستان ایک ہزار سال تک بھی ناکافی نہیں ہوگا۔ بھوپال میں جس طرح تمام پکّی قبروں کو منہدم کرکے نئی قبروں کے لئے جگہ ہموار کی جارہی ہے، یہ طریقہ پورے ملک میں رائج ہونا چاہئے۔ حیدرآباد میں قبرستان بقیع واقع بنجارہ ہِلز ایک اچھی مثال ہے۔ تمام قبرستانوں کے منتظمین اگرجاکر جائزہ لیں تو رہنمائی مل سکتی ہے۔
۲۔ کچی قبر کے احکام
یوں تو اس سلسلے میں کئی احادیث ملتی ہیں، یہاں ہم صرف تین احادیث کا ہی ذکر کریں گے۔ جو صحاح ستہ کے راویوں نے بیان کی ہیں۔
۱۔ حضرت جابرؓ سے مروی حدیث میں ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے قبربنانے کے تعلق سے تین چیزوں سے سخت منع فرمایا۔ ایک ”اَنؐ یُجصّصَ“ یعنے ان کو گچ لگا کر پختہ نہ کیا جائے۔ (جس زمانے میں سمنٹ ایجاد نہیں ہوئی تھی لوگ گچ کا استعمال کرتے تھے)۔ دوسرے یہ کہ ”اَن یُقعَدَ“ یعنی قبروں پر بیٹھا نہ جائے۔ تیسرے یہ کہ ”اَن یُبنٰی علیہ“ یعنی ان پر عمارت تعمیر نہ کی جائے۔
۲۔ مسند احمد میں بحوالہ الترغیب والترہیب جلد ۴ صفحہ ۴۴ پر ایک حدیث نقل کی گئی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے قبر پکّی اور اونچی بنائی اس نے محمد کی شریعت سے اختلاف کیا۔
۳۔ حضرت علیؓ نے ایک صحابی ابوالھیاج اسدی کو دو کام دیئے اور فرمایا کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے بھی اسی کام کے لئے بھیجا تھا۔ ۱۔ جو بھی اونچی قبر نظر آئے سب کے برابر کردو یعنی ایک بالشت اوپر رہیں۔ ۲۔ کوئی بھی بُت یا تصویر قبر پر ہو تو اسے مٹا دو۔ (اس زمانے میں مشرک اپنی قبروں پر بت اور عیسائی کرائسٹ کی تصویریں لگاتے تھے)۔
ایک اختلاف
قبر کے اوپر قبّہ یعنی گنبد یا چھت بنانے کے بارے میں اختلاف ہے۔ بریلوی علما کے نزدیک یہ جائز ہے۔ لیکن قبر کو پکّی نہ بنانے کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں۔ چونکہ کئی ایسے اولیا کے مزار ہیں جہاں لوگ عقیدت کے ساتھ آتے ہیں، اس لئے ان کو سایہ فراہم کرنے اگر وہاں عمارت بنائی جائے تو بعض علما کے نزدیک یہ جائز ہے۔ لیکن قبر کو پکی بنانے کے بارے سبھی علمائے حق جو چاہے بریلوی ہوں کہ دیوبندی یا اہلِ حدیث، سبھی کے نزدیک جائز نہیں۔ اب اِس دور میں دو قسم کے مزارات ہیں۔ ایک تو ان حقیقی بزرگانِ دین کی مزارات جوواقعتا اولیااللہ تھے۔ دوسری بے شمار جعلی پیروں کی مزارات جو مذہبی تجارت کے اڈّے ہیں۔ اللہ کے نبیﷺ کی آخری پانچ چھ دن کی وصیّتیں بخاری و مسلم وغیرہ میں نقل کی گئی ہیں جن میں آپ ﷺ نے بکثرت یہ فرمایا کہ خبردار قبروں کو دوسری امتوں کی طرح عبادت گاہ نہ بنادینا جس طرح انہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو بنادیا۔ جو حقیقی اولیا اللہ تھے وہ ہرگز ایسے نہیں تھے کہ اپنے جانشینوں کو پکی قبریں بنانے کی اجازت دے کر بندوں کو استعانت طلب کرنے کے لئے ایک مذہبی پِک نِک کی طرح قبروں پر آنے کی ترغیب دیں۔ یہ کام کچھ جانشینوں نے بہت چالاکی سے کردیا اور قبروں کو سنگ مرمر جیسے قیمتی پتھروں سے مزیّن کرکے فائیواسٹار قبروں میں تبدیل کردیا، صندل، پنکھے، عرس اور کرائے کے قوّالوں کے ذریعے خوب اس کی مارکٹنگ کی۔ مرحوم کے بارے میں من گھڑت قصّے سنانے والے اورلکھنے والوں کو خلیفہ بنادیا گیا۔ ایسی کتابوں یا ملفوظات کو لکھے جب دو تین سو سال گزر جاتے ہیں، تو فطرتِ انسانی ان کو وحی کی طرح قبول کرلیتی ہے۔ کبھی آپ نے غور کیا کہ اکثر اِن مزارات پر کسی نہ کسی مشہور فلم اسٹار، کرکٹر، سیاستدان یا سیلیبریٹیز کی حاضری کی تصویریں اخبارات اور سوشیل میڈیا پر گشت کرتی ہیں،ایسا نہیں کہ یہ لوگ مرحوم بزرگ کے معتقد ہوتے ہیں۔ یہ لوگ خود نہیں آتے بلکہ لائے جاتے ہیں، اور لانے والوں کو درگاہ سے خوب کمیشن ملتا ہے۔ یہی وجہ ہے کئی درگاہیں ایسی ہیں جہاں کے غلّہ کا کئی کئی کروڑ میں ہراج ہوتا ہے۔ یہ پیسہ اوقاف والوں اور سجّادوں کے خاندانوں میں تقسیم ہوجاتا ہے۔ جن اولیااللہ نے اللہ کے دین کو پھیلانے میں اپنی عمریں لگادیں، ایک کمبل اور ایک چٹائی جن کی کل متاعِ حیات تھی، ان کی نسلوں نے اپنے بزرگوں کی قلندری کو بیچ کر عالیشان، رعب و دبدبے والی زندگی کوخرید لیا ہے۔ ان میں سے کئی ایسے ہیں جو قبروں کی زمین بیچ رہے ہیں۔
۳۔ قانون کیا کہتا ہے
ہندوستان کا قانون یہ کہتا ہے کہ اگر کوئی زمین کسی فرد کی یا اُس کے خاندان کی ذاتی میراث ہو، اس پر وہ اڈوانس میں قبر کی جگہ محفوظ کرسکتا ہے، یا کسی کو بھی بیچ سکتا ہے۔ لیکن اگر زمین وقف کی ہو تو متولی یا سجّادہ اُس زمین کو بیچنے یا کسی کو اڈوانس میں دینے کا اختیار نہیں رکھتا۔ متولی یا سجّادے اس زمین کے مالک نہیں ہوتے، صرف انتظامیہ کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔
۴۔ قبروں کو کب تک باقی رکھا جائے؟
جب تک کسی قبر پرآکر فاتحہ یا دعا پڑھنے والے موجود ہیں اُس وقت تک توایک جذباتی لگاؤ کے پیش نظر اُس قبرکے باقی رہنے کا جواز تو سمجھ میں آتا ہے۔لیکن اس کے بعد بھی اگرقبریں باقی رہیں تو نئی تدفین کے لئے جگہ کہاں سے آئے گی، یہ سوچنا ضروری ہے۔ اب حال یہ ہوگیا ہے کہ کئی اضلاع میں لوگ ووٹ بھی اس لئے دینے لگے ہیں کہ الیکشن لڑنے والے وعدہ کررہے ہیں کہ جیتنے کے بعد مسلمانوں کو دو چار ایکڑ قبرستان کے لئے زمین دلوائیں گے۔ بجائے تعلیم، روزگار، کالج، یا کوئی اور ترقی کی چیز مانگتے، لوگ ووٹ کے بدلے قبرستان مانگنے لگے ہیں۔
۵۔ جمعہ کے خطبوں اور بیانات میں سمجھایا جائے۔
علما اور جمعہ کے خطیب حضرات جس طرح شراب، سود، جہیز وغیرہ پر خطبے دیتے رہتے ہیں، ان میں کچی قبروں کی افضلیت پر بھی خطبے پیش کریں، اور مضامین یا پمفلٹ کے ذریعے یہ شعور جگائیں تو رائے عامہ ہموار ہوسکتی ہے۔ ورنہ عام لوگ تو بات مان لیتے ہیں لیکن کچھ لوگ مُنڈ بکروں یا بیلوں کی طرح ہوتے ہیں، کسی کی نہیں سنتے، اور پکی قبر بنانے کے لئے لڑنے مارنے مرنے پر تیار ہوجاتے ہیں۔ جب کہ وہ بھی یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ خود اِن کے مرنے کے بعد اُن کے پوتے یا نواسے زندگی بھر اُدھر نہیں پھٹکیں گے، پھر بھی جس طرح یہ کسی بھی بِزی سڑک کے کنارے اپنی کار پارک کرکے بے حِسی سے چلے جاتے ہیں، یہ احساس نہیں کرتے کہ ان کی وجہ سے ٹرافک کو کتنی تکلیف ہوگی، اسی طرح یہ لوگ جانتے ہیں کہ قبرستانوں کی زمین تنگ ہوتی جارہی ہے لیکن پھر بھی یہ بداحساس اور خودغرض لوگ اپنے ابّا کی قبر پختہ بناکردوسری قبروں کا راستہ روک دیتے ہیں۔