Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors
Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

پیاس سے تڑپتے راجستھان کے دیہی علاقے

by | Sep 13, 2023

سریتا آچاریہ
بیکانیر، راجستھان
ہندوستان جیسی وسیع زمین پر مختلف آب و ہوا اورجغرافیائی حالات نظر آتے ہیں۔ جہاں میگھالیہ کے ماسن رام اورچیراپونجی کو سب سے زیادہ بارش والے مقامات کے طور پر ریکارڈ کیا گیا ہے،وہیں راجستھان کے جیسلمیر کوملک کاسب سے خشک ترین جگہ سمجھا جاتا ہے۔ جہاں ملک کے دیگرتمام اضلاع کے مقابلے میں کم سے کم بارش ریکارڈ کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ راجستھان میں پانی کا مسئلہ ایک عام مثال ہے۔ صحرائی ریاست ہونے کی وجہ سے آج بھی یہاں کے کئی گاؤں پانی کو ترس رہے ہیں۔ تاہم باد شاہوں اور شہنشاہوں نے بھی مقامی لوگوں کے مسائل کے حل کے لیے بہت کوششیں کیں۔ اس کے تحت سوتیں، کنویں اور تالاب بنائے گئے۔ لیکن اس سے مسئلہ پوری طرح حل نہیں ہوسکا۔ لوگوں کو پینے کا پانی ملنا شروع ہوا تو آبپاشی کا مسئلہ جاری رہا۔آزادی کے بعد مرکزسے لے کرریاستی حکومت تک سبھی نے اس مسئلہ کے حل پرسنجیدگی سے توجہ دی۔ اس سلسلے میں 30 مارچ 1958 کو آبی پروجیکٹ ’راجستھان کینال‘ کا آغاز کیا گیا۔ جسے بعد میں 2 نومبر 1984 کواندرا گاندھی کینال پروجیکٹ میں تبدیل کردیا گیا۔ لیکن اس کے بعد بھی لوگ پانی کے مسئلہ سے نبرد آزما ہیں۔ کئی دور دراز دیہات پانی کو ترس رہے ہیں۔ ریاست کے بیکانیر میں واقع لنکرنسر بلاک کا دھانی بھوپالرام گاؤں اس کی ایک مثال ہے، جہاں لوگوں کو پانی کی کمی کا سامنا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ مسئلہ راجستھان کے دیہاتوں اور اضلاع میں پریشانی کا باعث بنے گا؟
اس سلسلے میں گاؤں کے رہنے والے 40 سالہ ونود کا کہنا ہے کہ”ہمارے بزرگ کہتے تھے کہ اس گاؤں میں پہلے پانی کا مناسب انتظام تھا۔ پانی اتنا دستیاب تھا کہ لوگ اگلی بارش تک اپنی تمام ضروریات پوری کر سکتے تھے۔ لیکن اب کوئی بہترانتظامات نہیں ہیں۔ پہلے لوگ پانی جمع کرنا جانتے تھے۔ کئی سال پہلے ایک کنواں بنایا گیا تھا۔ اس وقت اس گاؤں کی آبادی بہت کم تھی۔ جمع ہونے والا بارش کا پانی انہیں ایک سال تک برقرار رکھنے کے لیے کافی تھا اور جانوروں کے لیے بھی استعمال کیا جاتا تھا۔“انہوں نے بتایا کہ اس گاؤں میں پہلے مکینوں کے ساتھ ساتھ جانوروں کے لیے پانی کا بھی معقول انتظام تھا۔ لیکن جیسے جیسے گاؤں کی آبادی بڑھنے لگی، ان کی دیکھ بھال بھی بند ہونے لگی۔ جس کی وجہ سے لوگوں اور جانوروں کو پانی کی قلت کا سامنا کرنی پڑ رہی ہے۔معلوم ہو کہ اندرا گاندھی نہر سے لنکرنسر میں پانی آتا ہے۔جس کو ٹینکر کے ذریعہ گاؤں تک لایا جاتا ہے۔ جن کا یومیہ خرچہ پانچ ہزار روپہ ہے۔ لیکن اس کے باوجود جانوروں کے لیے پانی کا کوئی معقول انتظام نہیں ہے۔ جب بارش ہوتی ہے تو لوگ پانی جمع کرتے ہیں۔ جو گاؤں کے جانوروں کے پینے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ جبکہ گھروں کے لیے پانی ٹینکروں سے لایا جاتا ہے۔ جس کی قیمت 1000 سے 1500 روپے کے لگ بھگ ہے۔ جبکہ گاؤں کے لوگوں کی آمدنی اتنی نہیں ہے کہ وہ ہر روز اس اخراجات کو برداشت کر سکے۔ اس لیے انہوں نے بارش کے پانی پر انحصار شروع کر دیا ہے۔ اب بارش کی وجہ سے صرف ایک فصل حاصل کی جا سکتی ہے۔ جس کی وجہ سے گاؤں والوں کی معاشی حالت مسلسل کمزور اور قابل رحم ہوتی جا رہی ہے۔ اس سلسلے میں گاؤں کے 75 سالہ بزرگ تلورام جاٹ کا کہنا ہے کہ’ہم نے گاؤں کے سرپنچ سے بھی پانی کی قلت کی شکایت کی ہے، لیکن کوئی شنوائی نہیں ہو رہی ہے۔ پانی کا بحران اس حد تک بڑھ رہا ہے کہ کوئی کچھ کرنے کے قابل نہیں۔ مسئلہ جلد حل نہ ہوا تو گاؤں والوں کو پانی کے شدید بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔‘
راجستھان میں ذات پات کے بحران نے دیہی علاقوں میں پانی کے بحران کا مسئلہ بھی بڑھا دیا ہے۔ اس سلسلے میں نچلی برادری سے تعلق رکھنے والی گاؤں کی ایک نوجوان لڑکی لکشمی کا کہنا ہے کہ’گاؤں میں ذات پات کی بنیاد پر پانی تقسیم کیا جاتا ہے۔ جب گاؤں کے کنویں میں پانی آتا ہے تو سب سے پہلے بڑی ذات کی خواتین کو پانی بھرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ اس کے بعد ہی نچلے طبقے کی خواتین کو پانی نکالنے کی اجازت ملتی ہے۔‘ اس کا کہنا ہے کہ اس گاؤں میں سب سے بڑا مسئلہ پانی کی فراہمی کا ہے۔ سرپنچ سے بات کرنے کے باوجود کوئی شنوائی نہیں ہو رہی ہے۔ گاؤں کے لوگ لنکرنسر بلاک سے پانی کے ٹینکر منگواکر اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔ لیکن یہ مسئلہ کا مستقل حل نہیں ہے۔ گاؤں کے رہنے والے ناتھورام گونڈا کا کہنا ہے کہ پہلے گاؤں کے لوگ ہینڈ پمپ کی مدد سے پانی نکالتے تھے۔ لیکن مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے یہ پچھلے 15 سالوں سے خراب پڑی ہے۔اس وقت راجستھان کے دیہی علاقوں میں صرف 18 فیصد پائپ سے پانی فراہم کیا جاتا ہے۔ جل جیون مشن کے تحت 100 فیصد گھروں ک پہنچنے کا ہدف ہے۔ 2019 میں، وزیراعظم نریندر مودی نے یوم آزادی کے موقع پرلال قلعہ کی فصیل سے جل جیون مشن کا اعلان کیا تھا۔ اس کے لیے مرکزی اور ریاستی حکومتیں مل کر کام کر رہی ہیں۔ گھروں کو نل کا پانی فراہم کرنے کے اس پرجوش منصوبے پر3.60 لاکھ کروڑ روپے کی لاگت کا تخمینہ ہے،جس میں مرکزی حکومت 2.08 کروڑ روپے کا حصہ ڈال رہی ہے۔ مالی سال 2020-21 کے بجٹ میں جل جیون مشن کے لیے 11500 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں، لیکن حکومت کی جانب سے جل جیون مشن جیسی کئی منصوبوں اور اسکیموں کے بعد بھی دیہاتوں میں پانی کا بحران دور ہوتا نظر نہیں آ رہا ہے۔ایسے میں ہر پہلو اور ہرسطح پر فوری کارروائی کی ضرورت ہے۔

Recent Posts

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

ڈاکٹر سلیم انصاری ،جھاپا، نیپال نیپال میں مسلم یونیورسٹی کے قیام کی بات برسوں سے ہمارے علمی، ملی، تنظیمی اور سیاسی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔ اگرچہ اس خواب کو حقیقت بنانے کی متعدد کوششیں کی گئیں، مگر مختلف وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ...

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

ڈاکٹر سید خورشید، باندرہ، ممبئیغزہ کی پٹی میں جاری تنازع نے اس خطے کی سب سے کمزور آبادی بچوںپر ناقابل تصور تباہی مچائی ہے۔ فلسطین کی آزادی کے لئے سرگرم عمل حماس کوزیر کرنے کے بیانیہ کے ساتھ اسرائیلی فوجی کارروائی نے ایک انسانی تباہی کو جنم دیا ہے، جسے عالمی تنظیموں،...

ہندوستان میں گارمنٹس صنعت میں ترقی کے مواقع

ہندوستان میں گارمنٹس صنعت میں ترقی کے مواقع

ممبئی (معیشت نیوز ڈیسک )ہندوستان میں گارمنٹس (کپڑوں کی) صنعت معیشت کا ایک اہم ستون ہے، جو روزگار کے مواقع پیدا کرنے، برآمدات کو فروغ دینے اور عالمی مارکیٹ میں ہندوستان کی شناخت قائم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ یہ صنعت نہ صرف معاشی ترقی میں حصہ ڈالتی ہے بلکہ...

ہندوستانی مسلمانوں کا تعلیمی منظرنامہ

ہندوستانی مسلمانوں کا تعلیمی منظرنامہ

ممبئی (معیشت نیوز ڈیسک)ہندوستانی مسلمانوں کا تعلیمی منظرنامہ ایک پیچیدہ اور کثیر جہتی موضوع ہے جو تاریخی، سماجی، اقتصادی اور سیاسی عوامل سے متاثر ہے۔ ہندوستان میں مسلم آبادی تقریباً 20 کروڑ ہے، جو کل آبادی کا تقریباً 14-15 فیصد ہے۔ یہ کمیونٹی دنیا کی سب سے بڑی...