گاندھی جینتی کے موقع پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اولڈ بوائز ایسوسی ایشن کے زیر انتظام سر سید فاؤنڈیشن لکھنؤ کے ذریعہ مجوزہ سرسید مشن اسکول اور ایوان سر سید کا سنگ بنیاد بدست پروفیسر سید مظفر اقبال سابق پرو وائس چانسلر انٹیگرل یونیورسٹی لکھنؤ رکھا گیا ۔اس موقع پر کثیر تعداد میں علیگ حضرات و دیگر محبان علی گڑھ و پرستاران سرسید موجود تھے۔ پروگرام کا آغاز قاری نعمان کی تلاوت کلام پاک سے ہوا ۔اس موقع پر بولتے ہوئے پروفیسر سید مظفر اقبال نے کہا کہ اے ایم یو اولڈ بوائز ایسوسی ایشن لکھنؤ کے ذریعے اٹھایا جانے والا یہ قدم انتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔سر سید کو اصل خراج عقیدت اسی طرح پیش کیا جا سکتا ہے کہ ان کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے ہوئے تعلیمی ادارے قائم کئے جائیں ۔انہوں نے اس موقع پر لکھنو کے معروف سرجن ڈاکٹر محمد مبشر و ان کی اہلیہ ڈاکٹر عظمی مبشر کی ستائش کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے یہ زمین ایک ایسے عظیم مقصد کے لئے عطیہ کی ہے جس کے مستقبل میں بہترین نتائج برامد ہوں گے اور انکا یہ اقدام کسی صدقہ جاریہ سے کم ثابت نہیں ہوگا۔ پروفیسر مظفر اقبال نے یہ بھی کہا کہ تعلیمی ادارے قائم کرنا اسان کام نہیں ہے اس راہ میں تمام طرح کی دقتیں پیش آئیں گی لیکن ذمہ داران کو سرسید کی راہ پر چلتے ہوئے خلوصِ دل ،نیک نیتی اور ثابت قدمی کے ساتھ کام کرنا ہوگا تاکہ ایک بہترین ادارہ قائم ہو سکے۔ ایسوسی ایشن کے صدر پروفیسر شکیل احمد قدوائی نے اپنے استقبالیہ خطاب میں تمام مہمانان کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ گاندھی جینتی کہ موقع پر اس ادارے کا سنگ بنیاد رکھا جانا درحقیقت سر سید اور مہاتما گاندھی دونوں کو خراج عقیدت پیش کرنا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ مہاتما گاندھی اور سر سید دونوں ہی کو ٹھیک سے سمجھا نہیں گیا ہے اور ضرورت ہے کہ ہم ان دونوں عظیم ہستیوں کے مشن کو فروغ دیں اسی میں قوم اور ملک کی بہبودی و ترقی مضمر ہے ۔ہم لوگوں کو یہ چاہیئے کہ اگر ہم ایک سچے محب وطن ہیں تو ملک عزیز کا سیکولر ڈھانچا برقرار رکھنے کے لیے ہم سب کو مِل کر کوشش کرنا چاہئیے ۔ انہوں نے مہاتما گاندھی کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ گاندھی نے سرسید کو تعلیم کے پیغمبر کا لقب دیا تھا ۔سر سید فاؤنڈیشن لکھنؤ کے سکریٹری ڈاکٹر سہیل احمد فاروقی نے کہا کہ اے ایم یو اولڈ بوائز ایسوسی ایشن لکھنؤ عرصہ دراز سے اس مشن کے لیے کوشاں تھی ۔اس سلسلے میں سرکاری و غیر سرکاری سطح پر کئی بار کوششیں کی گئیں جو کہ بارآور ثابت نہ ہو سکیں ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ کام کسی فرزند علی گڑھ کو ہی کرنا تھا لہذا ڈاکٹر مبشر سامنے ائے اور انہوں نے اپنی بیش قیمت زمین اس پروجیکٹ کے لئے فراہم کر دی۔ ڈاکٹر فاروقی نے یہ بھی کہا کہ ادارہ سازی آسان کام نہیں ہے اور اس میں ہم سب کو سر سید کی طرح کوشش کرنا پڑے گی کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اس مہم میں شامل کیا جائے اور ان سے مدد لی جائے۔ اس سلسلے میں مستقبل میں رکاوٹیں اور پریشانیاں بھی آسکتی ہیں جن کے لیے ہم سب کو ابھی سے ذہنی طور سے تیار رہنا پڑے گا ۔ پروگرام کے ناظم اور ایسوسی ایشن کے اعزازی سیکریٹری انجنئیر سید محمد شعیب نے کہا کہ اکتوبر کا مہینہ تمام دیش واسیوں کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور علیگ برادری کے لیے تو اس کی اہمیت طرح سے بھی بڑھ جاتی ہے کہ اسی ماہ میں نہ صرف گاندھی جنتی پڑتی ہے بلکہ 17 اکتوبر کو ہر سال یوم سر سید بھی بڑے پیمانے پر بیت الاقوامی سطح پر منایا جاتا ہے انہوں نے یہ بھی بتایا کہ یہ ماہ اس حیثیت سے اور بھی اہم ہے کہ سن 1920 میں اسی ماہ کی 25 تاریخ کو گاندھی جی علی گڑھ تشریف لے گئے تھے اور ان کو اس وقت اسٹوڈنٹس یونین کے لائف ممبرشپ کے اعزاز سے نوازا گیا ۔۔ انہوں نے مجوزہ پروجیکٹ کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ چار ہزار اسکوائر میٹر رقبہ پر محیط اس زمین پر تعمیر ہونے والے سرسید مشن اسکول و ایوان سرسید کی لاگت تقریباً 20 کروڑ آئے گی جسے دو مراحل میں عوامی عطیات سے تعمیر کیا جائے گا ۔ اس اسکول کا الحاق آئی سی ایس ای بورڈ نئی دہلی سے کیا جائے گا۔
سر سید فاؤنڈیشن لکھنؤ کے چیف ٹرسٹی ڈاکٹر محمد مبشر نے اپنے خطاب میں کہا کہ علی گڑھ کے تمام فارغین کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ بانئ درسگاہ کے مشن کو آگے بڑھائیں اور اسی کے مد نظر ہم نے ایک چھوٹی سی کوشش کی ہے کہ ہماری زمین پر ایک تعلیمی ادارہ قائم ہو اور کوئی بڑی بات نہیں کہ آج قائم ہونے والا یہ اسکول کل یونیورسٹی کی شکل اختیار کر لے لیکن اس کے لئے ہم کو جدوجہد کرتے رہنا ہوگا ۔ جلسہ سے خطاب کرنے والوں میں کلیم شکوہ ایڈوکیٹ ، نوشاد احمد ہردوئی ، مولانا سید اقبال عمری چنئی وغیرہ شامل تھے ۔ انجنئیر محی بخش قادری نے اپنے جذبات کا منظوم اظہار کیا ۔ مشہور سماجی کارکن عبدالنصیر ناصر نے اس پروجیکٹ کے تئیں ہر ممکنہ مدد کا اعادہ کیا ۔ کلمات اظہارِ تشکر ایسوسی ایشن کی جوائنٹ سیکریٹری شہلا حق نے ادا کئے ۔پروگرام کا اختتام یونیورسٹی ترانہ و قومی ترانہ پر ہوا ۔
اس موقع پر موجود معززین میں مولانا ابوالعرفان میاں فرنگی محلی ، امام عید گاہ مولانا خالد رشید فرنگی محلی ، شاہ عین الحیدر علوی سجادہ نشین آستانہ کاظمیہ کاکوری ، پروفیسر عباس علی مہدی وائس چانسلر ایرا یونیورسٹی، شفقت کمال سابق آئی اے ایس ، انجنئیر محمد مطلوب خاں ، طارق غوری سابق آئی آر ایس ، معید احمد سابق وزیر ، آفتاب احمد خاں سابق آئی جی سی آر پی ایف ، بدرالدجی نقوی سابق جج، ممتاز سائنس دان ڈاکٹر قمر رحمان ، ممتاز دانشور ڈاکٹر مسعود الحسن عثمانی ، ڈاکٹر عظمی مبشر ،مشہور شاعر واصف فاروقی ، طارق فیاض ، ،ارشد اعظمی، ڈاکٹر نزہت حسین ، انجنئیر نسیم بلگرامی ،تبسم قدوائی ،ڈاکٹر وقار بیگ ، ڈاکٹر محمد عتیق ، ڈاکٹر سید محمد شارق ، انجنئیر ارون کمار ماتھر ،طارق صدیقی ، انجنئیر محمد غفران ، انور حبیب علوی ، عاطف حنیف ، مادھو سکسینہ ، شیخ محمد طارق ، شاذیہ فاروقی ، حسین احمد ، قیس مجیب ، ڈاکٹر ارم دیبا ، محمد نعیم احمد ، پرویز محمود ، دانش عثمانی ، محمد مزمل ، ابو امامہ ، ڈاکٹر عتیق احمد فاروقی ، محمد نصیر حسن سابق سی ای او شیعہ وقف بورڈ ، نثار فاطمہ رضوی ، حاجی محمد مشرف ،معین الدین ، رفعت نسیم صدیقی ، شبیہ وسیم ، ارشد خورشید، انلپ چندرا، محمد خالد اشو وغیرہ شامل تھے ۔