فخر الدین علی احمد گورنمنٹ پی جی کالج میں تعزیتی میٹنگ
بارہ بنکی:(ابوشحمہ انصاری) پروفیسرشارب ردولوی ایک ادیب اور ناقد نہیں بلکہ ہماری تہذیب و ادب کا ایک دبستان تھے۔ وہ لکھنؤ کی تہذیبی اور ادبی فضا پر ایک تناور درخت کے مانندسایہ کئے ہوئے تھے ان کی رحلت سے اودھ کی تہذیبی اور ادبی محفلیں ماند پڑ گئیںکیونکہ وہ یہاں کی تہذیبی اور ادبی محفلوں کی روح تھے۔یہ باتیں فخر الدین علی احمد گورنمنٹ پی جی کالج میں شعبہ ء اردو کے استادڈاکٹر منتظر قائمی نے پروفیسر شارب ردولوی کے سانحہ ارتحال پر منعقد ایک تعزیتی میٹنگ میں کہیں۔انھوں نے مزید کہا کہ وہ اسّی کی دہائی پار کر چکے تھے لیکن گیسوئے ادب کو اسی محنت اور لگن سے سنوار رہے تھے۔میں نے کبھی بھی ان کو کسی سے بھی بلند آواز یا غصہ میں بولتے دیکھا ہی نہیں ایسا لگتا تھا کہ انھیں جیسے ناراض ہونا یا غصہ ہونا ۔وہ بہت ہی خاموشی اور اطمینان کے ساتھ زبان و ادب کی خدمت انجام دے رہے تھے دہلی، لکھنؤ اور ریختہ کی ادبی محفلیں ان کے بغیر سونی ہو گئیں۔
شعبہء اردو کے نگراں ڈاکٹر داؤد احمد نے پروفیسر شارب ردولوی کے علمی اور ادبی کارناموں کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ ان سے موجودہ دور کے اہلِ نظر ہی مستفیذ نہیں ہونگے بلکہ ان کے علمی اور ادبی کارناموں سے آنے والی نسلیں فیضیاب ہونگی۔اپنی شریک سفر اور معروف فکشن نگار شمیم نکہت کے نام سے منائی جانے والی افسانہ نگاری کی تقریب میں ہر سال ایک بڑے ناول نگار یا افسانہ نگار کو اعزاز دیتے تھے اور ساتھ میں نئی نسل کے طلباء اور طالبات میں ذوق مطالعہ اور تخلیقیت ہموار کرنے کے لئے وہ افسانہ نگاری کا ایک مقابلہ منعقد کرتے تھے تاکہ نوجوان نسل میں ادب کے تئیں دلچسپی پیدا کی جا سکے۔کالج میںشعبہ تاریخ سے وابستہ ڈاکٹر پرارتھنا سنگھ نے بتایا کہ انھوں نے غریب اور بے سہارا بچوں کے تعلیم و تربیت کے لئے شعاع فاطمہ گرلز انٹر کالج کا قیام کیا جو کہ لکھنؤ میں فیض اللہ گنج میں ایک ایسے علاقے میں کھولا گیا ہے جہاں متوسط سے بھی کمتر درجے کے لوگ رہتے ہیں اور انھیں کے بچے اور بچیاں اس سکول میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ فقط قلم کے ہی سپاہی نہیں تھے بلکہ علمی زندگی میں بھی اسی انداز میں سرگرم تھے جیسا کہ ادبی زندگی میں دکھائی دیتے ہیں۔
کالج کے شعبہء سماجیات سے وابستہ ڈاکٹر رویش کمار سنگھ نے بتایا کہ انھیں اردو زبادن و ادب سے گہرا شغف ہے جس کی وجہ سے وہ پروفیسر شارب ردلوی کے نام نامی اور ان کے علمی اور ادبی کارناموں سے خاطر خواہ واقفیت رکھتے ہیں۔مولانا آزاد انسٹی ٹیوٹ آف ہیومینٹیز سائنس اینڈ ٹیکنالوجی محمودآباد میں تیسری بین الاقوامی اردوکانفرنس کے ایک اجلاس میں جب پروفیسر شارب ردولوی کو صدارتی خطبہ دیتے ہوئے سنا اور دیکھا کہ وہ اپنی بات کتنی شائستگی ،متانت اور سادگی سے رکھتے چلے گئے کہ ان کی ہر ایک بات دل میں اتر گئی۔ کالج میں شعبہء ریاضی کی استانی ڈاکٹر ثنا پروین انصاری نے موصوف کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ ہر چند کہ ریاضی ان کا مضمون ہے مگر وہ اردو زبان و ادب سے سے خاطر خواہ واقفیت رکھتی ہیں۔ اردو اور ہندی زبان کے اخبارات اور رسائل میں ان کے مضامین ، بیانات اور علمی و ادبی گفتگو سے ان کی شخصیت کے بہت وے پہلو مجھ پر عیاں ہوئے۔اردو زبان و ادب کے زوال آمادہ دور میں وہ جس طرح زبان و ادب کی خدمت کر کرہے تھے ویسا کوئی دوسرا ادیب و ناقد دور دور تک نظر نہیں آرہا ہے۔
کالج میں شعبہء سنسکرت سے وابستہ اور این ایس ایس کی نگراں ڈاکٹر زیبا خان نے بتایا کہ چوتھی عالمی اردو کانفرنس جس کا افتتاح لکھنؤ یونیورسٹی کے مالویہ ہال میں ہوا تھا میں نے ان کو وہیں پر بولتے ہوئے دیکھا اور سنا۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے عمر کا ان پر کوئی فرق ہی نہیں ہے اور وہ اردو زبان و ادب کے حوالے سے ایک سے بڑھ کر ایک نکات پیش کر رہے تھے۔ان کی گفتگو سے ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے باتوں سے پھول جھڑ رہے ہیں افسوس کہ ایسی شخصیت اب ہمارے درمیان نہیں رہی جس سے ادب کی محدلیں گلزار رہتی تھیں۔آخر میں ان کی مغفرت کی دعاکی گئی اور ان کی روح کی تسلیکن کے لئے سورہ فاتحہ بھی پڑھا گیا۔ اس میٹنگ میں طلباء اور طالبات بھی خاصی تعداد میں شریک رہے۔