(کاٹھمانڈو نیپال 20/نومبر 2023ء)
7/اکتوبر سے جاری حماس اور اسرائیل جنگ کو آج چوالیس دن سے زائد ہوگئے ہیں؛ مگر یہ جنگ ابھی تھمنے کے درپے نہیں ہے۔ ظلم دوست اسرائیل نے ظلم رسیدہ حماس پر ناقابل بیان و نوشت ظلم ڈھا کر پوری دنیا کے لوگوں کو محو حیرت کردیاہے،جس سے ہر ذی ہوش انسان کے ہوش اڑ گئے ہیں۔
ظلم پرور اسرائیل کی وحشیانہ جارحیت سے اب دنیا بھر کے انسانوں کو اسرائیلیوں کی انسانیت پر بھی سوال اٹھنے لگے ہیں،کہ اسرائیلی انسان نہیں ؛بل کہ بشکل انسان پھاڑ کھانے والے جانور ہیں۔ اسرائیل بہت بڑا ظالم ہے،یہ انسانیت اور خاص کر اسلام کا سب سے بڑا دشمن ہے اور یہ اپنے مظالم کی بناء کسی بھی طرح انسانی رحم و کرم کا حق دار نہیں ہے؛مگر افسوس کہ مسلم ممالک کے مسلمان ،بس چشمہ لگائے،مظلوم فلسطینیوں کے اجسام سے بہتے خونوں کا نظارہ کررہے ہیں اور صہیونی اسرائیل کے خلاف عملی کاروائی نہیں کر رہے ہیں۔ظالم صہیونی اسرائیل کا ظلم سر چڑھ کر بول رہاہے، اوراس نے اپنے بڑکپن کی بناء غزہ کے مکانات کو کھنڈرات میں تبدیل کردیاہے اور غزہ کو بے قصور ،معصوم فلسطینیوں کا قبرستان بنا دیاہے۔
آج غزہ میں ظلمت کا دامن پھیلا ہواہے ؛مگر پھر بھی مسلم ممالک سراپا خاموش بیٹھ کر ظلم وبربریت کا ناقابل دید منظر دیکھ رہے ہیں۔
حماس پر جاری اسرائیلی جارحیت کے خلاف عوام کے ایک بڑے طبقے کا جگہ جگہ پر مظاہرے ہوئے اور ہوں گے بھی،نیز ملی اور سیاسی سرکردہ شخصیات نے بھی اسرائیلی مظالم کی شدید لفظوں میں مذمت کی ہیں اور یہ سلسلہ تا ہنوز جاری ہے۔
جمعیت علماء نیپال کے جنرل سکریٹری مولانا قاری محمد حنیف عالم قاسمی نے اسرائیلی جارحیت پر سخت دلی تکلیف کا اظہار کیا اور کہا ہے کہ اسرائیل کا اب یہ ظلم زیادہ دیرپا نہیں ہے؛ کیوں کہ ہر عروج کو یہاں آخر زوال ہے؛اس لیے فلسطین کے جاں باز مجاہدوں کو ابھی حوصلہ بلند رکھنے کی ضرورت ہے؛کیوں کہ آپ کے بلند حوصلے سے ہی ایک بڑی تاریخ رقم ہوگی۔
جمعیت علماء نیپال کے مرکزی رکن مولانا محمد عزرائیل مظاہری نے حماس کے بوڑھے ،نوجوان،شیر خوار بچوں کے قتل عام پر گہرے دکھ کا اظہار کیا اور کہاکہ :اسرائیل فلسطین کا ایک حصہ ہے،جس پر ذلیل تر قوم یہود نے غاصبانہ قبضہ کر لیا ہے،جسے یہودیوں سے آزاد کرانا فلسطینیوں کا حق ہے اور اپنے حق کی حصول یابی سوئے سوئے نہیں؛بل کہ بڑی قربانی سے ہوتی ہے،جس میں فلسطین دنیا بھر کے لیے ایک مثال بنا ہواہے، بس فلسطینوں کو چاہیے کہ صبر کا دامن تھامے رکھے اور غاصب اسرائیل سے اپنا حق لے کر ہی دم لے۔
جمعیت علماء روتہٹ نیپال کے رکن مولانا قاری اسرار الحق قاسمی نے کہا جو انسان معمولی سمجھ بھی رکھتا ہو،وہ کبھی اسرائیل کی حمایت نہیں کرسکتا اور نہ ہی حماس کی مخالفت کرسکتا ہے؛مگر ہمیں سمجھ میں نہیں آتا کہ ہندوستان کے وزیراعظم نریندر مودی اور اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ ہوگی آدتیہ ناتھ اور گودی میڈیا کس بنیاد پر اسرائیل کی حمایت اور حماس کی مخالفت کا اعلان کیا تھا۔ یہ لوگ حماس کے مجاہدوں کو آتنکی نام دیتے ہیں۔ ان لوگوں سے میرا ایک سوال ہے کہ کیا اپنے حق کی بازیابی کے لیے عملی اقدام کرنا دہشت گردی ہے؟ اگر دہشت گردی ہے،جیسا کہ آپ لوگوں کا باطل خیال ہے،تو کیا جن لوگوں نے ہندوستان کو انگریزوں سے آزاد کرانے کے لیے آزادی کی لڑائی لڑی ہیں اور اپنے جانوں کی قربانیاں پیش کی ہیں،کیا آپ انھیں بھی دہشت گرد اور آتنکی کہیں گے؟؟تو آپ کا جواب ہوگا “نہیں ” اور آپ کہیں گے کہ بھائی یہ تو میرا ملک ہے،میرے ملک پر انگریزوں نے ظالمانہ قبضہ کرلیاتھا،تو اسے بھگانا اور اس سے اپنے ملک کو آزاد کرانے کے لیے آزادی کی لڑائی لڑنا،یہ تو ہمارا حق ہے،ہم انھیں دہشت گرد اور آتنکی نہیں،بل کہ مجاہدین کہیں گے۔تو جو لڑائی آج فلسطین کی اسرائیل سے ہورہی ہے،وہی لڑائی ہندوستانیوں کی انگریزوں سے ہوئی تھی،یہاں تو آپ: یعنی ہندوستان کے لڑاکے کو مجاہدین کا خطاب دےرہےہیں اور فلسطین کے لڑاکے کو دہشت گرد اور آتنکی،یہ کہاں کا انصاف ہے؟؟ اس لیے کچھ سوچ سمجھ کر کسی کی حمایت یا مخالفت کریں۔
مولانا نثار احمد قاسمی نے کہا: اسرائیل کی بربریت سے ہر معتدل ذہنیت کا حامل انسان رنجیدہ ہے اور اسرائیل کی مذمت کررہاہے۔ میں بھی اسرائیلی ظلم کی مذمت کرتاہوں اور مظلوم فلسطین کی حمایت کرتاہوں۔
مفسر قرآن مولانا انعام الحق قاسمی نے کہا: اسلامی ممالک اسرائیل کو فوری کسی بھی طرح کے تعاون سے گریز کرنا چاہیے۔ اسرائیل کے خلاف اور فلسطین کی حمایت میں اقوام عالم کو اپنا احتجاج جاری رکھنے کی ضرورت ہے؛کیوں کہ اس سے فلسطینیوں کو توانائی ملے گی اور اسرائیل کی ہمت پست ہوگی۔
جمعیت علماء روتہٹ نیپال کے ترجمان انوار الحق قاسمی نے کہا:اپنے حق کے حصول لیے عملی اقدام کرنا کوئی جرم نہیں ہے،جیسا کہ حماس کے مجاہدین نے کیاہے۔ آزادی ملک کی لڑائی میں جانی اور مالی نقصان، تو یقینی ہے،جیسا کہ حماس کا بھی ہوا؛مگر یہاں اسرائیل کا ظلم کچھ زیادہ ہی ہواہے۔ یہ تو حماس کے مجاہدین ہیں کہ اب تک ڈٹے ہیں؛ورنہ اوروں سے کہاں یہ کبھی ممکن تھا۔ ایسے نازک حالات میں حماس کی مدد ہر انسان کے لیے ضروری ہے، جس سے جہاں تک ہو، حماس کی مدد ضرور کرتے رہیں۔ اللہ فلسطین کو غلبہ عطا فرمائے اور اسرائیل کو تباہ کردے۔