ڈاکٹر سید ابو ذر کمال الدین
راجستھان ،چھتیس گڑہ اور مدھیہ پردیش کے ریاستی انتخابات سے یہ واضح ہے کہ ہندی ریاستوں میں بی جے پی کی پکڑ بہت مضبوط ہے اور ان ریاستوں میں اس نے جس طرح کی سوشل انجنیئرنگ کی ہے وہ بہت کامیاب ہے۔ تمام ذ ات اور بالخصوص ہندو عورتوں میں اس نے جتنی مضبوط پکڑ بنا لی ہے اس نے اینٹی انکمبنسی کے تمام خطرات کو معدوم کر دیا۔ہے۔ امکان ہے کہ یو پی میں بھی بی جے پی کا پلڑا بھاری رہے گا۔۔
اب تک کے انتخابات سے واضح ہے کہ جن ریاستوں میں کوی مضبوط سیاسی لیڈر نہیں ہے وہاں بی جے پی کی تنظیمی مشینری اور مودی جی کی مقبولیت سر چڑھ کر بولتی ہے اور جیت بھی دلاتی ہے مگر جہاں مظبوط ریاستی لیڈر شپ مو جود ہے وہاں اس کو منہ کی کھانی پڑتی ہے ۔ بہار ،بنگا ل اور اڑیسہ کی مثال سامنے ہے۔ بی جے پی کے پاس بے پناہ پیسہ ہے ،بہت مظبوط کیڈ ر ہے اور مقبول لیڈر شپ ہے اور اکثریت کے جذبات کو گر مانے والے مدے ہیں۔جس کی وجہ سے وہ اپنی ناکامیاں چھپا نے اور لوگوں کو ورغلانے میں کامیاب ہو جاتی ہے ۔
انڈیا گٹھ بندھن نے ایک چیلنج ضرور کھڑا کیا تھا مگر اس کے لیڈروں کے درمیان قیادت پر اتفاق نہیں ہونے کی وجہ کر اس کی ہوا اکھڑ رہی ہے جس کا فائدہ بی جے پی کو ہو گا۔
انڈیا گٹھ بندھن میں اصل پیچ قیادت۔ کا ہے کہ کون اس کولیڈ کرے گا۔ تین ریا ستو ں میں اگر کانگریس اچھا کرتی تو پھر وہ اسکی دعویدار ہوتی لیکن شکست کے بعد کانگریس کا مورال بہت ڈاون ہے۔بہار میں نتیش کمار اور بنگال میں ممتا بنرجی پرایم منسٹر بننے کا امبیشن رکھتے ہیں۔ مگر ان دونوں کی اپیل محدود ہے تاہم ممتا بینرجی کے مقا بلے نتیش کمار کی اکسبٹیلیٹی زیادہ ہے۔میری راے میں کانگریس کونیتیش کمار پر داو لگانا چاہیے
اس وقت ملک میں پین انڈیا لیڈر کا فقدان ہے اور یہ بات بی جے پی کے حق میں جاتی ہے اس صورت میں جب تک الیکشن سے چند ماہ پہلے کسی لیڈر کا اعلان نہیں ہوتاہے بے کپتان کے فیلڈ میں اترنا گویا مخالف ٹیم کو واک اوور دے دینا ہے۔
کانگریس ہو سماج وادی پارٹی ہو یا ساؤتھ کی پارٹیاں ہوں انہہیں نیتیش کمار کو اگے لا کر ایک رزک لینا چاہیے ۔ گٹھ بندھن واحد راستہ ہے ورنہ 2024کا رزلٹ معلوم ہے۔
جہاں تک مسلمان کا سوال ہے تو اس ملک میں مسلمان کا کوی الگ سے مسلہ نہیں ہے۔جو سارے ملک کا مسلہ ہے وہی مسلمانوں کا مسلہ ہے۔مسلمانوں کو کوی اسپیشل اسٹیٹس نہیں چاہیے ۔ہم ملک میں جمہوریت، سیکولر زم اور ایین کا تحفظ چاہتے ہیں جس پر ہر جانب سے حملے ہو رہے ہیں 2024 کا الیکشن اس لیے اہم ہے کہ اس کا۔ سیدھا تعلق ملک میں سیکولر جمہوری ایین کے تحفظ اور بقا سے جڑا ہوا ہے۔مجھے نہیں معلوم کے ملک کی سیاسی پا رٹیاں اور ان کے لیڈران کی سوچ کیا ہے اور وہ کیا فیصلہ لیتے ہیں۔
اہل سیاست کا جو کام ہے وہ سمجھیں ہمارا موقف واضح ہے کہ ہم ملک میں فسطائیت کی روک تھام اور جمہوریت کے ساتھ کل بھی کھڑے تھے ایندہ بھی کھرے رہیں گے
میری اس بات پر بہت لوگووں کو اعتراض ہوگا کہ مسلمانوں کا کوی مسلہ نہیں ہے جبکہ مسلمان بھارت میں اپنی ملی تاریخ کے سب سے نازک دور سے گزر رہے ہیں۔بات در اصل یہ ہے کہ ہمارا مسلہ ملک کی دیگر برادریوں سے مختلف ہے۔ ان کے لیے الیکشن ان کے مسایل یا نما یندگی کے حل اور حصول کا ذریعہ ہو سکتا ہے لیکن ہمارے لیے ،یہ سیلابی موسم ہے جو تمام کھڑی فصلوں کو بہا لے جانے والا ہے۔ لہذا اس موقع پر مطالبات کا کشکول لے کر اقتدار کے گلیاروں میں پھرنا دبیر کے مرثیہ کے اس شعر کی مصداق ہوگی پیاسے کی جان جاےگی اور ابرو میری ۔
اس وقت بہت سے خود ساختہ لیڈران جو پانچ سال گہری نیند سوتے رہے یکایک مسلمانوں کے بہی خواہ اور ترجمان بن کر اینگے اور اپنی منہ مانگی قیمت وصول کرکے سو جائیں گے۔
سیاست کوی تفریحی کھیل نہیں ہے یہ دن کے 24گھنٹے،ہفتے کے سا توں دن اور سال کے د365دن چلنے والا کھیل ہے ۔ دلا لی سیاست نہیں کہلا تی ہے یہ دین فروشی ۔ملت فروشی اور ضمیر فروشی ہے جس میں ہمارے بڑے بڑے قایدین مبتلا ہیں یہی وجہ ہے کہ ملت کا ان پر سے ا عتبار اٹھ گیا ہے اور وہ اپنے سوا کسی کی نمائندگی نہیں کرتے ہیں۔اس صورت میں مطالبہ کی سیاست فرقہ وارانہ ماحول کو مزید خراب کریگی اور حاصل کچھ نہیں ہوگا ۔
سیاست کے شطرنج کی بساط بچھ چکی ہے اس میں پیادہ کون بنےگا گھوڑا اور فیل کون ہوگا کون وزیر اور بادشاہ ہوگا ۔ایک طرف کی صف بندی تو سامنے ہے۔اس بار نیشنل ایشوز پر الیکشن ہونے دیجئے اور ابھی سے ملت کی سیاسی۔ ٹریننگ شروع کر دیجیے ۔جب ٹیم تیار ہو جائے تو میدان میں اتر جایےگا کون روکتا ہے ۔اس بار صبر سے کام لیجیے اور دیکھیے اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے ۔ ہم نے نہ کسی کو روکا ہے اور نہ روک سکتے ہیں ۔ہر شخص اپنا راستہ چمننےکے لیے ازاد ہے۔
مسلمانوں کے ایک طبقہ میں یہ غلط فہمی پای جاتی ہے کہ وہ بادشاہِ گر ہیں اور وہ کسی سرکار کو بنا سکتے ہیں یا گرا سکتے ہیں ۔یہ کبھی تھا اور اس وقت کو ہم نے اپنی کم نگاہی سے گنوا دیا۔ اب بھارت کی سیاست کا پورا ایکو سسٹم بدل چکا ہے۔اس وقت جس طرح کی میجیٹورین سیاست چل رہی ہے اقلیتوں کے و وٹ کی اہمیت گھٹ گی ہے ۔اس لیے ہم کو حقیقت شناس بن کر سیاسی فیصلہ لینا ہوگا ۔جو لوگ دلت مسلم اتحاد کی بات کرتے ہیں وہ دلت ذہنیت اور ان کی تاریخ سے ناواقف ہیں۔یہ کبھی مسلمانوں کے ساتھ نہیں اینگے
ان کی موقعہ پرستی کی بار کھل کرسامنے اچکی ہے۔اپ کی چھت چو رہی ہے تو اپ کو ہی اس رساو کو بند کرنا ہوگا ۔موہوم سہاروں پر بھر وسہ کر نے کے بجائے اپنی اندرونی خامیوں پر اگے بڑھنے کا حوصلہ پیدا کیجئے اسی سے اپ کے مسایل کا حل نکلے گا