دانش ریاض، معیشت، ممبئی
ڈاکٹر سید ریحان غنی سے ملاقات اور امارت شرعیہ کے قضیہ پر تفصیلی گفتگو کے بعد جب میں پٹنہ سے پھلواری شریف لوٹ رہا تھا تو لب مغرب امارت کی بلڈنگ سے گذرتے ہوئے خواہش ہوئی کہ کیوں نہ نماز مغرب یہیں ادا کی جائے، لہذا میں نے گاڑی رکوائی اور امارت شرعیہ کی مرکزی بلڈنگ میں داخل ہوگیا ۔واچ مین نے پہلے منزلےکی طرف رہنمائی کی جہاں نماز کے لئے جگہ مختص ہے۔نماز گاہ میں پہنچا تو ایک عمر رسیدہ بزرگ نے وضو خانے کا پتہ بتایااور پھر جب وضو کرکے واپس آیا تو مغرب کی اذان شروع ہوچکی تھی،اس وقت تک نماز گاہ میں بمشکل سات آٹھ نفوس رہے ہوں گے ۔مجھے حیرت بھی ہوئی اور تعجب بھی کہ لوگ باگ تو دکھائی دے رہے ہیں پھر وہ نماز گاہ کی طرف کیوں نہیں آرہے؟ آخر اذان کے اختتام کے بعد جب صف بندی ہوئی تو موذن صاحب دروازے کی طرف بڑھے اور آواز لگائی کہ ’’کوئی ہے نماز پڑھانے والا! اس وقت بھی دوچار لوگ داخل ہوئے لیکن کسی نے بھی امامت کے لئے ہامی نہیں بھری ،میں تھوڑی دیر تک دیکھتا رہا اور پھر مصلے پر جاکر کھڑا ہوگیا۔موذن صاحب نے تکبیر کا آغاز کیا لیکن کچھ چہرے ایسے ضرور دکھ گئے جن کی پیشانی سے ناگواری ظاہر ہورہی تھی۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی رہی ہو کہ میں نے ٹوپی نہیں پہن رکھی تھی جبکہ پائنچہ بھی نیچا تھا ،میں نےفوری پائنچہ ٹھیک کیا اور تکبیر کے ساتھ نیت باندھ لی۔جب سلام پھیرا تو دیکھا کہ بڑی تعداد نماز میں شامل ہے۔نماز کے بعد کی سنتوں سے فارغ ہوکر جب میں نیچے اتراتو استقبالیہ پر چہ مگوئیاں ہورہی تھیں۔انہیں میری نماز مغرب کی امامت پراعتراض تھا لیکن دلچسپ بات یہ رہی کہ جیسے ہی مجھے دیکھا تمام لوگ خاموش ہوگئے ۔میں نے بھی اسی میں عافیت سمجھی کہ خاموشی سے اپنا راستہ لوں ۔لہذااستقبالیہ پر امیر شریعت کے لئےاپنا وژیٹنگ کارڈ دیااوروہاں سے نکل آیا، وہ عمر رسیدہ بزرگ جو مقامی لگ رہے تھے باہر نکلتے ہوئے کہنے لگے کہ’’ آپ کی کوئی غلطی نہیں ہے جب کوئی امامت کے لئے حاضر نہیں رہے گا تو موجود شخص ہی تو نماز پڑھائے گا‘‘!
بظاہر یہ ایک چھوٹا سا واقعہ ہے لیکن میری نگاہ میں بہت ساری کہانیاں لئے ہوئے ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ان دنوں امارت شرعیہ جس طرح شاہ سرخیوں میں ہے وہاں انتظامی طور پر چاک و چوبند رہنے کی ضرورت ہے۔یقیناً ہر طرف کیمرے لگے ہوئے ہیں لیکن اس کے باوجود وہاں کا اسٹاف اس طور پر مستعد ہوکہ ہر اس نئے شخص پر نظر رکھے جو امارت کے احاطہ میں داخل ہورہا ہو۔امارت اپنی سوسالہ خدمات کے حوالے سے معتبر و محترم رہی ہے اور یہ احترام وا عتبار وہاں کے ذمہ دار وں کی سرگرمیوں کے حوالے سےہی رہا ہے۔ بدقسمتی سے ان دنوں جس طرح کی سرگرمیاں انجام پارہی ہیں اس نے ان تمام وقار و احترام کو ملیامیٹ کردیا ہے جو کبھی بزرگوں نے کمایا تھا ۔اب جبکہ ہر فرد چاہے وہ ارباب حل و عقد میں شامل ہو یا پاس پڑوس میں رہنے والا معین و مددگار، اس فکر میں مبتلا ء نظر آرہاہے کہ امارت شرعیہ سے وہ کس طرح مستفید ہوسکتا ہے؟ لہذا اب اس بات کی ضرورت مزید آن پڑی ہے کہ ذمہ داران امارت شرعیہ نا صرف مالی معاملات کو چست و درست کریں بلکہ اس بات کی بھی کوشش کریں کہ کوئی ایسا میکنزم تیار ہو جو تمام مالی معاملات میں شفافیت لا سکے۔ امارت شرعیہ کا وقار و احترام ہی تھا کہ سیاسی طور پر بھی اس کی آواز کو مضبوط آواز سمجھا جاتا تھا ،مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک بار بہار کے وزیر اعلیٰ امارت میں حاضری دئے بغیر خانقاہ مجیبیہ کی طرف بڑھ گئے تھے تو امارت کے ایک ذمہ دار نے بڑی رعونت سے اپنے مریدین سےکہا تھا کہ ’’گھبرائیں نہیں کچھ روز میں ہی وہ از خود آپ کے پاس آئیں گے ‘‘اور پھر مجھے معلوم ہوا تھا کہ واقعی چند روز کے اندر ہی وزیر اعلیٰ نے امارت شرعیہ میں حاضری دی تھی۔لہذا جس ادارے کا ماضی میں یہ سیاسی وزن رہا ہو اس کی بے وزنی کے لئے بھی مختلف ہتھکنڈے اختیار کئے گئے ہیں اب ذمہ داران کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وہ رعونت جو پہلے حاصل تھی وہ کیونکر خاکستر ہوئی یاہورہی ہے؟
امارت شرعیہ کی بلڈنگ پھلواری شریف میں لب سڑک واقع ہے اگر ذمہ داران امارت چاہتے تو بیوٹی فیکیشن کے ذریعہ اسے جاذب نظر بنا دیتے لیکن افسوسناک پہلویہ ہے کہ اگر کوئی وہاں سے پیدل گذرنا چاہے تو اسے ناک پر رومال رکھنے کی ضرورت آن پڑتی ہے۔میرے ایک غیر مسلم دوست چند روز قبل مجھ سے کہنے لگے کہ امارت شرعیہ کے پاس سے گذرو تو سب سے پہلے ٹریفک اور پھر گندگی اس قدر ہوتی ہے کہ طبیعت مضمحل ہوجاتی ہے لیکن اس کے باوجود آخر کیا خزانہ ہے کہ وہاں کی لڑائیاں سڑکوں پر لڑی جارہی ہیں؟
امارت شرعیہ نے ابتداء میں مقامی آبادی اور مقامی علماء و صلحاء کی سرپرستی حاصل کی تھی ،لیکن وقت گذرتے ہی اس کڑی میں کمزوری آگئی ،دوچار نام بھلے ہی شامل کرلئے گئے ہوں لیکن بڑی اکثریت ان لوگوں کی ہے جو بہار کے مختلف علاقوں سے آکر یہاں مقیم ہیں ،یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بہار برادریت کے حوالے سے اپنی مثال آپ ہے اور ہندوانہ رسم و رواج سے اسی طرح متاثر ہے جس طرح ایام جاہلیت میں لوگ قبائلی عصبیت میں مبتلاء تھے ،لہذا وہ لوگ جو باہر سے آکر یہاں مقیم ہیں اپنے آپ کو ویسا مضبوط نہیں پاتے جیسا کہ مقامی فرد اپنے آپ کو مضبوط سمجھتا ہے یہی وجہ ہے کہ امارت کے احباب ان سماج دشمن عناصر کی مدد لیتے ہیں جو خود بھی ان کی مٹی پلید کرتا ہے اور امارت کی بھی مٹی پلید کرواتا ہے۔اگر ذمہ داران اس جانب بھی توجہ دیں تو بہتری کی امید کی جاسکتی ہے۔
امارت شرعیہ کی جو آمدنی اور پراپرٹی ہے اس سے راست طور پر مستفید ہونے والے بس چند احباب ہیں لیکن امارت شرعیہ کی ساکھ کے نام پر جن لوگوں نے استفادہ کیا ہے ان کی تعداد بہت زیادہ ہے لہذا ہندوستان اور باہر کی ایجنسیاں اب اس ساکھ کے نام پر مستفید ہونے والوں کوبھی اپنا آلہ کار بنا رہی ہیں اور جس طرح بیشتر مسلم تنظیموں میں ایجنسیز کے لوگ راست طور پر ذمہ دار بنا دئے گئے ہیں امارت شرعیہ میں بھی اسی طرح ایجنسیز کے پروردہ ذمہ دار بنا دئے جائیں اور پھر یہ ادارہ پورے ملک میں ایجنسیز کے مفتی و قاضی پیدا کرے جو ان کی منشاء کے مطابق کام کرسکیں اس کی ایک بھرپور کوشش ہے۔ممکن ہے کہ لوگوں کو یہ بات ناگوار گذرے لیکن جو صاحب علم ہیں انہیں اچھی طرح اندازہ ہے کہ آخر مستقبل میں کیا گل کھلنے والا ہے۔
اب اخیر میں اس حدیث کے ساتھ کہ جس کی روایت ابن ماجہ اور بیہقی نے شعب ایمان کے حوالے سے کی ہے کہ وعن أنس رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ( طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيضَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ ، وَوَاضِعُ الْعِلْمِ عِنْدَ غَيْرِ أَهْلِهِ كَمُقَلِّدِ الْخَنَازِيرِ الْجَوْهَرَ وَاللُّؤْلُؤَ وَالذَّهَبَ)علم کا حصول ہر مسلمان پر فرض ہے اور علم کو نااہلوں کے سامنے رکھنے والا ایسے ہی ہے جیسے خنزیروں کو جواہرات، موتیوں اور سونے کے ہار پہنانے والا ۔‘‘ اس بات کا تجزیہ کیا جانا چاہئے کہ کیا امارت شرعیہ اپنے اس مشن میں اسی طرح لگا ہے جس طرح اس کے اکابرین نے سوچا تھا یا اب وہ بھی نا اہلوں کو موتیوں کے ہار پہنا رہا ہے۔