Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors
Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

آخر اس بے حسی کا علاج کیا ہے؟

by | Jun 29, 2019

ممبرا رات میں

دانش ریاض
گذشتہ روزجامع مسجد نیرُل نوی ممبئی میں میں نماز مغرب کی ادائیگی کے بعد کسی کے انتظار میں گیٹ پر کھڑا تھا کہ دفعتاً بارش شروع ہوگئی۔گیٹ کے پاس ہی بڑی سی چھتری لگی تھی لہذا میں اس کے سائے میں چلا گیا کہ اچانک میری نظر گیٹ پر کھڑی ایک ہندو عورت اوراس کے دو بچوں پر پڑی جو بارش میں بھیگ رہے تھے۔تین سال کا بچہ گود میں تھا جبکہ چھ سات برس کی بچی ساتھ ہی کھڑی تھی۔ پہلے یہ گمان ہوا کہ شاید یہ لوگ بھکاری ہوں جو بھیک مانگنے کے لئے کھڑے ہوں لیکن جب عورت کا خاوند اور بچوں کا باپ ایک بسلری کی بوتل لے کر آیا اور اس کا ڈھکن کھول کر کھڑا ہوگیا تو مجھے احساس ہوا کہ یہ لوگ دراصل پانی میں دم کروانے اور بچوں کے لئے دعا کرانے آئے ہیں۔ بارش کی بوندیں گر رہی تھیں مسجد سے نمازی نکل رہے تھے اور مذکورہ جوڑے پر ایک نظر ڈال کر آگے بڑھ جا رہے تھے۔ تقریباً دس پندرہ نمازیوں کے گذر جانے کے بعد بھی جب کسی نے ان کی طرف نظر التفات نہیں کیا تو ان کی حسرت بھری نگاہیں مسجد پر ٹک گٰئیں۔چونکہ میں پاس ہی کھڑا تھا لہذا اس کرب کو محسوس کرتے ہوئے فوری ان کے پاس گیا اور حال احوال دریافت کرنے لگا۔ماں کہنے لگی “میرا یہ تین سالہ بچہ تین چار روز سے کچھ کھا پی نہیں رہا ہے۔ڈاکٹروں کو دکھایا تو ان کا کہنا تھا کہ اسے کوئی بیماری نہیں ہے لیکن نہ کھانے پینے کی وجہ سے کمزور ہوتا جارہا ہے، کسی نے کہا کہ شاید اس پر کوئی آسیبی اثر ہو اسی لئے یہاں دعا کرا نے آئی ہوں۔”مجھے بچپن کے وہ دن یاد آگئے جب محلہ کی مسجد کے باہر غیر مسلم مرد و عورت کی لمبی قطار لگتی تھی اور ہر نمازی نماز کے بعد قطار میں کھڑے ان لوگوں کو ایک پھونک مارتا اور آگے بڑھ جاتا تھا ۔ان کی پھونک کا اثر ہوتا تھا یا نہیں یہ تو نہیں معلوم لیکن سماج میں مسجدوں میں جانے والوں کے لئے شردھا قائم تھی۔لیکن آج جس بے رخی کے ساتھ لوگ دعا دئے بغیر اور پھونک مارے بغیر مسجد سے نکلتے رہے تو مجھے شدید تکلیف اس بات پر ہوئی کہ شردھا تو آج بھی نمازیوں پر قائم ہے لیکن نمازی ہی اس لائق نہیں رہے کہ انہیں یقین ہو کہ میری پھونک کا اس پر اثر ہوگابھی یا نہیں۔میں نے جیسے ہی دعائیں پڑھ کر بچوں پر دم کیا اور پانی کی بوتل پر پھونکا باپ نے فوراً ہی بوتل کی ڈھکن بند کر دی اور پھر وہ تمام اپنی بائک پر سوار ہو کر چلے گئے ۔یہ ایک چھوٹا سا واقعہ ہے لیکن مسلم معاشرے کی تصویر کشی کے لئے کافی ہے ۔

Recent Posts

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

دانش ریاض،معیشت،ممبئی غالبؔ کے ندیم تو بہت تھےجن سے وہ بھانت بھانت کی فرمائشیں کیا کرتے تھے اوراپنی ندامت چھپائے بغیر باغ باغ جاکرآموں کے درختوں پر اپنا نام ڈھونڈاکرتےتھے ، حد تو یہ تھی کہ ٹوکری بھر گھر بھی منگوالیاکرتےتھے لیکن عبد اللہ کے ’’ندیم ‘‘ مخصوص ہیں چونکہ ان...

جمیل صدیقی : سیرت رسول ﷺ کا مثالی پیامبر

جمیل صدیقی : سیرت رسول ﷺ کا مثالی پیامبر

دانش ریاض، معیشت،ممبئی جن بزرگوں سے میں نے اکتساب فیض کیا ان میں ایک نام داعی و مصلح مولانا جمیل صدیقی کا ہے۔ میتھ میٹکس کے استاد آخر دعوت و اصلاح سے کیسے وابستہ ہوگئے اس پر گفتگو تو شاید بہت سارے بند دروازے کھول دے اس لئے بہتر ہے کہ اگر ان کی شخصیت کو جانناہےتوان کی...

اور جب امارت شرعیہ میں نماز مغرب کی امامت کرنی پڑی

اور جب امارت شرعیہ میں نماز مغرب کی امامت کرنی پڑی

دانش ریاض، معیشت، ممبئی ڈاکٹر سید ریحان غنی سے ملاقات اور امارت شرعیہ کے قضیہ پر تفصیلی گفتگو کے بعد جب میں پٹنہ سے پھلواری شریف لوٹ رہا تھا تو لب مغرب امارت کی بلڈنگ سے گذرتے ہوئے خواہش ہوئی کہ کیوں نہ نماز مغرب یہیں ادا کی جائے، لہذا میں نے گاڑی رکوائی اور امارت...

آخر سائرہ شاہ حلیم کی کامیابی کیوں ضروری ہے؟

آخر سائرہ شاہ حلیم کی کامیابی کیوں ضروری ہے؟

دانش ریاض،معیشت،ممبئی ممبئی میں رہتے ہوئے مغربی بنگال کی سیاست پر یوں تو میں گذشتہ الیکشن سے ہی نظریں گڑائے بیٹھا ہوں لیکن آج کے ضمنی الیکشن میں سائرہ شاہ حلیم کی کامیابی کیوں ضروری ہے اس پر لکھنا اپنی ذمہ داری سمجھتا ہوں۔بالی گنج ضمنی انتخاب میں جہاںحزب اقتدار...