فکری زوال اور اسلام کے ہمہ گیر تصور کے کمزور ہوجانے کی وجہ سے مسلمانوں نے اپنی مرضی کے مطابق اسلام پر عمل کرنے کے لیے اپنی ترجیحات متعین کرلی ہیں۔ کوئی عبادات کو پورا دین سمجھ رہا ہے تو کوئی معاملات کو۔ بعض افراد ایسے بھی ہیں جو صرف فضائل ہی میں مگن ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ اس قسم کی فکر اسلام کی مکمل ترجمانی نہیں کرتی ۔ مگر افسوس یہ ہے کہ آج اکثر مسلمان اسی فکر کے حامل ہیں گرچہ وہ اس کا اقرار نہ کریں، مگر ان کے اعمال اسی فکر کی ترجمانی کررہے ہیں۔ اسلامی تعلیمات پر اپنی مرضی کے مطابق عمل کرنے کی بدترین مثال اسلام کا قانون میراث ہے۔ آج مسلم معاشرہ میں اس سے جس قدر غفلت برتی جاتی ہے اس سے اہل علم بخوبی واقف ہیں۔ نماز وروزہ کی پابندی کرنے والے اور اللہ کے رسول کی چھوٹی چھوٹی سنتوں کی تلاش میں رہنے والے بھی اس معاملہ میں مجرمانہ غفلت کے شکار ہیں۔
میراث کی تقسیم کی افسوسناک صورتحال:
ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے، یہاں ملکی قانون کے دائرہ میں رہ کر ہر شہری کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی ہے۔ مسلم پرسنل لاءجسے حکومت ہند بھی تسلیم کرتی ہے اس میں نکاح اور طلاق کے ساتھ وراثت کے قوانین بھی شامل ہیں، نکاح اور طلاق کے متعلق تو اسلامی شریعت کے مطابق عمل کرنے کی کسی حد تک کوشش کی جاتی ہے اور اگر کبھی ایک دو مسئلے اس سلسلہ میں پیداہوتے ہیں تو علماءکرام کی طرف رجوع کیاجاتا ہے، مگر اس پرسنل لاءکے انتہائی اہم جزءوراثت سے متعلق قوانین کو مسلمانوں نے اجتماعی طور پر پس پشت ڈال دیا ہے۔ عام طور پر عورتوں کو وراثت سے محروم کردیا جاتا ہے۔ عوام کی بے حسی تو ایک طرف خود علماءکرام بھی خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں بلکہ اکثر دفعہ خود اس جرم میں ملوث ہوتے ہیں حالاں کہ یہ ان کی ذمہ داری تھی کہ وہ اس عظیم ناانصافی کے خلاف جو عورت ذات کے ساتھ ہو رہی ہے آواز بلند کرتے مگر افسوس کہ ایسا نہیں ہورہا ہے۔
ایسی بات نہیں کہ ہر جگہ عورت ہی مظلوم ہے بعض صورتوں میں وہ خود بھی ظلم کرنے والی ہوتی ہے۔ مثلاً شوہر کی وفات کے بعد بیوی پوری جائیداد پر قبضہ کرلیتی ہے اور میت کے بھائیوں کو ان کا حق نہیں دیتی ہے۔ مطلب یہ کہ میراث کی تقسیم کا مناسب طریقہ نہ ہونے کی وجہ سے جس کے ہاتھ میں جو آگیا وہ اس کا مالک ہوگیا۔
عدالت کا کوئی فیصلہ مسلم پرسنل لاءکے خلاف آجانے پر ہم سڑکوں پر اتر آتے ہیں اور اس کے خلاف سراپا احتجاج بن جاتے ہیں مگر کبھی ہم نے سوچا کہ ہم نے خود اپنے گھریلو معاملات میں مسلم پرسنل لاءکے خلاف کتنے فیصلے کئے؟ میراث کی تقسیم کے وقت ہم نے مسلم پرسنل لاءکو ملحوظ رکھا یا نہیں؟
جب بات میراث کی شریعت کے مطابق تقسیم کی آتی ہے تو قسم قسم کی باتیں کی جاتی ہیں بے شمار عذر بیان کئے جاتے ہیں۔ آنے والی سطور میں ان اعذار کو بیان کرکے ان کی حقیقت واضح کی جائے گی مگر اس سے پہلے مناسب معلوم ہوتاہے کہ چند باتیں شریعت اسلامیہ کے مطابق میراث کی تقسیم کی ضرورت و اہمیت کے متعلق بیان کر دی جائےں۔
میراث کی منصفانہ تقسیم کی اہمیت و ضرورت:
قانون میراث کو اس حیثیت سے امتیازی مقام حاصل ہے کہ اللہ رب العزت نے اس کی تمام جزئی تفاصیل کو قرآن مجید میں بیان کردیا ہے۔ صلوٰة اور زکوٰة جیسی اہم عبادتوں کی تفصیل اللہ تعالیٰ نے قرآن میں نہیں بیان فرمائی ان کی ادائیگی کے طور طریقے کی وضاحت کی ذمہ داری نبی کریم ﷺ کے سپرد کردی۔ اس کے بالمقابل قانون میراث کی وضاحت اللہ تعالیٰ نے خود نہایت تفصیل کے ساتھ ایک ایک رشتہ دار کی تعیین کر کے ان کے حصہ کی مقدار متعین کرتے ہوئے بیان فرمایا۔ قانون میراث کی اس انفرادی خصوصیت کے بعد مزید کسی اور دلیل کی ضرورت ہی نہیں باقی رہتی کہ اسے اس ثبوت کے طور پر بیان کیا جائے کہ شریعت کے مطابق میراث کی تقسیم ضروری ہے۔ قرآن مجید اور صحیح احادیث سے کسی مسئلہ کے واضح ہوجانے کے بعد کوئی شخص اس پر عمل نہ کرے اور اس سے بچنے کے لیے بہانے تلاش کرے تو اسے اپنے دعوائے ایمانی پر نظر ثانی کرلینی چاہئے۔
آیت میراث سے پہلے مقدمہ کے طور پر اللہ تعالیٰ نے جن آیات کو بیان کیا ہے وہ انتہائی اہم ہیں۔ ارشاد ہے:
”والدین اور قریبی رشتہ دار جو کچھ مال و دولت چھوڑ جائیں اس میں مردوں کا حصہ ہے اور عورتوں کا بھی اس مال میں حصہ ہے جو ان کے والدین اور قریبی رشتہ دار چھوڑ کر مریں۔ خواہ وہ کم ہو یا زیادہ یہ حصے (اللہ کی طرف سے) مقرر کئے ہوئے ہیں۔“
مذکورہ آیت سے معلوم ہواکہ:
الف۔ میراث کے حق دار صرف مرد ہی نہیں بلکہ عورتیں بھی اس کی حقدار ہیں۔ لہٰذا صرف اولاد نرینہ کو میراث کا حق دار ٹھہرانے والوں کی اس آیت میں زبردست تردید ہے۔
ب۔ میراث کی تقسیم ہر حال میں ہونی چاہئے خواہ مال کتنا ہی کم کیوں نہ ہو یہاں تک کہ اگر دس گززمین ہو اور دس وارث ہوں تو قرآن مجید میں بتائے گئے طریقے کے مطابق ان میں تقسیم کیا جائے گا۔ ”مِمَّا“ کے لفظ کے عموم ہی سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ اس میں جائیداد منقولہ اور غیر منقولہ، زرعی اور غیر زرعی، دوکان یا مکان کسی قسم کی تفریق نہیں کی جائے گی۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ کوئی شخص ان میں سے اپنا حصہ بیچ کر الگ ہوجائے یا بغیر معاوضہ کے اپنا حق کسی کو دے دے۔
آیت کریمہ کا آخری ٹکڑا خاص طور پر قابل غور ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے یہ بیان کیا ہے کہ یہ مذکورہ حصے جو آگے بیان کئے جائیں گے وہ اللہ کی طرف سے مقرر کردہ ہیں لہٰذا اس میں کسی کو بھی اپنی مرضی کو دخل دینے کی گنجائش نہیں ہے۔ میراث کی تقسیم ہر حال میں اسی کے مطابق کرنا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے لڑکیوں کے حصہ کو اصل بنا کر اسی کے مطابق میراث کی تقسیم کا قاعدہ بیان فرمایا ہے، چنانچہ ارشاد ہے: (النسائ:۱۱)
”اللہ تعالیٰ تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں ہدایت کرتا ہے کہ مرد کا حصہ دو عورتوں کے حصہ کے برابر ہے۔“
معلوم ہوا کہ لڑکے کا حصہ نکالنے سے پہلے لڑکی کا حصہ متعین کرنا ہوگاجس کو بنیاد بناکر لڑکے کے حق کی تعیین کی جائے گی۔ اس سے لڑکیوں کے حق کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ افسوس کہ یہ بات صرف پڑھنے پڑھانے تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔
قانون میراث کے ایک حصہ کو بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے عرب جاہلیت کی اس غلط فکر کو نشانہ بنایا ہے جس کی بنیاد پر وہ اپنے چھوٹے بھائیوں کو جو لڑائی میں حصہ نہیں لے سکتے تھے میراث میں حصہ نہیں دیتے تھے، اسی قاعدہ کی بنیاد پر وہ عورتوں کو بھی میراث کا حق دار نہیں سمجھتے تھے کیو ںکہ وہ بھی ان کی نظر میں غیر مفید تھیں۔ استحقاقی میراث کے خالص مادہ پرستانہ نظریہ کی قرآن نے بہت ہی اچھے اور عمدہ طریقے سے تردید فرمائی اور کہا:
”تم نہیں جانتے کہ تمہارے ماں باپ اور تمہاری اولاد میں سے کون نفع کے اعتبار سے تم سے زیادہ قریب ہے۔ یہ حصے اللہ نے مقرر کردئے ہیں، اور اللہ یقینا (سب حقیقتوں سے )واقف (اور ساری مصلحتوں کا) جاننے والا ہے۔“ آیت میراث کو مکمل کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے خاتمہ کے طور پر ان احکام پر عمل کرنے کے اچھے اور برے نتائج سے آگاہ کردیا۔)
”جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا تو وہ اسے ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی وہ ان میں ہمیشہ ہمیش رہیں گے اور یہ عظیم کامیابی ہے اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اس کے حدود کو توڑے گا تو وہ اسے ہمیشہ کے لیے آگ میں ڈال دے گا اور اس کے لیے رسوا کن عذاب ہوگا۔“
مذکورہ بالا آیات کی روشنی میں ہمیں اپنامحاسبہ کرنا چاہئے کہ ہم اسلام کے کتنے اہم حکم کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے رویہ میں تبدیلی لائیں اور اسلام کو مکمل طور پر اپنی زندگی کے تمام گوشوں میں نافذ کریں۔ بعض احکام پر عمل کرنا اور بعض احکام کو اپنی مرضی کے مطابق نہ پاکر ان پر عمل نہ کرناایسا قبیح عمل ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کو پھٹکار لگائی ہے اوران کی ذلت و رسوائی کا ذمہ دار ان کے اس عمل کو قرار دیا۔
”کیا تم کتاب کے ایک حصہ پر ایمان لاتے ہو اور دوسرے حصہ کے ساتھ کفر کرتے ہو تم میں سے جو لوگ ایسا کریں ان کی سزا اس کے سوا اور کیا ہوسکتی ہے کہ دنیا کی زندگی میں ذلیل و خوار ہو کر رہیںاور آخرت میں شدید ترین عذاب کی طرف پھیر دیئے جائیں۔ اور اللہ تعالیٰ جو کچھ تم کر رہے ہو اس سے غافل نہیں ہے۔“
غور کرنے کی بات یہ ہے کہ کیا آج ہم مسلمانوں نے کتاب اللہ کے ایک حصہ یعنی قانون میراث سے متعلق احکام پر عمل کرنا نہیں چھوڑ دیا ؟ اگر دنیا میں ہمیں ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے تو یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کیو ںکہ اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کی ذلت کے جو اسباب بیان کئے ہیں وہ ہمارے اندر بدرجہ¿ اتم پائے جارہے ہیں۔
اسلامی قانون میراث میں من مانی کرنے کے اسباب و عوامل:
اب ہم ذیل میں ان اہم اسباب و عوامل کو بیان کریں گے جن کی وجہ سے مسلمانوں نے اسلامی قانون میراث کو شجر ممنوعہ سمجھ کر ترک کردیا ہے۔ ان اسباب میں سرفہرست مسلمانوں کی غفلت اور اللہ رب العزت کے حضور جواب دہی کے خوف کا فقدان ہے، دیگر اہم محرکات مختصر طور پر ذیل میں بیان کیے جارہے ہیں۔
ہندوانہ رسم و رواج
ہندو دھرم میں لڑکی کو باپ کی جائیداد میں حصہ نہیں ملتا تھا، بعد میں حکومت نے ہندوایکٹ میں ترمیم کرکے۶۵۹۱ئ میں لڑکیوں کو باپ کی منقولہ جائیداد کاحق دار بنایا۔ یہ قانون بھی اگر مگر کے اتنے قیود رکھتاتھا جس کی وجہ سے کم ہی لڑکیوں کو باپ کی جائیداد میں حق مل پایا۔ ڈاکٹر اروند جین اپنے ایک مضمون میں اس قانون پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:”۶1950ئسے پہلے مشترکہ خاندان کی ملکیت میں (میتا کشرا قانون کے تحت) بیٹیوں کا کوئی حق ہی نہیں تھا1950ئ میں بنے ہندو وراثت آرڈی ننس میں (بڑی مشکل سے) التزام کیا گیا کہ اگر کسی ہندو آدمی کا مشترکہ خاندان کی ملکیت میں بھی حصہ ہے اور اس کے ورثا میں (بیٹی، بیوہ، ماں وغیرہ) عورتیں بھی شامل ہیں تو انہیں بھی حصہ مل سکتا ہے بشرطیکہ متوفی نے اپنے حصہ کے بارے میں کوئی وصیت نہ کی ہو۔“ (۱) اور اب نیا قانون جسے 2000ئ میں ترمیم کے لیے بھیجا گیا تھا اور اب قانون کی شکل اختیار کرلی ہے، اس کی رو سے بیٹیوں کو بھی باپ کی منقولہ اور غیر منقولہ تمام جائیداد میں لڑکوں کے برابر حصہ ملے گا۔ یہ قانون صرف انہی لوگوں پر نافذ ہوگا جن کی شادی اس قانون کے نفاذ سے پہلے ہوئی ہوگی۔
اسلام نے عورتوں کو جو حق آج سے صدیوں پہلے دے دیاتھا آج لوگ قانون میں ترمیم کرکے اسے نافذ کر رہے ہیں، بہرحال اسلامی قانون میراث جسے اللہ نے خود بنایا ہے اور انسانوں کے بنائے ہوئے قانون میں واضح فرق ہے۔ موجودہ ترمیم شدہ قانون میں اور اس سے پہلے والے قانون میں یہ کمزوری موجود ہے کہ اگر کوئی شخص چاہے تو اپنی زندگی میں وصیت کرکے اس قانون کو باطل کرسکتا ہے۔ ڈاکٹر اروند کہتے ہیں:
”دراصل وصیت کرنے کا حق رہتے وراثت کا قانون بے کار ہی نہیں بے معنی بھی کہا جاسکتاہے۔ باپ اپنی زندگی میں ہی ملکیت کا بٹوارہ کر سکتا ہے۔ جمع کردہ ملکیت کو مشترکہ خاندان میں ضم کرسکتا ہے۔
یقین نہیں ہو رہا ہے کہ یہ نیا قانون کبھی صبح کا سورج بھی دیکھ پائے گا۔ باپ تو راتوں رات پدری ملکیت کا بٹوارہ کرکے بیٹوں کو سونپ دیں گے۔ بیٹوں کو شادی سے پہلے ہی خاندان سے الگ کردیں گے۔“ (۲)
ڈاکٹر صاحب اس حیثیت سے اسلامی قانون میراث کی برتری کو تسلیم کرتے ہیں کہ اس میں اگر کوئی شخص کسی وارث کو محروم کرنا چاہے تو نہیں کرسکتا کیوں کہ اس میں وصیت کی حد مقرر ہے۔(۳) یہی نہیں بلکہ اسلام یہ بھی بندش لگاتا ہے کہ کوئی شخص کسی وارث کے حق میں وصیت نہیں کرسکتا۔(۴) لہٰذا اگر کوئی کسی ایک بیٹے کو وصیت کے ذریعہ فائدہ پہنچانا چاہے تو ایسا ممکن نہیں ہے۔
یہاں ہندو ایکٹ اور مسلم پرسنل لاءسے موازنہ کرنا مقصود نہیں بلکہ صرف یہ بتلانا مقصود ہے کہ برسوں بعد بھی اگر قانون میں ترمیم کرکے عورتوں کو وراثت کا حق دار ٹھہرا گیا تب بھی وصیت کی قینچی سے لڑکیوں کا حصہ عموماً کتر دیا جاتا ہے اور نتیجہ یہ ہوتاہے کہ شاذو نادر ہی ایساہوتا ہے کہ کوئی شخص مرے اور وصیت نہ کی ہو اور اس کی لڑکی کو بھی وراثت میں حصہ مل جائے۔ عموماً لوگ وصیت کے ذریعہ لڑکوں کو پوری جائیداد سونپ جاتے ہیں۔ ہندوﺅں کے ساتھ ایک زمانہ سے رہتے ہوئے مسلمانوں نے دوسرے رسوم و رواج کی طرح ان کے وراثت کے قانون کو اپنا لیا۔ حالاں کہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ایک آسمانی دین کے ماننے والے کی حیثیت سے مسلمان ان پر اثر انداز ہوتے اور ان کو اسلامی وراثت کے قانون کو ماننے پر مجبور کرتے مگر اسے غلامانہ ذہنیت کی دین ہی کہیں گے کہ وہ ایسا نہیں کرسکے۔
جہیز کا غیر اسلامی تصور:
عام طور پر مسلمانوں میں ایک غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ وہ لڑکیوں کو جہیز کی شکل میں جو کچھ دیتے ہیں وہ وراثت کا بدل ہے لہٰذا اگر انہیں وراثت میں بھی حصہ دیاجائے تو یہ لڑکوں کی حق تلفی ہوگی کیو ں کہ ایسی صورت میں لڑکیوں کو دو مرتبہ وراثت میں حصہ دیناہوگا۔
یہ خیال سراسر باطل ہے۔ جہیز وراثت کا بدل ہو ہی نہیں سکتا۔ وراثت کے لیے ضروری ہے کہ پوری جائیداد کا اندازہ لگا کر دی جائے۔ حالاں کہ جہیز میں پوری جائیداد کا اندازہ نہیں لگایا جاتا ہے اس کی مقدار عام طور پر لڑکے والو ںکی طلب کے مطابق ہوتی ہے اور اگرطلب نہیں ہوتی تو اپنی مرضی کے مطابق جہیز تیار کیاجاتاہے۔ جو صورت بھی ہو جہیز پوری جائیداد کا اندازہ لگا کر نہیں دیا جاتا ہے۔
دوسری بات یہ کہ میراث کی تقسیم کا مسئلہ تو مورث کی موت کے بعد پیش آتا ہے جب کہ جہیز میں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ باپ اپنے بیٹوں کو شادی بھی عموماً اپنے پیسوں سے کرتاہے مگر کبھی یہ بات سننے میں نہیں آئی کہ کسی بیٹے کو وراثت سے اس وجہ سے محروم کردیا گیا ہو کہ اس کی شادی انہی پیسوں سے کی گئی ہے۔ اگر یہ بات لڑکوں کے سلسلے میں نہیں تو پھر یہ ناانصافی لڑکیوں ہی کے ساتھ کیوں؟
سب سے آخر میں یہ بات کہ جہیز کو آخرضروری کس نے قرار دیا ہے؟ کیا اسلامی نقطہ نظر سے جہیز دینا ضروری یا کم از کم مستحب ہے؟ ظاہر ہے کہ اس کاجواب نہیں میں ہوگا۔ اسلام نے سب سے پسندیدہ شادی اسے قرار دیا ہے جس میں خرچ کم ہو۔ ایک ناپسندیدہ عمل سے اسلام کے ایک محکم حکم کو باطل کرنا کہاں کی عقل مندی ہے؟
دراصل جہیز کی رسم ہی اس وجہ سے رائج ہوئی کیوں کہ لڑکیوں کو میراث میں حصہ نہیں دیا جاتا اگر اسلامی قانون کے مطابق انہیں ان کا جائز حق دیا جانے لگے تو جہیز کی لعنت خود ہی دم توڑ دے گی۔ (۵)
لڑکیوں کا خود حق وراثت سے دستبردار ہو جانا:
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ لڑکیاں اپنا حق خود ہی معاف کردیتی ہیں، اس وجہ سے ان کا حصہ نہ مقرر کرنے میں کوئی قباحت نہیں، کیا واقعی بات ایسی ہی ہے جس طرح کہی جاتی ہے؟ حقیقت میں مسئلہ یہ ہے کہ لڑکیاں اپنا حصہ معاف کرتی نہیں ہیں بلکہ ان سے معاف کرایا جاتا ہے۔ ان کے سامنے کچھ ایسے حالات پیدا کئے جاتے ہیں جن سے مجبور ہو کر وہ اپنے حق سے دستبردار ہونے ہی میں اپنی عافیت سمجھتی ہیں۔ کھلے یا دبے لفظوں میں انہیں میکہ یا حق وراثت میں سے کسی ایک کو منتخب کرنے کو کہا جاتا ہے۔ عورت ذات جو خود اپنی بے عزتی برداشت کرسکتی ہے مگر اپنے میکہ کے خلاف ایک لفظ بھی سننا گوارا نہیں کرتی وہ کیو ںکر یہ برداشت کرسکتی ہے کہ اس سے اس کا میکہ چھوٹ جائے۔ وہ تویہی چاہتی ہے کہ زندگی کی آخری سانس تک اس کا تعلق میکہ سے جڑا رہے، اس کے بھائی اس کے دکھ سکھ کے ساتھی بنے رہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ میکہ پر جائیداد کو قربان کردیتی ہے۔
عموماً اس کی بھی زحمت نہیں گوارا کی جاتی ہے۔ معاف کرنے یا کرانے کی بات وہاں ہوتی ہے جہاں تھوڑی بہت دینداری ہوتی ہے۔ ایک طرف انہیں اپنی دینداری کا خیال ہوتا ہے دوسری طرف موروثی جائیداد کی محبت بھی ہوتی ہے بہن کے توسط سے جسے غیروں کے ہاتھوں میں پہنچنے کا خطرہ ہوتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر کوئی شخص اپنے حق سے دست بردار ہو جائے تو جس کے حق میں وہ دست بردار ہوا ہے وہ اپنے قبضہ میں لے کر فائدہ اٹھا سکتاہے۔ لیکن اس کے لیے دلی رضا مندی ضروری ہے بغیر دلی رضا مندی کے کسی قسم کے دباﺅ کے ذریعہ معاف کرانے والوں کا اللہ تعالیٰ ضرور محاسبہ کرے گا۔
اس عمل سے ہمارے سماج کی سطحیت واضح طور پر کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ جس صلہ رحمی کی اسلام دعوت دیتاہے اسے ہم نے چند سکّوں سے مشروط کر دیا۔ یہاں بھی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ معافی کی رسم صرف لڑکیوں ہی کے ساتھ کیو ںادا کی جاتی ہے؟ کبھی لڑکے بھی دریا دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے حصہ کو معاف کرنے کی جسارت دکھائیں۔
حالت تو یہ ہے کہ بھائی بہن کی پوری جائیداد ہڑپ کرنے کے بعد کبھی احسان کے چند ٹکڑے کپڑے یا دیگر سامان کی شکل میں دیتا ہے تو اس طرح ڈھنڈورا پیٹتا ہے گویا کہ اس نے حاتم طائی کو مات دے دی، حالاں کہ اس نے اس کی جو جائیداد لے رکھی ہے اس سے وہ اس جیسے لاکھوں جوڑے خرید سکتی ہے۔
اس سلسلہ میں لڑکیوں کو بھی اپنے رویے میں تبدیلی لانی ہوگی۔ دباﺅ میں آکر معاف کردینے کے عمل کی وجہ سے قانون میراث پر عمل متروک ہو چکا ہے۔ انہیں اپنا واجبی حق حاصل کرنے کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔ جہاں تک میکہ چھوٹنے کا سوال ہے تو میکہ اس صورت میں چھوٹے گا جب وہاں ان کی کوئی زمین جائیداد نہیں ہوگی۔ وراثت کی شکل میں جب زمین جائیداد ہوگی اور وہاں آنا جاناہوگا تو میکہ چھوٹنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوگا۔ چند دنوں کی ناراضگی کے بعدبھائی خود لائن پر آجائیں گے۔
موروثی جائیداد کے ٹکڑے ٹکڑے ہوجانے کا خدشہ:
ایک خدشہ یہ بھی بیان کیا جاتاہے کہ شریعت کے مطابق وراثت کی تقسیم کرکے لڑکیوں کو غیر منقولہ جائیداد میں حصہ دینے سے موروثی جائیداد ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بکھر جائے گی۔ اور بعض صورتوں میں وہ بے مصرف ہوجائے گی، مثلاً ایسی زمین جس پر سبزی اگائی جاتی تھی اگر کوئی شخص اپنی بہن کو دیدے جس کی شادی کسی مویشی پالنے والے سے ہوئی ہو تو وہ زمین جو سبزی اگانے کے لیے موزوں تھی گائے بھینس کے چرانے میں استعمال کی جائے گی۔ جس سے اس کا صحیح استعمال نہیں ہوپائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ بعض لوگ صرف منقولہ جائیداد میں لڑکیوں کو حصہ دینے کی وکالت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ لڑکیاں منتقل ہونے والی ہوتی ہیں، وہ منتقل ہو کر اپنی سسرال چلی جاتی ہےں اسی وجہ سے انہیں منقولہ جائیداد میں حصہ دو اور لڑکے جو غیر منتقل ہوتے ہیں انہیں شادی کے بعد وہیں رہنا ہوتا ہے اس وجہ سے اپنی غیر منقولہ جائیداد میں حصہ دیا جائے۔ (۶)
جہاں تک منقولہ اور غیر منقولہ کی تفریق کی بات ہے تو یہ صحیح نہیں۔ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ وراثت کی تقسیم کے بعد لڑکی غیرمنقولہ جائیداد میں اپنے حصہ کا معاوضہ لے کر موروثی جائیداد وہیں باقی رہنے دے، جن لڑکیوں کی سسرال میکے سے دور ہو ان کو اسی میں سہولت ہوگی۔ بہرحال انہیں اس پر مجبور نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ یہ ان کا حق ہے اور اس کے تصرف کے بارے میں وہ زیادہ حق دار ہیں۔
جہاں تک جائیداد کے منتشر ہونے کی بات ہے تو اسلام اس کا قائل ہی نہیں کہ کوئی جائیداد ایک ہی جگہ متحدہ شکل میں باقی رہے جس کی وجہ سے دولت ایک ہی جگہ سمٹی رہے، وہ دولت کا جماﺅ نہیں بلکہ پھیلاﺅ پسند کرتا ہے۔ قرآن اپناو اضح اصول بیان کرتے ہوئے کہتا ہے:
”جو (مال) بھی اللہ بستیوں کے لوگوں سے اپنے رسول کی طرف پلٹا دے، وہ اللہ اور رسول اور رشتہ داروں اور یتیموں اور مساکین اور مسافروں کے لئے ہے۔ تاکہ وہ تمہارے مالداروں کے درمیان ہی گردش نہ کرتا رہے، جو کچھ رسول تمہیں دیں وہ لے لو اورجس چیز سے وہ تم کو روک دیں رک جاﺅ اللہ سے ڈرو، اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔“
اس آیت کریمہ میں بیان کیا گیا ہے کہ اسلام یہ نہیں چاہتا کہ مال صرف مالداروں کے درمیان ہی گردش کرتا رہے بلکہ دولت کا پھیلاﺅ ہو اور دولت ٹکڑے ٹکڑے ہو کر دوسروں کے ہاتھوں میں پہنچتی رہے۔ میراث کی تقسیم بھی انہی وسائل میں سے ہے جس سے اسلام کا یہ قانون نافذ ہوتا ہے۔
دراصل یہ تشویش اس وجہ سے ہو رہی ہے کیو ںکہ ہم اسلام کے قانون وراثت کو عملی شکل میں نافذ ہوتا نہیں دیکھ رہے ہیں۔ جب یہ قانون مکمل طور پر ہمارے معاشرہ میں نافذ ہوجائے اور ہم اس کا مشاہدہ کرلیں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ کتنی بڑی نعمت سے ہم محروم تھے۔ اگر یہ خطرہ ہے کہ بہن اپنا حصہ لے کر چلی جائے گی تو اس کی بیوی بھی تو کسی کی بہن بیٹی ہوگی جو اپنا حصہ لے کر آئے گی اسی طرح توازن برقرار رہے گا۔
عورتوں پر ظلم بڑھنے کا خطرہ:
یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ جب لوگوں کو مکلف بنایا جائے گا کہ موروثی جائیداد میں عورتوں کو ان کا حق دیں تو عورتوں پر ظلم و زیادتی میں اضافہ ہوگا ابھی جب کہ لڑکیوں کو میراث میں حصہ نہیں دیا جاتا اس کے باوجود حالت یہ ہے کہ لڑکیوں کو پیدا ہونے سے پہلے ختم کردیا جاتاہے۔ مشہور ماہر معاشیات ڈاکٹر بھرت جھنجھن والا اس خدشہ کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”عورت کو غیر منقولہ جائیداد میں حصہ دینے کے خطرناک انجام سامنے آئیں گے۔ موجودہ دور میں بیٹی کو پرایا دھن مان کر اسے پالا، پڑھایا جاتاہے اور جہیز دے کر اسے باوقار انداز میں رخصت کیا جاتا ہے۔ کنیادان کرنا ثواب کا کام بتایا گیا ہے۔ بیٹی کے پیدا ہونے پر ماں باپ ملول ضرور ہوتے ہیں چوں کہ انہیں بڑھاپے کا سہارا نہیں ملتا ہے مگر بیٹی ان کے لیے پریشانی یا خطرہ نہیں بنتی ہے۔ غیر منقولہ جائیداد میں حق دینے سے بیٹی کو خاندان کا دشمن ماناجانے لگے گا۔ بیٹی کے پیدا ہوتے ہی شمار ہونے لگے گا کہ اس کے حصے کون سا کھیت آئے گا۔ اس سے بیٹی کے تئیں مقابلہ آرائی، نفرت اور برے جذبات کو فروغ ملے گا۔ میرا خیال ہے کہ جنین کشی اور اولاد کشی میں بہت اضافہ ہوگا۔ یاد رکھیں کہ جنین کشی میں اکثر مائیں بھی تعاون کرتی ہیں چوں کہ ضعیفی میں اسے بیٹے کا ہی سہارا ملتا ہے موروثی جائیداد میں حصہ دینے سے وہ خاندان کی دشمن بن جائے گی۔“ (۷)
ہندوستان کے بعض علاقوں میں دیوداسی بنانے کا رواج ہے اس میں لڑکی کی شادی کسی دیوتا سے کردی جاتی ہے، یہ مذموم رسم مسلمانوں میں بھی در آئی ہے اور بعض علاقوں میں لوگ اپنی بیٹیوں کی شادی قرآن سے کردیتے ہیں۔
لڑکیوں کو وراثت میں حصہ دینے کی شکل میں اس سب میں اضافہ کا خدشہ اسی صورت میں درست ہوسکتاہے کہ جب موجودہ برائی کی وجوہات مالی ہوں، جہاں تک رحم مادر میں لڑکی کو قتل کرنے کی بات ہے تو اس کا رواج مالدار گھرانوں میں زیادہ ہے۔ اگر اس کی وجہ مالی ہوتی تو یہ مالدار گھرانوں کے مقابل میں غریب گھرانوں میں ہوتا کیوں کہ امیر گھرانوں کی لڑکیاں بھی اب لڑکوں سے کم کماﺅ نہیں ہیں۔ وہ زندگی کے ہر میدان میں لڑکوں کی برابری کر رہی ہیں ایسی صورت میں انہیں پیدا ہونے سے پہلے قتل کرنا کیا معنی رکھتا ہے۔
دراصل اس کی وجہ خود حکومت کے ذریعے چلائے جانے والے فیملی پلاننگ پروگرام ہیں حکومت ”ہم دو ہمارے دو“ اور ”ہم دو ایک ہمارے ایک“ کا نعرہ لگاتے وقت بھول گئی کہ اس کا نتیجہ کیا نکلے گا، جب لوگوں کو ایک یا دو بچوں پر قناعت کرنے پر مجبور کیا جائے گا تو ضروری بات ہے کہ وہ بھی دیکھیں گے کہ وہ ایک یا دو ان کے لیے رحمت ثابت ہونے والے ہوں یا زحمت، ظاہر سی بات ہے کہ لوگ لڑکوں کو لڑکیوں پر ترجیح دیں گے۔
دیوداسی اورقرآن سے شادی کے لیے دراصل ضعیف الاعتقادی ذمہ دار ہے۔ بعض صورتوں میں اس کی وجہ یہ جاہلی سوچ ہوتی ہے کہ ان کی بیٹی یا بہن کسی کی بیوی بنے گی تو اس میں ان کی ذلت ہے یہ وہی فکر ہے جس کی وجہ سے زمانہ جاہلیت میں لوگ اپنی بیٹیوں کو زندہ درگور کر دیا کرتے تھے۔ اور اگر لڑکیوں کو ان کا واجبی حق دینے کی وجہ سے یہ خوف ہو کہ ان پر مظالم میں اضافہ ہوگا تو کیا اس خوف کی وجہ سے ان کو ان کا حق نہ دیا جائے؟ ہونا تو یہ چاہئے کہ سماج کی ان برائیوں کے خلاف رائے عامہ تیار کی جائے اورلوگوں کے اندر ان برائیوں سے نفرت پیدا کی جائے نہ کہ ایک برائی کے ذریعہ دوسری برائی کا مقابلہ کیا جائے۔ یہ چند اسباب ہیں جنہیں اگر عذرلنگ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا جن کو بہانہ بنا کر اللہ تبارک و تعالیٰ کے نافذ کردہ احکام میراث کی خلاف ورزی کی جاتی ہے اس مضمون میں ان کو بیان کرکے ان کی حقیقت بھی بیان کردی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں شریعت پر عمل کرنے کی توفیق بخشے۔ آمین۔
میراث کی تقسیم کا صحیح طریقہ کار: میراث کی تقسیم میں تاخیر کرنے سے بعد میں بہت سی قباحتیں پیدا ہوجاتی ہیں اس وجہ سے میت کی تجہیز و تکفین کے بعد جو مال بچے اس کو قرآن مجید میں بیان کردہ طریقے کے مطابق جلد از جلد تقسیم کردیناچاہئے تاکہ ہر شخص اپنا مال اپنی مرضی کے مطابق خرچ کرسکے۔ نسل در نسل ترکہ تقسیم نہ کرنا صحیح نہیں، ہمارے ملک میں جوائنٹ فیملی سسٹم کے رواج کی وجہ سے عام طور پر یہی ہوتا ہے کہ ترکہ کئی کئی پشتوں تک بغیر تقسیم کے خاندان کے افراد کے تصرف میں رہتا ہے اورجب کبھی تقسیم کی نوبت آتی ہے تو صحیح طور پر تقسیم نہیں ہوپاتی۔
میراث میں عورتوں کا حصہ: پوری بحث چوں کہ عورتوں کو میراث میں حق دینے سے متعلق ہے اس وجہ سے ضروری ہے کہ مختصر طور پر عورتوں کو قرآن نے جو حق دیا ہے اسے بیان کردیا جائے۔ یاد رہے کہ عورت چار حیثیتوں سے وارث بنتی ہے۔ ماں، بہن، بیٹی اور بیوی، ہرصورت میں حق الگ الگ ہوگا۔ (۸)
بیوی کا حصہ: بیوی کے حصہ پانے کی دو صورتیں ہیں:
۱۔ میت کی کوئی اولاد نہ ہو تو بیوی کو ترکہ کا ۴۱ (چوتھائی) حصہ ملے گا۔
۲۔ میت کی کوئی اولاد ہو خواہ اس بیوی سے یا کسی دوسری بیوی سے تو بیوی کو یا سب بیویوں کو (اگر ایک سے زائد ہوں) ملا کر ۸۱ (آٹھواں) حصہ ملے گا۔
ماں کا حصہ: ماں کے حصہ پانے کی تین صورتیں ہیں:
۱۔ میت کی کوئی اولاد یا دو بھائی بہن موجود نہ ہوں تو ماں کو ترکہ کا ۳۱ (تہائی) حصہ ملے گا۔
۲۔ میت کی کوئی اولاد یا دو بھائی بہن موجود ہوں تو ماں کو ترکہ کا ۶۱ (چھٹا) حصہ ملے گا۔
۳۔ اگر میت کے وارثوں میں صرف ماں باپ اور شوہر ہوں یا صرف ماں باپ اور بیوی ہوں تو پھر شوہر یا بیوی کا ۲۱ (آدھا) یا ۴۱ (چوتھائی) دینے کے بعد جو ۲۱(آدھا) یا ۴۳ (تین چوتھائی) حصہ بچے گا اس کا ۳۱ (تہائی) حصہ ماں کو ملے گا۔
بیٹی کا حصہ:
۱۔ اگر میت کے صرف ایک بیٹی ہو اور کوئی بیٹا نہ ہو تو بیٹی کو ۲۱ (آدھا) حصہ ملے گا۔
۲۔ اگر میت کی دو یا دو سے زائد بیٹیاں ہوں لیکن بیٹا نہ ہو تو سب بیٹیوں کو ترکہ کا ۳۲ (دو تہائی) میں سے برابر حصہ ملے گا۔
۳۔ جب بیٹی یا بیٹیوں کے ساتھ بیٹایا بیٹے موجود ہوں تو بیٹی یا بیٹیاں عصبہ لغیرہ ہوجاتی ہیں اور اس حالت میں انہیں بیٹوں کا آدھا ملتا ہے۔
بہن کے حصے:
بہن کی تین شکلیں ہیں سگی بہن، علّاتی بہن (باپ شریک بہن) اور اخیافی بہن (یعنی ماں شریک بہن) اس فرق کے حساب سے ان کے حصوں میں فرق ہوگا۔ یاد رہے کہ بہن اسی صورت میں وارث ہوگی جب میت کے نہ لڑکا ہو اور نہ باپ۔
سگی بہن کا حصہ:
۱۔ اگر صرف ایک بہن ہو نہ اولاد ہو نہ بھائی تو بہن کو ۲۱ (آدھا) حصہ ملے گا۔
۲۔ اگر دو یا زیادہ سگی بہنیں ہیں تو ۳۲ (دو تہائی) میں سب کو برابر برابر ملے گا۔
۳۔ اگر بہن یا بہنوں کے ساتھ سگا بھائی بھی ہو تو بہنیں عصبہ لغیرہ ہو کر بھائیوں کا آدھا پائیں گی۔
۴۔ اگر بہن یا بہنوں کے ساتھ میت کی بیٹی یا پوتی وغیرہ ایک یا زیادہ ہوں تو بہنیں عصبہ مع غیرہ ہو کر ذوی الفروض سے بچا ہوا سب پاتی ہیں۔
علّاتی بہن کا حصہ:
اس کے حصہ پانے کی پانچ شکلیں ہیں:
۱-۲۔ دو شکلیں بالترتیب وہی ہیں جو سگی بہن کی ہیں۔
۳۔ اگر ایک سگی بہن اور ایک یا زیادہ علّاتی بہنیں ہوں تو علّاتی بہنوں کا حصہ تکملة للثلثین یعنی ۶۱ (چھٹا) ہوگا۔
۴۔ اگر علّاتی بہن کے ساتھ علاتی بھائی بھی ہو تو اس کا آدھا حصہ پائے گی۔
۵۔ اگر میت کی ایک یا زیادہ بیٹی کے ساتھ سگی بہن کے بجائے سوتیلی بہنیں ہوں لیکن سوتیلا بھائی نہ ہو تو علّاتی بہنیں ذوی الفروض سے بچے ہوئے کل ترکہ کی حقدار ہوں گی۔
نوٹ: اگر میت کا بیٹا یا باپ یا سگا بھائی یاسگی بہن عصبہ مع غیرہ کی حیثیت سے ہوں یا دو سگی بہنیں ہوں تو علاتی بہن کو حصہ نہیں ملے گا۔
اخیافی بہن کا حصہ: اخیافی بہن کا حصہ بعینہ وہی ہے جو اخیافی بھائی کا ہوگا اس لیے ”للذکر مثل حظ الا نثیین“ کا قاعدہ اس پر نافذ نہیں ہوگا۔ اخیافی بہن کے حصہ پانے کی تین شکلیں ہیں:
۱۔ ایک اخیافی بہن یا بھائی ہو تو اسے ترکہ کا ۶۱ (چھٹا) حصہ ملے گا۔
۲۔ اگر ایک سے زیادہ اخیافی بھائی یا اخیافی بہنیں ہوں تو ۳۱ (تہائی) میں سے ہر ایک کو برابر ملے گا۔
۳۔ اگر اخیافی بھائی کے ساتھ میت کے باپ دادا یا بیٹے، پوتے، یا بیٹی، پوتی زندہ ہوں تو اخیافی بھائی بہن کو حصہ نہیں ملے گا۔
خاتمہ: ہمیں یہ حقیقت ہرگز نہیں بھولنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کی انفرادی غلطی کو کسی حد تک نظر اندازکردیتا ہے مگر اجتماعی غلطی کو معاف نہیں کرتا۔ شعیب، صالح، عاد اور لوط علیہم السلام کی قوموں کو اس وقت ہلاک کردیا گیا جب ان کے اندر کی مخصوص برائی اس قوم کا خاصہ بن گئی اور اصلاح کی ساری کوششیں رائیگاں گئیں۔ یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی برکت ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس قوم کو اجتماعی طور پر ہلاک نہیں کر رہا ہے۔
اللہ کے رسول ﷺ نے ایک حدیث میں فرمایا کہ جو شخص کسی کی ایک بالشت زمین غصب کرے گا تو اللہ تعالیٰ سات زمینوںکا طوق اس کے گلے میں ڈال دے گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس حالت سے بچائے کہ ہمارے خلاف دعوی کرنے والے کوئی اور نہیں بلکہ ہماری بہن، بیٹی یا ماں ہوں اورہربالشت زمین کے عوض سات زمینوں کا بوجھ لاداجائے۔
ہمیں چاہئے کہ ہم اس دنیا سے اس طرح جائیں کہ کسی کا حق ہمارے اوپر نہ ہو تاکہ قیامت کے دن کوئی ہمارے خلاف دعوی نہ کرسکے۔اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔
تفصیل کے لیے کسی معتبر تفسیر کی طرف رجوع کریں یا علم میراث پر لکھی گئی کتابیںپڑھیں۔ اس کے باوجود ہم اپنے قارئین سے گزارش کریں گے کہ علم میراث کا موضوع انتہائی پیچیدہ ہے اس لیے خود سے کوئی فیصلہ کرنے کے بجائے اس فن کے ماہر علماءسے رجوع کرلیا کریں۔ یہاں پر سرسری طور پر صرف عورتوں کے حصے بیان کئے گئے ہیں، اس لیے کہ یہ بحث خاص طور پر عورتوں کے میراث سے متعلق لکھی گئی ہے۔
٭٭٭٭٭