
اسلامی مالیاتی سرگرمیوں کا آغاز
اسی کی دہائی میں ہندوستان میں اسلامی مالیاتی سرگرمیوں کے ایک نئے مرحلے کا آغاز ہوا۔ اس دہائی سے قبل تک اسلامی مالیات سے متعلق تمام عملی سرگرمیوں کا دائرہ لوگوں کوسود سے آزاد قرض فراہم کرانے تک ہی محدود ہوتا تھا۔ اس وقت تک اسلامی مالیات سے کمائی کے بارے میں نہیں سوچا گیا تھا، حالانکہ ملکی اسلامی مالیات اورخارجی اسلامی مالیات دونوں کے اندراس بات کی گنجائش موجود تھی کہ اس مالی نظام کوکمرشیالائزکیا جا سکے۔ اس کے اندر اسلامی تجاری ماڈل موجود تھا۔
اس سلسلے میں 1980 میں کچھ تجارتی پہلی کی گئی اورسیونگ اورسرمایہ کاری کا متبادل پیش کیا گیا۔ تاہم یہ پہل چند سالوں کے بعد ناکام ہوگئی۔ ان اداروں میں چند معروف نام اس طرح ہیں حیدرآباد واقع مرکزانوسٹمنٹ، اورمدراس میں واقع المیزان وغیرہ۔
1983 میں برکات انوسٹمنٹ گروپ کا وجود عمل میں آِیا۔ اس نے اسٹاک مارکٹ اورلیزنگ میں سرمایہ کاروں کے لئے مواقع پیدا کئے۔ برکات کی اس پیش رفت کےساتھ ہی ہندوستان میں اسلامی تجارتی مالیات کا آغازہوا۔ 1988 تک برکات گروپ کی توجہ خصوصی طورسے ریئل اسٹیٹ کی طرف مرکوزرہی۔ اس درمیان لیزنگ اورشیئرانوسٹمنٹ کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ 1986 میں بنگلور واقع الامین تحریک کا آغازہوا۔ الا مین اسلامک فائننس اینڈ انوسٹمنٹ کارپوریشن لمیٹیڈ (AIFIC),
ملک کی پہلی لیزنگ این بی ایس ٹی تھی۔ اس کے بعد 1989 میں البرکہ فائنانس ہائوس لمیٹیڈ کا آغازہوا اوریہ مالیاتی ادارہ پہلا اسلامی ادارہ تھا جس میں خارجی اکویٹی اسٹیک بھی تھا۔ سعودی عرب کے دلہ البرکہ کا کا شیئر بھی اس میں شامل تھا۔ تجارتی اسلامک فائنانس حقیقی معنوں میں اب ہندوستان میں داخل ہوچکاہے۔
ترقی اور بحران
نوے کی دہائی کی ابتدا میں ہندوستان میں ہرطرف لبرالائیزیشن کا بول بالا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب اسلامی مالیاتی ادارے کام کرنا شروع کر رہے تھے۔ یہ ادارے آزادانہ اوراشتراک کے ساتھ کام کر رہے تھے۔ یہ دوراسلامی اقتصادیات کا وہ دورتھا جب ہرطرف لوگ پرامید نظر آرہے تھے۔ اس دور میں سب سے اہم موڑ اس وقت آیا جب ٹاٹا کورسیکٹرنے اکویٹی فنڈ جاری کیا۔ اس کا نشانہ شریعت کی پیروی کرنے والے سرمایہ کارتھے۔ برکات انوسٹمنٹ گروپ نےاسے پورے ملک میں متعارف کرایا۔
نوے کی دہائی میں اسلامی مالیات میں تیزی آئی ۔ انڈین اسوسی ایشن فاراسلامک اکونامکس (IAFIE) کا قیام 1990 میں عمل میں آیا۔ اور1991 میں اس نے اسلامک اکونامک بلیٹن شروع کیا۔ اسی درمیان علی گڑھ مسلم یونیور سٹی نےاسلامی معاشیات پر گریجویشن کرانا شروع کیا۔
البتہ اس دور میں بہتر نگراں کی کمی تھی۔ ایک وقت آیا جب معیشت بحران کا شکارہوگئی۔ اس درمیان آربی آئی نے اپنے اندربڑے پیمانے پر تبدیلی پیدا کی۔ معیشت کو بچانے کے لئے جو انتطام کیا گیا اس کا فائدہ کم اور نقصان زیادہ نظرآیا۔ نان بینکنگ فائنینشل کمپنیزپردبائو کی وجہ سے حالات مزید خراب ہوئے۔ اس کا اثربرکات گروپ پربھی پڑا اوراسے کافی نقصان اٹھانا پڑا۔
اسلامی معیشت کا قومی دھارے میں شمول
بحران سے نکلتے ہی ہم یہ دیکھتے ہیں کہ بہت سارے سروس آپریٹرزاسلامی معیشت میں اورسرمایہ کاری ، سیونگ اور انوسٹمنٹ پروڈکٹس میں دلچسپی لینے لگے۔ اس سلسلے میں لوگوں میں بڑے پیمانے پر بیداری آئی۔ اگرچہ لوگوں نے اسے ایک متبادل نظام معیشت کے طورپربہت زیادہ نہیں سراہا تاہم وہ اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔
اس دوران کچھ خاص پہل بھی ہوئی۔ ان میں دو خصوصی پروڈکٹس تھے ۔ پہلا پروڈکٹ تورو میچوئل فنڈ نے جاری کیا تھا اوردوسرا ٹاٹا میچوئل فنڈ کی طرف سے جاری ہوا تھا۔ دو ریئل اسٹیٹ وینچرکیپیٹل اسکیم سیکورا انڈیا ریئل اسٹیٹ فنڈ کے نام سے جاری ہوا تھا۔ چارواسکیموں کو سیبی SEBI کی منظوری حاصل تھی۔ بجاج ایلینزلائف انشورینس نے پینشن پروڈکٹس کو لانچ کیا۔ اور کارپوریٹ شرعیہ ایڈوائزری کمپنی تیارکی۔
2009 میں جی آئی سی ری جو کہ حکومت ہند کی واحد ری انشیورنس کمپنی ہے، نے ریتکفل پروڈکٹ کا اجرا کیا تاکہ عالمی پیمانہ پرریتیکفل بزنس کا فائدہ اٹھا یا جا سکے۔ 2010 میں پہلی بار ہندوستانی سرمایہ کاروں کو یہ موقع دیا گیا کہ وہ میٹلس metals میں شرعیہ کمپلینٹ بغیرپیپر کے سرمایہ کاری کریں۔ یہ موقع انھیں نیشنل ایکسچینج لیمیٹیڈ کی طرف سے حاصل ہواتھا۔
کیرالہ کی ریاستی حکومت نے کیرالہ اسٹیٹ انڈسٹیریئل ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے زریعہ این آرآئیزکے تعاون سے شرعیہ کمپلینٹ این بی ایف سی کے ذریعہ شروع کیا تاکہ ریاست کی ترقی کی رفتارکو مزید تیزترکی جا سکے۔ لیکن کیرالہ ہائی کورٹ میں یہ معاملہ الجھ کررہ گیا۔ دوسری قانونی لڑائی ممبئی ہائی کورٹ میں زیرالتوا ہے، جہاں کالی کٹ واقع الٹرنیٹیو کریڈٹ اینڈ انویسٹمنٹ لیمیٹیڈ (AICL), اور NBFC مشترکہ طور پر بارہ سالہ اسلامی معاشی آپریشن کی جنگ لڑ رہی ہے ۔
صدی کی پہلی دہائی کے اختتام پر دو بڑی پہل “سہولت” اور”جن سیوا” کے نام سے ہوئی۔ یہ پیش رفت ایک ہی وقت میں مختلف مقامات سے ہوئی۔ دہلی اور ممبئی بالترتیب اس کا مرکز رہا۔ یہ پہل اس بات کا مظہر ہے کہ ہندوستان میں کس طرح اسلامی معیشت رفتہ رفتہ پروان چرھ رہی ہے۔
انفرا اسٹرکچر کی سطح پراگر دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ 2006 میں ہندوستان کا پہلا کو آپریٹیو شرعیہ ایڈوائزری فنڈ، تقوی ایڈوائزری، اور شرعیہ انوسٹمنٹ سولوشن پرائیوٹ لیمیٹیڈ (TASIS کا وجود عمل میں آیا۔ اس درمیان اسٹاک مارکٹ کے لئے دو شرعیہ انڈیکس کا اجردو بڑے اکسچینج یعنی نیشنل اسٹاک اکسچینج(NSE) اورممبئی اسٹاک اکسچینج کے ذریعہ S&P اور تاسیس کے اشتراک سے ہوا۔
گلوبل اکائونٹنگ کے پی ایم جی نے تاسیس کے ساتھ کنسلٹینسی فراہم کرانے کے لئے سمجھوتہ کیا۔ دوسرے قانونی اداروں نے بھی اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ بھی اسلامی فائننس میں اپنی خدمات انجام دینا چاہتے ہیں۔ بہت سارے اسٹاک بروکنگ کمپنیاں تمام بڑے میٹرو شہراوردوسرے درجہ کے شہروں میں وجود میں آئیں، اور یہ سب صرف شرعیہ پروٹکٹس کی مار کٹنگ کے لئے وقف تھیں۔
نیشنل مائیناریٹی ڈیولپمنٹ فائننس کارپوریشن نے اس بات کا اعلان کیا ہے کہ وہ اپنی اسکیم کا ازسرنو جائزہ لے گی اوراسے شرعیہ لائن کے سانچے میں ڈھالے گی۔ اقلیتی امورکے وزیر نےاس بات کا اعلان کیا ہے کہ حکومت حج فنڈ بنانا چاہتی ہے۔ اور یہ کام ملیشیا کے تبنگ حاجی کے طرز پر کرنا چاتی ہے۔ واضح ہوکہ تبنگ حاجی پروگرام نے ملیشیا میں اسلامک بینکنگ کی داغ بیل رکھاتھا۔
اس کے علاوہ بھی حکومت میں کافی سنجیدہ کوشش چل رہی ہے۔ مثلا آنند سنہا اسٹڈی گروپ آن اسلامک بینکنگ (RBI; 2005 کا وجد عمل میں آیا۔ پلاننگ کمیشن میں رگھو راجن کمیٹی کی تشکیل ہوئی تاکہ وہ اسلامی معیشت کے امکانات کا آپشن پیش کرے۔ خوش آئین بات یہ ہے کہ خود وزیراعظم نے بھی اسلامی بینکنگ کے فوائد اوربنیادی ڈھانچے پراس کے خوشگواراثرات پر گفتگو کی ہے۔
اگر اکیڈمک سطح پر دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ ایکسویں صدی میں اسلامی معاشی تعلیم پرخصوصی توجہ دی گئی ہے۔ آج کی تاریخ میں آئی بی ایف ڈاٹ نیٹ بہترین آن لائن کورس فراہم کر رہی ہے۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں اسلامی فائننس میں پی جی ڈپلومہ کرا یا جا رہا ہے۔ الجامعہ الاسلامیہ شانتاپورم کیرالہ میں بھی اسلامک فائننس پرپی جی ڈپلومہ کرایا جا رہا ہے جبکہ BSAR یونیور سٹی اسلامک فائننس میں ایم بی اے کا کورس کرا رہی ہے۔ ممبئی اسٹاک اکسچینج کی بی اسی ای ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ لیمیٹیڈ نےدو دن کا پروفیشنل ورکشاپ کرایا ہے۔ اوراب اسلامک فائننس میں ڈپلومہ کرانے کی تیاری کر رہی ہے۔
اوپر جتنے اداروں کا ذکر ہوا ہے ان میں زیادہ ترغیرمسلم ادارے ، کارپوریٹ اور بزنس ہائوسز ہیں جو اسلامک فائننس میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اسلامی معیشت بھی قومی دھارے میں شامل ہوگئی ہے۔