اسلام کا معاشی نظامـ ۔ خصوصیات اور ترجیحات
ڈاکٹرمحمد عنایت اﷲ اسد سبحانی۔جامعہ اسلامیہ۔ شانتاپرم۔کیرلا
دنیا نے باری باری نہ جانے کتنے معاشی نظاموں کے تجربے کیے،لیکن کوئی نظام بھی انسانوں کے معاشی مسائل کو حل کرنے میں کامیاب نہیں ہوا، ہر نظام میں زورآوروں نے کمزوروں کا استحصال کیا، جو دولت مند تھے وہ رفتہ رفتہ دولت کے تمام وسائل پر قابض ہوتے گئے، اور جو غریب تھے ، وہ رفتہ رفتہ غربت کے شکنجوں میں کستے گئے۔ یہ صرف دین اسلام کا امتیاز ہے کہ اس کا معاشی نظام ہر انسان اور ہر طبقے کے لیے رحمت ثابت ہوا،جب بھی دنیا نے اس نظام کا تجربہ کیا ہے، رحمتوں اور برکتوں کی بدلیوں نے اس پر سایہ کیا ہے، اور ہر امیرو غریب نے اس کے سایے میں چین کا سانس لیا ہے۔ اسلام کا معاشی نظام ہے کیا ؟ اس کی خصوصیات کیا ہیں ؟ قرآن پاک نے اس سلسلے میں نہایت واضح رہ نمائی دی ہے،مختصر طور پر ہم اس کی خصوصیات کو درج ذیل نقاط میں سمیٹ سکتے ہیں :
پہلی خصوصیت: اسلام کے معاشی نظام کی پہلی خصوصیت یہ ہے کہ انسانوں کے ہاتھوں میں جو مال ہے، اسے وہ اﷲ کی امانت قرار دیتا ہے، وہ حقیقت میں اﷲ کا مال ہے جو بطور امانت مختلف ہاتھوں میں رکھ دیا گیا ہے، اور جن ہاتھوں میں وہ رکھا گیا ہے، اس لیے رکھا گیا ہے تاکہ اس سے جہاں وہ خود فائدہ اٹھائیں، وہیں ان لوگوں تک اسے پہنچائیں جو اس سے محروم ہیں۔ اﷲ تعالی کا ارشاد ہے: وآتوہم من مال اﷲ الذی آتاکم۔ (سورۃ النور: 33) (اور تم انہیں دو اﷲ کے مال میں سے، جو اس نے تمہیں دیا ہے(یہ آیت آئی تو ہے ان غلاموں کے پس منظر میںجو اپنے مالک سے یہ معاملہ طے کرلیں کہ وہ انہیں اتنی رقم ادا کردیں تو وہ انہیں آزاد کر دیں گے، جسے اصطلاح میں مکاتبت کہتے ہیں۔ ایسے حوصلہ مند غلاموں کے سلسلے میںیہ تاکید آئی ہے کہ ان کی مدد کرو، اور تمہیں اﷲ نے جو مال عطا کیا ہے، اس سے ان کے ہاتھوں کو مضبوط کرو۔ لیکن ظاہر ہے یہ آیت انہی غلاموں کے ساتھ خاص نہیں ہے، بلکہ ہر اس شخص اورہر اس گروہ پر اس کا اطلاق ہوگا جو مالی تعاون کا مستحق ہو۔ اس حکم کے مخاطب افراد بھی ہیں، مسلم سماج بھی ہے، اور اسلامی حکومت اور اسلامی نظام بھی ، یہ ہر ایک کا فرض ہے کہ وہ اپنی حیثیت اور حالات کے مطابق ناداروں کی مدد کرے،اور ان کی سطح کو بلند کرنے میںاپنا متوقع کردار ادا کرے۔ یہاں مسئلہ صرف روزی روٹی کا نہیں ہے، بلکہ اگر کوئی قسمت کا مارا ہوا شخص اپنی قسمت بنانا چاہتا ہے، وہ اپنی سطح سے اوپر اٹھنا چاہتا اور سماج میں اپنا مقام پیدا کرنا چاہتا ہے تو اسے سہارا دینا بھی ہمارا فرض ہے۔ ہر مال اﷲ کا مال ہے، اس سے یہ بات بھی نکلتی ہے کہ کسی ضرورت مند کو سود پر قرض دینا، یا کسی ادھار سودے پر سود کی شرح متعین کرنا قطعا حرام ہے، یہ مال دینے والے رب کی مالکیّت سے انکار اور اس سے کھلی ہوئی بغاوت ہے، یہی وجہ ہے کہ سودی کاروبار کرنے والے کے خلاف اﷲ ورسول کی طرف سے کھلا ہوا اعلان جنگ ہے۔ یاأیہا الذین آمنوااتقوااﷲ وذروا مابقی من الربا ان کنتم مؤمنین، فان لم تفعلوافأذنوابحرب من اللہ ورسولہ ۔(سورۃالبقرۃ:278,279) (اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو،اﷲ سے ڈرو، اور سود کی جو رقم بچ گئی ہے اس سے دست بردار ہو جاؤ،اگر تم سچے مومن ہو، اور اگر تم ایسا نہیں کرتے تو اﷲ اور اس کے رسول کی طرف سے تمہیں جنگ کی وارننگ دی جاتی ہے)
دوسری خصوصیت: اسلام کے معاشی نظام کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ وہ مال کو کسی مخصوص طبقے ،یا مخصوص خاندان، یا مخصوص گروہ، یا مخصوص قوم کے ہاتھوں میں سمٹتا ہوا نہیں دیکھنا چاہتا وہ چاہتا ہے کہ یہ مال زیادہ سے زیادہ ہاتھوں تک پہنچے، یہ مال داروں کے ہی درمیان چکر نہ لگاتا رہے، بلکہ غریبوں اور ناداروں میں بھی پھیلے اور زیادہ سے زیادہ پھیلے ،جب کہ آج دنیا میں جو معاشی نظام رائج ہے، نہ صرف رائج ہے بلکہ دنیا کو بری طرح اپنے شکنجوں میں کسے ہوئے ہے ، اس کی آخری کوشش یہ ہے کہ ساری دنیا کی دولت سمٹ کرایک ہی لابی کے ہاتھ میں آجائے، اور پھر وہ ساری دنیا کو جس طرح چاہے نچائے ! اسلام چونکہ اﷲ کا دین ہے جو سارے انسانوں کے لیے رحمت بن کر آیاہے، اس لیے وہ اس طرح کی ذہنیت کو سخت ناپسند کرتا ہے وہ تو چاہتا ہے کہ اﷲ کی نعمتوں سے یکساں طور سے سارے انسان فائدہ اٹھائیںاور عزت کے ماحول میں فائدہ اٹھائیں،ایسا نہ ہو کہ ان میں سے کچھ آقا ہوں اور کچھ غلام،کچھ حاکم ہوں اور کچھ محکوم،کچھ تو دولت سے کھیلتے ہوں اور کچھ ایک ایک نوا لے کو ترستے ہوں۔ چنانچہ مال فیئ ، جو دشمنوں سے بغیر جنگ کیے حاصل ہوجاتا ہے ، اس کے بارے میں پہلے تو یہ تاکید کی کہ یہ مال خالص اﷲ اوراس کے رسول کا ہے، جو یتیموں ، مسکینوں، بے خانماں برباد لوگوں میں تقسیم ہوگا اور ان لوگوں کو دیا جائے گا جنہوں نے اپنے آپ کواﷲ کے دین کے فروغ اور اس کی سربلندی کے لیے فارغ کر رکھا ہے، اس کے بعد اس حکم کی حکمت بتاتے ہوئے فرمایا:کی لایکون دولۃ بین الأغنیاء منکم : ( تاکہ یہ مال تمہارے اغنیاء کے درمیان ہی نہ گھومتا رہ جائے) اس بڑے مقصد کے حصول کے لیے قرآن پاک نے مختلف شکلیں اختیار کیں، اورمتعدد باتوں کی تاکید کی: پہلی بات تو یہ کہ ہر مالدار کے مال میںغریبوں کا متعین حصہ قراردیا، اﷲ تعالی کاارشاد ہے: والذین فی أموالہم حق معلوم للسائل والمحروم۔ (سورۃالمعارج: 24,25) ( اور وہ لوگ کہ جن کے مالوں میں متعین حصہ ہوتا ہے اس کے لیے جو مدد کا طالب ہو،اور اس کے لیے بھی جونادار ہوتاہے، مگر مانگتا نہیں) ثانیاً: اس نے وفات کی صورت میں اس بات کی تاکید کی کہ مرنے والے کے مال پر کوئی ایک شخص قابض نہ ہوجائے، بلکہ تمام اقارب یعنی قریبی رشتے داروں میں اسے تقسیم کیا جائے، وہ جہاں مردوں میں تقسیم کیا جائے وہیں عورتوں میں بھی تقسیم کیا جائے،بیٹوں کے ساتھ بیٹیوں کا بھی حصہ لگایا جائے، بھائیوں کے ساتھ بہنوں کا بھی حصہ لگایا جائے، پوتے پوتیاں یا نواسے نواسیاں ہوں تو انہیں بھی وراثت سے محروم نہ کیا جائے۔ اصحاب ثروت کواس بات کی تاکید کی کہ وارثوں کے علاوہ وہ دوسرے مستحقین یا ضرورت مندوں کے لیے بھی وصیت کریں۔مقصد یہی ہے کہ مال کہیں سمٹنے کے بجائے زیادہ سے زیادہ وسیع دائرے میں پھیلتا رہے، یہ سرمایہ داروں کی تجوریوں میں سڑنے کے بجائے ضرورت مندوں اور ناداروں کے کام آئے۔ اسی مقصد کو حاصل کرنے کے لیے زکاۃ کا نظام قائم کیا گیا، اور اسلام میں اسے اتنا ضروری قراردیا گیاکہ اگر کوئی گروہ زکاۃ ادا کرنے سے انکار کرتا ہے تو خلیفہ اسلام یا امیرالمومنین اس کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کرسکتا ہے، حتی کہ اگر ضرورت پڑے تواس گروہ کے خلاف فوج کشی بھی کرسکتا ہے۔ پھر زکاۃ پر ہی اکتفا نہیں کیا گیا، بلکہ زیادہ سے زیادہ صدقہ وخیرات اور انفاق کی ترغیب دی گئی، مسکین نوازی یا اطعام مساکین کومختلف گناہوں کا کفارہ قراردیا گیا۔ ساتھ ہی اس بات کی تاکید کی گئی کہ دینے والاکبھی اپنی بڑائی یا دولت مندی کے گھمنڈ میں مبتلا نہ ہو،وہ اگر کسی ضرورت مند کی مدد کرے تو کسی بھی طور سے اس کا دل نہ دکھائے،کبھی بھولے سے بھی کسی پر احسان نہ جتائے،اس کے برعکس اس کا یہ احساس ہوکہ وہ اس کا حق اس تک پہنچا رہا ہے اور اگر اس تک اس کا حق پہنچانے میں کوتاہی ہوئی تو آخرت میں اس کی جواب دہی آسان نہیں ہوگی۔ چنانچہ صالح مومنین کی یہ حالت قرآن پاک میں بیان ہوئی ہے: ویطعمون الطعام علي حبہ مسکینا ویتیما وأسیرا انما نطعمکم لوجہ اﷲ لانرید منکم جزاء ولاشکورا (سورۃالدھر:10-8) (وہ کھانا کھلا دیتے ہیں خود ضرورت مند ہوتے ہوئے مسکین کو، یتیم کو، قیدیوں کو، وہ زبان حال سے کہہ رہے ہوتے ہیں:ہم تمہیں یہ کھلارہے ہیں صرف اس لیے کہ اﷲ ہم سے راضی ہوجائے،ہم تم سے اس کا نہ کوئی صلہ چاہتے ہیں، نہ شکر گذاری۔ ہم ڈرتے ہیں اپنے رب کی طرف سے ایک ایسے دن سے جو بڑا ہی خوفناک اور دل دہلا دینے والا ہوگا۔) والذین یؤتون ما آتوا وقلوبہم وجلۃ أنہم الی ربہم راجعون۔(سورۃالمؤمنون:60) (اور جو دیتے ہیں جو کچھ دیتے ہیں اس حال میں کہ ان کے دل لرز رہے ہوتے ہیں اس تصور سے کہ انہیں لوٹ کر اپنے رب کے حضور حاضر ہونا ہے۔) فطری طور پر اس سلسلے میں آئی ہوئی اسلامی تعلیمات کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ لینے والے کی عزت نفس یا اس کی خود داری پر کوئی آنچ نہیں آتی، وہ کبھی احساس ذلت یا احساس کمتری کا شکار نہیں ہوتا،اور سماج میں امیروغریب اس طرح رہتے ہیں جیسے ایک گھر میں بڑا بھائی اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ رہتاہے۔ ایک غریب کو اسلامی سماج میں وہی شفقت اور وہی محبت حاصل ہوتی ہے جو ایک گھر میںچھوٹے بھائی کواپنے بڑے بھائی کی طرف سے حاصل ہوتی ہے۔
تیسری خصوصیت: اسلام کے معاشی نظام کی تیسری خصوصیت یہ ہے کہ وہ انسانوں کو اپنی سطح سے اونچا اٹھاتا ، اور فکرونظر میں وسعت اور بلندی پیدا کرتا ہے،وہ اﷲ تعالی کی دی ہوئی نعمتوں کی قدر کرنا سکھاتا ہے،وہ نعمتیں چاہے اس کی ذاتی ملکیت ہوں، یا پرائی ملکیت ، ہر صورت میں ان کی حفاظت کرنے کی اسپرٹ پیدا کرتا ہے۔ یتیموں کے مال کی حفاظت کی تاکید کرتے ہوئے اﷲ تعالی فرماتا ہے: ولا تؤتوا السفہاء أموالکم التی جعل اﷲ لکم قیاما وارزقوہم فیہا واکسوہم وقولوا لہم قولا معروفا۔ (سورۃالنساء : ۵ ) (ناسمجھ بچوں کے ہاتھوں میں نہ دو اپنا وہ مال جسے اﷲ نے تمہارے لیے قیام وبقاء کا ذریعہ بنایا ہے، اس میں سے تم ان کے طعام ولباس کی ضروریات پوری کرو، اور ان کی صحیح رہ نمائی کرو۔) یہ مال اصل میں یتیموں کا ہے جو محض حفاظت کی غرض سے کسی کی تحویل میں دیا گیا ہے، لیکن قرآن پاک اس کی حفاظت کی تاکید ان الفاظ میں کرتا ہے:( اپنا وہ مال جسے اﷲ نے تمہارے لیے ذریعہ قیام وبقا بنایا ہے، ناسمجھ بچوں کے حوالے نہ کرو)ساتھ ہی وہ یہ تاکید کرتا ہے کہ مختلف انداز سے ان کی صلاحیتوں کا اندازہ لگاؤ، ان کی عقل وسمجھ کا امتحان لو، یہاں تک کہ جب وہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں، یعنی اچھی طرح ہوشیار ہوجائیں، تو ان کا مال ان کے حوالے کردو۔ یہاں مال یتیم کو مال یتیم تسلیم کرتے ہوئے، اسے اس کے ولی یا سرپرست کا مال کہنا اپنے اندر بڑی معنویت رکھتا ہے۔ اسلام کے معاشی نظام کا یہ بہت بڑا امتیاز ہے کہ وہ انسان کو یہ احساس دلاتا ہے کہ وہ کسی بھی انسان کو پرایا نہ سمجھے، نہ کسی مال کو پرایا مال سمجھے، ہر انسان اس کا اپنا بھائی ہے، اور ہر مال اس کا اپنا مال ہے،لہذا اس کا فرض ہے کہ وہ اس کی حفاظت کرے،اور کسی بھی صورت میں اسے ضائع نہ ہونے دے۔ اور حقیقت بھی یہی ہے، غور کیا جائے تو مال کسی ایک کا نہیں ہوتا،وہ برابرایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں منتقل ہوتا رہتا ہے،اس طرح وہ کسی ایک کا ہوتے ہوئے بھی سب کا ہوتا ہے۔ غالبا یہی وجہ ہے کہ پیارے نبی ﷺ جب بھی دشمنوں سے جنگ کے لیے کوئی فوج روانہ کرتے، تو سختی سے اس بات کی تاکید فرماتے کہ راستے میں وہ کوئی توڑ پھوڑ نہیں کریں گے،نہ بلاوجہ کسی کو نقصان پہنچائیں گے، وفات سے کچھ پہلے آپ نے رومیوں سے جنگ کے لیے ایک لشکر تیار فرمایا تھا، جس کا امیر آپ نے حضرت اسامہ بن زید کو بنایا تھا،اس لشکر کو وصیت کرتے ہوئے آپ نے فرمایاتھا: لاتقتلوا طفلا صغیرا، ولا شیخا کبیرا، ولا امرأۃ، ولا تقعروا نخلا ولاتحرقوہ، ولاتقطعوا شجرۃ مثمرۃ ولاتذبحوا شاۃ ولابقرۃ ولابعیرا الالمأکلۃ۔ (جمہرۃ خطب العرب: 1۔187 ) ( کسی چھوٹے بچے کو قتل نہ کرنا،کسی سن رسیدہ بوڑھے کو قتل نہ کرنا، کسی عورت پر ہاتھ نہ اٹھانا،کھجور کے کسی درخت کونہ جلانا، نہ اسے جڑ سے کاٹنا،کوئی بھی پھل دار درخت نہ کاٹنا، کسی بھی بکری یا گائے یا اونٹ کو یونہی نہ ذبح کرنا،جب کھانے کی ضرورت ہو تبھی ذبح کرنا۔) جب بھی آپ نے دشمنوں کی طرف کوئی فوج یا کوئی دستہ بھیجا تو اس قسم کی وصیتیں ضرور کیں، پھر آپ کے بعد خلفائے راشدین کا دور آیا تو ان لوگوں نے بھی اپنے لشکروں کوہمیشہ ان اخلاقی تعلیمات کا پابند رکھا۔ پھر جہاں اسلام عام دولت یا اشیائے ضرورت کو نقصان پہنچانے سے روکتا ہے، وہیں اس بات کی بھی تاکید کرتا ہے کہ خود اپنی دولت کو اللّے تللّے نہ اڑایا جائے، اسے اچھے اور مفید کاموں میں صرف کیا جائے، اﷲ تعالی کا ارشاد ہے: وآت ذا القربی حقہ والمسکین وابن السبیل ولاتبذر تبذیرا، ان المبذرین کانوا اخوان الشیاطین، وکان الشیطان لربہ کفورا۔ (الإسراء:26۔ 27)(اور رشتے دار کو اس کا حق دو، مسکین کو اس کا حق دو،بے خانمابرباد کو اس کا حق دو،دولت کو اندھا دھند نہ اڑاؤ، دولت کو اندھا دھند اڑانے والے شیطانوں کے بھائی بن جاتے ہیں، اور شیطان تو اپنے رب کا انتہائی ناشکرا ہے۔) تبذیر کا مطلب ہے دولت کا غلط اور بے محل استعمال، دولت کا ایسا استعمال جو خود صاحب دولت کے لیے نقصان دہ ہو،دوسروں کے لیے نقصان دہ ہو،اس میں فائدے کا کوئی پہلو نہ ہو،نہ صرف یہ کہ اس میں فائدے کا کوئی پہلو نہ ہو، بلکہ بسا اوقات وہ پورے سماج کے لیے باعث اذیت ہو۔ اسلامی نظام معیشت میں ہرشخص اس کا پابند ہوگا کہ وہ تبذیر سے اجتناب کرے، اوراگر کوئی اجتناب نہیں کرتا،توحکومت کو اس کا اختیار ہوگا کہ اس کے سلسلے میںکوئی مناسب قدم اٹھائے، اور اس کے تصرف پر کچھ پابندیاں عائد کردے۔
چوتھی خصوصیت: اسلامی نظام معیشت کی چوتھی بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں دوسروں کی طرف دست درازی کرنے،یا نا جائز طریقے سے کسی کا مال ہڑپ کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی،اﷲ تعالی کا ارشاد ہے: یاأیہا الذین آمنوا لاتأکلوا أموالکم بینکم بالباطل الا أن تکون تجارۃ عن تراض منکم۔ (سورۃ النساء: 29)(اے وہ لوگو! جوایمان لائے ہوآپس میں ایک دوسرے کا مال غلط طریقے سے نہ کھائو، الا یہ کہ تمہارے درمیان لین دین، یا بیع وشرا ہوآپس کی کامل رضامندی سے) علم معیشت کے پہلو سے یہ ایک نہایت اہم آیت ہے جس سے اسلامی نظام معیشت کے سلسلے میں دواہم باتیں سامنے آتی ہیں: پہلی بات: پہلی بات یہ کہ اسلام کا معاشی نظام کسی بھی صورت میں اکل مال بالباطل کی اجازت نہیں دیتا،یعنی وہ اس کی اجازت نہیں دیتاکہ اپنی معاشی حالت کو بہتر بنانے کے لیے دوسرے افراد، یادوسری قوموں پر دست درازی کی جائے،اور انہیں نقصان پہنچاکراپنی معیشت کومستحکم کیا جائے، کہ یہ اکل مال بالباطل کی تعریف میں آتا ہے، اور جو ایسا کرتا ہے وہ اسلام کی نگاہ میں مجرم ہے،چاہے وہ اس ملک میں رہنے والے افراد ہوں، یاباہر سے آنے والی قومیں یا حکومتیں ہوں۔ شریعت میںچوروں اور ڈاکووں کا ہاتھ کاٹنا اسی اکل مال بالباطل کی سزاہے، وجہ یہ ہے کہ ناحق کسی کے مال کی طرف بڑھنے والا ہاتھ ،چاہے چوری سے ہو، یا ڈھٹائی اور سینہ زوری سے ، ایک ناپاک اور مجرم ہاتھ ہے جو اس قابل ہے کہ وہ تن سے جدا کردیاجائے۔ پھر یہ چیزجہاں ایک بستی، یا ایک ملک میں رہنے والے افراد کے لیے جرم ہے، وہیں اس ملک سے باہر رہنے والی قوموں کے لیے بھی جرم ہے۔کسی قوم کے لیے یہ بات کسی طرح جائز نہیں کہ وہ دوسری قوموں کے قیمتی ذخیروں یا معاشی وسائل پر قبضہ کرلے، اور وہاں کی دولت اپنے ملک میں منتقل کرے۔ جو دولت جس ملک میں ہے، وہ اسی ملک میں رہنے والوں کا حصہ ہے،اور پہلے نمبر پر اس کا فائدہ اسی ملک والوں کو پہنچنا چاہیے، وہ دولت کہیں باہر اسی صورت میں جاسکتی ہے، جب کہ اس ملک میں رہنے والے بخوشی اس پر راضی ہوں،اور اس کی مناسب قیمت انہیں ادا کی جائے۔ یہ فطرت کی تقسیم ہے جس کی خلاف ورزی سرتاسر ظلم اور فساد فی الأرض ہے، دین اسلام تو اس معاملے میں اتنا حساّس ہے کہ وہ اس کی بھی اجازت نہیں دیتا کہ ایک علاقے کی زکاۃ دوسرے علاقے میں لے جائی جائے، ہر علاقے کی زکاۃ اسی علاقے کے غریبوں کا حق ہے، وہ اس علاقے سے باہر اسی صورت میں لے جائی جاسکتی ہے، جب کہ وہاں غریب نہ ہوں، یا وہاں کے غریبوں کی ضرورت سے وہ فاضل ہو۔پیارے نبی ﷺ کا ارشاد ہے: تؤخذ من أغنیائہم وتردّ علی فقرائہم۔ (صحیح البخاری۔کتاب بد ء الوحی: 2 ۔ 130)(زکاۃ ان کے مال داروں سے لی جائے گی، اور انہیں کے غریبوں میں لوٹا دی جائے گی۔) الغرض اکل مال بالباطل چاہے افراد کی سطح پر ہو، یا قوموں اور ملکوں کی سطح پر، اسلامی نقطہ نظر سے ناقابل معافی جرم ہے۔ اگر کوئی طاقت ور اسلامی حکومت موجود ہو، جو بد قسمتی سے اس وقت موجود نہیں ہے، تو وہ کسی فرد، یا کسی گروہ، یا کسی ملک کے اس عمل کو کبھی برداشت نہیں کرسکتی، نہ وہ اپنی قلم رو میں یہ جارحیت برداشت کرسکتی ہے، نہ اپنے ہم سایہ ملکوں میں۔ایسے مواقع پر لازماً وہ حرکت میں آئے گی،اور مجرم کواس کے کیے کا مزہ چکھائے گی،چاہے وہ مجرم افراد ہوں یا قومیں۔
مسلم امت کا ریکارڈ:
یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے، کہ نہ صرف خلافت راشدہ میں، بلکہ بعد کے ادوار میں بھی ملک کے ملک فتح کیے گئے، مگر کبھی مسلم فوج نے انسانیت اور شرافت کے حدود سے تجاوز نہیں کیا، اس نے کبھی کسی ملک میںلوٹ کھسوٹ نہیں مچائی،اس نے کسی ملک کی دولت کو سمیٹ کر اپنے ملک میں لانے کی کوشش نہیں کی۔ مسلم فوج کا یہ امتیاز ہے کہ وہ جس ملک میں بھی داخل ہوئی، انسانیت اور شرافت کے ساتھ داخل ہوئی، اور انسانیت اور شرافت کے ساتھ ہی وہاں سے نکلی، اور اگر وہاں کچھ مدت کے لیے ٹھہری، تو اس ملک کو اس نے ترقی دی، اور وہاں کے عوام کو ہر طرح سے راحت پہنچانے کی کوشش کی۔
آج امریکہ نے، اور اس سے پہلے یورپ نے جس طرح اخلاق کے تمام حدود کو توڑا، اور شرافت وانسانیت کو اپنے گندے پیروں سے کچلا ہے،اور جس طرح انہوں نے لوٹ کھسوٹ اور قتل وغارت گری کا بازار گرم کیا ہے، اسلام اسے نفرت کی نگاہ سے دیکھتا، اور دنیائے انسانیت کا انتہائی سنگین جرم قرار دیتا ہے!
دنیا کو یہ جاننا چاہیے کہ مسلم امت کا دامن اس طرح کی غیر انسانی حرکتوں سے ہمیشہ پاک رہا ہے، کیونکہ مسلم امت کسی ملک میں لوٹ کھسوٹ اور قتل و غارت گری کی نیت سے داخل ہی نہیں ہوئی، وہ جس ملک میں بھی گئی، وہاں والوں کی ہم دردی اور خیر خواہی میں گئی، ظالم و جابر حکمرانوں سے وہاں کی رعایا کو نجات دلانے کے لیے گئی، اسی لیے ان ملکوں کی رعایا نے عموماً ان کا ساتھ دیا، بلکہ بہت سی جگہوں پران کا پرجوش خیر مقدم کیا۔
تاریخ کی شہادت:
ایک عیسائی مؤرخ(ستانلی لین پول) اپنی کتاب (حکم المسلمین فی اسبانیا) میں لکھتا ہے :
( اسپین کو اپنی پوری تاریخ میں ایسی مہربان، اور عدل پرور حکومت نہیں نصیب ہوئی جیسی کہ عرب فاتحین کے زمانے میں نصیب ہوئی)
وہ مزید لکھتا ہے: (اس میں شک نہیں کہ عربوں کی حکومت ان سے پہلے کے مغربی حکم رانوں کی حکومتوں سے بدرجہا بہتر تھی)
وہ مزید لکھتا ہے: (بہت ایسا ہوتا تھا کہ عیسائی قوم عیسائیوں کی حکومت پرمسلمانوں کی حکومت کو ترجیح دیتی تھی !)
(دیورانت۔ تہذیب کی تاریخ۔ جلد چہارم کا جزء ثانی۔ ص: ۲۹۲۔ ۲۹۷)
سلطان ظاہر بیبرس( ۱۲۶۰۔ ۱۲۷۷م) جو غلام سلاطین میں سے تھے، ان کے بارے میںان کا ایک ہم عصر عیسائی مؤرخ لکھتا ہے:
( وہ بہت ہی اعتدال پسند، پاک باز،اپنی رعایا کے ساتھ عدل کرنے والا، اور اس کی سلطنت میں جو عیسائی رہتے تھے، ان کے ساتھ رحمت وشفقت کا معاملہ کرنے والا تھا۔)
( دیورانت۔ حوالہ بالا۔ ص: ۳۲۲)
ایک دوسرا عرب عیسائی مؤرخ نصری سلہب لکھتا ہے :
( ہم یہ دعوی نہیں کرتے کہ مسلم حکم رانوں نے عیسائیوں اور مسلمانوں کے ساتھ بالکل یکساں معاملہ کیا، اور کیا تاریخ میں، اور خاص طور سے تاریخ قدیم کے صفحات میں یہ چیز کہیں ملتی ہے، کہ کسی فاتح قوم نے مفتوح قوم کو اپنی برابری کا درجہ دیا ہو ؟
البتہ میں یہ کہتا ہوں کہ عرب حکم راں اور مسلم سلاطین عموماً مفتوح قوموں کے ساتھ سب سے زیادہ نرمی ورواداری برتنے والے، ان کے عقائد اور شعائر کا سب سے زیادہ احترام کر نے والے،اور ان پر سب سے زیادہ شفقت کرنے والے ہوتے تھے۔)
(نصری سلہب۔ فی خطی محمد۔ ص:۳۱۷)
مختصر یہ کہ مسلم امت نے اپنی پوری تاریخ میں فرمان الہی (لا تأکلوا أموالکم بینکم بالباطل) کا پورااحترام کیا،اس نے کبھی دوست تو دوست ، دشمنوں کو بھی لوٹنے اور ان کے قیمتی ذخیروں پر قابض ہونے کی کوشش نہیں کی، جس کا اعتراف مسلم مؤرخین ہوں یا غیرمسلم ، سبھی کرتے ہیں۔
اب اگراسلامی تاریخ کے کسی دور میں کچھ ایسے حکم راں بھی ملتے ہیں،جن کی روش اس سے مختلف تھی، جنہوں نے اس حکم الہی کی خلاف ورزی کی ، تویہ بات جاننی چاہیے کہ یہ ان کی ایسی روش تھی جسے مسلم امت کی تایید نہیں حاصل تھی،نہ اس وقت حاصل تھی، نہ بعد میں حاصل ہوئی،بلکہ ہمیشہ مسلم امت نے اس سے اعلان براء ت کیا، اور ان حکم رانوں کونفرت کی نگاہ سے دیکھا ۔
دوسری بات:
دوسری بات جو اس آیت سے معلوم ہوتی ہے،یہ ہے کہ تجارت کی روح بائع اور مشتری کی آپس کی رضامندی ہے،اس میں یہ بات شامل ہے، کہ فریق ثانی کی کمزوری یا مجبوری سے غلط فائدہ نہ اٹھایا جائے، اسے کسی طرح کے خسارے میں نہ ڈالا جائے، اس کے ساتھ سچائی اور ایمان داری کا معاملہ کیا جائے،اسے جو چیز دی جائے وہ ہر طرح کی ملاوٹ، اور ہر طرح کے نقصان سے پاک ہو۔
خریدنے والے کا فرض ہے کہ وہ جو چیز خرید رہا ہے، اس کی صحیح اور مناسب قیمت ادا کرے، بیچنے والے کی مجبوری سے فائدہ اٹھاکر مال کو اونے پونے خرید نے کی کوشش نہ کرے، بیچنے والا اگر اپنی مجبوری ، یا اپنے وسائل کی کمی کی وجہ سے اپنا مال اونے پونے بیچنے پر راضی ہو بھی جاتا ہے، تو اسے تراضي نہیں کہا جاسکتا،مجبوری کی رضامندی کبھی رضامندی نہیں ہوتی، وہ ایک مجبوری ہوتی ہے، اور کسی کی مجبوری سے فائدہ اٹھانا اسلامی نقطہ نظر سے ناجائز ہے۔
اسی طرح بیچنے والے کا یہ فرض ہوتا ہے، کہ وہ خریدنے والے کواچھا اور خالص مال فراہم کرے،اور اگر مال میں کوئی عیب ہے، تو بے تکلف اسے ظاہر کردے، اور اس عیب کا لحاظ کرتے ہوئے مال کی قیمت میں خود سے کمی کردے۔
آج مال کی اصلیت ( اوریجنلٹی ) اور خالصیّت ( پیورٹی ) کا مسئلہ انتہائی سنگین صورت اختیار کرگیا ہے !
آج کوئی چیز اصلی اور خالص شکل میں حاصل کرنا آسان نہیں رہا، آج جو چیزیں انسان اپنے ہاتھوں یا مشینوں سے تیار کررہاہے، ان کا کوئی کیا رونا روئے ؟کہ آج تو کھیتوں سے اگائی جانے والی سبزیاں اور ترکاریاں، مویشیوں سے حاصل کیا جانے والا دودھ دہی ،ا ور درختوں سے توڑے جانے والے پھل پھول بھی قابل اطمینان نہیں رہے۔
یہ ساری چیزیں تشویش ناک حد تک اپنی لذت اور افادیت کھوچکی ہیں،اور دن بدن حالت بد سے بد تر ہورہی ہے !
یہ ساری لعنت دراصل نتیجہ ہے خدا سے بغاوت کا، اس کے دیے ہوئے معاشی نظام سے انحراف کا، یہ نتیجہ ہے اس بات کاکہ تجارت اپنی اصل روح کھوبیٹھی، تجارت میں بائع ومشتری کی باہمی رضامندی کی جو بنیادی شرط تھی، وہ نظروں سے اوجھل ہوگئی،اسی کا نتیجہ ہے کہ آج تجارت انسان کے لیے ذریعہ راحت اور باعث سہولت ہونے کے بجائے بیماری اور موت کا سودا بن گئی،آج انسان بھاری بھاری رقمیں ادا کرکے دواؤں کے نام پر بیماریاں، اور غذاؤں کے نام پر موت خرید رہا ہے !
اﷲ ہی جانے کہ یہ سفینہ کس چٹان سے ٹکرانے والا ہے، اور اس شامت زدہ انسانیت کا کیا حشر ہونے والا ہے !
پانچویں خصوصیت:
اسلامی نظام معیشت کی پانچویں بڑی خصوصیت یہ ہے، کہ وہ گندگی اور ناپاکی کے ہر شائبہ سے یکسر پاک ہوگا، اس میں گندگی اور ناپاکی کا کہیں سے گزر نہیں ہوگا، اﷲ تعالی نے قرآن پاک میں فرمایا ہے:
یسألونک ماذا أحل لہم قل أحل لکم الطیبات (سورۃ المائدۃ: ۴)
(وہ پوچھتے ہیں تم سے، ان کے لیے کیا چیزیں حلال کی گئیں ؟ کہو تمہارے لیے تمام پاکیزہ چیزیں حلال کر دی گئیں۔)
اس کے بعد فرمایا:
الیوم أحل لکم الطیبات (آج تمہارے لیے تمام پاکیزہ چیزیں حلال کردی گئیں )
تورات ، انجیل اور قرآن پاک میں پیارے نبی ﷺکی جو صفات بیان کی گئی ہیں، ان میں ایک صفت یہ بیان کی گئی ہے، کہ وہ نبی ان کے لیے تمام پاکیزہ چیزیں حلال کردے گا، اور تمام گندی اور ناپاک چیزیں حرام کردے گا ۔
( یحل لہم الطیبات ویحرم علیہم الخبائث۔ سورۃ الأعراف: ۱۵۷)
اس کا واضح مطلب یہ ہوا کہ اسلامی سلطنت میں بازاروں کے اندرکھانے پینے کی جتنی چیزیں دست یاب ہوں گی،وہ سب صاف ستھری پاکیزہ اور سو فیصد حلال ہوں گی، کوئی بھی چیز ایسی نہیں ہوگی جو گندی، ناپاک ،مشتبہ، یاحرام ہو۔
شفاخانوں اور دواؤں کی دکانوں میں جتنی بھی دوائیں ہوں گی، وہ صاف ستھری ، پاکیزہ، اور حلال ہوں گی، کوئی بھی دوا ایسی نہیں ہوگی جس میں کوئی حرام یا نا پاک عنصر شامل ہو۔
دوسرے لفظوں میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ اسلامی مارکٹ میں کھانے پینے کی جتنی چیزیں ہوں گی، وہ سب مسلم ملک کے اندر مسلم
ہا تھوں کی تیار کی ہوئی ہوں گی،گھی، تیل، مکھن ، پنیر، طرح طرح کی مٹھائیاں، غرض تمام غذائی اشیاء اور مشروبات کے جتنے ڈبے اور بوتلیں آج عالمی مارکٹ میں پٹی پڑی ہیں، اسلامی مارکٹ میں ان کا کہیں نام ونشان نہ ہوگا، اس لیے کہ ان کے بارے میں کسی کو کچھ نہیں معلوم کہ وہ کس طرح تیار کی گئی ہیں، اور کن چیزوں سے تیار کی گئی ہیں !
دوسرے ملکوں سے آنے والے تمام گوشت بند کردیے جائیں گے، اس لیے کہ غیر مسلم ہاتھوں سے پیک کیے جانے والے گوشت کسی مسلم کے لیے حلال نہیں ہوسکتے۔
اسلامی نظام میں اس کی گنجائش تو ہے کہ زندہ جانورکہیں سے بھی خریدے اور منگائے جاسکتے ہیں، مگر اس کی کوئی گنجائش نہیں کہ گوشت کے پیکٹ کہیں باہر سے منگائے جائیں، جن کے بارے میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ ذبح کیے ہوئے جانوروں کے گوشت ہیں، یا کسی مرے ہوئے جانور کے!
اور اگر وہ ذبح کیے ہوئے جانوروں کے گوشت ہیں، تو وہ جانور کس کے نام پر ذبح کیے گئے، اور ذبح کرنے والا مسلم تھا کہ غیر مسلم، اور وہ ہاتھوں سے ذبح کیے گئے، یا مشینوں سے !
اسی طرح ساری دوائیں اپنے ہاں کی تیار کی ہوئی ہوں گی، جوخالص اسلامی فارمولے کے تحت تیار کی جائیں گی، جن میں حرام اور ناپاک اشیاء کی بالکل آمیزش نہیں ہوگی۔پیارے نبی ﷺ کا ارشاد ہے :
(ان اﷲ لم یجعل شفاء کم فی حرام۔ صحیح ابن حبان۔باب النجاسۃ وتطہیرہا: ۴۔ ۲۳۳)
( اﷲ تعالی نے تمہاری صحت اورشفا حرام چیزوں میں نہیں رکھی ہے )
اسی طرح کھانے پینے کی اشیاء کے علاوہ دوسرے برتنے کے سامان بھی ایسے ہوتے اور ہوسکتے ہیں، جن میں پاک ونا پاک، یا حرام وحلال کا سوال اٹھتا ہو ایسی تمام چیزیں خود اپنے ملک میں اسلامی اصولوں اور اسلامی تعلیمات کے مطابق تیار کرانی ہوں گی۔
مختصرا ًہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ اسلامی نظام کے لیے ضروری ہوگا کہ وہ معیشت کے میدان میں بالکل آزاد ہو، اور مکمل طور سے خود اپنے پیروں پر کھڑا ہو،وہ کسی بھی درجہ میں دوسروں کا محتاج نہ ہو۔
چھٹی خصوصیت:
اسلامی نظام معیشت کی چھٹی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اسلامی مملکت میں رہنے والے تمام شہریوں کویکساں عزت د ے گا،اس مملکت میں رہنے والا ہر شہری اول درجے کا شہری ہوگا، کوئی بھی دوسرے درجے کا شہری نہیں ہوگا۔
مذہب وملت کی بنیاد پر بنیادی حقوق کی فراہمی میں کوئی بھید بھاؤ نہیں ہوگا، حکومت کی طرف سے جو ٹیکس عائد ہوں گے، وہ مسلم اور غیرمسلم سب کے لیے یکساں ہوںگے، غیرمسلم شہریوں پرالگ سے کوئی ٹیکس نہیں ہوگا۔
غیر مسلم شہریوں، یا ذمیوں سے الگ سے جزیہ وصول کرنے کی جو بات مشہور ہے، وہ صحیح نہیں ہے۔ قرآن پاک میں غیرمسلم حکومتوں سے جزیہ وصول کرنے کی بات کہی گئی ہے، نہ کہ غیر مسلم عوام سے۔ قرآن پاک کی جس آیت میں جزیہ لینے کا ذکر آیا ہے، وہ اس طرح ہے:
قاتلوا الذین لایؤمنون باﷲ ولا بالیوم الآخر ولا یحرمون ما حرم اﷲ ورسولہ ولایدینون دین الحق من الذین أوتوا الکتاب حتی یعطوا الجزیۃ عن ید وہم صاغرون۔ ( سورۃ التوبۃ : ۲۹)
(جنگ کرو ان اہل کتاب سے جو اﷲ اور یوم آخرت پرایمان نہیں رکھتے، اور حرام نہیں سمجھتے ان چیزوں کو جنہیں اﷲ اور اس کے رسول نے حرام قرار دیاہے،اور وہ دین حق کو قبول نہیں کرتے، جنگ کرو ان سے یہاں تک کہ وہ ذلت کے ساتھ جزیہ ادا کرنے پر راضی ہوجائیں۔)
ظاہر ہے یہ جنگ غیر مسلم حکومتوں سے ہوگی، نہ کہ غیرمسلم عوام سے۔یہ جزیہ ان ظالم حکومتوں کو مغلوب کرلے نے کے بعدان پر لاگو کیا جائے گا، جو دراصل اس بات کی علامت ہوگا کہ وہ مسلم سلطنت کے تابع ہیں،اس کے باغی نہیں ہیں۔
یہ ہے وہ جزیہ جس کا قرآن پاک میں ذکر آیاہے، یہ جزیہ جب بھی لیا جائے گا، غیر مسلم حکومتوں سے لیا جائے گا،غیر مسلم عوام سے نہیں۔
ہمارے لٹریچر میں ذمیوں، یا غیرمسلم عوام سے جزیہ لینے کا جو چرچا کیا گیاہے، وہ قرآن پاک کے یکسر خلاف ہے، ضرورت ہے کہ اس مسئلے پر سنجید گی سے غور کیا جائے۔
قرآن پاک نہایت واضح لفظوں میں یہ اعلان کرتا ہے:
ولقد کرمنا بنی آدم (سورۃ الإ سراء: ۷۰) ہم نے آدم کی اولاد کو عزت عطا کی ہے۔
یہاں آدم کی اولاد سے مراد سارے انسان ہیں، چاہے وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم۔ سارے انسانوں کو اﷲ تعالی نے عزت دی ہے، لہذا اسلامی نظام سارے انسانوں کے ساتھ باعزت سلوک کرے گا، لیکن جہاں تک حرام وحلال، یاپاک ونا پاک کا تعلق ہے، تو اس میں کوئی استثناء نہیں ہوگا، سور کا گوشت،شراب ، نشہ آور مشروبات، یا نشہ آور کیپسول، ان تمام چیزوں سے ہر ایک کو اجتناب کرنا ہوگا، بلکہ یہ چیزیں رکھنا، یا ان کی خرید فروخت کرنا قانوناً جرم ہوگا۔
ساتویں خصوصیت:
اسلامی نظام معیشت کی ساتویں خصوصیت یہ ہے کہ وہ سرمایہ داروں کے بے جا تسلط سے آزاد ہوگا۔اس نظام میں سماج کے غریب یا کم زور طبقے کوہر طرح سے اونچا اٹھانے اور اس کی سطح کو بلند کرنے پر توجہ دی جائے گی۔
جس کے پاس گھر نہیں ہے، اسے گھر دیا جائے گا، جس کے پاس کھانے کے لیے نہیں ہے، اس کے لیے کھانے پینے کا باعزت انتظام کیا جائے گا، جو شادی کے قابل ہے، مگر شادی کے وسائل نہیں رکھتا، اس کے لیے شادی کا بندوبست کیا جائے گا، جو مریض ہے ،مگر علاج کرانے کی حیثیت نہیں رکھتا،اس کے لیے ضروری علاج کا انتظام کیا جائے گا، تعلیم و ترقی کی سہولتیں سب کو حاصل ہوں گی،کوئی غریبی کی وجہ سے تعلیم سے محروم نہیں رہے گا۔
اسلامی نظام معیشت میں کبھی غریبوں کو اپنی روزی روٹی، یا اپنے بنیادی حقوق کے لیے حکومت سے لڑائی نہیں لڑنی ہوگی، ہڑتالیں نہیں کرنی ہوں گی، دھنّے نہیں دینے نہیں ہوں گے، جلسے جلوس نہیں نکالنے ہوں گے،متعلقہ شعبے کے ذمے دار کوایک چھوٹی سی عرضی پیش کردینی کافی ہو گی۔
دوسرے خلیفہ راشد حضرت عمر فاروقؓ کے بارے میں آتا ہے کہ انہوں نے اپنے دور خلافت میں کسی موقع پر خطبہ دیا، فرمایا: لوگو! تمہیں اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے کسی تگ ودو کی ضرورت نہیں ہوگی، اﷲکے مال میں تمہارا جو حق ہوتا ہے ، وہ گھر بیٹھے بٹھائے تم تک پہنچ جائے گا، جس مسلم کا بھی جو حق ہوگا،وہ اس تک پہنچ کر رہے گا۔
(جمہرۃ خطب العرب: ۱ ۔ ۲۱۵)
اسی سے ملتی جلتی کیفیت پانچوے خلیفہ راشد حضرت عمر بن عبد العزیز کی تھی، اپنے پیش رو خلیفہ سلیمان بن عبد الملک کے جنازے سے واپس آنے کے بعد ان کے آزاد کردہ غلام مزاحم نے دیکھا کہ وہ فکرو غم میں ڈوبے ہوئے ہیں !
غلام نے ہمت کرکے ان سے پوچھ دیا:
امیرالمومنین ! آپ اس قدرفکرمند کیوں ہیں ؟!
فرمایا : (لیس أحد من أمۃ محمد فی شرق الأرض ولا غربہا الا وأنا أرید أن أودی الیہ حقہ من غیر طلب منہ !)
(میں سوچ رہا ہوں کہ مشرق ومغرب کے جس کونے میں بھی محمد ﷺ کی امت کا کوئی فرد ہو،میں اس تک اس کا حق پہنچادوں،بغیر اس کے کہ وہ مجھ سے اپنا حق مانگنے آئے ! ) (ابن اثیر۔ الکامل فی التاریخ: ۲ ۔ ۳۷۱)
ان کی بیوی بی بی فاطمہ بیان کرتی ہیں : ایک دن میں نے دیکھا، وہ اپنے مصلے پر بیٹھے ہیں، اور آنکھوں سے آنسو رواں ہیں، جن سے ان کی داڑھی تر ہوگئی ہے !
میں نے پوچھ دیا: کیا کوئی بات ہوگئی ہے ؟
فرمایا : محمد ﷺ کی پوری امت کی ذمہ داری میرے کاندھوں پر ہے ! میں سوچتا ہوں، اس پوری امت میںکتنے بھوکے غریب ہوں گے،کتنے مریض ہوں گے جو علاج سے محروم ہوں گے،کتنے جہاد کی مشقتوں میں ہوں گے، کتنے مظلوم اور ستم رسیدہ ہوں گے، کتنے قید وبند کی مصیبتوں میں ہوں گے،کتنے بوڑھے ہوں گے جو خدمت کے محتاج ہوں گے،کتنے ایسے ہوں گے جو کثیر العیال ہوں گے،مگر وسائل ان کے بہت محدود ہوں گے، مجھے معلوم ہے قیامت کے دن میرا رب مجھ سے ان سب کا حساب لے گا،اور ان کی طرف سے فریادی حضرت محمد ﷺ ہوں گے،مجھے ڈر لگتا ہے کہ اتنے سارے لوگوں کی جواب دہی میں کیسے کرسکوں گا ! مجھے رونا آتا ہے ، کہ قیامت کے دن میری جان کیسے چھوٹے گی !! (ابن اثیر۔ الکامل : ۲ ۔ ۳۷۲)
حج کے زمانے میں جب کہ ہر ملک اور ہر شہر کے حاجی جمع ہوتے تھے، حضرت عمرؓایک ایک خیمے میںخود جا جا کرلوگوں سے پوچھتے تھے، کہ تمہارے علاقے کا گورنر ٹھیک ہے ؟ وہ تمہارے ساتھ کوئی نا انصافی تو نہیں کرتا ؟وہ تمہاری ضروریات پوری کرنے میں کوئی کوتاہی تو نہیں کرتا ؟
اسلامی نظام معیشت کی یہی خوبی ہے، کہ جب بھی اس زمین پر صحیح اسلامی حکومت قائم ہوئی ہے، اس حکومت میں کبھی امیروغریب کا جھگڑا نہیں پیدا ہوا، اسلامی نظام معیشت میں ہمیشہ امیر وغریب اس طرح مل جل کر رہے ہیں، گویا وہ ایک ہی خاندان کے ممبر ہوں۔
قرآن پاک نے مومنین کی جو یہ صفت بیان کی ہے:
والذین فی أموالہم حق معلوم للسائل والمحروم (سورۃ المعارج: ۲۴ ۔ ۲۵)
(وہ لوگ کہ جن کے مالوں میں متعین حق ہوتا ہے ضرورت مندوں اور نادار لوگوں کا۔)
پھر یہ تاکید کی ہے:
ولایأتل أولو الفضل منکم والسعۃأن یؤتوا أولی القربی والمساکین والمہاجرین فی سبیل اﷲ۔ (سورۃ النور: ۲۲)
(تم میں جو لوگ صاحب ثروت اور صاحب استطاعت ہیں، وہ رشتے داروں، اور مسکینوں، اوراﷲ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کی مالی امداد کرنے میں ذرا بھی کوتاہی نہ کریں۔)
مومنین کی یہ تعریف، اور انفاق کی یہ تاکیداپنے اندر بڑی معنویت رکھتی ہے،اسی تاکید و توصیف کا یہ کرشمہ تھا کہ خلافت راشدہ میں ایک وقت وہ آیاکہ قوم کے مال دار لوگ صدقہ وخیرات کے لیے غریبوں اور حاجت مندوں کو ڈھونڈ تے پھر تے تھے، مگر انہیں کوئی صدقہ لینے والا نہ ملتا تھا۔
آٹھویں خصوصیت:
اسلامی نظام معیشت کی آٹھویں خصوصیت یہ ہے کہ وہ معاشی مسائل کوبالکل فطری انداز میں حل کرتا ہے، وہ دولت کے غلط استعمال کے راستوں کو بند کرتا ہے،وہ ٹیم ٹام ، لہو ولعب،فضول خرچی، اور دولت کی غلط نمایش کی حوصلہ شکنی کرتا ہے،اس کے برعکس انہیں دولت کا صحیح مصرف بتا تا ہے، زندگی کا اونچا تصور عطا کرتا ہے، اور زندگی کی ابدی مسرتوں کا راستہ دکھاتا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ رفتہ رفتہ دولت صحیح جگہوں اور اچھے کاموں میں صرف ہونے لگتی ہے، اور دولت صحیح جگہوں پر، اور اچھے کاموں میں صرف ہونے لگے، تو معاشی مسائل کا اس سے بہتر حل اور کیا ہوسکتا ہے ؟ اﷲ تعالی کا ارشاد ہے :
وآت ذا القربی حقہ والمسکین وابن السبیل ولا تبذر تبذیرا ان المبذرین کانوا اخوان الشیاطین،وکان الشیطان لربہ کفورا۔ سورۃ الإ سراء : ۲۶۔ ۲۷ )
(رشتے دار کو اس کا حق دو،مسکین کو اس کا حق دو، بے خانماں برباد کو اس کا حق دو، دولت کو اللے تللّے نہ اڑاؤ،دولت کو اللّے تللّے اڑانے والے شیطانوں کے بھائی بن جاتے ہیں، اور شیطان تو اپنے رب کا انتہائی ناشکرا ہے۔)
اس آیت میں اسراف وتبذیر سے منع بھی کیا گیا، ساتھ ہی دولت کے صحیح مصرف کی نشاندہی بھی کردی گئی۔
حرف آخر:
یہ اسلام کے معاشی نظام کا مختصر سا تعارف ہے قرآن پاک کی روشنی میں،یہ معاشی نظام کوئی خیالی نظام نہیں ہے،بلکہ یہ ایک عملی نظام ہے،جو اپنی ایک شاندار تاریخ رکھتا ہے۔
ایک زمانے میںیہ نظام اس زمین پرنافذ ہوا، اور اس کی برکت سے زمین امن کا گہوارہ بن گئی،اور مدتہائے دراز سے کچلے اور ستائے ہوئے انسانوں کو یہ محسوس ہوا، کہ گویاآسمان کی جنت زمین پر اتر آئی !
پہلی بار لوگوںکو تجربہ ہوا، کہ آزادی کیا ہوتی ہے ؟محبت کیا ہوتی ہے ؟ انسانی عظمت کیا ہوتی ہے ؟ خوش حالی اور فارغ البالی کیا ہوتی ہے ؟
کیا اس سے پہلے دنیا کے کانوں نے کبھی سنا تھا کہ خلیفہ وقت صبح تڑکے ایک بڑھیا کے گھر جاکراس کے صحن میں جھاڑو لگارہا ہے، اوراپنے ہا تھوں سے اس کی اونٹنی دوھ کر خود اپنے ہاتھوں سے اسے دودھ پلا رہا ہے ؟!
ابوصالح غفاری کا بیان ہے، کہ مدینے میں ایک بوڑھی نابینا خاتون تھیں،حضرت عمر ؓ روزرات میںان کے ہاں جاتے،اورگھر کا جو کچھ کام ہوتا،وہ کردیا کرتے،پھرکتنی ہی بار ایسا ہوا کہ وہ اس خاتون کے ہاں گئے، تو دیکھا، کسی نے ان سے پہلے ہی آکرگھرکا سارا کام کردیا، اور چلا گیا،بالآخر ایک روز رات میں وہ گھات میں بیٹھے رہے، کہ دیکھیں کون رات میں ان سے پہلے آکرگھر کا سارا کام کرجاتا ہے ؟ اس رات انہیں پتہ چلا،کہ وہ توحضرت ابوبکر ؓہیں،رات میں چپکے سے آتے ہیں،پورے گھر کی صفائی کرتے ہیں،اورگھر کا سارا کام سمیٹ کے چپکے سے نکل لیتے ہیں،یہ اس وقت کی بات ہے جب کہ وہ خلافت کی ذمہ داریاں اٹھائے ہوئے تھے !وہ اس نابینا بڑھیاکی خدمت کرتے رہے، مگر اس بڑھیا پریہ ظاہر نہیں ہونے دیا کہ وہ کون ہیں ؟
حضرت عمرؓ کی زبان سے بے ساختہ نکلا : میری جان کی قسم ! آپ ہی ہیں وہ !!
(ابن اثیر۔ الکامل فی التاریخ: ۱ ۔ ۳۹۷)
کیا اس سے پہلے آسمان کے تاروں نے کبھی یہ منظر دیکھا تھا، کہ وہ امیر المومنین ، جس کے نام سے روم و ایران کی سلطنتیں لرزتی تھیں، وہ انسانی آبادیوں میںرات کے وقت تن تنہا گشت لگا رہا ہے،اور جب دور ایک خیمے سے بچوں کے رونے کی آواز سنائی دیتی ہے، اور قریب جانے پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ باہر کا ایک قافلہ ہے ، جورات میں یہاں ٹھہر گیا ہے، اس کے پاس کھانے کے لیے کچھ ہے نہیں، اور بچے بھوک سے بلک رہے ہیں ، تو جیسے اسے کرنٹ لگ جاتا ہے،وہ اسی وقت بھاگا ہوا واپس آتا ہے،رات میں ہی بیت المال کا دروازہ کھلواتا ہے،اور خود اپنی بوڑھی پیٹھ پر آٹے دال کی بوریاں لاد کراس خیمے تک پہنچاتا ہے، پھرخود منہ سے پھونک پھونک کر آگ دہکاتا ہے ، ا ور جب تک کھانا تیار کراکے بچوں کو کھلا نہیں لیتا،وہاں سے ہٹتا نہیں ہے !
یہ تھے امیرالمومنین حضرت عمرؓبن خطاب !
(ابن کثیر۔ البدایہ والنہایہ ۔ سیرۃ عمر : ۷ ۔ ۱۵۴)
آہ ! وہ کیا دور تھا ! کیا آج کا انسان یہ ما ننے کے لیے تیار ہوگا کہ اس زمین پر کبھی ایسے لوگوں نے بھی حکومت کی ہے، جو اس زمین پر چلتے تھے، اور آسمان کی بلندیاں ان کے قدم چومتی تھیں !
یہ سب اسلام کی برکت تھی، اس کے سیاسی نظام اور معاشی نظام کی برکت تھی !
آج دنیا کو یہ کیسے باور کرایا جائے کہ اسلام کے سیاسی نظام اور معاشی نظام کی یہ یہ برکتیں ہیں ؟
اسے یہ کیسے باور کرایا جائے کہ آج کے عالمی مالی بحران (گلوبل فائینا نشیل کرائسس ) سے اگر وہ نجات حاصل کرنا چاہتی ہے ، تو اس کا اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں، کہ وہ اسلام کے دیے ہوئے معاشی نظام کا تجربہ کرے ، کہ یہی نظام اس کے تمام مالی اور معاشی مسائل کا بہترین حل ہے !
دنیا کو کیسے اس کا یقین دلایا جائے ؟ یہ ایک اہم سوال ہے جس کا جواب میں اپنے با شعوراورپر عزم نوجوانوں، اور حوصلہ مندمسلم اسکالرس سے سننا چاہتا ہوں ۔
اسلام کے معاشی نظام کی یہ خاصیت ہے کہ وہ طبیعتوں میں بلندی،ذہنوں میں وسعت، اور دلوں میں خلق خدا سے محبت پیدا کرتا ہے، وہ دولت جمع کرنے، یا تعیّش کی زندگی اختیار کرنے کے بجائے ایثار وقربانی کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔
اسلام کے معاشی نظام کو صحیح طور سے قرآن پاک کی روشنی میں جو سمجھ لیتا ہے، اسے غریبوں، مسکینوں ، اور مصیبت زدہ انسانوں کے آنسوپونچھنے میں جو مزہ آتا ہے، اسے کوئی دوسرا کیا جانے !
اﷲ تعالی ہمیں اپنے دین اور اپنے قرآن کا لذت آشنا بنائے، اور ہماری رگوں میں وہ بجلی دوڑادے جو ہمیں اس نظام کو لے کر آگے بڑھنے کے لیے بے چین کردے۔ آمین،
وآخر دعوانا أ ن الحمد للہ رب العلمین۔