شارٹ کٹ کے سہارے اچھے پیسے نہیں کمائے جاسکتے
ٹورس میچول فنڈ کے سی ای او سید وقار نقوی ان معدودے چند افراد میںشامل ہیں جنہوں نے کمپنی کی گرتی ہوئی ساکھ کو دوبارہ بحال کرنے میں اپنی تمام تر صلاحیتوں کا استعمال کیا ہے۔محنت و ایمانداری کے ساتھ آپ نے نہ صرف کمپنی کو بام عروج پر پہنچایا ہے بلکہ کارپوریٹ دنیا میں ذاتی طور پربھی علحدہ شناخت قائم کی ہے۔۔پیشہے دانش ریاض کی رپورٹ

لیپ ٹاپ کا اسکرین سامنے ہے ،آس پاس دو سیل فون بھی رکھے ہیں ۔لیپ ٹاپ پر ٹائپنگ کرتے کرتے اگر کوئی میسیج آتا ہے تو فوراً انگلیاں سیل فون کی طرف گھوم جاتی ہیں اور میسیج کا جواب دے کر نظر پھر لیپ ٹاپ پر مرکوز ہوجاتی ہے اسی درمیان وقفے وقفے سے سیکریٹری کے ذریعہ لینڈ لائن پر مختلف لوگوں سے رابطہ کرنے کاحکم بھی صادر کیا جاتا رہتا ہے اور جب کوئی لائن پر آجائے تو اسپیکر آن کرکے بات کا سلسلہ بھی جاری رکھا جاتا ہے۔ جب ایک شخص اپنا دونوں ہاتھ ،دماغ اور دل پرسکون ماحول میں بیٹھ کر کام پر لگائے تو کمپنی نہ صرف فائدے کا سودا کرے گی بلکہ آنے والے وقتوں میں اگر اس کی فرم پر سرمایہ کاروں کی بھیڑ اکٹھی رہے تو کسی کو حیرت زدہ نہیں ہونا چاہئے۔جی ہاں!یہ ٹورس میچول فنڈ کے سی ای او سید وقار نقوی کی مصروفیات ہیں جو اپنی کمپنی کو بام عروج پر پہنچانے کا قابل قدر کام گذشتہ کئی برسوں سے انجام دے رہے ہیں۔صوبہ مہاراشٹر کے شہر ناگپورمیں جب ایک زمیندار گھرانے میں سید ضیاء الحسن نقوی اور عظیم ضیاء نقوی کی گود میں آنکھیں کھولنے والے لاڈلے نے کلکاریاں لیں تو انہیں اس بات کا یقین تھا کہ یہ بھی اپنی دنیا آپ بنائے گا لیکن وہ دنیا کیا ہوگی یہ صرف وقار نقوی ہی جانتے تھے۔
ٹورس کے سی ای اوکہتے ہیں’’میرا خاندانی پس منظر بڑا تابناک رہا ہے میرے نانا سید عبد الحسن مطلب سی پی برار میں اگر ڈائرکٹر آف ایجوکیشن تھے تو داداجان زمینداری کیا کرتے تھے اور ان کے بھائی سینئر پولس آفیسر ہوا کرتے تھے،میرے والد سید ضیاء الحسن نقوی نے منسٹری آف ٹیلی کمیونیکیشن سے کلاس ون آفیسر ہوکر سبکدوشی حاصل کی ہے تو والدہ عظیم ضیاء ایک اسکول میں پرنسپل کی خدمات انجام دے کر ریٹائر ہوئی ہیں۔میں نے بھی St. Francis De’Sales High School سے اگر امتیازی نمبروں میںدسویں کا امتحان پاس کیا تو Hislop Collegeسے انٹرمیڈیٹ میں کامیابی حاصل کی اس کے بعد گریجویشن کرکے ICWAکیا اور پھر ایم بی اے میں داخلہ لے کر اپنی زندگی کو ایک سمت دے دیا ہے۔‘‘کہتے ہیں کہ جو بچے ذہین، تیز و طرار ہوتے ہیں وہی زندگی کے ہر لطف کو اٹھانا بھی چاہتے ہیں ،وہ کبھی ایسے فیصلے بھی کرتے ہیں جو لوگوں کی نظروں میں مستقبل کو تاریک کر دینے والا ہوتا ہے لیکن کبھی تاریک راہوں کا مسافر بھی اپنی زندگی کو پر رونق بنا لیتا ہے ۔دراصل طالب علم کی جو خواہش ہو اگر اسے منزل بھی وہی ملے تو کامیابی بہت جلد قدم چوم لیتی ہے لیکن اگر منزل سے ہی لگائو نہ ہو تو پھر آگے کا سفر خدا کو ہی معلوم ہوتا ہے۔وقار نقوی نے بھی جب انٹر میڈیٹ میں کامیابی حاصل کی تھی تو والدین نے انجینئر نگ میں داخلہ دلوادیا تھاماں باپ کے احترام میں دل کی خواہش کبھی زبان پر نہیں آئی ،لیکن کالج کے ایّام صرف تفریح کا ماحول فراہم کرتے رہے ،موٹر سائیکل کی سواری کے لئے گھر سے پٹرول کا خرچ تو ملتا رہا لیکن دل جس خواب کی تعبیر کے لئے دھڑک رہا تھا وہ دو برس گذارنے کے بعدہی اپنی رفتار سے دھڑکنے لگا1987سے 1989کا عرصہ گوکہ دوستوں کے نذر ہوا لیکن سمت سفر کا تعین کر کے گیا۔’’وقار کہتے ہیں’’میں نے B.com کیا اور پھر1991 میں ICWA کرنے کے بعد ایم بی اے کی ڈگری حاصل کر لی،چونکہ انجینئرنگ چھوڑتے وقت ہی مجھے یہ معلوم تھا کہ میں کیا کر رہا ہوں اور کہاں جانا ہے لہذا بعد کے مر حلے میں مجھے کوئی پریشانی نہیں ہوئی بلکہ میں امتیازی نمبروں سے کامیاب ہوتا گیا۔‘‘یہ حقیقت ہے کہ جو بچے پڑھنے میں تیز ہوں کھیل کود میں بھی انہیں اول آنا اچھا لگتا ہے وقار نقوی بھی ہاکی کے کھلاڑے تھے اور اپنی ٹیم کے کپتان ہوا کرتے تھے، مضمون نویسی کے ساتھ فائرنگ اور کیوز کمپٹیشن میں ایوارڈ جیت چکے ہیں۔ وقار بچپن کا واقعہ سناتے ہوئے کہتے ہیں’’دسویں کے امتحان سے پہلے مجھے ٹائفائڈ ہوگیا ہمت جواب دے رہی تھی لیکن اسی عالم میں میں نے صبح اور شام کے پیپر دئے اور کامیابی حاصل کی۔‘‘
انسان کی زندگی میں پہلی نوکری بڑی اہمیت کی حامل ہوتی ہے ،ایک نیا ملازم بڑ ا سوچ سمجھ کر زندگی کی شروعات کرتا ہے ،وقار نے بھی پونہ کے تھرمیکس لمیٹیڈ میں بطور منیجمنٹ ٹرینی کام کا آغاز کیا لیکن تھوڑے دنوں میں ہی انہیں یہ اندازہ ہوگیا کہ وہ فائلوں کے بیچ گھِرکر ایک Clirckialجاب کے لئے پیدا نہیں ہوئے ہیں لہذا انہوں نے وہاں سے سبکدوشی حاصل کی اور نومبر1993 میں APPLEفائنانس کمپنی میں شمولیت اختیار کر لی۔لیکن اسے بھی خیراباد کہا اور دسمبر 1995 کو جی ای ٹی ایف میں آگئے لیکن 1997 میں ایسے حالات آئے کہ اسکائس فائنانس کا دامن تھامنا پڑا اور پھر 2000 سے 2008 تک برلا گروپ میچول فنڈ میں اپنی خدمات پیش کرنے کے دوران جب فروری 2008 میں ٹورس میچول فنڈ کے سی ای او کی ذمہ داری اٹھانے کی پیشکش کی گئی تو اپنا پورا وجود اس کے سپرد کردیا۔ٹورس میچول فنڈ کا قیام تو 1994 میں عمل میں آچکا تھا جس نے 128کروڑ کے سرمائے سے اپنا کاروبار شروع کیا تھا لیکن جب وقار نقوی نے ذمہ داری سنبھالی تو توپورا بزنس 5ہزار کروڑ کے درمیان گھومنے لگا۔وقار کہتے ہیں’’مارکیٹ کی حالت میں استحکام نہیں ہے لہذا ہمارے بزنس میں بھی اتار چڑھائو لگا رہتا ہے کبھی ہم چار ہزار کروڑ پر بھی آجاتے ہیں لیکن 6ہزار 4سو کروڑ ہماری اب تک کی بلندی رہی ہے ،چونکہ ریزرو بینک آف انڈیا نے اپنی سفارشات میں بینکوں کے لئے کچھ اصول و ضوابط ترتیب دے رکھے تھے لہذا بزنس پر اثر پڑ رہا تھا لیکن اب مجھے امید ہے کہ ہم بہت جلد 5ہزار کو عبور کر 6ہزار کے ٹارگیٹ تک پہنچ جائیں گے
جب آپ معیشت و تجارت پر گفتگو کر رہے ہوں اور سرمایہ کاری موضوع بحث بن جائے تو یہ سوال لازم قرار پاتا ہے کہ آخر ایک نیا آدمی کس طرح سرمایہ لگائے اور استفادہ کرے۔وقار کہتے ہیں’’جو لوگ پہلی مرتبہ سرمایہ کاری کر رہے ہوں انہیں کسی ڈسٹری بیوٹر کے ذریعہ Investکرنا چاہئے اور وہ بھی EQUITYمیں یا پھر Mixed Productsمیں شامل ہونا چاہئے ،پھر دھیرے دھیرےMonthly Income Planکی طرف قدم بڑھانا چاہئے۔لیکن یہاں یہ تذکرہ مناسب ہے کہ EQUITY MUTUAL FUNDمیں بھی تھوڑا پیسہ لگائیں اور تمام باتوں سے متعلق خود بھی معلومات حاصل کرتے رہیں صرف ڈسٹری بیوٹر کے سہارے بھی سرمایہ کاری کرنا مناسب نہیں ہے لہذا بہتر یہ ہے کہhttp://valuereserchonline.comپر جائیں اور کسی بھی اسکیم کے Performanceسے متعلق معلومات حاصل کرلیں اگر آپ وقت نکال کر تھوڑی بہت معلومات حاصل کرتے رہیں گے تو خود ہی اندازہ ہونے لگے گا کہ ایکویٹی فنڈ میں کتنا لگانا چاہئے،Balance فنڈ میں کتنا ہونا چاہئے۔البتہ میرا مشورہ یہ ہے کہ جو جوان ہوں اسے ایکویٹی فنڈ میں زیادہ لگانا چاہئے اور دس پندرہ سال کی پلاننگ کرنی چاہئے۔جبکہ بزرگ حضرات ایکویٹی میں کم پیسہ لگائیں کیونکہ ممکن ہے جس وقت وہ لگا رہے ہوں اس وقت مارکیٹ کی صورتحال کچھ اور ہو اور جس وقت وہ نکال رہے ہوں اس وقت مارکیٹ کچھ اور ہی حقیقت بیان کر رہی ہو۔‘‘ اس راز سے پردہ اٹھاتے ہوئے کہ آخر ٹورس کس طرح بزنس کرتی ہے وقار نقوی کہتے ہیں’’ہم Fixed Income Productsپر زیادہ توجہ دیتے ہیں مثلاً اگر ہمارا سرمایہ سات لاکھ کروڑ کا ہے تو ہم پانچ لاکھ کروڑ Fixed Incomeپر لگاتے ہیں جبکہ دو لاکھ لے کر دیگر پروڈکٹس پر توجہ دیتے ہیں ٹورس نے کسی سہل ،شارٹ کٹ اور آسان فارمولہ پر عمل کر کے اپنی ساکھ نہیں بنائی ہے بلکہ ہم آہستگی کے ساتھ ہی محنت و مشقت کرکے آگے بڑھے ہیں ،ہم نے لوگوں کے بہتر مظاہرہ کر کے بتایا ہے کہ ہم کیا ہیں اور کیا کر رہے ہیں کیونکہ لوگ پیسہ بنانے کے لئے پیسہ لگاتے ہیں اگر ان کا نقصان کردیں تو کوئی آپ کے پاس نہیںآئے گا۔اور پیسہ وہیں بنتا ہے جہاں لوگ اچھے اور ایماندار ہوںاور مکمل طور پر committedہوں اسی کے ساتھ ساتھ ان کی معلومات بھی اچھی ہو۔جب یہ تمام چیزیں ہوں گی تو پیسہ بھی بنے گا اور لوگوں کا اعتماد بھی حاصل ہوگا۔‘‘ مارکیٹ کی حالت کو بہتر قرار دیتے ہوئے نقوی کہتے ہیں’’اس وقت مارکیٹ میں کوئی Crashنظر نہیں آرہا ہے البتہ بنیادی طور پر ہماری معیشت کمزور ہوئی ہے حکومت اس کو بہتر کرنے کے لئے تدابیر تو اختیار کر رہی ہے لیکن اس کا کتنا اثر کارکیٹ پر پڑے گا اور کتنی بہتری دیکھنے کو ملے گی کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ــ‘‘بین الاقوامی سرمایہ کاروں کی ہندوستان میں دلچسپی پر اظہار خیال کرتے ہوئے وقار نقوی کہتے ہیں’’میچول فنڈ میں بین الاقوامی سرمایہ کاروں کی کوئی دلچسپی نہیں ہے وہ تو صرف فائنانشیل انسٹی ٹیوشن میں دلچسپی کا مظاہرہ کر رہے ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ پیسہ کہاں ہے لہذا وہ پیسہ دیکھ کر پیسہ بنا رہے ہیں، پیسہ یا تو کرنسی میںہے یا پھر ایکسچینج میںیا پھر دونوں میں اور یہ لوگ صرف یہی کچھ کر رہے ہیں۔لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس سے ہندوستانی معیشت کویا بالفاظ دیگر ہندوستانی شیئر مارکیٹ کو بالواسطہ یا بلا واسطہ فائدہ مل رہا ہے‘‘۔ بین الاقوامی سطح پرکساد بازاری کے علی الرغم امریکی انتخابات میں بارک حسین اوبامہ کی کامیابی کا ہندوستانی معیشت پر کیا اثر پڑے گا وقار نقوی کہتے ہیں’’اوبامہ نے انتخابی تشہیر کے دوران کہیں بھی اپنی تقریر میں ہندوستان کا نام نہیں لیا نہ ہی ہندوستان کو کسی تناظر میں پیش کر کے دیکھا گیا ،چین کی پیش رفت پر گفتگو ہوئی ۔البتہ ایران و اسرائیل کے معاملات پر گرما گرم بحث ہوئی ۔اوبامہ ایران و اسرائیل کے معاملہ کو سلجھانا چاہتے ہیں اگر ان دونوں ممالک کے درمیان جنگ ہوگی تو تیل کا بھائو بڑھ جائے گا اور شیئر مارکیٹ میں کمی آئے گی لیکن ہم کہیں ایسا نہیں دیکھ رہے ہیں۔لہذا عالمی معیشت پر اثر انداز ہونے کے جو آثار دکھائی دے رہے تھے وہ اب نہیں ہیں اسلئے بہتری کی امید کی جاسکتی ہے۔‘‘