ملت کا بے لوث خادم : ڈاکٹر عبد القادر فضلانی

جب نصب العین واضح اور سمتِ سفر متعین ہو تو ’’کامیابی‘‘کا میٹھا پھل آپ کی قدموں پر ہی گرتا ہے یہ وہ بہترین سبق ہے جسے میں نے کامیاب تجارتی زندگی میں حاصل کیا ہے‘‘یہ پیغام سپاری والا ایکسپورٹس پرائیویٹ لمیٹیڈ کے چیرمن عبد القادر فضلانی کا ہے جنہوں نے محض تین دہائی کے عرصے میں ہی اپنی تجارت کو فروغ دے کر بین الاقوامی شہرت حاصل کی ہے۔انٹر نیشنل بزنس میں ماسٹرس کے ساتھ ڈاکٹر آف فلاسفی (پی ایچ ڈی )کی ڈگری حاصل کرنے والے ملّت کے بے لوث خادم نے دانش ریاض کو دئے انٹر ویو میں ان گوشوں کو بھی کھنگالنے کی کوشش کی جسے عموماً صاحب ثروت بھلا بیٹھتے ہیں۔پیش ہیں اہم اقتباسات

سوال:بیڑی بنانے کے چھوٹے سے کاروبار سے بین الاقوامی سطح پر در آمد کرنے تک کا سفر کیسا رہا،مختصر تاریخ کے حوالے سے روداد بیان کریں؟
جواب:میری پیدائش 4اکتوبر 1949؁ ء کو سوراشٹر کے راجکوٹ میں ایک چھوٹے سے جوڑیا گائوں میں ہوئی ہے۔میرے والد حاجی عبد اللطیف گوکہ میمن برادری سے تعلق رکھتے تھے لیکن انتہائی کسمپرسی کی زندگی گذار رہے تھے۔ایک پیر صاحب نے ،جن کے وہ مرید تھے ،انہیں تجارت کرنے کا مشورہ دیا ۔بالآخر والد صاحب نے ہول سیل کی ایک دکان خرید لی لیکن عالم یہ تھا کہ اسٹامپ ڈیوٹی جمع کرنے کے لئے بھی پیسے نہیں تھے۔لیکن جیسے جیسے دکان کی شہرت ہوئی اللہ رب العزت نے رزق میں بھی کشادگی عطا کی۔گوکہ ہم تین بھائی اور سات بہنیں ہیں لیکن والد صاحب نے تمام لوگوں کی ذمہ داریوں سے سبک دوشی حاصل کی اور ہر ایک کو ان کا مقام عطا کرنے کی کوشش کی ہے۔چونکہ بھائی بہنوں میں میں سب سے چھوٹا تھا لہذا جب میری پڑھائی مکمل ہو گئی تو میں نے اپنے بڑے بھائی عبد الغفّار صاحب سے کہا کہ میں اب اپنا علحدہ بزنس کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے اس کی اجازت دے دی جس کے بعد ہی 1980میں میں نے Tobaccoکی تجارت کا آغاز کیا اور اسے بیرون ملک بھیجنے لگا۔الحمد للہ شروع سے ہی ہمیں نمبر وَن ہونے کا اعزاز حاصل رہا ہے۔ہم نے Tobacco کا Raw Materialہی در آمدکرنے کی کوشش کی ہے ،اور اب تو یہ ہمارا خاندانی بزنس ہوگیا ہے ۔فیالحال میں نے تمام لوگوں کا حصہ دے کر خدمت خلق میں اپنی زندگی گذارنے کی کوشش کر رہا ہوں۔

Sopariwala Exports

سوال:آپ نے کن اصولوں کے تحت تجارت میں بلندیاںحاصل کرنے کی کوشش کی ہیں؟

جواب:میں اپنے رب پر مکمل ایمان رکھتا ہوں ،ساتھ ہی ایمانداری کا دامن کبھی بھی ہاتھ سے نہیں چھوڑتا ۔سود سے پر ہیز کرتا ہوں جبکہ زکوۃ وقت پر نکالنے کی کوشش کرتا ہوں،لیکن اگر کبھی تکلیف آتی بھی ہے تو اِنّ مَعَ العُسرِ یُسراًکو پیش نظر رکھتے ہو معاملات اللہ کے حوالے کر دیتا ہوں ،انہیں چیزوں کی وجہ سے الحمد للہ میں زندگی میں بہتر کرتا رہا ہوں۔
سوال :تجارت کے ساتھ آپ سماجی کاموں میں زیادہ لگے رہتے ہیں اس کی وجہ؟
جواب:دنیا میں جو کچھ حاصل کرنا تھا الحمد للہ وہ مل چکا ہے لیکن اللہ رب العزت نے جس کام کے لئے ہمیں دنیا میں بھیجا ہے اسے کرناا بھی باقی ہے ،چونکہ خلق خدا کی خدمت بھی آپ کو اللہ سے قریب کرتی ہے۔لیکن ہماری غلطی یہ ہے کہ اللہ تعالی نے جو ڈھیل دی ہے اس سے ہم بے پروا ہو گئے ہیں،دعوتی کام چھوڑ دیا ہے لہذا ہمارے خلاف سازشیں ہو رہی ہیں اور ہمیں ہر جگہ بدنام کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔میں نے اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے ہی Fazlani International Schoolقائم کیا ہے جو اپنی نوعیت کا واحد بین الاقوامی ادارہ ہے جہاں مختلف ممالک کے بچے زیر تعلیم ہیں۔لونا والا(پونہ)میں یتیم خانہ قائم ہے جہاں بے آسرا بچوں کی تعلیم و تربیت کا نظم کیا جارہا ہے۔اسی طرح ممبئی میں میونسپل اسکولوں کو Adopt کر کے دینیات کی تعلیم کا نظم کیا گیا ہے جس کی مکمل ذمہ داری ہم لوگ ادا کرتے ہیں۔ان چیزوں کے ذریعہ صرف رضائے الہی کا حصول مقصودہے۔
سوال:ہندوستان کا قانون مسلم تاجروں کے حق میں کیسا ہے؟
جواب:ہندوستان کا نظام تمام لوگوں کے لئے یکساں ہے ،یہاں آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کے مواقع ہیں ،ہم نے چھوٹے پیمانے پرتجارت شروع کی تھی لیکن آج Oilseeds,Spices,Pulses,Rice,اورCut-Flowersکی تجارت کر رہے ہیں جبکہ Tobaccoکی دنیا میں تمام لوگوں کی نظر ہماری ہی طرف رہتی ہے۔دراصل مسلمان اللہ سے دور ہو رہا ہے اس لئے وہ تجارت سے بھی دور ہو رہا ہے۔صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے اس طرح تجارت کی جس طرح اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے بتایا تھا لہذا وہ لوگ کامیاب رہے ،اب مسلمان ویسا نہیں کر رہا ہے لہذا اپنی منھ کی کھا رہا ہے۔لیکن وہ الزام کسی اور کے سر دھرنا چاہتا ہے۔
سوال:زندگی کا کوئی ایسا واقعہ جسے آج بھی یاد کرتے ہوں؟
جواب:یوںتو زندگی کے بہت سارے واقعات ایسے ہیںجسے میںآج بھی یاد کرتا ہوں لیکن ان میں سے چند کا تذکرہ یقینا میں یہاں پہ کرنا مناسب سمجھتا ہوں ،پہلا واقعہ تو یوں ہے کہ جب میں پہلی مرتبہ سعودی عرب تجارتی دور ے پر گیا تھا تو اپنے ایک عرب Customer سے معاملات طے کرنے کے لئے ان کی آفس پر گیا،گفتگو کے دوران سعودی شیخ بار بار یہ کہتے کہ ٹیلی فون پر آپ کے والد صاحب سے فلاں بات ہوئی تھی….یا اس معاملے میں تو ان سے یہ طے پایا تھا،میں گفتگو کے دوران پریشان رہا کہ آخر انہوں نے میرے والد صاحب سے کب معاملات طے کر لئے ،میں نے ان سے اس سلسلے میں وضاحت چاہی تو انہوں نے کہا کہ آخر ٹیلی فون پر کون باتیں کیا کرتا تھا،میں نے کہا کہ وہ میں تھا جو تمام چیزیں طے کر رہا تھا۔اس جواب پر شیخ نے برجستہ کہا کہ اتنی چھوٹی سی عمر اور اس قدر معاملہ فہمی …ارے صاحبزادے داڑھی تو رکھ لو!!! اس کے بعد سے ہی میں نے داڑھی رکھ لی ۔دوسرا واقعہ یمن کے شیخ عمر کا ہے ،میں نے یہاں سے ایک کروڑ کی مالیت کا Tobacco روانہ کیا،چونکہ پانی کے جہاز میں اسے سب سے نیچے رکھا گیا تھا اس لئے وہ راستے میں ہی خراب ہو گیا ،یمن کے بندرگاہ پر جب مال اتارا جا رہا تھا تو میں بھی وہاں موجود تھا ۔مال کی حالت دیکھ کرمیں پریشان ہوگیا اور کف افسوس ملتا ہوا عمرہ کرنے کے لئے چلا گیا۔عمرہ کر کے جب میں واپس آیا تو شیخ نے حیرت انگیز طور پرمال کی پوری قیمت ادا کردی، میں نے ان سے کہا کہ یہ کیا ماجرا ہے کہ آپ خراب مال کی قیمت بھی ادا کر رہے ہیں۔بالآخر شیخ نے کہا کہ تمہارے جانے کے فوری بعد ہی میرے پاس ایک گاہک آیا جسے مال کی شدید ضرورت تھی میں نے مال کے خراب ہونے کی پوری داستان اسے سنا دی لیکن اس کے باوجود وہ مال خرید کر لے گیا ،لہذا تمہارا منافع میں تمہیں واپس کر رہا ہوں۔
ایک عجیب و غریب واقعہ میری دکان سے وابستہ ہے ۔ایک عیسائی خاتون ہمارے یہاں سے مال خریدا کرتی تھی،مال خریدنے کے بعد وہ گھنٹوں داڑھی اور ٹوپی والے ٹیکسی ڈرائیور کے انتظار میں کھڑی رہتی ،جب تک کوئی داڑھی اورٹوپی والا مسلمان ڈرائیور انہیں نہیں مل جاتااس وقت تک وہ کھڑی رہتی،میں جب اس سلسلے میں ان سے استفسار چاہی تو انہوں نے کہا کہ اصل میں میں صرف دین پر عمل کرنے والے مسلمانوں پر ہی بھروسہ کرتی ہوں اسی لئے میں ایسے ڈرائیور کو تلاش کرتی ہوں جس کے ساتھ بے خوف ہوکر میں اپنے مقام تک جاسکوں۔
یہ وہ واقعات ہیں جو مسلمانوں کی ایمانداری پر دلالت کرتے ہیں۔اگر آج بھی مسلمان ان باتوں پر عمل کرے تو یقینا بہتر نتائج بر آمد ہوں گے۔
سوال:آپ کی پسند کیا ہے
جواب: چٹپٹی چیزیں کھانا پسند کرتا ہوں ،سیخ کباب مرغوب ہے جبکہ مچھلی شوق سے تناول کرتا ہوں ۔گوکہ بہت ساری چیزوں کے کھانے پر پابندی ہے لیکن اس کے باوجود میں اللہ تعالی سے دعا کرکے تمام چیزیں ہضم کر جاتا ہوں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *