سبز شہر بنگلور کا سدابہار تاجر

سید محمد بیری کا شمارکرناٹک کے مشہور تاجروں میں ہوتا ہے آپ نے جس لگن ،محنت و مشقت اور ایمانداری کے ساتھ اپنی تجارت کو فروغ دے کر اپنا نام روشن کیا ہے اس نے انہیں اپنی مثال آپ بنا دیا ہے۔گارڈن سٹی(بنگلور)کو سر سبز و شاداب بنانے میں Bearys Groupکی خدمات سے انکار ممکن نہیں۔حکومت بھی ان کی کاوشوں کو تحسین کی نظر سے دیکھتی ہے ۔دانش ریاض سے ہوئی گفتگو میں انہوں اپنے اسرار و رموز سے باخبر کیا۔پیش ہیں اہم اقتباسات

سید محمد بیری
سید محمد بیری

سوال:بیری گروپ کی وجہ تسمیہ کیا ہے؟
جواب:بھٹکل سے قاصر کوٹ تک کرناٹک کے ساحلی علاقوں میں بیری برادری آباد ہے جوTuluزبان بولا کرتی ہے۔ مورخین کا کہنا ہے کہ ہم یمن سے ہجرت کر کے یہاں آباد ہوئے ہیں چونکہ ہم باہر سے آئے تھے اسلئے باہری ’’بیری ‘‘ہوگیالیکن مولانا علی میاں ندوی ؒ کی تحقیق کے مطابق بیری کے معنی بیوپاری اور تاجر کے ہیںاسی کی مناسبت سے ہمارے گروپ کا نام بیری گروپ ہے۔
سوال:آپ نے بیری گروپ کی بنیاد کب رکھی ؟
جواب:ہمارا خانوادہ اُڑوپی ضلع کنڈا پور تعلقہ کے کوڑی (Kodi)گائوں سے تعلق رکھتا ہے جبکہ ہمارا گائوں ساحل سمندر پر آباد ہے۔وہیں 28جولائی 1956کو میری پیدائش ہوئی۔ والد صاحب حاجی محی الدین گائوںکے ہی ایک چھوٹے سے اسکول میں مدرس تھے جنہیں محض 8روپئے تنخواہ ملا کرتی تھی ،ہم بھائی بہنوں کی تعداد 13تھی اس لئے بھی تنگ دستی کا سامنا تھا،اس صورتحال کو دیکھ کر میں 1974میں مسقط چلا گیااور ایک Oilکمپنی میں ملازمت حاصل کر لی۔لیکن جب 1980میں والد صاحب اس دار فانی سے کوچ کر گئے تو کمپنی سے مستعفی ہوکر 1981میں بنگلور آگیا اور Real Estateکی بروکری کاکام کرنے لگا۔مجھے یاد ہے کہ دو سال کی انتھک محنت کے بعدجب مجھے محض 750روپئے کا فائدہ ہوا تھاتو بے پناہ خوشی حاصل ہوئی تھی ۔ 1986میں مجھے پہلا بزنس Break ملا لہذا ہم نے IBM,Motorola,ٹیکساس وغیرہ آئی ٹی کمپنیوں کو جگہ دلوائی اوربروکنگ میں اپنا نام پیدا کیا ،چونکہ ہماری آفس بنگلور جامع مسجد کے قریب تھی لہذا اس کی وجہ سے بھی ہمیں زبردست فائدہ ملا،ابتداء میں مسجد کے امام ریاض الرحمن صاحب نے بھی ساتھ دیااورہماری ترقی کے راستے کھلتے چلے گئے۔1992میں جب مارکیٹ کی حالت دوبارہ بہتر ہوئی تو بیرون ممالک کی کمپنیاں بھی بروکنگ کے کاروبار میں آگئیںاسی وقت ہم نے تعمیراتیبزنس میں قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا۔ چونکہ اکثر ہماری لڑائی Developer سے ہوا کرتی تھی لہذا ہم نے اس مسئلے کو بھی ختم کرنے کی کوشش کی اور جگہ کی تلاش شروع کر دی آخر منگلور میں ہمیں تین ایکڑ زمین ملی جہاں 4لاکھ اسکوائر فٹ پر 130فلیٹ تعمیر کرنے کا پلان بنایا گیا۔ پورے پروجیکٹ پر 18کروڑ روپئے کا صرفہ تھا لیکن ہمارے پاس صرف ایک لاکھ روپئے تھے۔اللہ رب العزت کا نام لے کر ہم نے پروجیکٹ میں ہاتھ ڈالا اور اس کا نام ’’ھذا من فضل ربی ‘‘His Grace پروجیکٹ رکھا ۔الحمد للہ 1993کے اس پروجیکٹ کی برکت آج بھی قائم ہے ۔1995میںOrchard Greenپروجیکٹ پر کام کیادرخت کوکاٹے بغیر 17ہزار FSIکا نقصان برداشت کرتے ہوئے ہم نے کام مکمل کیا اور اسلام کے تبلیغی نظریہ کو بیان کرنے کی کوشش کی۔الحمد للہ 48فلیٹ میںعظیم پریم جی کے دونوں بچوں سمیت 11قوم کے لوگ رہائش پذیر ہیں۔
سوال:آپ کے پروجیکٹ کی خاص بات کیا ہے؟
جواب:ہم Green Building Concept کے تحت کام کرتے ہیں ،ہماری عمارتوں میں اس بات کی کوشش کی جاتی ہے کہ کسی بھی حالت میں دن کے وقت لائٹ کا استعمال نہ کرنا پڑے،جبکہ تعمیراتی کام کے وقت کسی بھی درخت کو نقصان نہ پہنچایا جائے ،ماحولیاتی ضرورتوں کا خیال رکھنا ہمارے اصولوں میں شامل ہے ۔شروع سے ہی ہمیںCity Escape Award ملتا رہا ہے ۔Bearys Harmony Homesپروجیکٹ میں 100فلیٹ ہیں لیکن 40ڈیزائن ہے۔اسے بھی Indian Institute of Architecture کی طرف سے 4ایوارڈ مل چکے ہیں ،Bearys Lakeside Habitat(Twin Tower)جنوبی ہند کی واحد 26منزلے کی بلڈنگ ہے جسے FIABCIنے انٹر نیشنل ایوارڈ سے نوازہ ہے۔ فی الحال ہم ہندوستان کا پہلا پلاٹینیم سرٹیفکیٹ یافتہ Green Building Research Parkکی روشنی میں 13لاکھ اسکوائر فٹ پر Bearys Global Research Triangleکی تعمیر کر رہے ہیں۔جس کے بنیادی آرکٹیکچر کالی کٹ کے ایم این سلیم ہیں جبکہ بہائی مندر میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکے مہندر راج اس کے اسٹرکچر کنسلٹنٹ رہے ہیں،فی الحال اس کی آفس کو CNBCنے ایوارڈ سے نوازہ ہے الحمد للہ یہ پروجیکٹ مکمل ہو چکا ہے۔یہ تذکرہ بھی ضروری ہے کہ یہ پہلا پروجیکٹ ہے جس میں SEDCOنیشریعہ کمپلائنٹ فنڈ کے تحت 200کروڑ روپیہ لگا یا ہے۔
سوال:تجارت کے ساتھ ساتھ آپ کن امور پر خصوصی توجہ دیتے ہیں؟
جواب:ہم نے اپنے کاموں میں تین چیزوں کو اہمیت دی ہے پہلا Entrepreneurship دوسرا Environment جبکہ تیسرا Education ہے۔ہمارے پرداد نے 1906میں گائوں میں ہی ایک اسکول قائم کی تھی جس کی دیکھ بھال 1948تک دادا کرتے رہے انہوں نے ہی کھپریل کی عمارت تعمیر کی اور پھر والد صاحب اسی اسکول کے ہیڈ ماسٹر بنے لیکن 1983میں عمارت کے خستہ ہونے کے بعد جب حکومت نے نوٹس جاری کرکے اسکول کوبند کرنے کا فرمان جاری کیا تو ہم نے اسے اپنے ہاتھوں میں لے لیا اس وقت صرف 4بچے وہاں زیر تعلیم تھے لیکن الحمد للہ اب تین ہزار بچے علم سے فیضیاب ہو رہے ہیں۔فی الحال بی ایڈ کالج،ڈی ایڈ کالج کے ساتھ پری یونیورسٹی تک کی تعلیم انتہائی معمولی فیس پر دی جارہی ہے۔
سوال :کن وجوہات کی وجہ سے آپ نے تعلیم پر توجہ دینا ضروری سمجھا ہے؟
جواب:جس وقت ہماراپہلا تعمیراتی کام چل رہا تھا اس وقت بہت سارے مزدوروںکی ضرورت تھی،لہذا ہمارے یہاں کام کرنے والوں میں مردوں کے ساتھ عورتوں کی بھی خاطر خواہ تعداد تھی جو اپنے بچوں کے ساتھ کام کیا کرتی تھیں ،میں نے ان کے بچوں کے لئے Crash Courseکا انتظام کیا جس کا زبردست فائدہ کام کرنے والی عورتوں نے حاصل کیا وہ مطمئن ہوکر اپنا کام کرتیں اور ان کے بچے تعلیم حاصل کرتے ،جب ہمارا پروجیکٹ مکمل ہوگیا تو مزدوروں نے ہی مطالبہ کیا کہ اب آپ ہمارے بچوں کے لئے ہی سہی ایک اسکول قائم کردیں لہذا میں نے Bearys Public Schoolکی بنیاد رکھی۔فی الحال His Grace Montessori School قائم ہے جبکہ ((IPSاقراء پبلک اسکول اور (IAS)اقراء عربک اسکول شروع کرنے کا ارادہ ہے۔جبکہ کیلی گرافی پر کام کرنے کے لئے بھی ایک اسکول قائم کیا ہے۔بیریز ٹیکنیکل کالج میں تعلیم جاری ہے امسال کے لئے داخلے کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے اور الحمد للہ طلبہ مستفید ہونے کے لئے دور دراز کا سفرطے کر کے آ رہے ہیں۔
سوال:Bearysتعمیراتی کام،تعلیم،ماحولیات کے ساتھ مزید کن امور پر توجہ دے رہی ہے؟
جواب:اللہ رب العزت نے ہمیں سود کی خامیوں سے دور رکھا ہے لہذا ہم سود ی لین دین کی بجائے ایک ایسا نظام تیار کر رہے ہیں جہاں تمام لوگ اپنے Investment کے ذریعہ رزق حلال حاصل کر سکیں لہذا ہم نے Bearys Amanah Investment Pvt Ltdاور Bearys Amanah Reality Fundقائم کیا ہے جبکہ علی گڈھ مسلم یونیورسٹی میں اسلامی فائنانس کا کورس ہماری ہی کوششوں کا نتیجہ ہے۔
سوال:ہندوستان کا نظام کیسا ہے؟
جواب:ہندوستان کے بارے میں علامہ اقبالؒ کا فرمان ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘‘ہی حقیقت بیان کردیتا ہے۔اس ملک کی طرح کوئی دوسرا ملک نہیں ہے لہذا مسلمانوں کو بھی کسی اور کو مورد الزام نہیں ٹھہرانا چاہئے۔بلکہ تمام طرح کی عصبیتوں سے ہمیں باہر آجانا چاہئے۔
سوال :آپ نے نوکری کے بالمقابل تجارت کو کیوں پسند کیا؟
جواب:تجارت ہماری رگوں میں بسا ہوا ہے،بچپن میں جب اسکول سے گرمی کی چھٹی ملتی تھی تو میں مچھلی کے کاروبار میں ہاتھ بٹا تا تھا۔اگر آج بھی آپ ایمانداری کے ساتھ تجارت کریں تو نورُُ علی نور ہو جائے اور لوگ ہاتھوں ہاتھ لیں۔
سوال :آپ کو کیا چیزیں پسند ہیں؟
جواب:مجھے میرا دین ’’اسلام‘‘ پسند ہے اس کے بعد میرا ملک

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *