
اسلامی معیشت و غیر سودی بینک کاری
ڈاکٹر شارق نثار
(مہاراشٹر کے شہرمالیگائوں میں گذشتہ برس اسلامی معیشت و غیر سودی بینک کاری پر سیمینار کا انعقادکیا گیا تھاجس میں فاضل مقررین نے خطاب فرمایا تھا افاد ہ عام کے لئے اسے تحریری شکل میں پیش کیا جا رہا ہے۔تقریر و تحریر میں جو فرق ہے وہ آپ کو یہاں بھی نظر آئے گا لہذا پوری معذرت کے ساتھ ہم کارروائی نذر قارئین کرتے ہیں۔ادارہ)
شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان اور رحم کرنے والا ہے۔ ابتدائے سخن اس رب کریم کے نام سے جس کے قبضۂ قدرت میں ہم سب کی جان ہے آغاز سخن اس خالق کائنات کے نام سے جس نے اس کائنات کی تخلیق کی ۔ کائنات کے ذرہ ذرہ کو بنایا۔ آسمان کو ستاروںا ور کہکشاں سے منور کیا۔ زمین کو سبزہ زاربنایا۔ اس مصور کائنات کے نام آج کی اس تقریب کا آغاز کرنا چاہوں گا جس نے گلوں کو شگفتگی، طیور کو نغمگی، کو ہساروں کو بلندی، سمندروں کو گہرائی وگیرائی عطا کی۔ اس رب کریم کے نام سے آغاز سخن ہماری اخلاقی روایت بھی ہے اور مذہبی روایات کی پاسداری بھی،کہ پہلے نام خدا زیب قرطاس کر، پھر پیش لفظوں کے الماس کر۔ میں نہایت عقیدت و احترام کے ساتھ آواز دے رہاں ہوں محترم قاری مجاہد الاسلام صاحب کو،از راہ کرم تشریف لائیں اور آیات قرآنی کی تلاوت سے آج کی محفل کا آغاز فرمائیں۔
قاری مجاہد الاسلام
اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم
الذین ینفقون ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پارہ نمبر۔۳، سورہ بقرہ ۔ آیات 273سے 281تک، رکوع نمبر۔۶ صدق اللہ العظیم
ناظم
سبحان اللہ! قاری مجاہد الاسلام نے اپنی مترنم آواز میں آیات قرانی سے آج کی اس محفل کا آغازفرمایا، حاضرین! اسلامی معیشت و غیرسودی بینک کاری اس عنوان کے تحت اسلامی معیشت میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے والے، اسلامک بینکنگ کو متعارف کرانے کے سلسلہ میں سرگرم ڈاکٹر شارق نثار صاحب آج ہمارے درمیان موجود ہیں۔ یقینا ًیہ ایک اچھوتا موضوع ہے ۔ ہندوستان جیسے سیکولر ملک میں ہم مسلمانوں کو اپنے دین اور شریعت کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے کس طرح سے تجارت اور بینک کاری میں حصہ لینا چاہئے کہ ہماری اسلامی شناخت بھی متاثر نہ ہواور ہم اس ملک کے کاروبار میں پورے طریقہ سے حصہ لے سکیں ۔ آج سے غالباً ایک ڈیٹرھ سال قبل دلی سے نکلنے والے سہ روزہ اخبار ’دعوت‘ نے اس سلسلہ میں ایک خصوصی شمارہ شائع کیا تھا۔ اس شمارے میں اسلامی معیشت، اسلامی بینک کاری اور اسلامی اکنامی کے حوالے سے ملک کے ماہرین معاشیات کے مضامین اکٹھا کئے اور اس کے ذریعہ لوگوں کی ذہن سازی کرنے کی کوشش کی تھی تاکہ ہم اسلامی بینک کاری کو اختیار کرسکیں۔ جب کبھی بھی ہم معیشت کے سلسلہ میں اس قسم کی گفتگو کرتے ہیںتو ہمارے سامنے ایک سوال یہ ہوتا ہے کہ کیا اس ملک کے اندرایسی چیز ممکن ہوسکتی ہے؟ایسے ہی کچھ سوالوں کا جواب جاننے کیلئے اور اسلامی معیشت کے اصول و ضوابط سمجھنے کیلئےاور ہندوستان میں اس کے کیا مواقع ہیں، یہ جاننے کےلئے ڈاکٹر شارق نثار صاحب کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔اس سے قبل کہ وہ آپ سے خطاب کریں میں چاہوں گا کہ ان معزز مہمانان کے استقبالیہ کلمات کیلئے اور تقریب کے اغراض و مقاصد بیان کرنے کیلئے شہر کے معروف سرجن ڈاکٹر سعید احمدفارانی صاحب کو زحمت دوں کہ آپ تشریف لائیں اور تقریب کے اغراض و مقاصد کے ساتھ ساتھ استقبالیہ کلمات پیش فرمائیں۔
ڈاکٹرسعید احمد فارانی
صدر معزز شمیم طارق صاحب، بنگلور سے آئے ہوئے شارق نثار صاحب اور معزز ین کرام، سب سے پہلے میں انتظامیہ کی طرف سے باہر سے آئے ہوئے مہمانان کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے ہم مالیگاؤں کے شہریوںکوفیض پہنچانے کے لئے طویل سفر کی زحمت اٹھائی۔ میں تمام شہریوں کا تمام معززین کرام کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے ایک ایسے مقصد کیلئے کہ جس کا بظاہر تو کوئی دینی یا دنیاوی فائدہ فی الحال نظر نہیں آتا، اس کے لئےوقت نکلا اور یہاں تشریف لائے جو اس بات کی دلیل ہے کہ اس شہر کے اندر مذہبی بیداری آج بھی موجود ہے۔
سامعین کرام !آج سے تقریباً پندرہ روز قبل کچھ لڑکے میرے پاس آئے تھے اور کہنے لگے کہ ہم اسلامک بینکنگ پرایک سیمینار کرانا چاہتے ہیں۔ سب سے پہلے تو میرے کان کھڑے ہوئے، کیونکہ اس سے پہلے کے تجربات کو آج بھی شہری بھول نہیں سکے ہیں جس میںالبرکہ اور الفھد جیسے گروپ نے اسلامی معیشت یا اسلامی بینکنگ کے نام پر ہی فراڈ کیاتھا ۔ لیکن جب میں نے ان سےتفصیلات حاصل کیں تو انہوں نے بتا یا کہ شارق صاحب نے اسلامی معاشیات میں PHDکی ہےاور ان کا سبجیکٹ اسلامی اکنامی ہے۔ وہ نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا کے بیشتر ممالک میںبطور مشیر بلائے جاتے ہیں۔ بڑی خوشی کی بات یہ ہے کہ ہماری دعوت پر انہوں نے مالیگاؤں جیسے چھوٹے شہر میںبھی بخوشی آنا قبول کیا ۔ کل تک میں نے سو چا تھا کہ بہت ساری باتیں کروں گا لیکن ابھی لنچ سے پہلے میں نے جب دس منٹ شارق صاحب سے بات کی تو یہ محسوس ہوا کہ جس محفل میں شارق صاحب موجود ہوں وہاں بولنے سے زیادہ سننے میں فائدہ ہے اس لئے میں اتنا کہہ کرکہ’’ شارق صاحب کے تجربات ہمیں اسلامی نقطہ نظر سے کاروبار کرنے کی راہ دکھائیں گے ‘‘میں پھر سےایک بار تمام معزز مہمانان اور حاضرین کرام کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
ناظم :- محترم حاضرین جیسا کہ ڈاکٹر فارانی صاحب نے کہا کہ ڈاکٹر شارق نثار صاحب نے اسلامی معیشت میں علی گڈھ مسلم یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے اور گذشتہ کئی برسوں سے آپ اسلامی معیشت کے فروغ کے سلسلہ میں مسلسل کوشاں و سرگرداں ہیں۔ دعوت ناموں کے ذریعہ آپ کو یہ علم ہوا ہوگا کہ آپ بحیثیت ڈائرکٹر TASIS(تقویٰ ایڈوائز ری اینڈ شرعیہ انویسٹمنٹ و سولیو شن) ادارےکے روح و رواں بھی ہیں۔ آپ مسلسل اس بات کیلئے کوشاں وسرگرداں ہیں کہ ہندوستان جیسی ڈیموکریٹک کنڑی میں اسلامک اکانومی کومتعارفکیا جائے اور اس کو فروغ دیا جائے۔ اور اسلامک اکانومی کو فروغ دینے میں ہم کہاں تک کامیاب ہوسکتے ہیں اس ملک کے قوانین میں رہتے ہوئے ہم کس طرح سے اس کو متعارف کراسکتے ہیں، اس سلسلہ میں ڈاکٹر شارق نثار صاحب ہماری رہنمائی فرمائیں گے۔ ڈاکٹر صاحب سے گفتگو کے دوران اس بات کا احساس ہوا کہ آپ نے اپنی تعلیم ضرور عصری مدارس میں حاصل کی ہے۔ لیکن جس وقت آپ علی گڈھ مسلم یونیورسٹی میں ڈاکٹر یٹ کی ڈگری حاصل کررہے تھے اس وقت چند اکا بر علمائے کرام کی صحبت بھی آپ کو نصیب ہوئی۔ ان سے آپ نے مکمل استفادہ کیا اور عصری علوم کے ساتھ ساتھ آپ نے شریعت کی جانکاری کیلئے کئی ریفریشر کورسیز بھی کئےاور علمائے کرام سے رجوع بھی ہوئے۔ ان سے شریعت کے سلسلہ میں رہنمائی بھی حاصل کی اور آج اسلامک شریعت کے اصول و ضوابط کے اندر اسلامک اکنامی کو فروغ دینے کے سلسلہ میں آپ مسلسل کوشاں و سرگرداں ہیں۔ اس سلسلے میں آپ یونیورسیٹز میں اسلامک اصولوں کو متعارف کرنے کیلئے لیکچرلیتے ہیں وہیں مدارس میں اکنامی کے اصول و ضوابط سمجھانے کیلئے وہاں بھی لیکچرز دیتے ہیں۔ آپ نے اس سلسلہ میں ملک وبیرون ملک کئی دورے کئے ہیں۔ جن میں بالخصوص امریکہ، سعودی عربیہ ودیگر اسلامی ممالک کے ساتھ ساتھ فرانس اور برطانیہ وغیرہ کا بھی دورہ کیا ہے۔ وہاں کی یونیورسٹیز کے اندر، وہاں کے طلبہ کے اندر آپ نے اسلامک اکنامی کے Introductionکیلئے سیمینار اور لیکچر سیریز منعقد کی ہیں۔ ہمارے لئے یہ بڑے تعجب کی بات ہے کہ ایسے لیکچر سیریز ہم توقع کرتے ہیں کہ سارے کے سارے مسلم سامعین ہوں گے ۔لیکن اس کے بر خلاف ایسے موقعوں پر ہمیشہ غیر مسلم افراد کی تعداد زیادہ رہی ہے جو اس بات کو جاننے کیلئے بے چین اور بیقرار رہتے ہیں کہWhat is islamic Economy الحمد اللہ! ڈاکٹر شارق نثار صاحب نے اس ضمن میں شرعیہ انڈیکس کو ترتیب دیا ہے اور آج اسٹاک ایکسچینج کے اندر شرعیہ انڈیکس کے ذریعہ جو حلال چیزیں ہیں اور جو اسلامک چیزیں ہیں اسکو فروغ دینے کیلئے کسی نہ کسی حد تک کامیاب و کامران ہورہے ہیں اور ہماری توقع ہے کہ آج ہمارے اپنے شہر کے اندر ہماری انڈسٹری اورشہر کے کاروباری صورت حال کو پیش نظر رکھتے ہوئے ڈاکٹر شارق نثار صاحب ضرور اس شہر کی رہنمائی فرمائیں گے۔ میں نہایت ادب و احترام کے ساتھ ڈاکٹر شارق نثار صاحب کو آواز دے رہا ہوں کہ تشریف لائیں اور اپنے خیالات کا اظہار فرمائیں ۔ اس تقریب کے بعد سوال و جواب کاسیشن ہوگا جو لوگ سوالات پوچھنا چاہتے ہیں وہ اپنے سوالات تحریر کرلیں انشاء اللہ العزیز تقریر کے اختتام پر ان کے سوالات کے جوابات دئیے جائیں گے۔ آپ کے روبرو ڈاکٹر شارق نثار صاحب موجود ہیں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
رب المشرح لی صدری ویسرلی امری و حلل عقد حم من السانی یفقہو قولی رب زدنی اجماع الحمد اللہ رب العالمین الصلوۃ و سلام علیٰ یا رسولہ الکریم اما بعدہ
محترم مہمان خصوصی !جناب شمیم طارق صاحب، ڈاکٹر فارانی صاحب، معزز علمائے کرام، دانشور حضرات ! محترم بھائیو! بزرگوں اور دوستوں ۔ السلام علیکم و رحمۃ اللہ ،دوستو! میرا تعلق علی گڑھ سے ضرور ہے لیکن آج آپ لوگوں کے مزاج اورذوق کو دیکھتے ہوئے مجھے محسوس ہورہا ہے کہ کہیں میری اردو اتنی کمزور نہ ہو کہ آپ لوگ سوچیں کہ علی گڑھ کا یہ کیسا طالب علم ہے، معذرت کے ساتھ میں کوشش کروں گا کہ جتنا ہوسکے اردو کے الفاظ اچھی طرح سے ادا کر سکوںکیونکہ اسلامی معاشیات کی تعلیم میں نے انگریزی میں حاصل کی ہے۔ دشواری یہ ہیکہ جس سبجیکٹ کو، جن موضوعات کو آپ جس زبان میں پڑھتے ہیں، اسے بیان کرنے میں اسی زبان میں آسانی ہوتی ہے۔ اتفاقاً مجھے موقع بھی کم ملتا ہے کہ آپ جیسے با ذوق اور دانشور حضرات کاساتھ نصیب ہو۔ زیادہ تر تو بزنس کلاس کے لوگ ہوتے ہیں اور ان سے انگلش میں ہی کام چل جاتا ہے۔اس کے باوجود میں کوشش کروں گا ، اگر کوئی کوتا ہی ہو تو امید ہیکہ آپ لوگ معاف فرمائیں گے۔
بینک کاری ہے کیا ؟ اسلامی معاشیات ہے کیا ؟ اسلامک انویسٹمینٹ کیا ہے؟ شرعیہ انڈ یکس کیا ہے؟ اور اسی سے متعلق بہت سارے دیگر سوالات آپ لوگوں کے ذہنو ںمیں یقیناً ہوںگے۔ میں یہ دیکھ اور محسوس کررہا ہوں کہ سامعین میں کافی تجسس ہے اور آپ یہ جاننے اور سمجھنے کے لئے بھی بیتاب ہوں رہے ہیں کہ آخر اس میدان میں کیا ہو رہا ہے ؟ اس میں ہمارا رول کیا ہوگا ، یہ کہاں تک درست ہےوغیرہ ؟ میں انشاء اللہ یکے بعد دیگرے ان تمام چیزوں پہ روشنی ڈالنے کی کوشش کروں گا۔
میں نے اس موضوع کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے ۔پہلا تو یہ کہ جو بنیادی Termsہیں یا جو لفظ استعمال ہوتے ہیں۔ اسلامک انشورنس، اسلامک بینک، اسلامک اسٹاکس اس طرح کے جو لفظ استعمال ہوتے ہیں اس سے مراد کیا ہے۔ جو موجودہ نظام ہے فائنانس کا یا بینک کاری کااس میں شرعی طور اس سے کیا مراد ہے ۔ انشاء اللہ اس کے بعد پھر دنیا میں اس کی کیا صورت ہے اور بحیثیت قوم کے ہم کہاں پر کھڑے ہیں؟ اس پر کچھ بات کروں گا اورساتھ ہی ہندوستان میں اس کے رائج ہونے میں کیا مسائل درپیش ہیں اس پر روشنی ڈالنے کی کوشش کروں گا۔میں اسلامی بینک کاری ، اسلامی فائنانس اور اسی طرح سے اسلامی انویسٹمینٹ ان تین حصوں پر بات کروں گا۔ آپ لوگ اپنے سوالات بھی لکھ لیجئےگا۔میری درخواست بھی ہے کہ براہ راست سوال وجواب ہو تا کہ جو بھی شکوک و شبہات ہیں وہ دور ہوجائیں۔ میں ایک اور بات واضح کرتا چلا کہ جب ہم اسلامک بینک کاری کی بات کرتے ہیں تو اسلام کی بنیادی اصولوں کی جانکاری بھی ضروری ہے ۔ آپ سب ماشاء اللہ اچھا خاصا علم رکھتے ہیں اس لئے میں اس کے ڈیٹیل میں نہیں جاؤں گا۔
آپ سب کو معلوم ہیکہ’ فقہ‘ کے معنی اسلامی قانون ہے ۔ شریعت کا بڑا حصہ ہے جس میں ایمانیات بھی شامل ہے اور قانون بھی شامل ہے۔ شریعت سے مراد راستہ بھی ہے ۔ ایک راستہ جو کہ کسی Sourceکی طرف لے جائے اسکو بھی ہم شرعیہ کہتے ہیں۔Understanding of Islamic Law
ہم سب کو معلوم ہے کہ شریعت کے جو بنیادی مصادر ہیں وہ قرآن اور سنت ہیں اور انہیں بنیادی مصادر سے جڑا ہو اجو دوسرا Sourceہے یا جو دوسرا مصدر ہے وہ اجماع، قیاس، اجتہاد و غیرہ ہے۔ ان سب کی اپنی حیثیت سے فقہ اور قانون میں ہمارے پاس پورا سسٹم ہے۔ پورا نظام ہے فقہ جو لوگ پڑھ کر آئے ہیں وہ اس بات سے واقف ہیں کہ تمام قانون کاایک مقصد بھی ہوتا ہے ۔ اللہ تعالی نے اگر ہمیں شریعت دی ہے تو اس کا بھی مقصد ہے شریعت ایک ذریعہ ہے اس مقصد کو حاصل کرنے کا، اور جب ہم مقصد کی بات جب کرتے ہیںتو ہمیں معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو دنیا میں عبادت کے لئے پیدا کیا۔ و ما خلقنا الجن و الانس الا للیعبدون، اور عبادت کی ہم بات کرتے ہیں تو عبادت سے مراد آپ سب حضرات واقف ہیں ۔ ہماری عبادت کی مقبولیت کا دارومدار ہمارے رزق حلال پر ہے۔ اگر ہمارا رزق حلال نہیں ہے تو ہماری عبادات قبول نہیں ہوگی۔ قیامت کے روز اس شخص کے پیر بھی اپنی جگہ سے ہل نہ سکیں گے جب تک وہ چند سوالوں کے جواب نہ دے دے۔ جن میں سے ایک سوال یہ ہوگا کہ مال کہا ںسے کمایا ؟ اور کیسے خرچ کیا ؟ آپ سب کو معلوم ہے کہ حرام کے مال سے پلا بڑھا گوشت پوست صرف جہنم کی آگ کے لائق ہے ۔ ان سب پس منظر کو دھیان میں رکھتے ہوئے ذرا آپ غور کریں کہ جب تک ہماری معیشت ،ہمارا کھانا درست نہیں، تو شاید ہماری آخرت بھی درست نہیں ہے ۔ تو یہ بات بہت اہم ہوجاتی ہے کہ ہم کہاں سے کمائیں؟ کیسے کمائیں؟ کس طریقہ سے کمائیں؟ تاکہ ہم اپنی آخرت کو بچا سکیں۔ یہی ہمارا اصل مقصد ہےجس کیلئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں دنیا میں بھیجا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے شریعت اپنے لئے نہیں بلکہ ہماری آسانی کیلئے فراہم کی ہے تا کہ ہم دنیا میں رہتے ہوئے دنیا کے اس نظام کو Followکرتے ہوئے اپنی آخرت کی کامیابی کی کوشش کریں۔ اس پہ مختلف علماء نے مختلف اکابرین نے باتیں کی ہیں جس میں امام غزالی، امام شافعی، امام ابن تیمیہ ؒ وغیرہ کا نام آتا ہے لیکن اگر آپ لب لباب پہ بات کریں تو سب سے پہلا یہ ہے کہ انسانیت کونقصان سے بچانا اور اس کی بھلائی کیلئے راہیں ہموار کرنا ،یہی دو مقصد ہیں شریعت کے ۔ امام غزالی نے اس کو الگ انداز سے کہا کہ’’ تحفظ دین، تحفظ نفس، تحفظ عقل ، تحفظ نسل، تحفظ مال یہ سب شریعت کے مقصود میں سے ہیں ۔امام شافعی نے اس کو ایسے کہا ہے کہ بنیادی ضرورتوں کی فراہمی شریعت کے مقصد میں سے ہے بنیادی ضرورتوں کے بعد جو چیزیں انسان کو تعریف و تحسین کی طرف لے جائیں شریعت اسکی بھی تکمیل کی کوشش کرتی ہے ضروریات، حاجتیں اورتعریف و تحسین، جو انسان کے تین Levelکی ضروریات ہیں ان کی تکمیل شریعت کا مقصد ہیں ۔ امام ابن تیمیہ نے کہا کہ انسانیت کو نقصان سے بچانا اور انسانیت کو بھلائی کی طرف لےجانا یہ ہی شریعت کا مقصد ہے۔
اب آپ اگر انسانی زندگی کو خانوں میں باٹیں، ایک طرف عبادات ہیں، ایک طرف معاملات ہیں۔ اس کے بھی اور Sub-sectionsہوسکتے ہیں لیکن میں اپنے اصل موضوع سے بہت دور نہیں جانا چاہ رہا ہوں ۔ عبادات کے معاملہ میں آپ کو معلوم ہے ،عبادات اس رشتہ کو کہتے ہیں۔ یہاں میں ٹیکنیکل سینس میں عبادت کی بات کررہا ہوں۔ عبادات جس میں مخلوق اپنے خالق سے رجوع کرتا ہے مخلوق کا خالق سے رشتہ کو ہم عبادات کہتے ہیں۔ جیسے نماز ، روزہ، حج ، زکوٰۃ اور ایک معاملات ہیں جس میں مخلوق سے مخلوق کے رشتہ، دنیاوی رشتہ، دنیاوی معاملات، دونوں کیلئے شریعت دو طرح کے اصول ہیں۔ عبادات کے معاملہ میں یہ کہا گیا ہے کہ آپ کو جو چیزیں بتادی گئیں ہیں اور جس طریقہ سے بتائی گئیں ہیں اس کو و یسے کریں اور باقی کسی اور طریقہ سے کرنا جائز نہیں ہے۔ اس کے برعکس جب معاملات پر ہم آتے ہیں تو معاملات میں بتایا گیاکہ ہےکہ آپ محرمات سے بچئے ۔ ناجائز چیزوں سے بچئے۔ ہم جب معاشیات کی بات کریں یا دوسری اور کسی معاملات کی بات کریں تو ہماری کوشش یہ ہونی چاہئے، بنیادی کوشش، کہ کم سے کم ،کم سے کم ہم حرام سے بچ سکیں۔ حرام سے بچنے کیلئے اگر مکر وہ میں Involveبھی ہوناپڑے ،تب اسکا لرس ، ہمارے فقہاء اور علماء کہتے ہیں کہ کوئی بات نہیں کیوں کہ سب سے پہلی ذمہ داری ہے وہ حرام سے بچنے کی ہے ۔جب ہم معاشیات یا فائنانس کی بات کرتے ہیں یا استثمار کی بات کرتے ہیں۔ تو ہم دیکھتے ہیں کہ جو سب سے بڑی ، اور سب سے زیادہ ناپسند چیز جو ہے اور بڑے گناہ کی چیز ہے وہ سود ہے ،ربوٰ ہے۔ دو اور چیزیں ہیں جس کی اسلام میں بہت سختی سے ممانعت کی گئی ہے جہاں تک فائنانس کا یا معاشیات کا تعلق ہے۔ ربوٰ، غرر اور میسر یہ تین چیزیں ہیں جس سے ہمیں بچنا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ اور چیزیں ہیں جو فرض کے طور پر ہیں معاشیات کے متعلق ہیں ۔ جیسے زکوۃٰ ، فطرۃ ہیں اور اس کے علاوہ ڈھیر ساری چیزیں ایسی ہیں۔ جن کی حیثیت، شرعی لحاظ سے مستحب بھی ہوسکتی ہے اور مباح بھی ہوسکتی ہےاور مکروہ بھی ہوسکتی ہے۔ لیکن بنیادی جو ضرورت ہے جو چیزیں حرام کی گئی ہیں ان سے بچا کیسے جائے۔ یہ ہماری سب سے پہلی ذمہ داری ہے۔ اور جن چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے فرض قرار دیا ہے۔ ربوٰ کے تعلق سے آپ سب واقف ہیں۔ بعض مرتبہ لوگ کہتے ہیں کہ آج بینک کا Interestجو ہے وہ ربو نہیں ہے بعض لوگ اس بات کو کہنے کی کوشش کرتے ہیں اور کہتے بھی ہیں۔ مثالیں کیا ہو تیں ہیں کہ قرآن کی اگلی آیت بھی ہے ربوٰ کے بعد، لاتطلمون ولا تظلمون، نہ تم ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم ہو۔ اور اگر ہم نے قرض دیا ہے قرض لینے والے نے اگر دس سال کے بعد لوٹا یا تو میرے اوپر ظلم ہوگیا تو اگر میں کچھ زیادہ لیتا ہوں تو تبھی میرا ظلم بچتا ہے ورنہ میرے اوپر ظلم ہوگیا۔ کچھ اور لوگ بھی ہیںجو کہتے ہیں کہ مقصد کے لحاظ سے اگر پہلے زمانہ میں دیکھا جائے تو کسی کی معاشی صورت حال کا استحصال کر ناربوٰ تھا۔ کیونکہ لوگ دوگنا اور چارگنا سود لیا کرتے تھے۔ اور اس سے استحصال ہوتا تھاسماج کے غریبوں کا، لیکن آج ہم جب بینکوں میں دیتے ہیں تو بینک ہمیں کما کر دیتا ہے لحاظہ وہ بینک کا Interestربوٰ نہیں ہے۔ ایسا بھی کہا جاتا ہے کچھ اور بھی Argumentدئیے جاتے ہیں۔ جن میں سے یہ بھی ہے کہ ہم ایک ایسے ملک میں ہیں جہاں پر اسکا نظام ہے ہی نہیں تو ہم کیا کریں اور ایک آدھ ایسے بھی Argumentآتے ہیں کہ دارالحرب میں اس چیز کی اجازت ہے ۔ اگر آپ مذہبی کتابوں کا جائزہ لیں تو دنیا کے تمام مذاہب میں اللہ تعالیٰ نے (دنیا کے تمام مذاہب اصلاً تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئے ہیں لیکن بعد میں ان میں تبدیلیاں ہوئیں ہیں لوگوں نے ان کی تعلیمات کے ساتھ کھلواڑ کیا تو اللہ تعالیٰ نے ایک نئی شریعت اور نئے پیغمبروں کے ساتھ پیغامات بھیجے اگر آپ یہودو نصاریٰ کی کتابیں بھی دیکھیں ،آج بھی ان میں تعلیم دی جاتی ہے کہ سود مت لو بلکہ قران تو کہتا ہے کہ انہوں نے سود لیا ہے اس لئے تو ان پر لعنتیں ہیں۔ یہودیوں نے اپنی کتابوں میں ترمیم کی اور کہا کہ سود لینا ناجائز ہے مگر یہودی سے۔ تم دوسروں سے تو سود لے ہی سکتے ہو۔ کیونکہ باقی افراد ان کے نزدیک ان کی خدمت کیلئے پیدا کئے گئے ہیں۔ معزز اور مقرب تو اللہ کے نزدیک صرف وہ ہیں ، عیسائیوں کی تعلیم دیکھیں تو ان کے یہاں سود لینا ایک Criminal Offenceتھا۔ لیکن ان کے یہاں جب پوپ نے بادشاہوں کو فائنانس کرنا شروع کیا تو انہوں نے سود کے دوحصہ کئے۔ ایک کا نام رکھا Usuaryاور دوسرے کا نام رکھا Interest ،ا س چیز کو کہا جس کے بارے میں یہ ہیکہ یہ Explotiveہے اور یہ بہت ہی Exobitantہے اور یہ بہت زیادہ لیا جاتا ہے اور استحصال پر مبنی ہے لحاظہ Usuaryکو اللہ نے منع کیا ہے۔ اور Interestکو وہ کہتے تھے کہ یہ Nominal ہے اور یہ تو Normal rate of profit ہے۔ تو جب کسی مذہب کے ٹھیکدار قانون میں اس طرح سے تبدیلی کرکے اپنے لئے جواز تلاش کرتے ہیں۔ ہمارے یہاں بھی مختلف کوشش کی گئی جس کا میں نے ذکر کیا۔ آج کا میرا موضوع سود کا نہیں ہے لحاظہ میں بہت زیادہ وقت نہیں لوں گا لیکن جوبات میں کہنا چاہ رہا ہوں وہ یہ کہ آپ دیکھیں کہ دنیا کے تمام مذاہب نے Evenہندوؤں میں دیکھیں تو ان میں بھی سود پر پابندی ہے۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ وہ بزنس کیلئے لون نہیں ہو تا تھا وہ تو ضرورت کے تحت لون ہوتا تھا تو ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ حضرت عباسؓ طائف اور مدینہ کے بزنس مین کو فائنانس کیا کرتے تھے۔ یہ وہی سود تھا جس کو اللہ کے رسول ﷺ نے خطبہ حجۃ الواداع کے وقت کہا کہ میری طرف سے میرے چچا کا سود جس کو بھی ہے، میں نے سب کو معاف کیا۔ تو اس میں کوئی تفریق نہیںہیکہ اس میںشرح (Rate)کیا ہو۔ اس میں کوئی تفریق نہیں ہیکہ مقصد کیا ہے۔ اس میں یہ بھی تفریق نہیں ہیکہ بزنس کیلئے لیا گیا تھا یا ضرورت کیلئے لیا گیا تھا۔ سود ،سود ہے چاہے وہ کم ہو یا زیادہ ہو، سود ہے اسلام میں اس کی کوئی تفریق نہیں ہے ۔ آپ سب کو معلوم ہیکہ ربوٰ انسیحہ یا ربوٰ الجاہلیہ ہے ربوٰا القران کہتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ اللہ کے رسول نے ربوٰا الحدیث کا بھی تذکرہ کیا اور ہمارے یہاں ایک ربوٰ الفضل کا بھی تصور آیا اس میں Comoditiesکا اگرلین دین ہوتا ہے تبادلہ ہوتا ہے زیادہ مقدار بھی یا کم مقدار ہیں تو وہ بھی سود کے زمرہ میں آتا ہے۔ یہ ربوٰ ہے ربوٰ کے بارے میں آپ سے ایک چیز کہہ کے اپنی بات آگے بڑھاؤں گا کہ ۱۹۸۱ء میں -Organization of Islami Conference (OIC)جو ابھی Organization of Islamic Cooperation.ہے اس کی اسلامک فقہ اکیڈمی اس بات پر غور و خوص کرنے کے بعد اجماع سے یہ بات کہی کہ موجودہ بینک انٹریسٹ اور ربوٰ میں کوئی فرق نہیں ہے۔ لحاظہ بینک Interest ربوٰ ہے۔ اور اس بات پر علماء کے درمیان کبھی Consfusionنہیں رہا ہے۔ ہاں و کلاء کے درمیان البتہ کہیں نہ کہیں اور طبقات کے درمیان یہ بات آتی رہی ہے کہ بینک کا Interestربوٰ ہے یا نہیں۔ لیکن ایک جب اجماع ہو اور اس پہ بات ہوجائے اور پورے ملتِ اسلامیہ کے علماء اس بات پہ متفق ہو جائیں تو ہمارے لئے کوئی اور گنجائش نہیں بچتی۔
غرر جو دوسرا Provibition ہے۔ غرر ایک ایسی حالت کو کہتے ہیں ۔ جس میں بیچنے اور خریدنے والے کے درمیان کوئی ایسا Confusionہو جس سے ان کے اندر بدگمانی کے بڑھنے کا یا جھگڑے کے بڑھنے کا امکان ہوجائے کوئی شخص ایسی چیز بیچے جس پہ وہ مکلف نہ ہو کہ وہ دے پائے گا۔ کوئی شخص ایسی چیز بیچے جو اس کے ہاتھ میں نہ ہو خو د اسکی ملکیت میں نہ ہو ۔ کوئی شخص کوئی ایسی چیز بیچے جس کے Charactasticsکے بارے میں، جس کے Features کے بارے میں، جس کی خصوصیت کے بارے میں لوگوں کو واقفیت نہ ہو۔ تو یہ بھی اسلامی معیشت کے حساب سے Prohibitedہے ممنوع ہے۔ کوئی شخص تالاب کی مچھلی بیچ دے کہ لے جاؤ، میں نے بیچ دیا۔ کتنی مچھلی ہے نہیں معلوم ، پکڑا ہی نہیں گیا۔ پھل بیچ دے ،جو ابھی کھلا ہی نہیں اور اس طرح سے کوئی اور ایسی چیز ہے آج کے معاملات میں بھی غرر کا اطلاق ہوتا ہے خاص طور سے انشورنس وغیرہ میں۔ یہ ایک دوسری چیز ہے غرر یا معاہدے میں کوئی ایسی شرط ہو یا کوئی ایسی چیز ہو جو کہ Clearنہ ہو، میں کوئی چیز Payکررہا ہو اور کوئی چیز آپ دیںگے۔ یہ غرر ہے۔ یہ بھی ممنوع ہے۔
میسر۔ آپ سب واقف ہیں کہ میسر سے مراد قمار ہے، یہاں پہ اصلاً کوئی فائدہ نہیں ہوتا ہے بس یہ ہے کہ مال ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں جاتا ہے۔ لیکن تجارت نہیںہے۔ جو یہ تین چار چیزیں ایسی ہیں جن کا ہمیں خیال رکھنا ہوگا۔ جب ہم اسلامی معاشیات کی بات کریں ۔
میں اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے بینکنگ پہ آتا ہوں، بینک کاری کیا ہے؟ اور اس کی ضرورت کیا ہے؟ کیونکہ اگر کوئی چیز سماج کی ایک ضرورت کو پورا کررہی ہے تو شریعت میں اس کی اجازت ہے۔ بعض مرتبہ کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ بینک پرانے زمانہ میں نہیں تھے ہمارا کام چل گیا اب بھی چل جائیگا۔ تو ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کیا بینک کوئی نفع بخش کام کررہے ہیں یا نہیں اگر کررہے ہیں تو شریعت میں اس بات کی گنجائش ہے بلکہ اس کی ضرورت ہے کہ سماج کی ضرورت کو پورا کرنا شریعت کے دائرہ میں ،اس بات کی ضرورت ہے اس میں کوئی دورائے نہیں ہے، آپ دیکھتے ہیں کہ لاکھوں لوگوں کے پاس کچھ نہ کچھ Savingsہیں کچھ رقومات جمع ہوتی ہیں اور ہزاروں لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کو ضرورت ہوتی ہے کہ اگر ان کے پاس پیسے ہوں تو وہ کارو بار کریں، بزنس کریں ، اگر کوئی ایسا ادارہ ہو جو دونوں کو ملا دے تو سماج میں بھلائی بڑھے گی ۔کیسی بھلائی! لوگوں کو روزگار کے مواقع فراہم ہوںگے۔ لوگوں کا نفع بڑھے گا۔ لوگوں کے کاروبار بڑھیں گے، یہ سب سماجی بھلائی کا کام ہے۔
اگر کوئی ایسا ادارہ آتا ہے جو ان کا موں کوکرتا ہے کہ لاکھوں لوگوں سے پیسے کو جمع کرے اور جن لوگوں کو پیسے کی ضرورت ہے ان کو فراہم کرے تو یہ شریعت کی روسے ایک بھلائی کاکام ہے اس کی ضرورت ہے اور ایسے ادارے ہونے چاہئیں ۔ مسئلہ جب پیدا ہوتا ہے جب یہ ادارہ غلط طریقہ سے کام کرتے ہیں ۔ آپ ایک موجودہ بینک کو دیکھیں کہ وہ سودپر پیسے لیتا ہے اور سود پر پیسے دیتا ہے حالانکہ اُسکا کام اچھا ہے لیکن اس کا طریقہ غلط ہے۔ اس نے پیسے سستے خریدے ہیں اور پیسے مہنگے بیچ رہا ہے پیسے کی خرید و فروخت بھی اسلام میں جائز نہیں ہے کیونکہ پیسہ ایک یونٹ ہے چیزوں کی مقدار کے ناپنے کا جس طرح سے میٹر اور جس طرح سے گرام اور کلو گرام ہوتے ہیں اسی طرح سے پیسہ بھی ہوتا ہے اس کو پہن نہیں سکتے ، اوڑھ نہیں سکتے ،کھابھی نہیں سکتے ۔ لیکن اس کو استعمال کرکے بزنس بڑھا سکتے ہیں۔ اگر وہ خود اپنے آپ میں خرید یں اور بیچے جانے لگے تو مارکیٹ میں Distortions پیدا ہوںگے، مارکیٹ خراب ہوجائیگی جس کا نقصان ہوگا سماج کو ۔ تو بینک یہاں پر پیسے کو خرید رہا ہے اور بیچ رہا ہے۔ اگر اس میں لوگ پیسہ کمائیں تو پیسے معیشت میں لا کر کون لگائے گا۔ ادھر ہم بینک کا تنقیدی جائزہ لیں تو اس کا کام تو درست ہے اس کا مقصد بھی درست ہے لیکن جس طریقہ سے یہ کام کر رہا ہےیعنی پیسے کی خرید و فروخت اور سود، یہ ایک مسئلہ ہے اسلامی اعتبار سے، کیونکہ یہ ربوٰ ہے اور ربوٰ سے ہمیں بچنا ہے ۔دوسری جو بینک کی خاصیت ہے وہ یہ کہ نفع کے کاموں میں پیسہ لگائے گا چاہے جہاں سے بھی نفع آرہا ہو۔ اب اس میں اگر انسانوں کے لئے نقصان دہ چیزسے بھی نفع آرہاہے تو کوئی مطلب نہیں، میرا تو فائدہ ہورہا ہے نقصان تو دنیا کا ہورہا ہے، ہوا کرے۔ وہ شراب کے کا روبار میں پیسہ لگا ئےگا وہ تمباکو کے کاروبار میں پیسہ لگائے گا وہ کسی ایسے کاروبار میں پیسہ لگائے گاجس کا مقصد ہے نفع کمانا اپنے شئیر ہولڈرس کیلئے ۔ تو یہ دو ایسی بنیادیں ہیں جن کو دیکھتے ہوئے ہمیں اس بات کی ضرورت پیش آتی ہے کہ ہم ایک ایسا بینکنگ نظام تجویز کریں جو سماج کی تمام جائز ضروریات کو پورا کرے مگر جائز طریقہ کے ساتھ۔ اسی کام کو ہم اسلامک بینکنگ کے نام سے جانتے ہیں۔ لفظ اسلام کا لگا ہونا ضروری نہیں شرعی اعتبار سے بلکہ یہ لفظ اسلام تو تب آیا ہے ،جب ہمارے علماء اور اکابرین نے انگریزوں سے یہاںپہ جہاد کیا تو ان کی تحریر یں جب آئیں تو کسی نے کہا کہ ارے ارے آپ لوگ تو Capitalistکے خلاف ہو۔ اسکا مطلب سوشلسٹ ہو تو اُن کو کہا کہ ارے ! تم تو سوشلسٹ ہوگئے تو لفظ Islamic Economics وجود میں آیا۔ جب Capitalismکے خلاف بات کی ۔ارے! دنیا میں دو ہی چیزیں ہیں تیسری کہاں سے آگئی۔ تب لفظ اسلام آیا ورنہ اگر آپ پوری اسلامی تاریخ دیکھیں تو اسلامی بینک کاری کا لفظ نہیں ملےگا ۔ اسلامی معاشیات کا لفظ نہیں ملےگا۔ تو ایک عام بینک لوگوں سے رقومات جمع کرتا ہے لوگوں کو قرضے دیتا ہے اور سود کا معاملہ کرتا ہے اور وہ بینک کوئی بزنس میں بھی سہولت اختیار کرتا ہے یا فائنانس کرتا ہے جو انسانیت کیلئے نقصان دہ ہے جیسے شراب ، جوّا وغیرہ۔ ایک اسلامی بینک ان سب چیزوں سے بچتے ہوئے وہی کام کرتا ہے۔ لوگ سے پیسے لیتا ہے اس پیسہ سے تجارت کرتا ہے اور تجارت سے ہونے والے نفع کو لوگوں سے شیئر کرتا ہے لوگوں سے بانٹتا ہے۔ سوال جواب کے درمیان انشاء اللہ اور کوئی بات آئی تو میں اس پر بات رکھوں گا۔ اسلامی بینک کو ئی ایسے کام کی فائنانسنگ نہیں کرے گا کوئی ایسے بزنس کی فائنانسنگ نہیں کرے گا جو انسانیت کیلئے نقصان دہ ہو۔ چاہے اس میں اسکو کتنا بھی نفع آرہا ہو۔ تو بینکنگ کا جہاں تک تعلق ہے وہ اسلامک اور عام بینکوں میں فرق یہ ہیکہ عام بینک سودی کاروبار کرتے ہیں اور اسلامک بینک سود سے بچتا ہے۔ عام بینک کسی کاروبار میں جس میں نفع ہوا اس میں شمولیت اختیار کرتے ہیں، اسلامی بینک جائز کاموں میں ہی صرف اپنے پیسے لگا سکتا ہے۔ یہ فرق ہے باقی زیادہ فرق نہیں ہے وہ بھی پیسے جمع کرتے ہیں لوگوں سے اور یہ بھی۔ اگر آپ موازنہ کریں کہ اسلامی بینک میں کیا خصوصیات ہیں تو اس میں ورلڈ بینک اور IMFجیسے اداروں نے بھی کہا ہے کہ اسلامک بینکنگ کا جو نظام ہے یہ زیادہ Efficientنظام ہے۔ یعنی موثر نظام ہے۔ کیوں؟ کیونکہ عام بینک کے پاس جائینگے ایک لاکھ قرض لینے تو وہ آپ سے پوچھے گا کہ آپ کے پاس لوٹا نے کیلئے کچھ ہے یا نہیں ہے ۔یعنی کہیں نہ کہیں سے سیکوریٹی اگر آپ کے پاس ہے تبھی آپ کو قرض ملےگا۔ کوئی غریب جس کے پاس کچھ نہیں ہے اُسے بینک کی طرف سے کچھ نہیں ملےگا اسی لئے غریب علاقوں میں بینک نہیں ملےگا۔ ہندوستان کے 90%لوگوں کے درمیان بینک نہیں ہے۔ صرف 10%اُمراء کے درمیان بینک ہے ۔ کیوں؟ کیونکہ وہ کام ہی ایسا کرتے ہیں کہ جہاں پہ پیسوں والوں کو پیسوں کی ضرورت ہو تو دے گا۔ اس کے برعکس اسلامی بینک کی بنیادکیا ہے ؟ وہ یہ کہ اگر آپ کے اندر صلاحیت ہے پیسہ کو بڑھا پانے کی تب وہ آپ کو دے گا۔ اس کو معلوم ہے کہ اگر صلاحیت مند افراد کو فائنانسنگ کرےگا تبھی نفع کما پائے گا ۔ تو یہاںغریب کو بھی پیسہ مل سکتاہےاور یہ Efficient اس لئے ہے کیوں کہ اس سے معیشت میں ترقی ہوتی ہے۔ امیر آدمی غریب بچے کو فائنانس کرسکتا ہے کنونیشنل بینک۔ لیکن غریب آدمی کے اچھے Talented بچے کو اسلامی بینک فائنانس کریگا۔ کیوں؟ کیونکہ اس کو اس سے نفع کے ا مکان زیادہ Efficentنظام ۔ معیشت کیلئے ہے جس کو ورلڈ بینک اور IMFنے بھی تسلیم کیا ہے ۔ جو دوسری خصوصیت ہے اسلامی بینک کاری کی کہ اس سے سماج کے نقصان دہ کاموں کی Activitiesمیں کمی آتی ہے۔ جب اسلامی بینک شراب کے کاروبارمیں فنڈنگ نہیں کریگا ، نقصان دہ کاروبار کو فنڈنگ نہیں کریگا تو سماج کی برائیوں کی فنڈنگ میں کمی آئیگی اس بات کو بھی پوری دنیا تسلیم کرتی ہے۔ تیسری جو خاصیت ہے اسلامی بینک کاری کی وہ یہ کہ آج ایک Debt Bubbleجو ایک نام ہوگیا ہے قرض کا غبارہ کہ پوری دنیا کی معیشت کی سائز تو اتنی چھوٹی ہے اور اس کے اوپر قرض اتنا بڑا ہے کہ قرض کے اوپر جوسود ہے وہ بھی ہم پیدا نہیں کرسکتے قرض تو بہت دور کی بات ہے۔ قرض کے اوپر سود ہے، پوری دنیا مل کرکے، اپنا کھانا پینا چھوڑ کر کے ۔ صرف قرض کے اوپر سود ادا کرنے پر لگ جائے تو زندگی بھر بھوکوں مرجائیگی مگر قرض کے اوپر کا سود ادا نہیں ہو سکتا ۔ آج کا نظام ایسا ہوگیا۔ اسی کی طرف قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے اشارہ کیا کہ یَمحَقُ اللہ الربوٰ و یربی الصدقات۔ کہ اللہ تعالیٰ نے سود کو یمحق کردیا(گھٹا دیا) پوری دنیا کی معیشت Strangulate ہے اسکی جیسے گردن مروڑ دی گئی ہے آج صورت حال وہ ہے۔ یہ ایک خاص ہے اس سے اسلامی بینکاری بچی ہے کیونکہ اسلامی بینکاری کا پیسہ وہیں جائیگا جہاں سے نفع آئیگا کیونکہ نفع آئیگا تبھی تو بٹے گا ،نفع نہیں آئیگا تو بٹے گا ہی نہیں ،اس لئے Debt Bubbleنہیں Createہوگا کیونکہ سود کاروبار نہیں ہورہا ہے۔ لوگ قرض کے اوپر قرضے چڑھائے چلے جارہے ہیں سودی کاروبار کی خاصیت یہ ہے۔ معیشت سے پیسہ نکل کرکے Financial Sectorمیں جارہا ہے۔کیونکہ وہاں زیادہ سود مل رہا ہے معیشت میں چھ مہینہ لگائیں گے فصلوں میں تو کہیں جاکے 10 فیصدملے گا۔ 10فیصدتو اسٹاک مارکیٹ میں راتوں رات مل جائیگا۔ تو پیسہ کا جو Diversionہورہا ہے۔ جس کی وجہ سے پوری معیشت میں خلط ملط ہوئی ہے۔ وہ اسلامی سسٹم میں نہیں آئیگا۔ اسلامک سسٹم کی ایک خاص اور بات ہے کہ اس میں نفع اور نقصان میں شرکت ہوگی۔ جب آپکا اچھا دن ہے تو آپ نے مجھ سے شیئر کیا جب آپ پر مصیبت پڑی تو میں بھی آپ کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا لیتا ہوں یہ ہے اسلامی معیشت کی بنیاد ،جب آپ نے پچاس فیصد نفع کمایا یا کسی سال میں تو آپ نے مجھ سے بھی شیئر کر لیا اور جب آپ کو نقصانات ہوئے تو میں نے بھی آپ کے ساتھ کندھے ملایا ۔لاکھوں ،دسیوں لاکھ کسانوں نے خودکشی کرلی کیوں ؟ کیونکہ مانسون نہیں آیا مانسون ان کے ہاتھ میں ہے کیا جو لاسکیں ؟ بینکوں نے ان کو فائنانس کیا ان کی فصلیں فیل ہوگئیں ۔ ان کی کوشش کے باوجو د فصلیں کامیاب نہیں ہونے کی وجہ سے وہ سود نہیں ادا کرپائے اور سود پر جب سود چڑھا تو ان کو کوئی چارہ نظر نہیں آیا سوائے خودکشی کے۔ لاکھوں کسانوں نے خود کشی کی تب تک کچھ نہیں ہوا جب بینک ڈوبنے لگے تو پھر گورنمنٹ کو تین ہزار کروڑ روپے لگا کر بینکوں کو بچانا پڑا۔ ہزاروں کروڑ روپے کا بھی نقصان ہوا اور لاکھوں جانیں بھی گئیں۔ تو یہ ایک نظام اسلامی بینک کاری میں نہیں آسکتا ۔
اسلامک فائنانس جو ایک بڑا Wide Termہے۔ اسلامی بینکاری اس کا ایک مقصد ہے۔ اسلامی فائنانس ہم ایک معیشت کے نظام کو کہتے ہیں۔ اس کی خاصیت کیا ہے ؟ اس کی تین خاصیت ہیں ایک تو یہ اخلاقی نتائج کو دیکھتا ہے۔ اگر اخلاقی نتائج خراب ہیں تو ایسے سسٹم سے وہ بھاگتا ہےاور دوسرا معاہدے انصاف اور عدل پر مبنی ہوں دونوں پارٹی کے درمیان اور تیسری یہ ہیکہ مال جو Createہوتا ہے۔ اس کا جو بھی شخص مستحق بننا چاہتا ہے اس کو یا تو کوشش کرنی پڑے گی یا ذمہ داری لینی پڑے گی۔ یارسک (Risk)لینا پڑے گا۔ کوئی شخص چاہے کہ میں کوشش بھی نہ کروں Riskبھی نہ لوں اور ذمہ داری بھی نہ لوں تو پھر آپ اس بات کے مستحق نہیں کہ آپ نفع لیں۔ یا تو آپ کو کام کرنا پڑےگا یا تو آپ کے پیسہ کو کام کرنا پڑےگا۔ ایسا نہیں ہے کہ میں بھی کام نہیں کروں گا اور میرا پیسہ بھی کام نہیں کرےگا In the Senseپیسہ کی Guaranteeکا پورا پلس سود آنا چاہئے یہ نہیں ہے پیسہ کا کام کرنا۔ یا تو پیسہ لگانا پڑےگا یا کوشش کرنی پڑےگی یا Riskلینا پڑےگا۔ اگر کوئی شخص ان تینوں کیلئے تیار نہیں ہے تو اس بات کا مستحق نہیں ہے کہ اس کو نفع میں شریک کیا جائے ۔ کوئی نہ کوئی ایک چیز آپ کو لینی پڑےگی۔ جیسا کہ میں نے بتایا کہ اسلامی فائنانس، ضروری نہیں ہے کہ لفظ اسلامک لگا ہو۔ بلکہ میں نے تو مثال بھی دی کہ ایک طرف تو سعودی عرب ہے جو پورے شرعی قانون کا پابند ہے وہاں پر بھی لفظ اسلامک نہیں لگا ہے۔ اس طرح سے دوسرا ملک جو دوسرے کنارے پر ہے ’ترکی‘ ۔ جو سیکولر ڈیموکریٹک ہے وہاں پر بھی کوئی لفظ اسلامک نہیں ہے تو ہندوستان میں بھی ضروری نہیں ہے کہ ہم اگر کوئی بینک کاری کی کوشش کریں تو لفظ ـ’اسلامک‘ ہونا ضروری ہے بلکہ جو اس کے Featuresہیں جو اسکی خصوصیات ہیں وہ رہنا ضروری ہے وہ اگر نہیں ہیں ’اسلام‘ کے باوجود اسلامک نہیں ہے ۔ ہمیں اس بات کو دیکھنا پڑیگا۔
آج کی تاریخ میں پوری دنیا میں صرف دو علاقہ ایسے ہیں جہاں پر اپنی ضرورت سے زیادہ پیسہ پیدا ہورہا ہے۔ چین اور مشرق وسطیٰ (مڈل ایسٹ)، بس! پوری دنیا کے تمام ممالک خسارہ میں ہیںخاص طور سے مغربی ممالک۔ چین ایک ایسا ملک ہے جہاں پر اپنی ضرورت سے زیادہ پیسہ پیدا ہورہا ہے اسی وجہ سے وہاں سے پیسہ دوسرے ملکوں میں جارہا ہے۔ بہت زیادہ پیسہ انہوں نے امریکہ میں لگا رکھا ہے اور دوسرا علاقہ ہے ’مڈل ایسٹ‘۔ اگر ہندوستان کے تناظر میں دیکھیں تو چین ہندوستان میں کبھی پیسہ نہیں لگائے گا۔ ہندوستان کو وہ مضبوط ہوتا ہوا نہیں دیکھے گا کیونکہ ہندوستان میں اسکی Rivalryہے Competitionہے۔ ہندوستان اگر آگے دیکھے گا تو مڈل ایسٹ ہی ایک ایسا علاقہ ہے جہاں سے پیسہ آسکتا ہے اور ہندوستان میں اتنے پیسہ کی پیداوار نہیں ہورہی ہے جس تیزی سے ہمارے یہاں آبادی بڑھ رہی ہے۔ آج نہیں تو کل ہمیں باہر کے پیسوں کی ضرورت پڑہی جائے گی اور وہ پیسے ہمیں مڈل ایسٹ سے ہی آتے ہیں۔ بلکہ کوشش بھی چل رہی ہے ہمارے پرائم منسٹر (Prime Minister)وہاں جارہے ہیں ہمارے بزنس کلاس کے لوگ وہاں جارہے ہیں۔ ان کو Attractکرنے کی کوشش کررہے ہیں تو آج نہیں تو کل یہاں پر اسلامک بینکنگ آئیگی وہ اسلام کی محبت میں نہ آئے بزنس کی محبت میں آئے وہ الگ بات ہے۔ ہمیں تیاری کرکے رکھنی ہے، ہمیں افراد تیارکرکے رکھنے ہیں۔ کیرالہ گورنمنٹ نے کیوں اتنی کوشش کی،کیونکہ ان کے پاس کئی ہزار کروڈ روپے ایسے ہیں جو کہ لوگوں نے کہا ہے کہ سود میں مت ملانا اسکو ۔ انہوں نے سوچا کہ اُس پیسہ کو لیکر کے ہم اپنے یہاں Industriesڈیولپ کرسکتے ہیں اسی کے لئے انہوں ۔ Islamic Finance Co.کی کوشش کی تھی جس کے خلاف کیس ہوا۔ تو اسلامک فائنانس کے بڑھنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پورا مڈل ایسٹ میں جو نظام ہے فائنانس کا وہ اسلامی کی طرف Convertہو رہا ہے۔ اور جن Countriesکو بھی پیسہ چاہئے یا جن اداروں کو پیسہ چاہئے وہ ابھی سے اپنے آپ کو تیار کررہے ہیں کہ ہمیں اگر کام کرنا ہے ان کے ساتھ تو ان کے اصولوں کو دیکھنا پڑیگا۔ سمجھنا پڑیگا پڑھنا پڑیگا عمل کرنا پڑیگا ۔ یہی وجہ ہیکہ ہندوستان کے جتنے بڑے بڑے کالجز ہیں وہاں پر اسلامک فائنانس پڑھا یا جارہا ہے۔ Unfortunatelyہمارے اپنے کالجز میں یا ہمارے اپنے بچوں میں ابھی اس بات کی اتنی بیداری نہیں آئی ہے یہ بہت افسوس کی بات ہے۔ دنیا کے جتنے بڑے Financial ادارےہیں، سب کی اسلامک ونڈوز کھلی ہوئی ہیں۔ HSBCکے پاس امانہ ہے۔ Cityکے پاس City Islamicہے۔ Deutsche Bankکے پاس کچھ اور ہے Standard Charteredکے پاس صادق ہے جتنے بھی بڑے بڑے بینک ہیں دنیا کے، سب نے اپنے اپنے ادارے کھول کرکے اپنے لوگوں کو تیار کرنا شروع کردیا ہے۔ وہ بھی یہی وجہ ہے کہ مڈل ایسٹ پیسہ ہی ہمیں انہیں Atrractکرتا ہے تو ہمیں تیاری کرنی پڑےگی۔ یہی و جوہات ہیں جو اسلامی بنک کاری دنیا میں بڑھ رہی ہے اور خاص طور پر حالیہ Financial Crisesکے بعد سے لوگ اس بات کی طرف متوجہ ہوئے ہیں کہ اس نظام میں کیا بات ہیکہ کچھ سالوں میں ایک بڑا Crisisآتا ہے Reserachersاس بات پر متفق ہیں کہ جو موجودہ سود کا نظام ہے یا سود کے نظام کی جو خاصیت ہے۔ وہ یہ کہ اس کے اندر Crisisآتا ہی رہے گا۔ آپ کب تک اللہ اور اللہ کے رسول ﷺکے ساتھ لڑائی لڑکے جیت سکتے ہیں یا Stand کرسکتے ہیںآپ کو تو گرنا ہی ہے ۔ نظام ہی ایسا ہے اور گرنے کے بعد پھر لوگوں میں بیداری آتی ہے۔
Occupy Wall Street Movementچل رہا ہے وہاں پر آپ دیکھیں کہ عورت پوسٹر لیکر آتی ہے Let us do the Banking Muslim Wayاس کو اسلام نہیں معلوم لیکن اتنا پتہ ہیکہ ان کے یہاں سود ممنوع ہے تو شاید ہم لوگ اس سے بچ سکیں اگر ہم نے بھی اپنے یہاں سود ممنوع کر لیا۔ تو اسطرح کے Movementچل رہے ہیں جس کی وجہ سے اسلامک بینکنگ کو دنیا میں تقویت پہنچی ہے۔ ہندوستان میں بھی وہ دن دور نہیں کہ یہ نظام تمام بینکوں میں نافذ کر دیا جائے۔ تقریبا، پچھترملکوں میں اسلامی بینک کاری کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔ اور ان 75ملکوں میں بہت سارے ایسے ہیں جو کہ سیکولر ہیں ڈیموکرٹیک ہیں جن کے یہاں مسلمانوں کی آبادی بہت کم ہے صرف انگلینڈ میں پچیس ادارے ہیں جن میں سے پانچ Full Fledge بینک ہے۔ امریکہ میں اٹھارہ، بیس ہیں۔ فرانس میں ہے۔ جرمنی میں ہے لکزمبرگ میں سنگا پور میں ہے۔ سنگا پور میں پہلا ایشاء کا بینک بنایا۔ اسلامک بینک آف ایشیاء تو یہ تمام ممالک جو کہ اپنے آپ کو سیکولر کہتے ہیں ڈیموکریٹک کہتے ہیں ان کے یہاں بھی اسلامک بینک ہے۔ ہندوستان اکلوتا ملک ہے جہاں پر اسلامی بینک کاری کی Financial Organizationنہیں ہے حالانکہ یہاں پر بھی کام کافی زوروں شوروں سے چل رہا ہے اسلامی بینک کاری کے بعد میں تھوڑا سا Insuranceکی طرف بھی آئوں گا۔
Islamic Insuranceجس کو ہم Islamic Insuranceکی بجائے اسلام کا نظام تکافل کے نام سے زیادہ جانتے ہیں۔ آج کا Insuranceکیا ہے آپ کو میں نے بتا یا اصولی اعتبار سے یہ دیکھنا ہیکہ اس میں کوئی ممنوع چیز ہے کہ نہیں۔ شریعت کی روسے اگر کوئی ممنوع چیز پائی جاتی ہے معاملات میں تب تو بچنا ہے اگر ممنوع چیز نہیں پائی جاتی تو اس کی اجازت ہے۔ انشورنس کو آپ دیکھیں گے تو موجودہ انشورنس میں ربوٰ ہے۔ کیونکہ لوگوں سے پیسہ لیکر وہ سودی کاروبار میں لگاتے ہیں ’ربوٰ‘۔ غرر بھی ہے کیوں؟ کیونکہ پالیسی لینے والے نے تو Paymentکردیاہے کہ اتنا پیسہ دے رہا ہوں ۔ کمپنی نے یہ کہا کہ جب آپ کے ساتھ کوئی سانحہ پیش آئیگا تب ہم آپ کو اتنا دیں گے۔ یہ غرر ہے قیمت ادا ہوگی۔ قیمت کے عوض میں جو چیز ملی ہے وہ کسی واقعہ پر منحصر ہے کسی Future میں ہونے والے Eventپر Dependent ہے ’’ا گر ایسا ہوا تو ہم آپ کو اتنا دیں گے‘‘ تو وہاں پربھی غررہے۔ اور انشورنس میں مئیر بھی ہے کیونکہ اگر زیادہ Claim ہوجائے تو کمپنی کا نقصان اور کم Claimہوجائے تو لوگوں کا نقصان ۔ تو کیا اکلوتا بزنس ہے جس میں ربوٰ، غرر، میسر تینوں Elementپائے جاتے ہیں موجودہ انشورنس کا جو نظام ہے۔ اس کے برعکس اسلام کا نظام کفالت ہے جس کو ہم تکافل کا نظام بھی کہتے ہیں۔ اس کا سسٹم ایسا ہوتا ہے کہ چند افراد مل کرکے ایک فنڈ قائم کرتے ہیں کہ ہم میں سے کسی کے ساتھ کوئی سانحہ پیش آیا تو اس میں اس کی مدد کی جائیگی۔ یہ چند افراد جو ہیں خاندان کے بھی ہوسکتے ہیں فیملی کے ہوسکتے ہیں Tribکے ہوسکتے ہیں کچھ ملک کے ہوسکتے ہیں اور کسی اصول کے بھی اکٹھا ہوسکتے ہیں اسلامی تکافل کمپنی اس طرح سے کاروبار کرتی ہیکہ لوگوں سے جو رقو مات اکٹھا ہوتی ہیں وہ اسطرح سے ہوتی ہیں کہ کسی کے ساتھ کوئی سانحہ پیش آئے تو اس سے اس کی مدد کی جائیگی ۔ یہ سب کا جو ایک فنڈ ہوتا ہے۔ اس پیسہ کی جب تک وہ ضرورت پیش نہیں آتی تب تک اس پیسے کو جائز کاموں میں لگاتے ہیں تا کہ ربوٰ سے بچ سکیں۔ تو ربوٰسے بھی بچتے ہیں۔ ایک چیز کی قیمت ادا کرنے میں تو غرر ہوتا ہے لیکن اگر آپ تبرؤ کے Throughپیمینٹ کرتے ہیں کہ کسی کے ساتھ کوئی سانحہ پیش آیا تو ہم نے اسکی مدد کی تو غرر کا Elementبھی فقہی اعتبار سے اس پر عائد نہیں ہوتا۔ کسی شخص کا انتقال کب ہوگا سانحہ کب ہوگا یہ چیز تو Futureمیں ہی معلوم ہوگی لیکن جو پیمنٹ ہے وہ قیمت نہیں ادا کی گئی ہے بلکہ سب لوگوں نے طے کیا ہے کہ ہم لوگوں میں سے کسی کے ساتھ سانحہ پیش آئیگا تو ہم اس فنڈ سے اُس کی مدد کرینگے۔ اسطرح سے اس میں غرر کا Elementنہیں پا یا جاتا جیسا Convensional Insuranceمیں پایا جاتا ہے آپ دیکھیں گے کہ پرانے جو تاجرتھے جو سمندروں کے سفر سے جب آیا کرتے تھے تو ان کا فنڈ ہوا کرتا تھا اور اس سے وہ مدد کیا کرتے تھے۔ عکیلا کا نظام جو اسلام کا ہے وہ خود ایک طرح کے کفالت کا نظام ہے اس کے علاوہ اور کچھ مثالیں بھی ہیں میرے پاس آج وقت نہیں ہے انشورنس کیلئے ۔ جہاں تک تیسرا الزام میسرکا ہے ایک نفع اور دوسرے کا نقصان،اس میں نفع و نقصان نہیں ہے کیونکہ اس میں کوئی قیمت ادا نہیں ہوئی ہے جو کمپنی ہے وہ بالکل الگ ہے لوگ آپس میں ملکر ایک فنڈ بنا کر ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں ۔اسی لئے اس میں میسر کا بھی شائبہ نہیں رہتا۔ تو اسلام جو نظام تکافل ہے وہ موجودہ نظام انشورنس سے مختلف بنیادوں پر کام کرتا ہے لیکن ضرورت جو ہے انسان کی رسک کی، کہ خدا نہ خواستہ اگر کسی شخص کا ایسے وقت میں انتقال ہو کہ اس کے بچے ہوں اس کے گھر کے معاملات ہوں تو ان کی ضرورتوں کی تکمیل ہوجاتی ہے جس سے وہ فیملی تباہ و برباد ہونے سے بچ جاتی ہے۔
تو بینکنگ کی بات ہوگئی انشورنس یا اسلام کا نظام تکافل کی بات ہوگئی Insuranceنام غلط ہے کیونکہ شرعی اعتبار سے Insuranceنہیں ہوتا۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اللہ کی مرضی کے خلاف Insuranceکیسے کر لو گے ؟ کون بیوقوف اللہ کی مرضی کے خلاف کرسکتا ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں تو کل علی اللہ کے خلاف ہے۔ کوئی بات نہیں ہے شریعت میں اس بات کی گنجائش نہیں بلکہ اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم اپنی طرف سے پوری کوشش کریں اس کے بعد اللہ پہ توکل کریں ۔ اللہ کے رسول سے ملنے ایک بدو آیا وہ اپنا اونٹ کھلا چھوڑ کر اللہ کے رسول ﷺ کی طرف بڑھ رہا تھا۔ تو اللہ کے رسول ﷺنے کہا کہ باندھ لو اس کو، تو اُس نے کہا تو کل علی اللہ تو رسول ﷺ نے کہا کہ پہلے باندھو۔ پھر اللہ پر توکل کرو۔ اپنی صحت کا انتظام کرنا۔ اپنے بچوں کا انتظام کرنا یہ اللہ کے توکل کے خلاف نہیں ہے۔ ہم دوا لینے جاتے ہیں کیا ڈاکٹر ہمیں صحت دے سکتا ہے۔ لیکن ہم کوشش کرتے ہیں اللہ پر توکل ہے اللہ ہی صحت دے سکتا ہے۔ جس نے مرض دیا ہے وہی صحت دےگا لیکن ہم کوشش کرتے ہیں اس طرح سے بعض ہمارے اندر بھی غلط فہمیاں ہیں کہ انشورنش جیسی پالیسی لینا کیا اللہ کے توکل کے خلاف ہے یا تقدیر کے خلاف ہے کچھ الزام یہ بھی ہوتے ہیں کہ اسلام کا وہ جو نظام وراثت ہے اس کے بھی خلاف ہے یہ بات درست ہے لہذا جتنے بھی Islamic Countries ہیں جہاں پہ اسلامی انشورنس ہے وہاں پہ ان تمام چیزوں کا خیال رکھتے ہوئے ایک نیا ادارہ تعمیر کیا جاتا ہے جس کو اسلامی تکافل یا اسلام کا نظام تکافل کے نام سے جانا جاتا ہے Islamic Investmentتیسرے موضوع پر میں آرہا ہوں۔ Investmentکو ہم عربی میںاستشار بھی کہتے ہیں آپ کو معلوم ہے کہ دنیا میں ہر جگہ اسٹاک مارکیٹ یا اس طرح کی بہت ساری چیزیں ہیں ان کی ضرورت بھی ہے یہ بات درست ہے اس کو میں یہاں پہلے ہی Accept کرتا ہوں کہ اسٹاک مارکیٹ میں بے شمار چیزیں ایسی ہیں کہ جو اسلام کے بالکل خلاف ہیں لیکن اگر آپ اسکی ضرورت کو دیکھیں گے آج کمپنیوں کو ہزاروں کروڑ روپے کی ضرورت ہوتی ہے جو ایک دو لوگوں سے، دس لوگوں سے ،پچیس پچاس سو لوگوں سے ہزارلوگوں سے بھی ممکن نہیں ہے لاکھوں لوگ مل جائیں گے چھوٹا چھوٹا پیسہ لگائیں گے تب جاکے وہ سرمایہ ہاتھ لگے گا جو کہ درکار ہے تو ایسی کمپنیوں کو پیسے نہیں مل پائیں گے اگر اسٹاک مارکیٹ نہ ہو۔
اسٹاک مارکیٹ کیا کام کرتی ہے؟ جن لوگوں نے پیسہ کمپنیوں میں لگا دئیے اگر ان کو ضرورت پڑجائے پیسہ واپس لینے کی تو کمپنی کے پاس جائیں گے تو کمپنی تو پیسہ کاروبار میں لگا چکی ہے تو وہ پیسہ انہیں واپس نہیں ملے گا۔ تو ایک ایسا نظام اسٹاک مارکیٹ میں ہے کہ آپ نے پیسہ کسی کمپنی میں لگا دیا ہے تو کمپنی کے پرفارمنس کے حساب سے اس کی ملکیت کے کاغذات فروخت ہورہے ہیں وہاں جا کر اپنے کاغذات بیچ دیجئے اپنے پیسے لے لیجئے۔ تو آپ اپنی ملکیت کو وہاں پر سیل کرتے ہیں۔ میں کسی کمپنی میں مالک ہوں ،اس کے دستاویز ہیں اس Share Certificate کو دستاویزکہتے ہیں ہمیں اپنی ملکیت کو سیل کرنے کی اجازت ہے۔ اور اس ملکیت کی اسوقت جو بھی Valueہے اس حساب سے اسے سیل کرکے ہم پیسے لے سکتےہیں۔ اس آسانی کی وجہ سے میں پیسے لگا سکتا ہوں کمپنی میں۔ اگر یہ آسانی فراہم نہ ہو تو کمپنی کو فنڈنگ نہیں مل پائے گی۔ اور بڑے بڑے انڈسٹریز اور بڑے بڑے کاروبار نہیں ہو پائیں گے۔ لیکن لوگ اس میں کاغذات کا جوا کھیلتے ہیں ملکیت تو چھوڑئیے دن بھر اسٹاک مارکیٹ کے پیسہ کو دیکھ کرلیتے بیچتے ، لیتے بیچتے رہتے ہیں۔ Short Saleبھی کرتے ہیں جس کی شریعت میں ممانعت ہے۔ Gamblingبھی کرتے ہیں وہ تمام چیزیں ہیں اس پر میں بعد میں آئوں گا لیکن جو اصل کام ہے اسٹاک مارکیٹ کا وہ یہ کہ کمپنیوں نے لوگوں سے پیسہ لئے ہیں اور کمپنیوں نے ان پیسوں کو استعمال میں لگا رکھا ہے اور اب اگر لوگوں کو اپنے پیسے واپس لینے ہیں تو اسٹاک مارکیٹ ایک ایسابازار ہے جہاں پر ان کے کاغذات کی خرید و فروخت ہورہی ہے آپ جاکر اپنی ملکیت کو وہاں سیل کریں اور اپنے پیسے لے لیں۔ یہ ایک ضرورت کا کام ہے اور صحیح کام ہے اور اگر یہ نہیں ہوگا تو اس میں بھلائی کا نقصان ہے۔ بھلائی نہیں ہوپائے گی اب آپ اسلامی اعتبار سے اس کا جائزہ لیں کہ کیا کیا چیزیں ممنوع ہیں اس سے کیسے بچا جائے تا کہ باقی جو اچھے کام ہیں وہ ہم کرسکیں لیکن ممنوعات سے بچ کر۔ تو پوری دنیا میں ایک کمپنیز کی اسکرنینگ کا ایک سسٹم شروع ہوا ہے جو 90کی بیچ کی دہائی سے شروع ہوا ہے جسے شرعیہ اسکریننگ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس بات پہ علماء کا اتفاق ہے کہ اگر کمپنی کا کاروبار ہی ناجائز ہے تو ملکیت ناجائز ہوگی اس میں کوئی سوال نہیں ہے۔ کوئی کمپنی سودی کاروبار کررہی ہے تو اسکی ملکیت لے کر کیا فائدہ ہے ؟ کوئی شراب کا کاروبار کررہا ہے تو ملکیت سے کیا فائدہ ہے؟لیکن اگر کمپنی کا کاروبار درست ہے تو اس کی ملکیت لی جاسکتی ہے اب لی جانے کے بعد کچھ اور مراحل ایسے ہیں جس میں مختلف ملکوں میں مختلف سسٹم ہے مثال کے طور پر کمپنی کا بزنس تو بالکل درست ہے لیکن کمپنی سود پر قرض لیتی ہے۔Tata Motorsکا کام کار بنانا، Tata Steelکا اسٹیل بنانا ،لیکن اس نے لوگوں سے یا بینکوں سے سود پر قرض لے رکھا ہے۔ اب اگر آپ ایسی کمپنی کے مالک ہیں تو آپ ایسے بزنس کے مالک ہیں جس بزنس نے سود پر قرض لیا ہے۔ یہ ایک مسئلہ ہے دوسرا مسئلہ یہ ہیکہ بہت ساری کمپنی ایسی ہے جس کا کام بھی جائز ہے جس پرصفر Interest ہے ان کا کاروبار ایسا ہیکہ ان کو قرض لینے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔ مثال کے طور پر جتنی IT کمپنیاں ہیں یا جتنی بھی Consultancy Firmہیںجو اپنے افراد کے دماغ کے ذریعہ کام کرتی ہے تو ان کو قرض لینے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ کیا وہ جائزہ ہیں؟ ان کو بھی دیکھنا پڑیگا۔ آنکھ بند کرکے جائز نہیں کہہ سکتے Infosysہے۔ TCSہے Wiproہے بہت ساری کمپنیاں ہیں جس کو کہیں گے Debt’0‘ کمپنی قرض زیرو ہے ۔ کام بھی ٹھیک ہے لیکن ایسی کمپنیز کے پاس بہت سارا کیش ہوتا ہے جسکو وہ سودی کاروبار میں لگا کے وہاں سے سود کماتے ہیں۔ اب ہم اگر ایسی کمپنی کے مالک ہیں یا Share Holderہیں تو ہم بھی ایسی کمپنی کے مالک ہیں جس میں سودی Incomeآرہی ہے یہ دوسرا بڑا Issue ہے پہلا قرض لینا اور دوسرا شرعی اعتبار سے مشتبہ Income۔ ہوٹل کا بزنس بڑا اچھا کام ہے لیکن ہوٹل کی Incomeمیں شراب کی Incomeبھی ہے غیر ذبیحہ کھانوں کی بھی Incomeہے اسطرح اور بھی کچھ غیر اخلاقی آمدنی ہوسکتی ہے تو ان تمام چیزوں کی جانکاری لیکر کے ان کو پتہ لگا نا اور پتہ لگا کے لوگوں کو بتانا یہ ایک آرٹ ہے ایک ریسرچ ہے جو Developہورہا ہے اس کو شرعیہ اسکریننگ کہتے ہیں یہ سب چیزوں کو مد نظر رکھتے ہوئے۔ شرعیہ انڈ یکس بنایا گیا ہے جس کا حوالہ دیا گیا۔ یہ بات درست ہیکہ آج کی تاریخ میں سو فیصد درست کمپنی پانا بہت مشکل ہے اسلئے جن لوگوں کو موقع ملتا ہے وہ وہاں نہ جائیں بلکہ جہاں اچھا موقع ہے وہاں جائیں ۔ یہ موقع اس لئے دیا گیا کیونکہ اسٹاک مارکیٹ، معیشت کا ایک اٹوٹ حصہ ہے بہت سارے بینک ،انشورنش کمپنیز اور بہت ساری کمپنیز اپنے پسیے وہاں لگاتی ہیں۔ بحیثیت Professionalاسلامی تعلیمات کو وہاں فروغ دینا میری ذمہ داری ہے لیکن ہر آدمی کا اس میں شامل ہونا ذمہ داری نہیں ہے۔ اب آج کی تاریخ میں اسلامی بینک Availableنہیں ہے کسی کمپنی کو اگر پیسہ کی ضرورت پڑجائے تو وہ کہاں جائیگا ؟ یا تو کاروبار بند کرے یا تو سود پر قرض لے۔ تو ان تمام چیزوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے شرعیہ اسکالر جو تمام مکتبہ فکر کے ہیں ان لوگوں نے کچھ Tolerance Limitبنائی ہیکہ کم سے کم تو اتنا درست ہونا چاہئیے۔ ان سب کے پیش نظر دنیا میں شرعیہ اسکریننگ ہوتی ہے چاہے مسلم ممالک ہوں چاہے ہندوستان ہو۔ چاہے اور کوئی ممالک ہوں اور اس طریقہ سے کچھ اسٹاک کا Selectionہوتا ہے جن کو کہا جاتا ہے کہ آپ اس میں پیسے لگا سکتے ہیں۔ اگر آپ کے پاس اور کوئی بہتر Optionنہیں ہے تو! یہ اسلامکInvestmentہے تو آج ہم نے بات کی اسلامی بینک کاری اور موجودہ بینک کاری کی اسلامی انشورنس کی اور اسلامک انویسٹمینٹ کی۔
جیسا کہ میں نے بتایا کہ دنیا میں ایک Trendہے اس وقت پچھتر ملکوں میں اسلامی بینک کاری اور دنیا میں آپ کو معلوم ہیکہ 57ملک مسلم ہیں تو بہت سارے غیر مسلم ممالک ہیں ایسے جہاں اسلامی بینک کاری بہت تیزی سے پھیل رہی ہے۔ سب سے بڑی (سائز کے حساب سے ) اسلامی بینک ایران، سعودی عربیہ اور ملیشیا ء وغیرہ ہے اس میں UKبھی بہت پیش پیش ہے اسلامی بینک کاری کے میدان میں ہندوستان میں اگر آپ دیکھیں تو اسلامی بینک کاری کی اجازت نہیں ہے۔ 2005میں ریزرو بینک نے ایک کمیٹی بنائی تھی۔ جس کا نام Anand Sinha Committeeہے۔آنند سنہا صاحب اُس کے چیئر مین تھے اسلئے ان کے نام سے یہ کمیٹی جانی جاتی ہے اس کمیٹی نے اسلامی بینک کاری کے اصولوں کا جائزہ لینے کے بعد یہ بات لکھی اپنی رپورٹ میں کہ ہمارا جو بینکنگ نظام ہے اور اسلامی جو بینکنگ نظام ہے ندی کے دوپاٹ ہیںجو مل نہیں سکتے ۔ کیوں کہ ایک نظام پورا سود پر مبنی ہے جہاں تجارت ممنوع ہے۔ دوسرا نظام جہاں سود ممنوع ہے تجارت کے بناء نفع نہیں ہوسکتا۔ تو جب تک قانون میں ترمیمات نہ ہو ںتب تک اسلامی بینکنگ ہندوستان میں نہیںآ سکتی۔ یہ ریزور بینک آف انڈیا کی رپورٹ ہے اور یہ بات بالکل درست ہے کیوں؟ کیونکہ آج کا ہندوستان کا جو بینکنگ قانون ہے اس کے حساب سے بینک کو نفع کی صرف ایک صورت ہے وہ ہے سود۔ تو آج کی تاریخ میں بینک کاری بالکل ممکن نہیں ہے ہندوستان میں، جب تک کہ ہندوستانی گورنمنٹ ہندوستانی پارلیمنٹ اس بات کی اجازت نہ دے کہ بینک تجارت بھی کرسکتے ہیں۔ کیونکہ اسلامک بینک پیسہ کیسے کماتا ہے ؟ ایک عام بینک تو لوگوں سے Current Deposit, Saving Deposit، Fixed Deposit جس میں بہت ساری اسکیمیں ہوتی ہے اس کے تحت جو پیسے لیتے ہیں ان پیسوں کو یہ قرض دیتا ہے اور سود کماکے نفع اپنے پاس رکھ کے کچھ سود ان کو دیتا ہے وہ سود نکالنے کے بعد جو بچ جاتا ہے اس میں سے اخراجات نکالنے کے بعد ان کو نفع ملتا ہے لیکن اسلامک بینک کو تجارت کرنی پڑتی ہے۔ لوگوں سے پیسے لیتے ہیں مختلف Accountمیں جیسے کچھ لوگ پیسے صرف سہولت کیلئے جمع کرتے ہیں امانت کے طریقہ سے تو ایک Accountاسلامک بینک میں امانہ کے طور پر ہوگا۔ یعنی بینک اگر اس کو استعمال کرتا ہے تو اپنے رسک پہ اور اپنی ذمہ داری پہ استعمال کریگا کیونکہ پیسے کے تعلق سے امانت کا یہ رول ہے کہ اگر آپ نے سوروپے لئے تھے تو سو روپئے کوئی بھی لوٹا دیں تو امانت ادا ہوجائیگی۔ باقی میں تو امانت کا یہ رول ہیکہ آپ کو وہی چیز لوٹانی پڑےگی ۔ پھر بھی کچھ لوگوں نے کہا کہ صحیح نہیں ہوگا تو ان کے یہاں و ظیفہ کے نام سے ایک اکاونٹ ہوتا ہے اس میں لوگ اسلامی بینک کو قرض دیتے ہیں اور اسلامی بینک اس کا ضامن ہوتا ہے۔ لیکن اپنے Riskپر اس پیسے کو استعمال کرتا ہے اور اس سے وہ نفع کماتا ہے۔ یہ ایک طریقہ ہے۔ لیکن اس کے برعکس بہت سارے ایسے بھی اکائونٹ ہوتے ہیں جیسےFD ہے Convensional بینک میں ویسے ہی مضاربت و مشارکت کے اکاونٹ ہوتے ہیں جن حضرات کے پاس زیادہ پیسہ ہوتا ہے وہ مضاربت کے اکاونٹ میں پیسے دیتے ہیں جہاں پہ اسلامی بینک مضارب بنتا ہے اور یہ Depositerلوگ رب المال ہوتے ہیں پھر اسلامک بینک ان پیسوں کو دوسروں کو دےکر وہاں سے نفع کماتا ہے نفع کچھ حصہ جو معاہدے کے حساب سے ہوتا ہے وہ اپنے پاس رکھ لیتا ہے باقی ان ڈپازیٹروں کودیتا ہے تو اسلامک بینک میں جو لوگ شامل ہوتے ہیں وہ نفع کماتے ہیں تجارت میں Involveہوکے ۔ عام بینکوں میں جو لوگ شامل ہوتے ہیں وہ سود لیتے ہیں۔
تو یہ میں نے کچھ بنیادی چیزیں رکھ دیں ہیں انشاء اللہ اگر سوال و جواب کے درمیان اگر موقع ملےگا تو میں اور باتیں بتاؤں گا مجھے نہیں معلوم کہ آپ لوگ اور کیا کیا جاننا چاہتے ہیں۔ ہندوستان میںمیںنے بتایا کہ اسلامی بینک کاری ممکن نہیں ہے لیکن اسلامک فائنانس ممکن ہے۔ اسلامک فائنانس اسطرح سے کہ فائنانسنگ کا کام آپ کرسکتے ہیں بینک کاری ایک الگ لائسنس ہے۔ فائنانسنگ ایک الگ بزنس ہے اور یہ جو کیرالا گورنمینٹ کی کمپنی تھی وہ بینک نہیں تھی۔ میڈیا نے اس کو بینک لکھا لیکن وہ بینک نہیں تھا وہ فائنانس کمپنی تھی۔ اسٹاک مارکیٹ میں بھی کچھ کام ممکن ہے اسٹاک مارکیٹ کے علاوہ بہت ساری اور کمپنیاں ہیں ، جن کو ہم کو شش کررہے ہیں Convince کرنے کی کہ نئے نئے پروڈکٹس لائے جائیں ۔ لیکن پھر کچھ شروعاتی دور ہے۔ کوئی بھی کمپنی Fullyاسلامک ابھی نہیں ہے۔ ان کے کچھ پروڈکٹس ہیں جن کو ہم کوشش کرتے ہیں کہ ان کو کیسے بنایا جائے کہ وہ اسلام کے بھی قانون کو پوری طرح Followکریں اور ہندوستان کے بھی قانون کو وہ پوری طرح Followکریں اور ساتھ میں ہم کوشش کرتے ہیں اسکی شرعیہ آڈٹ کا کہ لوگوں کو اس بات کا اعتماد ہوتا کہ جب کام شروع کیا تھا تب اسلامی تھا ابھی اسلامی ہے کہ نہیں کیا پتہ؟ تو ایک نیا نظام ہم شرعیہ آڈٹ کا جس میں ہر تیسرے مہینہ کمپنی کا ہم جائزہ لیں، کمپنی کا کاروبار دیکھا جائے اور اس بات کی تصدیق کی جائے کہ جن اصولوں پر پیسہ لئے گئے تھے انہیں اصولوں کا استعمال ہورہا ہے یا نہیں۔ اسکو شرعیہ آڈٹ کے نام سے جانا جاتا ہے بہت سارے پروڈکٹس آنے شروع ہوگئے ہیں ہندوستان میں لیکن اتنا وقت نہیں میرے پاس ! میں اپنی بات کو ختم کرتا ہوں انشاء اللہ سوال و جواب کے درمیان میں کوشش کرونگا کہ آپ لوگوں کے ذہن میں جوسوالات ہیں تو اس پر بات کی جائے۔
وآخر الدعوانا عن الحمد اللہ رب العالمین