
دلال اسٹریٹ کا بازیگر :محمد ضیاء الرحمٰن

ایم زید رحمٰن نےدلال اسٹریٹ پر کامیاب شہسواری کی ہے۔Bull Market میں اسپِ رحمٰن مشہور رہا ہے۔ایک ایسے دور میں جب کہ اسٹاک مارکیٹ کو مسلمانوں کی نظر میں ممنوعہ سمجھا جاتا تھااور وہاں کام کرنے والوں کو شک کی نظر سے دیکھا جاتا تھا ٹی ایف ایس کے منیجنگ ڈائرکٹر نے اپناعلم بلند کیا اور پابندی شرع کے ساتھ ایسی تجارت کی کہ لوگوں کے لئے مشعل راہ بن گئے لیکن حالات نے کروٹ لیا اور معا شی مندی نے ان کی تجارت پر بھی دور رس اثرات چھوڑے۔ابھرنا ڈوبنااور ڈوب کر ابھرنے کی داستان یقیناً قارئین کی دلچسپی کا باعث ہےپیش ہے دانش ریاض کی تحریر۔
ممبئی کے اولڈ کسٹم ہائوس کے قریب ہی کھٹائو بلڈنگ کا پہلا منزلہ روزانہ ایک ایسے شخص کی موجودگی کی گواہی دیتاہے جس کے شرٹ کی کریچ کبھی خراب نہیں ہوتی۔ ایئر کنڈیشن کیبن میں اس کے پاس آنے والوں کی اب بھیڑ بھی نہیں ہے ،نہ ہی ماضی کی طرح ٹیلی فون کا بازار پھیلا ہوا ہے اور نہ ہی ہر پل ٹیلی فون کی گھنٹی بجتی ہے۔بس خاص لوگ ملاقاتی ہیں جبکہ وہ خاموشی کے ساتھ اپنے دوملازمین کی معیت میں کاروبار دنیا سنبھالے ہوئے ہے۔یہ موجودہ اس محمدضیاء الرحمٰن کا تعارف ہے جس نے 1982سے 1985تک ایچ ایس بی سی سکیوریٹیز لمیٹڈکی کمان سنبھالی تھی اور محض تین برس میں Equitiesڈیلر سے Authorisedٹریڈر تک کا سفر طے کیا تھا۔1986سے 1989تک وہ ڈیلر کی ذمہ داریاں سنبھالتے رہے جہاں ان کا دائرہ کار فیڈرل بانڈس،مونی بانڈس،ٹرسٹی سکیوریٹیز،کال منی آپریشنس وغیرہ تھا۔لیکن 1989کے اخیر میں ہی انہوں نے اے آر فائنانشیل سروسیز پرائیویٹ لیمیٹڈ میں شمولیت اختیار کی جہاں انہیں ٹریزری آپریشنس کا سربراہ بنا دیا گیا 1995تک وہ مذکورہ کمپنی میں اپنی خدمات انجام دیتے رہےلیکن1995کے وسط میں ہی انہوں نے Toss Financial Services Pvt Ltdقائم کیا جبکہ 1996کے وسط میں انہوں نے اپنی کمپنی Tass Investment Advice Pvt. Ltdقائم کی اور فنڈ مینجمنٹ کی پوری ذمہ داریاں سنبھال لیں۔Tossکا اشتراک اگر نیشنل اسٹاک ایکسچینج سے تھا تو Tassشریعہ کمپلائنٹ انویسٹمنٹس کی رہنمائی کر رہی تھی۔اپنی زندگی کی داستان بیان کرتے ہوئے ایم زیڈ رحمٰن کہتے ہیں’’جس وقت میں نے اسٹاک مارکیٹ میں قدم رکھا اس وقت یہاں مسلمانوں کا کوئی وجود نہیں تھا چونکہ اسٹاک مارکیٹ کو عرف عام میں ہمارے یہاں حرام سمجھا جاتا تھا اور لوگ یہ سمجھتے تھے کہ یہاںقمار بازی و جواکا کاروبار ہوتا ہے تو لوگ اس پوری دنیا سے ہی دوری بنائے ہوئے تھے۔البتہ اس وقت بوہری حضرات ،میمن فیملی اور کچھ گجراتی مسلمان نظر آتے تھے ۔جب میں نے 1984میں جمنا لال بجاج انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ اسٹڈیز سے فراغت حاصل کی تو فوری طور پر مجھے ایچ ایس بی سی میں ملازمت مل گئی۔چونکہ میں سائوتھ انڈیا سے تعلق رکھتا تھا اور اس وقت بینکنگ اور فائنانشیل سروسیز میں سائوتھ انڈیا کے لوگ ہی ہر جگہ نظر آتے تھے تو مجھے بھی علاقائی محبت کا سہارا ملا اور میں تیز رفتاری کے ساتھ اپنا سفر طے کرتا چلا گیا۔بہت کم مدت میں ہی میں نے اس مقام کو حاصل کرلیا جہاں تک پہنچنے کے لئے لوگوں کو پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔‘‘ابتدائی حالات پر نظر ڈالتے ہوئےنیشنل اسٹاک ایکسچینج کے ممبر رحمٰن سے جب یہ سوال کیا گیا کہ جس وقت آپ نے کاروبار شروع کیاا س وقت فیلڈ میں کھلاڑیوں کی کمی تھی جبکہ موجودہ دور میں لوگوں کو یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ کس کمپنی کا دامن تھامیںایسے میں مارکیٹ کی صورتحال کیا ہے؟ وہ کہتے ہیں’’دراصل اسٹاک مارکیٹ میں شروع سے ہی بنیا ، مارواڑی و گجراتی برادری قابض رہے ہیں۔ جس وقت میں نے کاروبار شروع کیا تو اس وقت حالات بھی مختلف تھےلوگوں کا مزاج بھی پراگندہ نہیں تھا لہذالوگوں کا بھر پورتعاون بھی ملااور میں ترقی کرتا گیا لیکن اس وقت معاملہ یہ ہے کہ فارن انویسٹر انسٹی ٹیوشنس آگئی ہیںCapital Account Liberalizations ہوگیا ہے۔لہذا کاروبار کی حالت بھی بہتر نہیں رہی ہے ۔لوگوں کے بیچ مقابلہ بڑھ گیا ہے جبکہ مارکیٹ بھی سست رفتاری کے ساتھ چل رہی ہے ۔‘‘
چونکہ ضیاء الرحمٰن آسرا شریعہ فائنانسنگ کو آپریٹیو لمیٹڈ کے چیرمن اور منیجنگ ڈائرکٹر بھی ہیں لہذا وہ اسٹاک مارکیٹ میں شریعہ پروڈکٹ پر گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں’’اسٹاک مارکیٹ میں شریعہ پروڈکٹ کا کوئی فائدہ نہیں ہوا ہے کیونکہ لوگوں کے درمیان اس سلسلے میں بیداری ہی نہیں ہے۔شروع میں المیہ تو یہ تھاکہ جو لوگ اسٹاک مارکیٹ میں کام کرتے تھے مسلم گھرانوں میں انہیں شادی کے لئے لڑکیاں بھی نہیں ملتی تھیں ،کیونکہ لوگ سمجھتے تھے کہ یہ حرام کاروبار کرتا ہے لہذا اس گھر میں ہماری بچی کیسے رہے گی؟ لہذا جب معاملہ اس قدر سنگین ہو تو پھر لوگ پیسہ کہاں لگائیں گے؟ یہی وجہ ہے کہ جب ٹورس موچول فنڈ نے شریعہ پروڈکٹ شروع کیا تو اسے ذرہ برابر بھی فائدہ نہیں ہوا۔‘‘
ہندوستان کے سرمایہ کاری و فائنانس مارکیٹ میں تیس سالہ تجربہ رکھنے والے ،مختلف اسٹاک ایکسچینج کے ممبر سے جب یہ پوچھا گیا کہ آخر آپ نے جس عروج کو حاصل کیا تھا اس میں اچانک زوال کیونکر آگیا ؟تو 1986سے انڈین کارپوریٹس کو Debt Investment Portfoliosپر مشورہ دینے والے رحمٰن کہتے ہیں’’میں نے اپنی گرفت سے زیادہ وسعت اختیار کر لی تھی۔ ملک کی بیشتر ریاستوں میں اپنی آفیسیز قائم کیں جبکہ ہندوستان سے زیادہ خلیجی ممالک پر توجہ مرکوز کئے رہا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب 1998میں عالمی کساد بازاری کا دور دورہ شروع ہوا تو میرا بزنس بھی خسارے میں جانے لگا اور المیہ یہ ہوا کہ یکے بعد دیگرے تمام آفسیز بند ہونے لگیں۔میں یہ سمجھتاہوں کہ اگر میں صرف اپنی توجہ ہندوستان پر ہی مرکوز کئے رکھتا اور Global کی جگہ Local پر توجہ دیتا ، پوری دنیا کو بہ یک وقت اپنی مٹھی میں کرنے کی کوشش نہیں کرتا تو حالات بہتر ہوتے۔شاید بلند پروازی میں جلد بازی اور Miss Management بھی زوال کا سبب رہا ہے۔‘‘آخر جس وقت آپ ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھے اورمعاشی مندی نے آپ کی کمر توڑ دی تھی اس وقت کن لوگوں نے ساتھ دیا اور آپ کو دوبارہ مارکیٹ میں کھڑا کردیا؟اس سوال کے جواب میں رحمٰن گھریلو حالات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیںکہ’’ہم چھ بھائی اور ایک بہن ہیں جبکہ والد صاحب تمل ناڈو الیکٹریسیٹی بورڈ کے ملازم رہے ہیں چونکہ ہمارا گھرانہ متوسط ذرائع آمدنی والا سمجھا جاتارہا ہے لیکن تعلیم کی بدولت تمام بھائی بہنوں نے بلندیاں حاصل کی ہیںاور مالی اعتبار سے اب ان کا شمار ہائی سوسائٹی میں ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود جب میں پریشانیوں میں گرفتار ہوا تو بھائیوں کی پیشکش کے باوجود صرف میری اہلیہ ڈاکٹر حفیظہ رحمٰن ہی غمگسار رہیں۔ایم بی بی ایس میں مدراس یونیورسٹی سے گولڈ میڈل لینے والی حفیظہ نے میری مالی مدد کی اور مجھے دوبارہ مارکیٹ میں کھڑا کردیا۔چونکہ میری اہلیہہندوستانی حکومت میں وزارت ریلوےکے زیر تحت ایڈیشنل چیف ڈائرکٹر آف میڈیسین ہیں لہذا انہوں نے بازار کی نزاکت کو بہ خوبی سمجھا اور بہتر مشوروں کے ساتھ دوبارہ کاروبار شروع کرنے پر آمادہ کیا۔‘‘
انڈو عرب چیمبر آف کامرس اور انڈو افریقن چیمبر آف کامرس کے منیجنگ کمیٹی کے ممبر رحمٰن ہندوستان میں بیرونی سرمایہ کاری پر گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’اس وقت Cross Border Investment کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے حالات جس تیزی کے ساتھ تبدیل ہورہے ہیں اس میں خلیجی ممالک میں سعودی عرب ہی ایک ایسا ملک ہے جسے ہندوستان میں سرمایہ کاری کے لئے راغب کیا جانا چاہئےاور یہ اس وقت ممکن ہوگا جب ہم شریعہ کمپلائنٹ پروڈکٹ کی تشہیر کریں گے اور حلال مارکیٹ کو فروغ دیں گے۔‘‘