موجودہ دور میں اسلامی بینکنگ و فائنانس کے مطالعہ کی اہمیت اور ضرورت

عرفان شاہد
لیکچرر معاشیات
اسلامی بینکنگ اور فائنانس دور جدید کی ایک اصطلاح ہے لیکن اس کا تعلق معاملات سے اور اسلام میں معامات کو بڑی اہمیت حاصل ہے لہٰذا اس وجہ سے بھی اس موضوع کی اہمیت بڑھ جاتی ہے اور اس کے مطالعے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ تجارت کے متعلق بہت ساری حدیثیں موجود ہیں جو مختلف کتب احادیث میں بکھری ہوئی ہیں۔ قرآن نے بھی اچھے تاجروں کی خوبصورت لفظوں میں تعریف کی ہے نیز ان کو بشارت بھی دی گئی ہے کہ نیک ایماندار تجار حضرات قیامت کے دن شہداء اور صدیقین کے ساتھ اُٹھائے جائیں گے۔
اس کے علاوہ بھی فقہ کی جامع کتابوں میں اس کے متعلق ایک مکمل باب ہے جسے ہم کتاب البوع کے نام سے جانتے ہیں جو خالصتاً انسانی معاملات اور تجارت سے بحث کرتی ہے۔ اس باب کو سالہا سال مختلف پہلو سے طلباء کو مدارس میں پڑھایا جاتارہا ہے تاکہ اس معاملات سے متعلق چیزوں سے ان کو اچھی طرح سے متعارف کرایا جاسکے تاکہ یہ طلباء جب پڑھ کر عملی دنیا میں جائیں تو لوگوں کی معاملات میں بہتر رہنمائی کرسکیں اور خود بھی دوسرے لوگوں کے لیے اسوہ اور نمونہ بنیں۔
تاریخ کے مطالعہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اسلام کی اشاعت تاجروں کے ذریعہ زیادہ ہوئی۔ جہاں بھی مسلم تاجر تجارت کی غرض سے گئے اپنے ساتھ اسلام اور اچھے اخلاق بھی لے گئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ تجارت کے ساتھ لوگ اسلام میں بھی داخل ہونے لگے۔ آج بھی ہمارے دور میں ایسی مثالیں ہیں جن میں کئی غیر معمولی حیثیت کے حامل لوگ اخلاق اور مسلمانوں کی تجارتی امور کی صفائی کو دیکھ کر اسلام میں داخل ہوگئے اور جہاں بھی اسلام اخلاق تجارت کے ذریعہ سے آیا ابھی بھی ٹوٹی پھوٹی صورت میں موجود ہے۔ چین، ملیشیا، تھائی لینڈ، سری لنکا، ہندوستان، پاکستان وغیرہ اسکی زندہ مثال ہے۔
قرآن صحیح ناپ تول کی تلقین کرتا ہے جس کا تعلق معاملات سے ہے۔ اسلامی بینکنگ کی اساس بھی اسی پر ہے کہ زر کے ذریعہ بھی لوگوں کے درمیان انصاف کیا جائے۔ اس کے علاوہ قرآن و حدیث دونوں سود کی مذمت کرتے اور خالص تجارت کو بڑھاوا دیتے ہیں۔ نیز سودی کاروبار کرنے والوں کو جنگ دھمکی بھی دیتے ہیں اور سود کے گناہ کو اپنی ماں سے زنا کرنے کے مترادف قرار دیتے ہیں۔ لہٰذا اس زاویے سے بھی اسلامی بینکنگ اور فائنانس کے مطالعے کی ضرورت ہے تاکہ لوگوں کو سود کے خطرات سے بچایا جائے اور خود کو بھی سود سے دور رکھا جائے۔ اس علم کی عدم موجودگی کی وجہ سے بھی بہت سارے اسلامی بینکوں میں کام کرنے والے لاعلم افراد اسلامی تجارت میں سود کے آمیزش کی کوشش کرتے ہیں۔ بہت سارے ایسے بھی لوگ ہیں جو دارالحرب اور دارالاسلام کا بہانہ بناکر سود کو جائز قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر کچھ لوگ اس کوشش میں ناکام ہوجاتے ہیں تو سود کو جائز قرار دینے کے لیے بے شمار تاویلیں ڈھونڈنے لگتے ہیں، مزید براں صفائی میں یہ پیش کرتے ہیں کہ اللہ کے رسولؐ کے زمانہ کا سود استحصال پر منحصر تھا اس لیے سود کی ممانعت تھی موجودہ زمانے کا سود اس کے برخلاف اس کی ساخت مختلف ہے اور موجودہ دور کا سود تو کافروں کا پیشہ ہے اس لیے تو بدرجہ اولی ہمیں کھانا چاہیے۔ حالانکہ قرآن مجید کم و بیش سات جگہوں پر سود کی مذمت کی ہے۔ سود کے حرمت کے اوقات کے تعین کے متعلق تو گفتگو کی جاسکتی ہے کیونکہ سود کی حرمت شراب کی حرمت کی طرح اچانک نہیں ہوئی بلکہ اس کی حرمت میں کچھ وقت لگا ہے۔ اس وقت لگنے کے متعلق بہت ساری توضیحات ہوسکتی ہیں مثلاً سود بہت ہی باریک اور ایک پیچیدہ مسئلہ ہے اس کا تصفیہ چند گھنٹوں میں ہونا باعث ابہام ہوسکتا تھا لیکن اس کی مکمل حرمت کے بارے میں کوئی شک نہیں۔ یہی وجہ تھی کہ اللہ کے رسولؐ نے حجت الوداع کے موقع پر سب سے پہلے اپنے چچا عباس کے سود کو معاف کیا اور لوگوں سے خطاب کیا کہ لوگوں زمانہ جاہلیت کے سود کو چھوڑدیں اور آئندہ سودی کاروبار کی طرف بھٹکیں نہیں۔ اس قدر سخت وحید کے باوجود سود کو نہیں چھوڑ پارہے ہیں۔ اس کی کمی محسوس کی جارہی ہے کہ لوگوں کو جدید بینکنگ اور فائنانس کے اصولوں سے لوگوں کو روشناس کرایا جائے اور سود کے مختلف طبقات اور شکلوں کو لوگوں کے سامنے واضح کیا جائے اور ایسا اسی وقت منظم طور پر ممکن ہوسکتا ہے جب اس موضوع کو ایک دینی فریضہ سمجھ کر مطالعہ کیا جائے اس کی باریکیوں کو سمجھا جائے اور دوسروں کو بھی اُبھارا جائے کہ وہ بھی اس بامقصد مشن میں حصہ لیں۔ اس علم کے حصول کے بہت سارے طریقے ہوسکتے ہیں مثلاً کسی کورس وغیرہ میں داخلہ لے کر اس کو سیکھیں یا خود سے بازار سے معیاری کتابیں خریدیں اور دلچسپی کے ساتھ اس موضوع کا مطالعہ کریں۔ بہت سارے ادارے اس جانب توجہ دے رہے ہیں لیکن اس میں کچھ ایسے لوگ ہیں جن کا مقصد حصول زر کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے جب ایسے ادارے سے کسی طالب علم کی ملاقات ہوتی ہے تو سب سے پہلے اس طالب علم کو ہری ہری گھاس دیکھاتے ہیں اور یہ لالچ دیتے ہیں کہ ہمارا یہ کورس کرنے کے بعد فوراً آپ کسی اسلامی بینکنگ کے منیجر یا ڈائریکٹر ب جائو گے یا آپ کو سعودی بھیج دیا جائے گا جہاں آپ اس کورس کی مدد سے بیشتر کما سکو گے وہ کبھی بھی یا ذرہ برابر بھی یہ کوشش نہیں کرتے کہ طالب علم کو بتائیں کہ اس کا علم ہر انسان کے لیے ضروری ہے۔ قیامت کے دن لوگوں سے مال کے متعلق سوال کیا جائے گا اور جب تک انسان جواب نہیں دے گا اپنی جگہ سے ہٹ نہیں سکے گا۔ یہ تو رہا عام انسان کی بات وہ صحابی جن کو دنیا ہی میں جنت کی باشرت دے دی گئی ہے ان سے بھی ان کے مال کے متعلق سوال کیا جائے گا اور اسی طرح سے ایک مرتبہ حضرت عمرؓ کے دور میں کوئی آدمی بازار میں آیا اور بے تحاشہ اپنی چیزوں کی قیمت گھٹا کر بیچنا شروع کردیا۔ اس شخص نے اپنی چیزوں کی قیمت اتنی کم کردی کہ دوسرے تاجر حضرات اس شخص کے مقابلے میں اپنی چیزوں کو بازار میں بیچ نہیں پارہے تھے۔ اس تاجر کا بنیادی مقصد یہی تھا کہ جب سارے تاجر بازار چھوڑ دیں گے تو وہ تاجر من مانی قیمت اپنی اشیاء کو بازار میں فروخت کرے گا۔ دریں اثناء یہ بات حضرت عمرؓ کے پاس جاتی جو خلیفہ وقت ہوئے ہیں۔ وہ بازار میں اس تاجر کے پاس آتے ہیں اور اس شخص سے کہتے ہیں کہ اپنی چیزوں کو قیمت بڑھائو یا بازار سے نکل جائو۔ اس کے بعد لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں جس کو ہمارے بازار کا علم نہ ہو وہ ہمارے بازار میں نہ آئے۔ یہاں بازار کے علم سے اکثر و بیشتر فقیر نے علم تجارت یا علم معاملات لیا جس کا بنیادی حلال و حرام میں تمیز کرتے ہوئے اس سے بچنا ہے۔ سود اس وقت بھی تجارت کا حصہ سمجھا جاتا ہے یہودی و عیسائی اس چیز کو ڈھنڈورا پیٹتے رہتے تھے کہ سود بھی تجارت کی طرح ہے۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں ذالک بانہم یقولون اسما بیع مثل الربو واحل اللہ الیبع و حرم الرباہ (سورۃ بقرہا آیت 375)
اور آج بھی یہی صورتحال ہمارے معاشرے میں پائی جارہی ہے۔ لوگ سود کو حلال کرنے کے مختلف حیلے اور بہانے ڈھونڈتے پھر رہے ہیں۔ چنانچہ معاملات کا علم سنجیدگی سے حاصل کرنا بہت ضروری ہے۔ ہر ایک شخص اس کے متعلق فکر مند ہونا چاہیے۔
ایک اہم بات جو شدت سے محسوس کی جارہی ہے وہ یہ ہے کہ موجودہ دنیا کی معیشت سود کے بیساکھی پر قائم ہے اور لوگوں کو بحسن و خوبی معلوم ہے کہ بیساکھی کی بناء پر کسی مقابلے میں دوڑا نہیں جاسکتا۔ لوگ معیشت کی سود خور بیساکھی سے عاجز آچکے ہیں گزشتہ معاشی بحران اسی سودی کاروبار کا منبہ اور سرچم ہے۔
لوگ سنجیدگی سے ایک ایسے نظام کی تلاش میں ہیں جو لوگوں کو سود کی بے ساکھی سے بچا کر معاشی استحکام فراہم کرسکے۔ گزشتہ ایک دہائی میں اس سودی نظام کی وجہ سے کروڑوں کے قریب لوگ روزگار سے محروم ہوگئے ہیں۔ اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے بہت ساری عورتوں نے جسم فروشی کا پیشہ اختیار کرلیا ہے اور لاکھوں کے قریب انسانوں نے خودکشی کرلی ہے اور دنیا اس وقت اسلام کی طرف نظر لگائے بیٹھی ہوئی ہے کہ شاید اسلام ہی اس مسئلے کا حل پیش کرسکے۔ لیکن افسوس مسلمان خود اپنی شریعت سے واقف نہیں ہیں تو وہ دوسروں کو کیا راستہ دیکھائیں گے۔ قرآن کہتا ہے کہ (کنتم خیرا امۃ اجرجت للناس تاجروں بالمعروف و تنہون عن المنکر) تم بہترین امت ہو۔ تمہیں اس سرزمین پر برپا کیا گیا ہے تاکہ تم لوگوں کو بھلائی کا حکم دو اور بُرائی سے روکو۔ لہٰذا اس حکم کے مطابق ہر مسلمان کو چاہیے کہ علم معاملات اور جدید بینکنگ و فائنانس کو سیکھے اور خود بھی حرام سے بچے اور دوسروں کو بھی بچائے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *