شرکت و مضاربت کا کاروبار اور اسلامی اصول

فی زمانہ شرکت کا کاروبار ہی مقبول عام ہو رہا ہے لیکن اس کاروبار میں کن اصولوں کا پاس و لحاظ رکھنا چاہئے پیش ہےبین الاقوامی معیشت کی خصوصی تحریر
مضاربت ایک قسم کی تجارتی شرکت ہے جس میں ایک جانب سے سرمایہ اور دوسری جانب سے محنت ہو اس معاہدے کے تحت کہ اسے کاروبار کے نفع میں ایک متعین نسبت سے حصہ ملے گا نیز سرمایہ فراہم کرنے والے اور محنت کرنے والے متعدد افراد ہوسکتے ہیں۔ اصطلاح شریعت میں مضاربت اس عقد کو کہتے ہیں جس میں ایک جانب سے مال ہو اور دوسرے کی جانب سے عمل ہو اور نفع میں دونوں شریک ہوں۔
جس کی جانب سے مال ہو اس کو رب المال کہتے ہیں اور جس کی جانب سے عمل ہو اس کو مضاربت کہتے ہیں۔ اور جو مال دیا جائے اس کومال مضاربت کہتے ہیں۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد بھی لوگوں کے ہاں مضاربت جاری رہی در اصل یہ معاملہ عہد جاہلیت میں جانا پہچانا تھا۔ اس وقت قراض کے نام سے موسوم تھا۔ قریش چونکہ تجارت پیشہ تھے اور ان کا اس کے علاوہ کوئی ذریعہ معاش نہ تھا۔ وہ اپنا مال مضاربت پر ان لوگوں کودے دیا کرتے تھے جو منافع میں ایک مقررہ حصہ پر تجارت کرتے تھے۔ تو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے بھی اس کو اسلام میں جاری رکھا اور مسلمانوں نے اس پر عمل کیا اس میں
کوئی اختلاف نہیں۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے خدیجة الکبری رضی اﷲ عنہا کا مال بھی قراض کی صورت میں لے کر بیرون ملک تشریف لے گئے تھے۔ علامہ ابن قیم لکھتے ہیں: نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم خرید و فروخت فرمایا کرتے تھے آپ کی خرید وفروخت اکثر ہوا کرتی تھی۔ آپ بطور آجر اور بطور مستاجر رہے۔ مضاربت اور شراکت میں حصہ لیا وکیل اور توکیل کے فرائض بھی سر انجام دیئے۔ عمررضی اللہ عنہ کے دونوں صاحبزادے عبد اﷲ اور عبید اﷲ ایک لشکر میں عراق کی جانب گئے۔ واپسی میں ابو موسیٰ اشعری کے پاس گئے تو انہوں نے ان دونوں کی مہمان نوازی کے بعد کچھ مال ان کے حوالے کیا اور فرمایا کہ عراق جاکر اس مال سے کچھ سامان اور چیزیں خرید لینا اور اس کے بعد مدینہ جاکرفروخت کردینا اور اصل مال امیر المومنین کے حوالہ کردینا۔ منافع تم رکھ لینا۔ چنانچہ جب وہ مدینہ پہنچے تو انہوں نے سامان فروخت کرنے کے بعد منافع اپنے پاس رکھ لیا اور راس المال عمررضی اللہ عنہ کے حوالہ کرنا چاہا ،عمررضی اللہ عنہ کو اس تمام معاملہ کی خبر ہوئی تو انہوں نے ان دونوں سے دریافت کیا کہ تمام لشکر کو تمہاری طرح مال دیا گیا تھا تو انہوں نے جواب دیا کہ نہیں یا امیر المومنین۔ عمررضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم امیر المومنین کے بیٹے تھے اس لیے تمہیں مال دیا گیا۔ آپ نے تمام مال اور اس کے منافع ادا کرنے کا حکم دیا۔ تو عبد اﷲ نے تو تعمیل کی لیکن عبید اﷲ نے عرض کیا امیر المومنین ایسا کرنا آپ کے لیے مناسب نہیں ہے۔ اگر مال ہلاک ہوجاتا یا اس میں کوئی نقص پڑ جاتا تو ہم اس کے ضامن تھے۔ عمررضی اللہ عنہ نے دوبارہ اپنی بات دہرائی تو عبد اﷲ خاموش ہی رہے لیکن عبیداﷲ اپنا موقف دہراتے رہے۔ عمررضی اللہ عنہ کے ایک شریک مجلس نے کہا کہ آپ اسے مضاربت اور قراض کی صورت کیوں نہیں دے لیتے۔ تو آپ نے اس پر آمادگی ظاہر کی جس کے نتیجہ میں عمررضی اللہ عنہ نے اصل سرمایہ کے علاوہ آدھا نفع و صول کرنے کے بعد بقیہ نفع عبد اﷲ و عبید اﷲ کے حوالے کردیا۔
مبادلہ کی وہ صورتیں جن میں ذخیرہ اندوزی و اجارہ داری وغیرہ قسم کی خرابیاں پائی جاتی ہیں:
اب ہم چند ایسی تجارتی اور لین دین کی شکلوں کو بیان کر رہے ہیں جن کو آپ ﷺ نے ممنوع قرار دیا ہے۔ کچھ لوگ شہر سے کئی میل کے فاصلہ پر تجارتی قافلہ سے ملاقات کرتے اور اس سے سستے دام مال خرید کر شہر میں مہنگے دام فروخت کرتے تھے اس کو ”تلقی جلب“ کہتے ہیں۔ چنانچہ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: لاتلقوا الرکبان لبیع۔ ”خریداری کرنے کے لئے قافلوں سے نہ ملاقات کرو۔ دوسری جگہ ہے۔ غلہ لانے والے تاجروں سے نہ ملاقات کرو۔ اگر کسی نے (شہر آنے سے پہلے) ان سے مل کر غلہ خرید لیا اور شہر آنے کے بعد بازار کے بھائوکا پتہ چلا تو مہنگا ہونے کی صورت میں ان کو اختیار ہے چاہے تو معاملہ باقی رکھیں اور چاہے تو فسخ کردیں۔ (۲) کچھ لوگ گویا بازار کی سول ایجنسی لے لیتے یعنی تاجروں کے ایجنٹ (دلال) بن کر یہ طے کرلیتے کہ بازار میں باہر سے جو مال آئے گا وہ انہیں کے توسط سے فروخت ہوگا اس کو ”بیع الحاضر لباد“ کہتے ہیں۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: لا یبیع حاضر لباد۔ شہر (بازار) کا آدمی دیہات (باہر) کے تاجر سے بیع کا معاملہ نہ کرے۔ دوسری جگہ ہے۔ لا یبیع حاضر لباد دعوا لناس یرزق اﷲ بعضہم ببعض۔ شہر (بازار) کا آدمی دیہات (باہر) کے تاجر سے بیع کا معاملہ نہ کرے لوگوں کوچھوڑو۔ اﷲ بعض کو بعض کے ذریعہ روزی پہنچاتا ہے۔
طاوس(راوی) یہ کہتے ہیں کہ میں نے عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مذکورہ حدیث کا مطلب پوچھا تو انہوں نے فرمایا: لایکون لہ سمساراً۔ شہر کا آدمی دیہات کے تاجر کا دلال نہ بنے۔ ”بیع حاضر لباد“ کی تعبیر دو طرح منقول ہے۔
(۱) پہلی یہ کہ بازار کا آدمی باہر کے تاجر سے (بحیثیت دلال) کہے کہ تم اپنا مال آج کے بھائو نہ فروخت کرو بلکہ میرے پاس رہنے دو تاکہ میں اس کو بھائو چڑھتے پر گراں قیمت پر فروخت کروں۔
(۲) دوسری یہ کہ بازار کا آدمی ضرورت کے باوجود اہل شہر کے ہاتھ غلہ نہ فروخت کرے بلکہ سادہ لوح دیہاتیوں کے ہاتھ گراں قیمت فروخت کرے۔
(۳) کچھ لوگ تجارتی قافلوں اور غلہ کے تاجروں سے رسد کا ذخیرہ خرید لیتے اور ضرورت کے باوجود روک کر جب اور جس دام چاہتے فروخت کرتے تھے اس کو ”احتکار“ کہتے ہیں۔
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: من احتکر فہو خاطی۔ جس نے احتکار کیا وہ گنہگار ہے۔ دوسری روایت میں ہے۔ نہی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ ولسم ان یحتکر الطعام۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے غلہ میں احتکار کرنے سے منع فرمایا۔ ایک اور روایت میں ہے۔ المحتکر ملعون۔ احتکار کرنے والا ملعون ہے۔ یہ ممانعت صرف غلہ کے لئے خاص نہیں بلکہ حالات کی رعایت سے تمام ان چیزوں کو شامل ہے جن کے احتکار سے عام لوگوں کو تکلیف ہو ۔
ان صورتوں میں چونکہ اجارہ داری، ذخیرہ اندوزی، طلب و رسد کے قدرتی تناسب میں خلل اندازی اور ناجائز استحصال وغیرہ قسم کی برائیاں پائی جاتی ہیں اس بنا پر ان سے منع کیا گیا ہے۔
خرید و فروخت کی چند اور ممنوع شکلیں:
(۱) کچھ لوگ دودھ دینے والے جانور کے تھنوں میں کئی وقت کا دودھ روک لیتے تاکہ تھنوں میں زیادہ دودھ دیکھ کر خریدار زیادہ قیمت لگائے۔رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اونٹنی اور بکری کے تھنوں میں دودھ نہ روکو۔ دوسری حدیث میں ہے: ”جس شخص نے وہ بکری خریدی جس کے تھن میں دودھ جمع کیا گیا تھا اس کو تین دن تک معاملہ باقی رکھنے اور فسخ کرنے کا اختیار ہے۔
(۲) کچھ لوگ بھیگے ہوئے غلہ کو نیچے چھپا دیتے اور خشک غلہ کو اوپر کرکے کل کو خشک کے دام میں فروخت کرتے تھے۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ، غلہ کے ایک ڈھیر کے پاس تشریف لے گئے جب آپ نے ڈھیر کے اندر ہاتھ ڈالا تو اس میں تری محسوس کی، غلہ والے سے پوچھا یہ تری کیسی ہے۔ اس نے جواب دیا یا رسول اﷲ بارش سے بھیگ گیا ہے، آپ نے فرمایا کہ تم نے اس بھیگے ہوئے کو اوپر کیوں نہیں رکھا۔ یاد رکھو جس شخص نے فریب کیا وہ مجھ سے نہیں ہے۔
اس قسم کی صورتوں میں چونکہ دھوکہ، فریب، جہالت اور مستقبل کی سودا بازی وغیرہ جیسی برائیاں پائی جاتی ہیں۔ اس بنا پر ان سے منع کر دیا گیا ہے۔ ایک روایت میں عمومی حیثیت سے دھوکہ و فریب کی تمام شکلوں سے منع فرمایا: نہی رسول اﷲ صلی اﷲ علہی وسلم عن بیع الغرر۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے دھوکہ کی بیع سے منع فرمایا ہے۔ چند وہ صورتیں جن میں قمار اور احتمال سود کی خرابیاں پائی جاتی ہیں۔
(۱) دو معاملہ کرنے والے بغیر حقیقت معلوم کئے ایک دوسرے کے جس کپڑے یا سامان کو چھو دیتے اس کی بیع ہوجاتی تھی، اس کو ”ملامسہ“ کہتے ہیں۔
(۲) دومعاملہ کرنے والے ایک دوسرے کی جانب جس کپڑے یا سامان کو پھینک دیتے اس کی بیع ہوجاتی تھی، اس کومنابذہ کہتے ہیں۔
(۳) خریدار بیچنے والے کے جس کپڑے یا سامان پر کنکری رکھ دیتا اس کی بیع ہوجاتی تھی اس کو ”بیع الحصاة“ یا ”القاءالحجر“ کہتے ہیں۔
(۴) درخت پر لگے ہوئے ترپھلوں کو اندازے سے ٹوٹے ہوئے خشک پھلوں کے عوض بیچا جاتا تھا اس کو ”مزابنہ“کہتے ہیں۔
(۵) کھڑی کھیتی( فصل) کو اندازہ سے کٹے ہوئے غلہ کے عوض فروخت کیا جاتا تھا اس کو ”محاقلہ“ کہتے ہیں۔
ان صورتوں میں چونکہ قمار (جوا) اور سود کا احتمال پایا جاتا ہے، اس بناءپر ان سے منع کیا گیا یعنی پہلی تین صورتوں میں ایک فریق نفع کی خاطر غیر ضروری خطرات مول لیتا اور بقیہ دو میں ایک جنس کااندازہ اسی جنس سے کمی بیشی کا احتمال پیدا کرتا ہے بالخصوص جبکہ تر کا اندر خشک کے ساتھ ہو اور درخت پر لگے ہوئے کا اندازہ کٹے ہوئے کے ساتھ۔ ان صورتوں کی ممانعت سے متعلق حدیثیں: چنانچہ ان صورتوں کی ممانعت کے بارے میں حدیثیں یہ ہیں۔ نہی عن الملامسة والمنابذة فی البیع۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے بیع میں ”ملامسہ“ اور منابذہ“ سے منع فرمایا۔ نہی عن بیع الحصاة۔ رسول اﷲ نے کنکری پھینکنے کی بیع سے منع فرمایا۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نہی عن المزابنة والمحاقلة۔ بیشک رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے مزابنة اور محاقلہ سے منع فرمایا۔
چند وہ صورتیں جن میں ضرر، دھوکہ جہالت وغیرہ کی خرابیاں پائی جاتی ہیں:
(۱) باغ کے پھل اور کھیت کی فصل کو تیار ہونے اور پکنے سے پہلے بیچ دیا جاتا تھا۔ چنانچہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: لا ضرر ولا ضرار فی الاسلام۔ اسلام میں نہ نقصان اٹھانا ہے اور نہ نقصانا پہنچانا ہے۔
نہی عن بیع النخل حتی یزہو وعن بیع السنبل حتی یبیض ویامن العاہة۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے کھجور کی بیع سے منع فرمایا یہاں تک کہ وہ پک جائے اور بالی کی بیع سے منع فرمایا یہاں تک کہ وہ سفید ہوجائے اور آفت کا خطرہ نہ رہے۔ بیع ہونے کے بعد پھل اور فصل برباد ہونے کی صورت میں عمر بن عبد العزیز سے خریدار کو نقصان کا معاوضہ دلانا بھی ثابت ہے۔چنانچہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: لا ضرر ولا ضرار فی الاسلام۔ اسلام میں نہ نقصان اٹھانا ہے اور نہ نقصانا پہنچانا ہے۔ نہی عن بیع النخل حتی یزہو وعن بیع السنبل حتی یبیض ویامن العاہة۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے کھجور کی بیع سے منع فرمایا یہاں تک کہ وہ پک جائے اور بالی کی بیع سے منع فرمایا یہاں تک کہ وہ سفید ہوجائے اور آفت کا خطرہ نہ رہے۔ بیع ہونے کے بعد پھل اور فصل برباد ہونے کی صورت میں عمر بن عبد العزیز سے خریدار کو نقصان کا معاوضہ دلانا بھی ثابت ہے۔ (۲) خریدی ہوئی چیز کو قبضہ کرنے سے پہلے فروخت کیا جاتا تھا۔آپ کا ارشاد ہے۔من ابتاع طعاماً فلا یبیعہ حتی یستوفیہ۔جس شخص نے غلہ خریدا وہ اس وقت تک نہ بیچے جب تک اس پر قبضہ نہ کرے۔قبضہ عملاً یا قانوناً دونوں میں سے کوئی کافی ہے۔(۳)( بیع کے ایک معاملہ میں دومعاملے کئے جاتے تھے۔ چنانچہ بیچنے والا کہتا تھا کہ میں نے اس چیز کو نقد دس روپیہ میں بیچا اور ادھار بیس روپیہ کے عوض فروخت کیا یا میں نے اپنا باغ ایک ہزار میں اس شرط پر فروخت کیا کہ تم اپنا مکان سو روپیہ کے عوض فروخت کرو۔ آپ کا ارشاد ہے۔نہی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم عن بیعتین فی صفقة واحدة۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک معاملہ میں دو بیع سے منع فرمایا۔(۴) بیع کے درمیان ایسی شرطوں کا اضافہ کیا جاتا جن کا اس معاملہ سے کوئی تعلق نہ ہوتا تھا۔ مثلاً خریدار کہتا کہ میں کپڑا اس شرط پر خریدتا ہوں کہ تم (بیچنے والا) اس کو کٹادو یا کٹا کر سلادو۔ آپ کا ارشاد ہے۔ ولا شرطان فی بیع۔ بیع میں دو شرط حلال نہیں ہیں۔ ایک شرط کا بھی یہی حال ہے، دو کی قید واقعی ہے احترازی نہیں ہے۔ ان صورتوں میں چونکہ ایک فریق کو نقصان کا اندیشہ، دھوکہ دہی ،قیمت میں تفاوت اور ایسی شرطوں کا اضافہ پایا جاتا ہے جن کا معاملہ بیع سے کوئی تعلق نہیں ہے اس بناءپر ان سے منع کیا گیا۔
چند وہ صورتیں جن میں جہالت، منازعت اور ناجائز استحصال وغیرہ کی خرابیاں پائی جاتی ہیں:
(۱) ادھار کی بیع ادھار کے بدلے کی جاتی تھی یعنی ایک شخص کوئی چیز ادھار خریدتا اور مدت معینہ پر وہ قیمت نہ ادا کرسکتا تو دوبارہ اسی چیز کو ادھار خرید لیتا تھا۔ اس کو بیع الکالی بالکالی“ یا بیع النسیہ بالنسیہ“ کہتے ہیں۔ اس صورت میں دونوں طرف صرف باتیں ہی باتیں ہوتی تھیں، بیع و ثمن دونوں نہ ہوتے تھے۔ چنانچہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی حدیث ہے: نہی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم الکالی بالکالی۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ادھار کے بدلہ ادھار کی بیع سے منع فرمایا۔ (۲) جو چیز پاس نہ ہوتی اس کی بیع ہوتی تھی پھر وہ چیز بازار سے خرید کر خریدنے والے کے حوالہ کی جاتی تھی۔ حدیث رسول ہے: نہانی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ان ابیع ما لیس عندی۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے منع فرمایا کہ میں وہ چیز بیچوں جو میرے پاس نہ ہو۔ ابو دائود و نسائی کی روایت میں ہے۔ قال قلت یا رسول اﷲ یا¿تینی الرجل فیرید منی البیع ولیس عندی فابتاع لہ من السوق قال لا تبع مالیس عندک۔ حکیم بن حزام کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم میرے پاس ایک شخص آتا ہے اور وہ مجھ سے بیع کرنا چاہتا ہے حالانکہ میرے پاس کچھ نہیں ہوتا لیکن بیع کے بعد میں اس کے لئے بازار سے خرید کر لاتا ہوں، آپ نے فرمایا جو چیز تمہارے پاس نہ ہو اس کی بیع مت کرو۔
(۳) ایک شخص کوئی چیز خریدتا اور بیچنے والے کو کچھ رقم اس شرط پر ادا کرتا کہ اگر بیع مکمل ہوگئی تو یہ رقم قیمت میں شمار ہوگی اور اگر مکمل نہ ہوئی تو یہ رقم بیچنے والے کی ہوجائے گی۔ اس کو ”بیع عربان“ کہتے ہیں۔
حدیث رسول ہے: نہی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ ولسم عن بیع عربان۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے بیع عربان سے منع فرمایا ہے۔ ان صورتوں میں چونکہ جہالت، منازعت اور ناجائز استحصال وغیرہ قسم کی خرابیاں پائی جاتی ہیں اس بناءپر ان سے منع کیا گیا۔
یک جائی طور پر مذکورہ صورتوں کی ممانعت کے وجوہ:
مبادلہ کی مذکورہ شکلوں کوجن وجوہات کی بنا پر منع کیاگیا ہے یکجائی طور پر ان کی فہرست یہ ہے۔ خود غرضی، اجتماعی مفاد کی قربانی، اجارہ داری، ذخیرہ اندوزی، فریب دہی، اخلاقی اصول کی پائمالی،طلب و رسد کے قدرتی تناسب میں خلل اندازی، مستقبل کی سودا بازی، جہالت، نازعت،ناجائز استحصال، احتمالِ سود، باہمی تعاون کا فقدان اور غلط تشہیر و پروپیگنڈہ۔ یہ وجوہ قدیم و جدیدشکلوں میں پائے جائیں گے ان کی ممانعت ہوگی: یہ وجوہات مبادلہ کی قدیم و جدید جن شکلوں میں پائے جائیںگے اسلام میں ان کی ممانعت ہوگی اگرچہ ان میں کچھ مادی فائدہ بھی ہو۔ جیسا کہ قرآن حکیم کی درج ذیل آیت میں نفع کے بالمقابل ضرر کے بجائے لفظ ”اثم“ کے استعمال سے واضح ہوتا ہے۔ یسئلونک عن الخمر والمیسر قل فیہما اثم کبیر ومنافع للناس واثمہا اکبر من نفعہما۔ وہ تم سے شراب اور جوئے کے متعلق سوال کرتے ہیں آپ کہہ دیجئے کہ ان دونوں چیزوں میں بڑا گناہ ہے اور لوگوں کے لئے کچھ فائدے بھی ہیں لیکن ان کا گناہ ان کے فائدے سے بڑھ کر ہے۔کلام عرب میں لفظ ”اثم“ کا استعمال اخلاقی و روحانی مفاسدکے لئے ہوتا ہے جبکہ ”ضرر“ مادی و جسمانی مضرات کے لئے استعمال کیا جاتاہے۔ اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں لین دین کے تمام معاملات کو اسلام کے مطابق ڈھالنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *