
بیت المال اورمسلم معیشت
سید زاہد احمد علیگ
زندگی کے جن شعبہ جات میں مسلمانوں نے دین کے احکامات پر عمل کیا، ان شعبہ جات میں اللہ نے ان کے لئے امن و عا فیت رکھی، اور جن شعبہ جات میں قوم نے دین کو نظر انداز کیا، وہاں قوم ذلیل اور مغلوب ہو گئی۔ مثلاً نماز اور حج میں اگر ہم شریعت کے پابند رہے تو اللہ نے ہمارے لئے مسجدوں اور خانہ کعبہ میں امن و عافیت عطا کیا۔ اس کے بر خلاف جب ہم نے سیاسیات اور معاشیات میں شریعت کو فراموش کیا تو اللہ نے ہمارے لئے دشواریاں پیدا کر دیں۔ جب مسلمانوں نے شورٰی کا نظم ترک کر دیا اور یہ سمجھا کہ سماجیات اور سیاسیات کا دین سے کچھ لینا دینا نہیں ہے تو ہم سماجی اور سیاسی طور پر منتشر اور بے وزن ہو گئے۔ آج ملک کے سماجی ڈھانچے میں مسلمان سب سے پچھڑی قوم ہے۔ ملک میں کئی مسلمان مختلف سیاسی جماعتوں میں خاص مقام تورکھتے ہیں ، مگرہم قومی سطح پر ملی قائد سے محروم ہو گئے۔ مالیات اور معاشیات میں ہم نے بیت المال کے نظم کو فراموش کیااور سود سے بچنے کی کوشش نہیں کی تو معاشی پسماندگی کے شکار ہو گئے اور ملک کے مالی نظام میں تو ہمارا کوئی وجود ہی نہیں رہا۔ مجموعی طور پر ہندستان کے 1 3 فیصد مسلمان سطح غربت کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔ شہری علاقوں میں تو 20 فیصد مسلمان بھی ملک کے اوسط معیار پر زندگی گزارنے کی حالت میں نہیں ہیں جب کہ مسلمانوں کی کل جمع شدہ رقم کا 29 فیصد ملک کی دیگر قوموں کے کام آ رہا ہے۔
معا ش یعنی رو زی رو ٹی انسان کی بنیا دی ضرورت ہے۔ اس ضرورت کو پو را کرنے کیلئے اﷲ تعا لٰی نے وابتغوا من فضل اﷲ)سور ہ جمعہ) میں ارشاد فر ما کر کما نے کا حکم دیا تا کہ لو گ خود کفیل بنیںاور اپنی ضرورتیںخو د پو ر ی کر نے کی کو شش کر یں ، اور دوسروں کے سہا رے جینے یا گدا گر ی کو ذر یعہ ٔ معا ش بنا کر عزت نفس پا مال نہ کر یں۔ دستِ سوال دراز کر نے سے اگر چہ قا نو ناًنہیں رو کا گیا ، لیکن حضو ر ﷺ نے اوپر کا ہا تھ نیچے کے ہا تھ سے بہتر ہے ( بخا ری)کی تعلیم دے کر ہا تھ پھیلا نے سے اخلا قاً روک دیا ۔ آپ ﷺ بیعت کرتے وقت اس بات کی شرط رکھتے تھے کہ بیعت کرنے والا کسی سے سوال نہیں کریگا۔ اس کے ساتھ ہی آپ ﷺ نے مزدور کا ہا تھ چوم کر محنت مزدوری سے اپنی روزی کا انتظا م کر نے والوں کی حو صلہ افزائی فر ما ئی ۔
سما ج میں ہمیشہ کچھ لو گ ایسے ر ہے ہیں جو کسی نہ کسی وجہ سے خو د اپنی معا ش کا انتطا م نہیں کر سکتے۔ جیسے لو لے، لنگڑے ، اندھے، اپا ہج ، ضعیف ، یتیم ، بیوہ اور وہ لو گ جو کو شش کے با وجود اپنی رو زی کا ساما ن نہیں کر پا تے ۔ ان کی کفا لت کا بار قوم کے سر پر ڈال دیا گیا۔ اللہ نے امیروں کے مال میں غریبوں کا حق مقرر کیا ہے ، اور زکوٰۃ کی شکل میں ایک لازم جزء مقرر کر دیا ہے جسے بیت المال کے ذریعہ جمع اور تقسیم کیا جائیگا۔ آپ ﷺ ے اپنی زندگی میں بیت المال کا عظیم نظم قائم کیا اور صحابہ اکرامؓ نے بھی اس نطم کو برقرار رکھا۔ بیت المال ایک ایسا نظم ہے جس سے مسلمانوں کے انسانی، مالی اور تنظیمی وسائل کی نہ صرف حفاظت ہو گی بلکہ مسلمانوں کے تمام مالی اور معاشی مسائل حل ہو نگے۔ حضرت ابو بکر ؓ نے بیت المال میں زکوٰۃ نہ جمع کرنے والوں کے خلاف جنگ کرنے کا اعلان کیا تھا، جب کہ وہ زکوٰۃ کا انکار نہیں کر رہے تھے بلکہ بیت المال میں زکوٰۃ جمع کرنے کے بجائے اسے خود اپنے طور پر خرچ کرنا چاہتے تھے۔ حضرت ابو بکر ؓ نے ان کی رائے کو قبول نہ کرتے ہوئے ان کو بیت المال میں زکوٰۃ جمع کرنے پر مجبور کیا۔ ہمیںغور کرنا چاہئے کہ آج کے مسلمان جو اپنی زکوٰۃ بیت الما ل میں جمع کرنے کی بجائے اپنے طور پر خرچ کرتے ہیں ، ان کے بارے میں حضرت ابو بکر ؓ کا کیا فیصلہ ہوتا؟
اللہ کی رحمت واقعتاً مسلمانوں کے ساتھ ہے جس کی وجہ سے یہ قوم کسی طرح زندہ ہے۔ ورنہ جو طرزِ عمل مسلمانوں نے اختیار کر رکھا ہے وہ اللہ کے غضب کو دعوت دینے کیلئے کافی ہے۔ جس دین کی دہائی دیتے مسلمان نہیں تھکتے ،اسی دیں کے ایک اہم جز کو خود فراموش کر رکھا ہے۔ جس نبی ﷺکی فرمابرداری کا دم بھرتے نہیں تھکتے ،اسی رسول ﷺ کے قائم کردہ نظم کے خلا ف عمل کر رہے ہیں۔ بیت المال کاجونظم رسول اللہ ﷺ نے قائم کیا تھا، اس سے سماجی اور مالی وسائل کا بہتر سے بہتر استعمال ہوتا تھا۔ آج بھی اگر مسلمان بیت المال قائم کرلیں تو مسلمانوں کے تمام مالی اور معاشی مسائل حل ہو سکتے ہیں۔
ایک اندازہ کے مطابق ہندستان کے بینکوں میں مسلمانوں کی جمع شدہ رقم کا 29 فیصد حصہ غیر قوموں کو قرضہ جات کی شکل میں دیا جاتا ہے۔ اس طرح سالانہ مسلمانوں کو 66,700 کروڑ روپیہ کا مالی نقصان ہو رہا ہے جب کہ ملک کے97 فیصد مسلمان غیر منظم سیکٹر میں کام کرنے کی وجہ سے مالی خدمات حاصل کرنے میں دشواریوں کا سامنا کرتے ہیں۔ اب اتنے بڑے نقصان کو نظر انداز کر تے ہوئے ملت کی تقدیر بدلنے کا خواب دیکھنے والوں کو اپنے فکر کا جائزہ لینا چاہئے۔ بغیر بیت المال کے نہ مسلمانوں کا مالی استحصال روکا جا سکتا ہے نہ غربت دور کی جا سکتی ہے۔ اس لئے ہم ملت کے تمام فرد سے درخواست کرتے ہیں کہ بیت المال کے قیام کی فکر اور صحیح کوشش کریں ۔
ملک کے ملی اداروں کی کارکردگیوں کو دیکھ کر یہ اندارہ ہوتا ہے کہ ملت کی ضرورت کے مقابلہ یہ کچھ بھی نہیں ہے۔ اصل میں ایک فیصد مسلمان بھی اب تک عملی طور پر کسی بیت المال سے نہیں جڑے ہیں۔ غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ سماجی، مالی اور معاشی پسماندگی نے قوم سے خود اعتمادی چھین لیا۔ لوگ ایک دوسرے پر شک کرتے ہیں اور آگے بڑھکر ملی امور میں ایک دوسرے کا تعاون کرنے سے گھبراتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کی ملت کے پاس بڑے اور کامیاب ملی اداروں کی کمی ہے۔ ملی اداروں کی تعمیر اور تشکیل میں اپنا تعاون پیش کرنے سے قبل ہی لوگ اس میں اپنا حصہ تلاش کرنے لگتے ہیں۔ نتیجتاً ملی ادارے قائم ہونے کے ساتھ ہی آپسی کھینچا تانی کا شکار ہو نے لگتے ہیں اور کامیاب ہونے کے بجائے ڈوب جاتے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ جیسے جیسے لوگ آپسی اعتماد اور تعاون کے ساتھ بیت المال سے جڑیں گے ، بیت المال مستحکم ہوگا اور مسلمانوں کے معاشی مسائل حل ہوتے جائیںگے۔ اس لئے ملت کے ہر فردسے درخواست ہے کہ وہ بیت المال کے قیام اور تشکیل میں شریک ہو ں۔ فرد کو ملا کر گھر بنتا ہے، گھروں کو ملا کر بستی یا محلہ اورپھر ضلع، صوبہ اور ملک بنتا ہے۔ اس لئے ایک شخص کا تحریک سے جڑنا ایک بڑے کام کی شروعات ہوگی۔ اور یقین جانیں یہ شروعات ہر اس فرد سے ہونی ہے جس کے ہاتھ میں اس وقت یہ تحریر ہے۔
ملت میں کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ بیت المال صرف اسلامی حکومت میں ممکن ہے اور چوں کہ ہندستان ایک غیر اسلامی ملک ہے اس لئے یہاں بیت المال قائم نہیں ہو سکتا اور بغیر امیر کے بیت المال کی بات فضول ہے۔ اور ساتھ ہی یہ بھی بات کرتے ہیں کہ جن لوگوں نے زکوٰۃ کی تنظیمیں بیت المال کے نام پر قائم کیا ہے ان کو کس نے حق دیا کہ وہ ایسا کریں اور خود سے وہ لوگ ایسی ذمہ داری کیسے لے سکتے ہیں؟ اب ایسے لوگوں کو کون سمجھائے کے ملک کا قانون بیت المال کے قیام میں آڑے نہیں آتا۔ اور اگر ملت میں کچھ لوگ بیت المال کے قیام کی کوشش کر رہے ہیں تو ان کا ساتھ دینا چاہئے اس لئے کہ مومن پر واجب ہے کہ وہ نیک کاموں میں ایک دوسرے کا ساتھ دیں اور برائی سے ایک دوسرے کو روکیں۔ اب کون سا جوز بنتا ہے کہ جو لوگ اللہ کے رسول ﷺ کے طریقہ کو قائم کرنا چاہیں تو ان کا ساتھ دینے کی بجائے ان کی مخالفت کی جائے؟ ایسے لوگوں کے عملی کوشش میں شریک نہیں ہونا در حقیقت اسلامی کاوشوں کی مخالفت ہے۔ اس مخالفت پر آخرت میں جواب دینا ہوگا۔
جب تک ملک کے مسلمان اس بات کا پختہ عزم نہیں کرتے کہ وہ ملک میں بیت المال کا نظم قائم کر کے رہیںگے، تب تک ملت کی بدحالی دور نہیں ہو سکتی۔ ہمیں سمجھنا اور لوگوں کو سمجھاناہے کہ مسلمانوں کی معیشت کو مالیات کے بغیر درست نہیں کیا جا سکتا ہے اور مالیات کو مستحکم کرنے کے لئے نبی اکرم ؑﷺ نے بیت المال قائم کیا تھا۔ اب مسلمان بیت المال کو نظر انداز کر کے تو اپنی مالیات کو درست نہیں کر سکتے۔ لہذا یہ ضروری ہے کہ ملت کا ہرفرد ملک میں بیت المال کی تشکیل اور قیام کے متعلق اپنی ذمہ داری کو سمجھے اور اسے پورا کرے۔ جب تک ہم اسلامی تعلیمات کے خلاف کا م کرتے ہوئے معاشی ترقی کی کوشش کرتے رہیں گے، ناکام رہیں گے اور جب معیشت کو درست کرنے کے لئے اسلامی تعلیمات اور نظم پر عمل پیرا ہو کر کوشش کریں گے، اللہ کی مدد اور نصرت ہمارے ساتھ ہوگی۔ (انشا اللہ)