
موجودہ معاشی بحران اور اسلامک بینکنگ
(ڈاکٹر رحمت اللہ ، ممبئی)
(مذکورہ مضمون گذشتہ برسوں میں آئے معاشی بحران کے پیش نظر لکھا گیا تھا جسے افادہ عام کی خاطر دوبارہ شائع کیا جا رہا ہے۔ادارہ)
موجودہ معاشی بحران کسی حد تک انسانی فکر اور معاشی فعالیت کو اسلامی تعلیمات سے دور کرنے کا نتیجہ ہے۔ چوں کہ امریکہ فکری آزادی کے ساتھ ہی غیر اخلاقی اصولوں پر معاشی ترقی کے حصول کی دوڑمیں پیش پیش تھا، اس لئے موجودہ معاشی بحران کی ابتدا بھی امریکہ سے ہی ہوئی ۔ در حقیقت سرمایہ دارانہ معاشی فکر و عمل ہی امریکی معیشت کی بنیاد رہی ہے۔ اس نظام میں مالی نفع ہر کام کا محرک اور زیادہ سے زیادہ نفع حاصل کرنا مقصد حیات بن جاتا ہے۔ ایسے نظام کو فروغ دینے والوں سے اخلاقیات کی توقع نہیں کی جا سکتی ہے۔ نتیجتاً معاشی فعالیت تمام حدود و قیود سے آزادہو جاتی ہے اور حصول نفع و نقصان کو ہی کامیابی و ناکامی کا معیار تصوّر کر لیا جاتا ہے ۔ غور کریں تو معلوم ہوگا کہ موجودہ معاشی بحران یکایک نہیں آگیا ۔ در حقیقت مالی ترقی کو حیاتِ زندگی کا مقصد سمجھنے والے دنیا کے بڑے سرمایہ داروں نے اسلامی اصولوں کو فراموش کر تے ہوئے ایسے غیر اخلاقی طریقوں سے سرمایہ کاری کیاکہ دینا کا معاشی توازن ہی بگڑ کیا ۔ ایسا نہیں ہے کہ اس بحران سے بچنے کا کوئی موقع نہیں تھا، مگر اس کے امکانات کو دیکھ کر بھی مالی منافع کے حریسوں نے نظر انداز کیا۔ مالی بحران سے قبل بین الاقوامی بازار میں قیمتی اشیاء کی چڑھتی قیمتیں ، کھانے کی اشیاء کی قلت، اور ساتھ ہی مجموعی قرضہ جات کے انسورینسیس کی رقومات میں اضافہ اعلان کر رہی تھیں کہ بڑا مالی بحران برپا ہونے والا ہے ، جسے معقول اقدامات کے ذریعہ روکا جا سکتا ہے۔ مگر اپنی معاشی فکر اور اقدامات پر مغرور سرمایہ دار اور امریکی مالی نظام کے نگہبانوںنے اس کی پرواہ نہیں کی اور آخر کار دنیا کی تاریخ کا ایک ایسا معاشی بحران آیا جسے ماہرینِ معاشیات عالمی قصاد بازاری (Global Recession 2008) کے نام سے خطاب کر رہے ہیں۔
رہائش کے شعبہ میں سرمایہ کاری رہن (Mortgage) کی بنیاد پر ہوتا رہا ہے۔ بنیادی سرمایہ کو بار بار استعمال کے لائق بنانے کے لئے طرح طرح کی اسکیمیں بنائی گئیںاور اس سے ڈیریویٹوس (Derivatives ) کی شکل میں کئی طرح کے مالی مصنوعات (Financial Products) وجود میں آئے ، اورزیادہ نفع حاصل کرنے کی غرض سے بڑے بڑے سرمایہ داروں اور مالی اداروں نے ان ڈیریویٹوس میں سرمایہ کاری کی۔ یہاں تک کہ جب لیمن بردرس کو دیوالیہ قرار دیا گیا تو اس وقت لیمن بردرس کا ڈیریویٹوس میں سرمایہ اس کے کل قرضہ جات (150 billion$) سے کہیں زیادہ تھا۔ جب مالی بحران ظاہر ہوا تو ڈیریویٹوس کے بازار میںکوئی کسی کا پر سانِ حال نہ رہا اور 55,000billion$کی کاغذی سرمایہ کاری کسی کے کام نہ آ سکی۔ سودی قرضہ جات کے نقصانات کی سب سے بڑی ضمانت لینے والی کمپنی اے ، آئی، جی (AIG) کا خود دیوالیہ نکل گیا اور اس طرح سی ڈی ایس ڈیریویٹوس (CDS Derivatives) کی شکل میں جو کاغذ کی چھتری سودی مالی ادارون کے پاس تھی وہ مالی بحران کے دوران انہیں مالی خطرات سے تحفظ فراہم کرانے کی بجائے خود تار تار ہو کر بکھر گئی۔ آزادانہ معیشت ہونے کی وجہ سے بینک آف امریکہ نے لیمن بردرس جیسی کمپنیوں کے حصص خریدے تھے ، اس لئے اب ان کی نقصانات کی بھر پائی کر رہی ہے ۔ رہائشی سیکٹر میں رسد اور طلب کے توازن کے بگڑنے سے جسے نیم اعلیٰ رہن کی قلت (Subprime Mortgage Crisis )کہتے ہیں ــ، نے مالی بحران کی کیفیت پیدا کر دی۔ اس شعبہ کی بحران سے رفتہ رفتہ پوری امریکی معیشت مالی بحران کا شکار ہو گئی۔ سرمایہ کی آزاد انہ تجارتی نظام نے اس مالی بحران کے اثرات ان ممالک پر بھی ڈالے جن کا لین دین امریکی معیشت سے تھا۔ نتیجتاً اس وقت پوری دینا اس بحران کی چپیٹ میں آ چکی ہے۔ تیزی سے پھیلے اس مالی بحران کے سبب عالمی ترقی کی شرح میںخاصی کمی آئی ہے۔ IMF نے اپنی اپریل ۲۰۰۸ کی رپورٹ میں ۲۰۰۸کے لئے عالمی معاشی ترقی کی شرح 3.7 فیصد اور ۲۰۰۹ کے لئے 3.8 فیصد آنکی تھی ۔ مگر دنیا کی معیشت پرعالمی معاشی بحران کے بڑھتے اثرات کو دیکھتے ہوئے اپریل 2009 میں IMF نے اپنے اندازہ میں یہ کہا ہے کہ 2008کے لئے عالمی معاشی ترقی کی شرح 3.2 فیصد ہوگی اور2009 کے لئے صفر سے بھی کم ہو کر (-1.3) فیصد ہو جائیگی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس بحران کی وجہ سے عالمی معاشی ترقی اب تنزلی میں تبدیل ہوگئی ہے۔ اس بحران کے اثرات دینا کے دیگر ممالک کی طرح ہمارے ملک میں بھی مرتب ہوئے ہیں۔ سالانہ ترقی کی شرح جو.4 9 فیصد تک پہونچ گئی تھی اورتوقع کی جانے لگی تھی کہ عنقریب ہندستانی معیشت 10 فیصد کی شرح سے ترقی کریگی، اب زوال پزیر ہو کر 6 فیصد تک ہونے کے آثار پیدا ہو گئے ہیں۔
اس بحران پر قابو پانے کے لئے دنیا کے تمام ممالک اور ان کے مرکزی بینک کوشش کر رہے ہیں۔ بین ا لاقوامی سطح پر کانفرینسیز بھی منعقد ہو رہی ہیں اور نقصانات کی بھرپائی کی کوشش کے ساتھ نجات کی راہ تلاش کی جاری ہے۔ امید و توقعات کے بر خلاف عالمی انجمنوں کی قیاس آرایوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ آنے والے دن اور بھی بدترہو سکتے ہیں۔ اسی تلاش و جستجو میں اسلام کی بنیاد پر قائم اور پروان چڑھ رہے اسلامی معاشی نظام اور اسلامک بینکنگ کو بھی ایک راہِ نجات کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔موجودہ معاشی بحران کے دور میں بھی اسلامک بینکنگ اور سرمایہ کاری کی سالانہ ترقی کی شرح 20 فیصد تک ہے اور عالمی پیمانے پر اس کا کل مالی اثاثہ ایک ٹریلین ڈالر تک پہونچ چکاہے۔ کئی ترقی یافتہ ملکوں کے لوگ سودی بینکوں کی بجائے اب اسلامک بینکنگ کی جانب رجوع کر رہے ہیں۔ اسلامی معاشی مفکرین کے خیال میں معاشی بحران کی اصل وجہ سرمایہ دارانہ نظام کی وہ خرابیاں ہیں جو لالچ، سود اور غرر کی شکل میں معاشی عمل کی بنیاد و محرک ہیں۔ اور جب تک معیشتیں ان سے پاک نہیں ہوںگی ، معاشی دنیا کے لئے جارحانہ اُتار چڑھائو پر مکمل اور مستقل طور پرقابو پانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگا۔ اسلامی معاشی مفکرین کی یہ رائے مندرجہ ذیل حقائق کی بنیاد پر ہے۔
۱) اسلامی مالی نظام طے کرتے وقت اخلاقی تعلیمات اور معاشیات دونوں کو سامنے رکھا جاتا ہے جس کی وجہ سے معاشی کاروبار میں اخلاقی برائیاں نہیں پنپ پاتی ہیں، جب کہ سودی نظام میں اخلاقی تعلیمات کے لئے کوئی جگہ نہیں ہوتی اس لئے معیشت میں اخلاقی برائیاں خود بخود جگہ بنا لیتی ہیں۔ اب دنیا کے غیر اسلامی ماہرینِ معاشیات بھی اس بات کو تسلیم کر رہے ہیں کہ ضرورت سے زیادہ لالچ اور اخلاقی برائیوں کی وجہ سے ہی یہ موجودہ مالی بحران پیدا ہوا ہے۔
۲) اسلامی نظام میں ایسا نہیں ہوتا ہے کہ صرف منافع حاصل کرنے کی غرض سے کوئی کچھ بھی کرے، جب کہ سودی نظام میں معاشی کاروبار کو آگے بڑھانے کی غرض سے کاروباری کچھ بھی کر گزرتے ہیں۔ امریکی بینکوں کے ملازمین نے کاروباری ہدف کو پورا کرنے کی ہوڑ میںغیرجانبدار لوگوں کو غیر معقول حالات میںقرضہ دئے اور آخرکار بڑی تعداد میں قرضہ جات پھنس گئے۔ ان پھنسے ہوئے قرضہ جات کی انسورینس بھی پھسے ہوئے قرضہ جات کو بچا نہیں سکی۔ وقتی منافع حاصل کرنے کی غرض سے اخلاقی اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر مالی کاروبار کرنے کی وجہ سے ہی عالمی مالی بحران پیدا ہوا۔
۳ ) اسلامی مالی نظام چوں کہ سودی کاروبار سے پاک ہوتا ہے اس لئے سود کی شرح کے اُتار چڑھائو سے بازار قیمت یا پوری معیشت کے متاثر ہونے کا امکان نہیں ہوتا ہے اور معیشت کے توازن میں استحکام پایا جاتا ہے۔
۴) اسلام غرر اور سٹا بازاری کو حرام قراردیتا ہے جس کی وجہ سے معیشت غیر جانبدار خطرات اور سٹوریوں کی بدکاریوں سے پاک ہوتی ہے ۔ سودی کاروبار میں مالی یا کاروباری جوکھم کوکم کرنے میں جہاں انسورینس اور ڈیریویٹوس کی کمپنیاں ناکام ہوئی ہیں، وہیں تکافل کی شکل میں اسلام ایک ایسا مالی صنعت پیش کرتا ہے جس کی وجہ سے نہ صرف مالی اور کاروباری جوکھم کو قابو میں رکھا جا سکتا ہے بلکہ معیشت کو سود اور غرر کے نقصانات سے محفوظ بھی رکھا جا سکتا ہے۔
۵) اسلام میں سامان اس وقت تک نہیں بیچا جا سکتا ہے جب تک کہ بیچنے والا اس پر قابض نہ ہو جائے، اس لئے قیمتیں قبل از وقت نہیں بڑھ سکتیں اور ہر لین دین حقیقی معنیٰ میں ہوتا ہے نہ کہ صرف کاغذ پر جس کی وجہ سے قیمتیں بے اختیار بڑھ جاتی ہیں۔
۶) سودی معیشت میں مالی مصنوعات کی بازار قیمت سود کی وجہ سے بڑھتی رہتی ہے، جب کہ حقیقی اشیاء یا خدمات کی مقدار نہیں بڑھتی، جس کی وجہ سے زر کی حقیقی قیمت وقت کے ساتھ کم ہوتی جاتی ہے۔ اس کے خلاف اسلام میں سود نہیں ہونے کی وجہ سے مالی مصنوعات کی قیمت حقیقی اشیاء کے مساوی رہتی ہے اور زر کی حقیقی قیمت برقرار رہتی ہے۔
۷) جہاں سودی نظام میں قرضہ جات پر خطرات کا اندازہ صرف کریڈٹ ریٹنگ کے ذریعہ کیا جاتا ہے، وہیںاسلامی سرمایہ کاری کے خطرات کا اندازہ لگانے کے لئے بازار کے مکمل رجھان کا احتساب کیا جاتا ہے جس سے نقصانات کا اندازہ قبل از وقت لگایا جا سکتا ہے اور کسی بڑے نقصان سے بچا جا سکتا ہے۔
۸) چوں کہ اسلام وسائل کی تقسیم اور تمام شعبوں کے درمیان متوازن ترقی پر زور دیتا ہے ، اس لئے معیشت کے کسی ایک شعبے میں سرمایہ کی زیادہ فراوانی کے سبب قیمتوں میں بے اختیار اضافہ کا خطرہ نہیں ہوتا اور نہ دوسرے شعبوں میں سرمایہ داری ، روزگار کے مواقع اور آمدنی کے امکانات میں کمی ہوتی ہے،لہذامعیشت کا توازن برقرار رہتا ہے۔
۹) چوں کہ اسلام میں سودی قرضہ جات کی اجازت نہیں ہوتی ہے اس لئے سی ڈی ایس ڈیریویٹوس کی بھی گنجائش نہیں ہوتی ہے، اسی وجہ سے اسلاملک بینکنگ اور فائنینس میں سودی قرضہ جات کے خطرات کی ضمانت لینے والی کمپنیوں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہوتی ہے اور معیشت میں مالی بحران کے دوران ایسی کمپنیوں کے دیوالیہ ہونے کا نہ امکان ہوتا ہے اور نہ اس طرح کا کوئی خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ اس کے بر خلاف اسلام میں کاروباری جوکھم کو تکافل کے ذریعہ کاروباری آپس میں بانٹ لیتے ہیں جس سے کسی ایک کاروباری کمپنی کے نقصان سے دوسری کمپنیاں متاثر نہیں ہوتی ہیں لہذا مجموعی طور پر معیشت کسی بڑے معاشی بحران سے محفوظ ہوتی ہے۔
۱۰) اسلامی مالی نظام میں انسانی فکر کے پیچھے اسلامی تعلیمات ہوتی ہے اور معاشی نظام میں کاروباری اغراض و مقاصد کے علاوہ ازیں اخلاقی معاملات کا بھی لحاظ کیا جاتا ہے جس سے معاشی ترقی کے ساتھ ساتھ معیشت میں اخلاقی معیار بھی بحال رہتا ہے۔
۱۱) اسلامی معاشی نظام میں چوں کہ معاشی کاروبار کا خطرہ سرمایہ دار خود ہی برداشت کرتا ہے اور دوسروں پر نہیں ڈالتا ہے، اس لئے کسی خاص کاروبار کے معاشی نقصانات سے عام لوگ محفوظ رہتے ہیں اور نہ ہی سرکار کو کاروباریوں کے نقصانات کی بھر پائی کرنی پڑتی ہے۔
۱۲) اسلامی مالی نظام میںچوں کہ زکوٰۃ وصدقات کی شکل میں مال کی گردش معیشت کے امیروں سے غریبوں کی طرف رواں رہتی ہے ، اور غریب اپنی ضروریات کی تکمیل کے لئے اسے خرچ کرتے رہتے ہیں، معیشت میں مندی کی گنجائش ختم ہو جاتی ہے اور امیروں کی زکوٰۃ و صدقات جب غریبوں کے ذریعہ خرچ کی جاتی ہے تو اس سے کاروباریوں اور صنعت کاروں کی آمدنی پھر بڑھ جاتی ہے۔ جب کہ سودی نظام میں سرمایہ کی گردش ا میروں سے غریبوں کی جانب نہیں بلکہ کم ا میروں سے زیادہ امیروں کی جانب ہوتی ہے اور سرمایہ دار اپنی بچت کو غریبوں میں تقسیم کرنے کی بجائے اجارہ داری کرنے لگتا ہے ، جس سے معاشی گردش دھیمی ہوجاتی ہے اور معیشت میں مندی آ جاتی ہے۔ اسی لئے قران کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ سود کا مٹھ مارتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔
معاشیات کو سمجھنے والے اس آیت کو شاید بہتر سمجھ سکیں۔ کاش کی دنیا کے ماہرِ معاشیات قران کو سمجھتے تو آج دنیا میں ایسا عظیم معاشی بحران نہیں ہوتا بلکہ عالمی ترقی کی شرح مثبت اور غیر معمولی ہوتی۔