اسرائیلی فوج کی غزہ پر ٹینکوں کے ساتھ زمینی چڑھائی

جبکہ سعودی نوجوانوں نے ٹوئٹر پر چھیڑی مہم

نئی دہلی میں نوجوان فلسطینیوں کے حق میں مظاہرہ کرتے ہوئے
نئی دہلی میں نوجوان فلسطینیوں کے حق میں مظاہرہ کرتے ہوئے

مقبوضہ بیت المقدس، 18 جولائی (یو این بی) اسرائیلی فوج نے جنگ پسند وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو کی منظوری کے بعد جمعرات کو رات گئے اور جمعہ کو علی الصباح غزہ کی پٹی پر مختلف اطراف سے زمینی چڑھائی کردی ہے اور اٹھارہ ہزار ریزرو فوجیوں کو بھی طلب کر لیا ہے۔اسرائیلی فوج کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ ان فوجیوں کی آمد کے بعد آپریشن دفاعی کنارہ میں حصہ لینے کے لیے طلب کیے گئے فوجیوں کی تعداد پینسٹھ ہزار ہو جائے گی۔ تاہم ترجمان نے یہ نہیں بتایا کہ نہتے فلسطینیوں پر مسلط کردہ اس جنگ میں اس وقت کل کتنے صہیونی فوجی شریک ہیں۔
صہیونی فوج کا کہنا ہے کہ اس آپریشن کا مقصد اسرائیلی شہریوں کی زندگیوں کا تحفظ اور حماس کو کچلنا ہے۔اس مرحلے کی قیادت اسرائیلی دفاعی فوج کی جنوبی کمان کرے گی اور اس میں انفینٹری ،آرمرڈ کور ،انجنیئیر کور اور انٹیلی جنس مشترکہ طور پر حصہ لیں گی اور انھیں فضائی اور بحری مدد حاصل ہوگی۔
صہیونی فوج کی ٹینکوں اور بکتربند گاڑیوں کے ساتھ غزہ پر چڑھائی کے بعد حماس نے خبردار کیا ہے کہ تل ابیب (اسرائیل) کو اس کی بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔درایں اثناء اسرائیل نے جنوبی شہر عسقلان کے نزدیک غزہ کی پٹی سے چلایا گیا حماس کا ایک بغیر پائیلٹ جاسوس طیارہ مار گرایا ہے۔اس ڈرون کو زمین سے فضا میں مار کرنے والے پیڑیاٹ میزائل سے نشانہ بنایا گیا ہے۔حماس کے عسکری ونگ عزالدین القسام بریگیڈز نے کہا ہے کہ اس نے صہیونی دشمن کی فضائی حدود میں ڈرون چھوڑا تھا۔
قبل ازیں اسرائیل نے پانچ گھنٹے کے وقفے کے بعد جمعرات کو دوبارہ غزہ کی پٹی پر فضائی حملے شروع کردیے تھے جبکہ اسرائیل اور حماس کے درمیان ممکنہ مستقل جنگ بندی کے لیے بات چیت کی اطلاع بھی سامنے آئی تھی۔اسرائیل نے دعویٰ کیا کہ غزہ کے مکینوں کو ضروری سامان کی خریداری کے لیے دیے گئے وقفے کے دوران مسلح دھڑوں نے سرحد پار تین مارٹر گولے فائر کیے ہیں اور وہ عشکول کے علاقے میں گرے ہیں۔ اسرائیلی فوج نے حماس پر یہ راکٹ فائر کرنے کا الزام عاید کیا ہے۔ لیکن حماس نے اس حملے سے لاتعلقی ظاہرکی ہے اور اسرائیلی بیان کو جھوٹ کا پلندا قرار دیا ہے۔حماس کے ایک ذریعے کا کہنا ہے کہ ”اسرائیلی جھوٹ بول رہے ہیں۔تمام فلسطینی دھڑے جنگ بندی کی پاسداری کررہے ہیں۔وہ اس مبینہ حملے کو فلسطینی مزاحمت کاروں کو شہید کرنے کے لیے جواز کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں”۔
درایں اثناء ذرائع نے ایک اسرائیلی عہدے دار کے حوالے سے بتایا ہے کہ اسرائیل اور حماس نے غزہ میں جامع جنگ بندی سے اتفاق کیا ہے اور اس کا جمعہ سے آغاز ہوگا۔اس عہدے دار کا اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہنا ہے کہ اسرائیل کے ایک سینیر وفد کے مصر میں مذاکرات کے بعد اسرائیلی قیادت نے جنگ بندی کے سمجھوتے کی منظوری دے دی ہے لیکن اس ممکنہ یا مبینہ جنگ بندی کے آغاز سے قبل ہی صہیونی فوج نے غزہ پر زمینی چڑھائی کردی ہے۔
اسرائیلی فوج نے جنگ بندی کا وقفہ ختم ہونے کے بعد ٹینکوں سے بھی غزہ پر گولہ باری کی ہے جس کے نتیجے میں تین فلسطینی شہید ہوگئے ہیں۔غزہ پر گذشتہ دس روز سے جاری اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں دو سو تیس فلسطینی شہید ہوچکے ہیں اور سترہ سو زخمی ہوئے ہیں جبکہ فلسطینی مزاحمت کاروں کے راکٹ حملوں میں ایک یہودی مارا گیا ہے۔
امریکا نے اپنا سفارتی فرض پورا کرنے کے لیے اپنی بغل بچہ ریاست اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ کراس فائر میں نشانہ بننے والے شہریوں کے تحفظ کے لیے مزید اقدامات کرے مگر مرنے والے یہ شہری فلسطینی ہیں اور یہ کراس فائر میں نہیں بلکہ اسرائیلی فوج کی وحشیانہ فضائی بمباری اور براہ راست گولہ باری میں مارے جارہے ہیں۔ امریکی محکمہ خارجہ کی خاتون ترجمان جین سکئی نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ”ہم نے اسرائیل سے کہا ہے کہ وہ شہریوں کی ہلاکتوں سے بچنے کے لیے اپنی کوششوں کو دگنا کرے۔ہمیں یقین ہے کہ اس ضمن میں مزید بھی بہت کچھ کیا جاسکتا ہے”۔ سکئی نے بچوں کی اموات کی تصاویر کو خوف ناک قرار دیا اور کہا ہے کہ وزیرخارجہ جان کیری نے اسرائیل کے ساتھ براہ راست اس سلسلے میں تشویش کا اظہار کیا ہے۔
اس امریکی خاتون ترجمان کا کہنا تھاکہ المناک واقعات سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ اسرائیل کو شہریوں کو مرنے سے بچانے کے لیے اپنے معیارات کے مطابق ممکنہ اقدامات کرنا ہوں گے”۔ترجمان نے ان معیارات کی وضاحت نہیں کی جبکہ اسرائیلی فوج جس طرح بلاامتیاز غزہ کی پٹی کے شہروں اور قصبوں کو نشانہ بنا رہی ہے،اس سے عام فلسطینیوں کا بچنا محال ہے۔
ایک دوسری خبر کے مطابق خبروں، تجزیوں اور خبری مباحثوں سے دور رہنے والا سعودی نوجوانوں کا طبقہ بھی غزہ پر اسرائیل کے خونی حملوں کے بعد ٹوئٹر پر متحرک ہو گیا ہے۔سعودی نوجوانوں نے ٹوئٹر کے ذریعے غزہ کے ان مظلوم باسیوں سے براہ راست رابطے بھی کرنا شروع کر دیے ہیں جن کے پاس ابھی بھی انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہے اور وہ غزہ سے غافل دنیا کے ضمیر کو جگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان نوجوانوں کی کاوش ٹوئٹر کے توسط سے سامنے آنے والے غزہ کے اندر کے واقعات پر مبنی ہے۔ ان میں سے اکثر ”ٹویٹس” عین اسی وقت سعودی نوجوانوں کے ذریعے آگے منتقل ہو جاتے ہیں۔ ان میں اسرائیلی بمباری سے ہونے والی شہادتوں، مکانات اور مساجد کی تباہی کے علاوہ بمباری کے اندوہناک مناظر فورا عرب دنیا میں پھیل جاتے ہیں۔ جن کی بدولت دنیا بھر کے لوگوں کے قلب و ذہن کو 8 جولائی سے جاری اسرائیلی بمباری کی تباہ کاریوں سے آگاہ ہو رہے ہیں۔
مدینہ کی رہائشی فاطمہ عبدالوہاب ہائی سکول کی طالبہ ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ غزہ کی ابتر صورت حال کو وہ غزہ میں رہنے والے اپنے ہم عمروں کے ذریعے مسلسل ٹوئٹر اور سوشل میڈیا پر دیکھ رہی ہے۔فاطمہ کے بقول ” ہم ایک خاندان اور کنبے کی طرح ہو گئے ہیں اگر میں غزہ کے لوگوں کے ٹویٹس کچھ دیر کے لیے نہ دیکھوں تو مضطرب ہو جاتی ہوں کہ ان کے ساتھ کوئی مسئلہ نہ ہوگیا ہو۔ ”فاطمہ عبدالوہاب نے چند سال پہلے فیس بک کا استعمال شروع کیا تھا لیکن اب اس نے اپنی دلچسپی کا مرکز ٹوئٹر کو بنا لیا ہے۔ وہ سمجھتی ہے کہ اس کے ذریعے وہ جذبات کا بہتر اظہار کر سکتی ہے۔ٹوئٹر کے ذریعے وہ شاعری اور عربی ادب اور ادیبوں کے بارے میں اپنی محبت کا اظہار بھی کر سکتی ہے۔ لیکن فاطمہ عبدالوہاب کا کہنا ہے ” ان دنوں ٹوئٹر خالصتا غزہ کے لوگوں کے لیے دعاوں تک محدود کر دیے ہیں، تاکہ اسرائیل کے ہاتھوں ان کی نسل کشی کو سامنے لایا جا سکے۔”ہر عمر اور طبقے کے سعودی شہری سوشل میڈیا پر غزہ کے حوالے سے اسی طرح کی سرگرمیاں عربی یا انگلش میں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کے ٹویٹس اہل غزہ کے لیے دعاوں، حوصلے اور ہمدردی کا باعث ہیں۔
ان ٹویٹس کے ذریعے اہل غزہ کے دکھوں، زخموں، بچوں پر ہونے والے مظالم کے احوال کے علاوہ ان موضوعات پر مبنی تصاویر عام طور پر ایک دوسرے کو ٹویٹ کی جاتی ہیں۔شروع میں ان ٹویٹس پر اسرائیل سے متعلق کارٹون وغیرہ آتے تھے لیکن اب جوں جوں غزہ میں ہلاکتیں بڑھ رہی ہیں۔ ان ٹویٹس میں ہلاکتوں اور تباہیوں کا ذکر زیادہ ملنے لگا ہے۔ایک بحث جو ان دنوں جاری ہے وہ یہ ہے کہ ” جنگ شروع کس نے کی ہے۔” کچھ کی رائے ہے کہ آغاز کی ذمہ داری اسرائیل پر عاید ہوتی ہے جو فلسطینیوں کے بارے میں سخت جارحانہ پالیسیاں رکھتا ہے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اس کا معمول ہے۔ جبکہ یہ رائے بھی موجود ہے کہ جنگ حماس نے شروع کی ہے۔ عبداللہ بن احمد نے اسی سال انجینئرنگ کالج سے گریجوایشن کی ہے کا کہنا ہے میں نہیں جانتا کون کیا کہتا ہے ، میں صرف اتنا جانتا ہوں یہ ایک انسانی مسئلہ ہے اور ایک فریق واضح طور پر اخلاقیات اور انسانی حقوق کی دھجیاں اڑا رہا ہے۔”
عبداللہ بن احمد نے اس معاملے میں اپنی بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ” ہمارے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے ہم اپنے بہن بھائیوں کے لیے اس مقدس مہینے کے دوران صرف دعائیں کر سکتے ہیں۔ ”ٹوئٹر پر کچھ سعودی شہریوں نے اسرائیلی حکام کو براہ راست بھی مخاطب کیا ہے اور ان کی توجہ فلسطینی بچوں، عورتوں اور دوسرے لوگوں پر ہونے والے مظالم کی جانب مبذول کرائی ہے۔سہائر الاحمدی نے کہا انہوں نے 2008 کی غزہ پر مسلط کی جانے والی جنگ کو دیکھا ہے اس کی خوفناکی کے باعث وہ کئی دن تک سو نہ سکی تھیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *