
ژوربا سے زارا تک کا سفر
انعام اللہ بھکروی
اس کا باپ ریلوے ملازم تھا۔ تنخواہ نہایت کم،جس سے گزارا کرنا بھی مشکل تھا۔ اپنے والد کی کمائی اور گھر کے حالات دیکھ کر اس نے بھی محنت مزدوری شروع کر دی۔ وہ کپڑوں کی دکان پر کبھی کام کرنے لگتا تو کبھی کسی فیکٹری میں۔ کہیں بھی اس کا دل نہ لگتا تھا۔ اس کے دل میں یہ بات گھر کر گئی تھی کہ وہ کپڑے کا اپنااسٹور کھولے گا۔ جس کے ذریعے وہ کپڑے کا کاروبار کر ے گا۔ مگر اس کے پاس دکان کھولنے کے لیے سرمایہ نہ تھا۔ اس نے اسی چیز کو اپنا ہدف بنایا اور مسلسل مزدوری کرتا رہا۔ اس دوران اس نے کئی کاروباری گر سیکھ لیے، تا کہ جب وہ اپنا کاروبار شروع کرے تو کوئی مشکل پیش نہ آئے
۔محدود آمدنی سے اپنے باپ اور گھر والوں کی مدد کرتا اور کچھ رقم بچا لیتا۔ اسی دوران اس نے شادی بھی کر لی۔ اب اپنے گھر کا بوجھ کاندھوں پر آپڑا تھا لیکن اس کی بیوی بھی اس کی طرح محنتی تھی۔ دونوں نے دن رات ایک کرکے محنت شروع کی۔ آخر کا ر انہوں نے 1975ء میں کپڑے کا ایک اسٹور کھول لیا۔
اسٹور کا نام زوربا (Zorba) رکھا۔ اتفاق سے اس علاقے میں اسی نام کا ایک اور اسٹور بھی تھا۔ اس کے مالک نے آ کر کہا کہ اس سے گاہکوں کو پریشانی ہوتی ہے۔ آپ اپنے اسٹور کا نام تبدیل کر لیں۔ انہوں نے جھگڑے کے بجائے اپنے اسٹور کا نام تبدیل کر کے زارا (ZARA) رکھ لیا۔ ان کا کام روز بروز ترقی کرتا گیا۔ دوران مزدوری اس نے کامیابی کے جتنے گُر سیکھے تھے، ان تمام کو اپنے کاروبار میں آزمانا شروع کیا۔ لوگ اس کے اسٹور کی طرف کھنچے چلے آ رہے تھے۔ ان کے کامیاب کاروبار کی بڑی وجہ کم قیمت پر کپڑے فراہم کرنا تھا۔ ہر طبقے سے تعلق رکھنے والا شخص ان کے اسٹور پر آ کر اپنی ضرورت کا لباس، کپڑا خرید سکتا تھا۔اسپین کے شہر لاکورونا LaCoruna کے ایک قصبے Dwpntownکی ایک گلی سے شروع ہونے والا کاروبار پورے اسپین میں پھیلنے لگا۔ وہ کاروبار میں ترقی و کامیابی کو دیکھ کر کام میں مزید بہتری لے آئے اور پوری دنیا میں اسے پھیلانے کا عزم کر لیا۔
1975ء سے شروع ہونے والا کاروبار اسپین سے ہوتا ہوا 1980ء میں بیرون ممالک تک دراز ہو گیا۔ انہوں نے اپنے اسٹورز بڑھانے شروع کر دیے تھے۔ 1989ء میں امریکا میں جا بجا زارا (ZARA)اسٹور نظر آنے لگے۔ وہاں بھی اس نے خاصی مقبولیت حاصل کی۔ 1990ء میں فرانس نے بھی اپنے ملک میں اس کاروبار کی اجازت دے دی۔ یہاں بھی توقعات سے بڑھ کر انہیں کامیابی ملی۔ 1992ء تک یونان، بیلجیم اور سویڈن سمیت میں 73ممالک میں اس کے اسٹورز پھیل چکے تھے۔
ZARAکی داغ بیل ڈالنے والا شخص، امریکی بزنس میگزین فوربس کے مطابق دنیا کا تیسرا امیر ترین شخص امان سیو اور ٹیگا(Amancio Ortega) ہے اور اس کی بیوی جو اس کے کاروبار میں معاون و مددگار تھی، اس کا نام روسالیو میرا (Rosalio Mera)تھا۔ کسی وقت اس کے خاوند نے اسے طلاق دے دی تھی۔ جب اس نے وفات پائی تو یہ بھی دنیا کی امیر ترین خاتون تھی۔
ایک ریلوے ملازم کا بیٹا جو مزدوری کر کے، در در کی ٹھوکریں کھا کر دنیا کا تیسرا امیر ترین شخص بن گیا۔ وہ کون سی خصوصیات، خوبیاں اور کامیاب کاروباری راز تھے جن کی بنا پر اس نے غیر ممکن چیز کو ممکن بنا دیا۔ آئیے! اس کا جائزہ لیتے ہیں:
1 کاروبار کے تمام پہلوؤں پر ان کا اپنا کنٹرول تھا، خود ہی ملبوسات کو ڈیزائن کرنا، خود ہی پروڈکٹ تیار کرنا اور پھر اسے تقسیم (Distribute)بھی کرنا۔
2 دوسری چیز باہمی تعاون ہے۔ تمام اسٹورز کا تعلق ہیڈ کوارٹر سے ہے۔ چاہے وہ اسٹورز کسی بھی ملک میں ہوں۔
3 فیکٹری سے لے کر شاپ فلور تک کے تمام طریق کار (Process)کو کنٹرول کیا ہوا ہے۔ زارا (ZARA)بہت جلد اور تیز فیشن کے (trends) رجحان کو تبدیل کرتا ہے۔
4 اپنے کام میں نیا پن پیدا کرنا ان کی اولین ترجیح ہے۔
5 دکانوں پر کپڑا بھیجنے سے پہلے خود ہی اس ڈیزائن، انتخاب اور کٹنگ وغیرہ کا کام کرنا، پھر اسے سپلائی کرنا۔
6 ہر ہفتے مال(Stock) کو تبدیل کرنا اور اسے ترتیب دینا۔
7 اپنے گاہکوں کی رائے اور تجویز لینا اور اس پر غور و خوض کرنا۔
8 تمام اسٹورز کے منیجرز روزانہ (Daily)اپنیProgress کی رپورٹ دیتے ہیں۔ جس میں گاہکوں کا رجحان اور طلب بھی لکھتے ہیں۔ اس کے مطابق کمپنی میں بیٹھے ڈیزائنرز کام کرتے ہیں۔
9 اشتہار (advertising)پر سرمایہ نہیں لگاتے۔ دوسری جتنی بھی کمپنیاں ہیں اپنا نام اور مقام بنانے کے لیے اشتہاری مہم چلاتی ہیں، لیکن یہ ایسا نہیں کرتے۔
10 اشتہاروں پر مال لگانے کے بجائے چیز معیاری اور سستی فراہم کرتے ہیں۔ جس سے ان کی مقبولیت میں خاطر خواہ اضافہ ہو رہا ہے۔