كاغذی روپیوں كا انجام خطرناك هے
كاغذی نوٹ اب اپنی قیمت كھوتے جا رهے هیں ،سونے اور چاندی كے سكوں كی جگه آخر ان نوٹوں نے كیسے لے لی پیش هے تجزیاتی رپورٹ

زر یا سکہ یا کرنسی سے مراد ایسی چیز ہوتی ہے جس کے بدلے دوسری چیزیں خریدی یا بیچی جا سکیں۔ اور اگر یہ چیز کاغذ کی بنی ہو تو یہ کاغذی کرنسی، کاغذی سکہ یا زر کاغذ کہلاتی ہے۔ ماضی میں کرنسی مختلف دھاتوں کی بنی ہوتی تھی اور اب بھی چھوٹی مالیت کے سکے دھاتوں سے ہی بنائے جاتے ہیں۔
“ریزرو بینك آف انڈیا مركزی حكومت كی توثیق سے ایک ہزار روپیہ حامل ٰہذا کو مطالبے پر ادا کرنے كا یقین دلاتا هے”۔هندوستان کے ہزار روپیہ کے بینك نوٹ پر لکھے اس ادائیگی کے وعدے کا مطلب کیا ہے؟ بڑے نوٹ کے بدلے چھوٹے چھوٹے نوٹ تو كوئی بھی دوکاندار دے سکتا ہے پھر اس کے لیےسرکاری بینك کی ہی کیا ضرورت ہے؟
ساڑھے تین سال کی مدت میں 5600 میل کا سفر کر کے جب مئی 1275 میں مارکو پولو پہلی دفعہ چین پہنچا تو چار چیزیں دیکھ کر بہت حیران ہوا۔ یہ چیزیں تھیں جلنے والا پتھر( کوئلہ)، نہ جلنے والے کپڑے کا دسترخوان (ایسبسٹوس) ،کاغذی کرنسی اور شاہی ڈاک کا نظام .مارکو پولو لکھتا ہے “آپ کہہ سکتے ہیں کہ ( قبلائی خان( کو کیمیا گری ( یعنی سونا بنانے کے فن ) میں مہارت حاصل تھی۔ بغیر کسی خرچ کے خان ہر سال یہ دولت اتنی بڑی مقدار میں بنا لیتا تھا جو دنیا کے سارے خزانوں کے برابر ہوتی تھی۔لیکن چین سے بھی پہلے کاغذی سکہ جاپان میں استعمال ہوا ۔ جاپان میں یہ کاغذی کرنسی کسی بینک یا بادشاہ نے نہیں بلکہ پگوڈا نے جاری کی تھی۔کاغذی سکّہ موجودہ دنیا کا سب سے بڑا دھوکہ ہے۔ جولائی 2006 کے ایک میگزین وسہل بلور کے ایک مضمون کا عنوان ہے کہ ڈالر جاری کرنے والا ادارہ “فیڈرل ریزرو اس صدی کا سب سے بڑا فراڈ ہے۔مشہور برطانوی ماہر معاشیات جان کینز نے کہا تھا کہ مسلسل نوٹ چھاپ کر حکومت نہایت خاموشی اور رازداری سے اپنے عوام کی دولت کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کر لیتی ہے۔ یہ طریقہ اکثریت کو غریب بنا دیتا ہے مگر چند لوگ امیر ہو جاتے ہیں۔1927 میں بینک آف انگلینڈ کے گورنر جوسیہ ا سٹیمپ ( جو انگلینڈ کا دوسرا امیر ترین فرد تھا ) نے کہا تھا کہ”جدید بینکنگ نظام بغیر کسی خرچ کے رقم (کرنسی) بناتا ہے۔ یہ غالباً آج تک بنائی گئی سب سے بڑی شعبدہ بازی ہے۔ بینک مالکان پوری دنیا کے مالک ہیں۔ اگر یہ دنیا ان سے چھن بھی جائے لیکن ان کے پاس کرنسی بنانے کا اختیار باقی رہے تو وہ ایک جنبش قلم سے اتنی کرنسی بنا لیں گے کہ دوبارہ دنیا خرید لیں۔اگر تم چاہتے ہو کہ بینک مالکان کی غلامی کرتے رہو اور اپنی غلامی کی قیمت بھی ادا کرتے رہو تو بینک مالکان کو کرنسی بنانے دو اور قرضے کنٹرول کرنے دو۔ بنجمن ڈی اسرائیلی (جو انگلستان کا واحد یہودی وزیر اعظم تھا) نے کہا تھا کہ یہ بڑی اچھی بات ہے کہ ملک کےعوام بینکنگ اور مالیاتی سسٹم کےبارے میں کچھ نہیں جانتے کیونکہ اگر وہ یہ سب کچھ جانتے تو مجھے یقین ہے کہ کل صبح سے پہلے بغاوت ہو جاتی۔Mayer Amschel Rothschild نے 1838 میں کہا تھا کہ مجھے کسی ملک کی کرنسی کنٹرول کرنے دو۔ پھر مجھے پرواہ نہیں کہ قانون کون بناتا ہے۔

بہت ساری مختلف اشیا رقم یا کرنسی کے طور پر استعمال ہوتی رہی ہیں جن میں مختلف طرح کی سیپیاں، چاول، نمک، مصالحے، خوبصورت پتھر، اوزار، گھریلو جانور اور انسان (غلام) شامل ہیں۔ حضرت عیسیٰ کی پیدائش کے زمانے تک چین میں چاقو کرنسی کی حیثیت رکھتا تھا۔افریقہ میں ہاتھی کے دانت کرنسی کا درجہ رکھتے تھے۔پہلی جنگ عظیم تک نمک اور بندوق کے کارتوس امریکہ اور افریقہ کے بعض حصوں میں کرنسی کے طور پر استعمال ہوتے رہے۔دوسری جنگ عظیم کے فوراً بعد آسٹریا میں فلیٹ کا ماہانہ کرایا سگریٹ کے دو پیکٹ تھا۔جزائر فجی میں انیسویں صدی تک سپرم وھیل کے دانت بطور کرنسی استعمال ہوتے تھے۔ ایک دانت کے بدلے ایک کشتی خریدی جا سكتی تھی یا خون بہا ادا کیا جا سکتا تھا۔تاریخ بتاتی ہے کہ سونا بادشاہوں کی کرنسی رہا ہے۔چاندی امرا اور شرفا کی کرنسی ہوا کرتی تھی۔چیز کے بدلے چیز کا نظام یعنی بارٹر سسٹم کسانوں اور مزدوروں کی کرنسی تھا اورقرض غلاموں کی کرنسی ہوا کرتا تھا۔دراصل سونے چاندی یا دوسری دھاتوں کے ذریعہ کی جانے والی لین دین بارٹر نظام ہی کی ایک شکل ہوتی ہے جس میں ادائیگی مکمل ہو جاتی ہے۔ کاغذی سکے سے کی جانے والی ادائیگی درحقیقت ادائیگی نہیں بلکہ محض آیندہ ادائیگی کا وعدہ ہوتی ہے جو کبھی پورا نہیں ہوتا۔ یعنی کاغذی کرنسی میں ادائیگی صرف قرض ادا کرنے کے وعدے تک محدود ہوتی ہے۔
سکّوں کی تاریخ
آٹھویں صدی عیسوی سے قبل جاپان میں تیر کے سر، چاول اور سونے کا چورا رقم کے طور پر استعمال ہوتے تھے۔
600 سال قبل از مسیح استعمال ہونے والے سکے
. 300 سال قبل از مسیح کا سکندر اعظم کا سونے کا سکہ
قدیم روم میں استعمال ہونے والا چاندی کا سکہ جو دیناریس کہلاتا تھا
سن 1540-1545 میں شیر شاہ سوری کا جاری کردہ سب سے پہلا روپیہ جو تقریباً ایک تولے چاندی کا بنا ہوا تھا اور تانبے کے بنے 40 پیسوں کے برابر تھا
1565-1575شہنشاہ اکبر کا جاری کردہ روپیہ جو ایک تولہ چاندی کا بنا ہوا تھا
1739چاندی کا بنا ہسپانوی ڈالر
فرانسیسی ایسٹ انڈیا کمپنی نے محمد شاہ رنگیلے (1719-1748) کے نام پر چاندی کا روپیہ جاری کیا تا کہ شمالی ہندوستان میں تجارت کر سکیں۔ یہ پانڈے چری میں ڈھالہ جاتا تھا۔ہیروڈوٹس کے مطابق ترکی کے صوبے مانیسہ کے ایک علاقے لیڈیا میں سونے اور چاندی پر مہر لگا کر سکے بنانے کا کام 600 صدی قبل از مسیح شروع کیا گیا تھا۔
تاریخی حقائق
• قدیم چین کے سکے گول ہوتے تھے جن میں چوکور سراخ ہوتا تھا جس کی مدد سے یہ ڈوری میں پروئے جا سکتے تھے۔ ڈالر بھی کسی زمانے میں چاندی کا سکہ ہوا کرتا تھا۔ اسی طرح برطانوی پائونڈ سے مراد ایک پاونڈ وزن کی چاندی ہوا کرتی تھی۔اٹھارهویں صدی میں اسپینی ڈالر یورپ امریکہ اور مشرق بعید میں تجارت کے لیئے بہت استعمال ہوتا تھا۔ یہ چاندی کا سکہ تھا جس میں 25.56 گرام خالص چاندی ہوتی تھی۔ اسی کی طرز پر بعد میں امریکی ڈالر بنایا گیا تھا۔پہلا امریکی ڈالر 1794 میں بنایا گیا جس میں% 89.25 چاندی اور 10%.75 تانبہ ہوتا تھا۔امریکہ کے 1792 کے سکوں سے متعلق قانون کے مطابق ایک امریکی ڈالر کے سکے میں 24.1 گرام خالص چاندی ہوتی تھی۔ 1792 سے 1873 تک سونا چاندی سے 15 گنا مہنگا ہوتا تھا۔ جیسے جیسے چاندی کی نئی کانیں دریافت ہوتی چلی گئیں چاندی کی قیمت گرتی چلی گئی۔ اب سونا چاندی سے 50 گنا سے زیادہ مہنگا ہے۔سن 1900 میں امریکہ میں گولڈ اسٹینڈرڈ ایکٹ پاس ہوا جس پر صدر ولیم میک کنلے کے دستخط تھے۔ اس قانون کے تحت صرف سونا کرنسی قرار پایا اور چاندی سے سونے کا تبادلہ روک دیا گیا کیونکہ چاندی کی قیمتیں گر رہی تھیں اور چاندی کی دستیابی بڑھنے کی وجہ سے بڑے بنکوں کی اس پر اجارہ داری برقرار رکھنا مشکل ہوتا جا رہا تھا۔ اس قانون کے مطابق 20.67 ڈالر ایک ٹرائے اونس (31.1 گرام) سونے کے برابر قرار پائے۔ 25 اپریل 1933 کو امریکہ اور کینیڈا نے معیار سونا ترک کر دیا کیونکہ اس سال امریکہ میں عوام پہ سونا رکھنے پر پابندی لگا دی گئی تھی۔پہلے سکے اپنی اصل مالیت کے ہوا کرتے تھے یعنی ان میں جتنے کی دھات ہوتی تھی اتنی ہی قدر ان پر لکھی ہوتی تھی۔ لیکن رفتہ رفتہ سکے جاری کرنے والی حکومتیں کم قیمت کی دھات پر زیادہ قدر لکھنے لگیں۔ آجکل سکوں پر لکھی ہوئی قدر ان کی اصل قیمت سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔اگر کسی وجہ سے سکوں پر لکھی ہوئی رقم دھات کی مالیت سے کم ہو جائے تو لوگ سکے پگھلا کر استعمال کی دوسری دھاتی چیزیں بنا لیتے ہیں۔
سکّے
چاندی کا بنا پہلا امریکی ڈالر۔ اس میں دو تولے سے تھوڑی زیادہ خالص چاندی ہوتی تھی
1841 میں ایسٹ انڈیا کمپنی کا جاری کردہ گولڈ مہر۔ اس پر فارسی میں ایک اشرفی لکھا ہے۔ پہلا سونے کا مہر سکہ شیر شاہ سوری نے جاری کیا تھا جسکا وزن 10.95 گرام تھا اور یہ چاندی کے 15 روپے کے برابر تھا۔
ملکہ وکٹوریہ کی تصویر والا برطانوی عہد کا ہندوستانی چاندی کا روپیہ۔ 1862
1915 half sovereign: reverse آدھے پاونڈ یعنی 10 شلنگ کا برطانیہ کا سکّہ جس میں 3.6575 گرام خالص سونا ہوتا تھا۔ یہ 1817 سے 1937 تک کئی ملکوں میں استعمال ہوتا رہا۔
ایسٹ انڈیا کمپنی کا جاری کردہ ایک روپیہ کا سکہ، 1835،پچھلا رخ۔
ریاست بہاولپور (جو اب پاکستان کا حصہ ہے) کا سونے سے بنا ایک روپیہ جس پر صادق محمد خان (1907-1947) کا نام درج ہے۔ ریاست بہاولپور میں چاندی کا روپیہ بھی استعمال ہوتا تھا۔
1918 کا بنا ہوا برطانوی عہد کا ہندوستانی روپیہ۔ یہ ایک تولے چاندی کا بنا ہوا تھا۔
1918 کا بنا ہوا برطانوی عہد کا ہندوستانی روپیہ۔ پچھلا رخ۔
پاکستان کا پہلا دھاتی روپیہ۔ یہ اگرچہ چاندی کا روپیہ کہلاتا تھا مگر یہ نکل کا بنا ہوا تھا اور مقناطیس پر چپکتا تھا۔ اسی روپیہ کی ادائیگی کا جھوٹا وعدہ آج بھی پاکستان کی کاغذی کرنسی پر لکھا ہوتا ہے اور اس وعدے کو کبھی پورا نہیں ہونا۔
پاکستان کا پہلا دھاتی روپیہ۔ پچھلا رخ
ہزاروں سال پہلے جو رقم کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ مگر ایسی چیزوں کو رقم کے طور پر استعمال کرنے میں یہ خرابی تھی کہ انہیں عرصے تک محفوظ نہیں رکھا جا سکتا تھا اس لیئے دھاتوں کا رقم کے طور پر استعمال شروع ہوا جو لمبے عرصے تک محفوظ رکھی جا سکتی تھیں۔ سونے میں یہ خوبی ہوتی ہے کہ یہ موسمی حالات سے خراب نہیں ہوتا ( جیسے زنگ لگنا ) اور یہ کمیاب بھی ہے۔ اسی وجہ سے دنیا بھر میں اسے دولت کو ذخیرہ کرنے کے لیئے چنا گیا۔کرنسی بننے کے لیئے ایسی چیز موزوں ہوتی ہے جو پائیدار ہو، کمیاب ہو، اور ضخیم نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلی کچھ صدیوں میں سونے چاندی تانبے کانسی وغیرہ کے سکے استعمال ہوتے رہے۔ دھاتوں کی اپنی قیمت ہوتی ہے اور ایسے سکے کو پگھلا کر دھات دوبارہ حاصل کی جا سکتی ہے۔ ایسے سکے کسی حکومتی یا ادارتی سرپرستی کے محتاج نہیں ہوتے اور یہ زرِ کثیف یعنی ہارڈ کرنسی کہلاتے ہیں۔ اس کے برعکس کاغذی کرنسی کی اپنی کوئی قیمت نہیں ہوتی بلکہ یہ حکومتی سرپرستی کی وجہ سے وہ قدر رکھتی ہے جو اس پر لکھی ہوتی ہے۔ یہ زرِ فرمان یعنی fiat کرنسی کہلاتی ہے اور جیسے ہی حکومتی سرپرستی ختم ہوتی ہے یہ کاغذ کے ڈھیر میں تبدیل ہو جاتی ہے۔بنگلہ دیش کے قیام کے وقت وہاں پاکستانی کرنسی رائج تھی جو اپنی قدر کھو چکی تھی۔ اسی طرح صدام حسین کے ہاتھوں سقوط کوِیت کے بعد کویتی دینار کی قدر آسمان سے زمین پر آ گئی تھی۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہر کاغذی کرنسی کے پیچھے ایک فوجی طاقت کتنی ضروری ہے۔
• آج بھی هندوستان کا کاغذی روپیہ نیپال اور بھوٹان میں چلتا ہے کیونکہ نیپال اور بھوٹان کے مقابلے میں هندوستان کہیں زیادہ بڑا اور مستحکم ملک ہے اور اس وجہ سے اسکی کرنسی زیادہ اعتبار رکھتی ہے۔ مضبوط فوجی طاقت کاغذی کرنسی کو بھی مستحکم کرتی ہے۔ نیپال اور بھوٹان کی کرنسی هندوستان میں نہیں چلتی۔
• 1791 سے 1857 تک اسپین کا سکہ متحدہ امریکہ میں قانونی سکے کے طور پر چلتا تھا کیونکہ یہ چاندی کا بنا ہوا تھا اور اپنی قدر خود رکھتا تھا۔
• 1959 تک دبئی اور قطر کی سرکاری کرنسی ہندوستانی روپیہ تھی جو چاندی کا ہوا کرتا تھا۔