
آرتھر ای اینڈرسن کی کہانی
اینڈرسن کے والدین حالات کے ستائے اپنے ملک ناروے اور رشتے داروں کو چھوڑ کر امریکا میں آ بسے۔ امیدوں کے دیے جلائے جب یہاں پہنچے، تو ان کی توقعات کے چراغ گل ہوگئے۔ یہاں کا ذرہ ذرہ ان کے لیے اجنبی تھا۔ یہاں کے درو دیوار ان کے لیے بے گانے تھے۔ وہاں تو اپنوں سے شکوہ تھا، یہاں تو کسی سے شکایت بھی نہیں کرسکتے تھے۔ وہاں روزگار نہیں ملتا تھا تو یہاں بھی گھر بیٹھے جھولی میں نہیں آ گرنے لگا تھا۔ اگر وہاں سارا دن پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے مارا مارا پھرنا پڑتا تھا تو یہاں آکر بھی صبح سے لے کر شام تک کام کرنا پڑتا تھا۔ سارا دن محنت مزدوری کیا کرتے تھے۔
اس طرح ان کی زندگی کے شب و روز گزررہے تھے۔ 1881ء میں امریکا آئے۔ چار سال کے دکھ و الم جھیلنے کے بعد 30مئی 1885ء کی صبح ان کے لیے خوشی کی نوید لائی، جب ان کو اللہ تعالی نے ان کی آنکھوں کا تارا اینڈرسن عطا کیا۔ دونوں میاں بیوی اسے دیکھ دیکھ کر خوشی سے نہال ہو جاتے۔ اینڈرسن 16سال کا تھا، جب اس کے سر سے شفقت پدری کا سایہ اٹھ گیا۔ اس کے لیے یہ بہت بڑا دھچکا تھا، کیونکہ یہ اپنی تعلیم جاری رکھنے میں پہلے ہی سے مشکلات کا سامنا کر رہا تھا۔ اس سے بڑے سانحے نے اسے پاگل اور دیوانہ بنا دیا، جب اس کی ماں بھی داغِ مفارقت دے گئی۔
اینڈرسن کو اپنی تعلیم چند عرصے کے لیے موقوف کرنی پڑی، کیونکہ اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کی نگہداشت کا بوجھ اس پر آپڑا تھا۔ اب اس بار کو نبھانے کے لیے ان کی دیکھ بھال کرنے لگا۔ یہی ان کے لیے باپ بھی تھا اور ماں بھی۔ یہاں اس کے چچا وغیرہ بھی نہیں تھے، جو ان کی کفالت کرتے۔ اینڈرسن کو بھی اچھی طرح معلوم تھا کہ ان کا اپنا کوئی ایسا نہیں، جو ان کی ضروریات کا خیال رکھ سکے۔ اس نے کسی کی طرف امداد طلب نظر دیکھنے کے بجائے روزگار کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔ کچھ عرصہ در در کی خاک چھاننے کے بعد ایک پوسٹ آفس میں ڈاکیے کی ملازمت مل گئی۔ صبح سویرے بیدار ہوتا، چھوٹے بہن بھائیوں کے لیے ناشتہ تیار کرتا، جب وہ ناشتے سے فارغ ہو جاتے، انہیں اسکول چھوڑ کر خود ڈاک خانے چلا جاتا۔ محنت اور دل جمعی سے کام کرتا۔ اسی خوبی نے اسے ہر دل عزیز بنا دیا۔ اپنے کام سے واپسی پر گھریلو ذمہ داریوں سے عہدہ بر آ ہو کر شام کو خود اسکول پڑھنے چلا جاتا۔ اس طرح اس کی زندگی کے ایام بیتتے رہے۔ چھوٹے بہن بھائیوں کی خدمت اس کے لیے ثمر آور اور قدرت مہربان ہوئی کہ حیران کن طور پر اسے شکاگو میں Allis-Chalmers کے کنٹرولر کا اسسٹنٹ بنا لیا گیا۔
یہاں رہتے ہوئے اس نے اپنی ماں کی ایک نصیحت ’’مثبت سوچیے اور مثبت بولیے‘‘ کو خوب یاد رکھا۔ اپنے کام سے کام رکھتا۔ کسی کو شکایت کا موقع نہ دیتا، بلکہ اپنے ساتھیوں کے کام میں بھی تعاون کرتا۔ ہر ملازم اسے اپنا خیر خواہ اور دوست گردانتا۔ اس سے لوگ مشورہ بھی لیتے۔ اس نے بھی ہمیشہ کسی لالچ اور خود غرضی کے بغیر ہی انہیں ہمدردانہ رائے دیتا۔ مشورہ لینے والوں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا۔ ابتدا میں یہ پریشان ہونے لگتا، لیکن جب اسے معلوم ہوا کہ لوگ اس کی تجویز پر عمل کر کے پریشانیوں اور ناکامیوں سے چھٹکارا پاتے ہیں، اسے بھی خوشی ہوئی۔ یہاں سے اسے آئیڈیا ملا کہ کنسلٹنسی کا بزنس شروع کیا جائے۔ شکاگو میں اسسٹنٹ کی حیثیت سے کام کرتے ہوئے کم عمر سند یافتہ پبلک اکاؤنٹنٹ بننے کا اعزاز حاصل کیا۔
1913ء میں اینڈرسن نے ایک پارٹنر کے ساتھ مل کر ایک فرم خریدی۔ اس فرم نے 1918ء میں آرتھر اینڈرسن اینڈ کمپنی کی صورت اختیار کرلی۔ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ اس نے دوران ملازمت اپنی تعلیم جاری رکھی۔ 1917ء میں اینڈرسن نے بزنس میں گریجویشن کی ڈگری بھی حاصل کر لی۔ اپنا بزنس ہونے کے باوجود علم کی پیاس بجھ نہیں پارہی تھی۔ اس نے اکاؤنٹنگ میں رسوخ لانے کے لیے ایک کالج میں بطور لیکچرر پڑھانے لگا۔ وہی خوبی اپنے کام سے کام رکھنا، اس کے لیے ترقی کی راہیں ہموار کرتی رہی۔ تین سال کے بعد اسسٹنٹ پروفیسر بن گیا۔ تین سال اسی عہدے پر رہ کر جان کھپائی۔ اس کا صلہ جلد ہی پروفیسر ی کی شکل میں ملا۔ سات سال کے عرصے تک اپنی صلاحیتوں کو نکھارتا رہا۔ اپنے تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں سیکھنے والوں کی علمی پیاس بجھاتا رہا۔ اسی دوران ایک اکاؤنٹنگ ڈپارٹمنٹ میں سربراہ کے طور پر خدمات سر انجام دیتا رہا۔ 1922ء میں اینڈرسن نے دوسری تمام مصروفیات کو چھوڑ کر اپنا پورا وقت پروفیشنل اکاؤنٹنگ پریکٹس کے لیے وقف کر دیا۔ اس فن میں مہارت اور مقبولیت عام کی وجہ سے 1938ء میں اسے اعزازی ڈاکٹریٹ کی ڈگری Luther College کی طرف سے ملی۔ اس کے علاوہ دوسری یونیورسٹیوں سے بھی مختلف ایوارڈ سے نوازا گیا۔
اینڈرسن نے اپنی فرم کو دنیابھر میں شہرت اور مقبولیت عطا کی۔ اس نے اپنے ملازمین سے یہ کہہ رکھا تھا کہ ہمیں دولت کے بجائے دوسروں کی خدمت کو ترجیح دینی چاہیے۔ یہی چیز ہمارے لیے مال و دولت کے ساتھ ساتھ عزت کا باعث بنے گی۔ اس کی فرم آگے چل کر Consultancy (مشاورت) اور اکاؤنٹنگ میں ہی مشہور ہوئی۔ انہی دو شعبوں میں ترقی بھی کی۔ 1947ء میں اینڈرسن کی جب وفات ہوئی ، تو دنیا میں سب سے بڑی اکاؤنٹنگ فرم انہی کی تھی۔ ان کا لگایا ہوا پودا مستقبل میں خوب پھلا اور پھولا۔ 1989ء میں اینڈرسن کمپنی Accenture میں تبدیل ہوگئی۔ اس کی شاخیں 56ممالک کے 200 شہروں میں پھیلی ہوئی ہیں۔ اس کے ملازمین کی تعداد 2 لاکھ 75 ہزار سے زائد ہے۔
ہمیں اس اینڈرسن سے عبرت اور نصیحت حاصل کرنی چاہیے کہ ایک ایسا لڑکا جو یتیم ہوجاتا ہے، اسے چھوٹے بہن بھائیوں کا بوجھ پر برداشت کرنا پڑتا ہے۔کام کے ساتھ ساتھ تعلیم بھی جاری رکھتا ہے۔ پھر ایک ایسا وقت آتا ہے کہ وہ دوسروں کو تعلیم دیتا ہوا نظر آتا ہے، اور دنیا بھر سے 2 لاکھ 75 ہزار سے زائدلوگوں کے روزگار کا ذریعہ بنتا ہے۔ ہمیں تعلیم کے ساتھ چھوٹا موٹا بزنس کرنا چاہیے تاکہ ہم اپنے ماں باپ پر بوجھ نہ بنیںاور کاروبار کے ساتھ ساتھ تعلیم بھی حاصل کرنی چاہیے، تاکہ ہم اپنے ملک و ملت کی خدمت اور اس کی تعمیر و ترقی میں قابل فخر اور بہترین کردار ادا کر سکیں۔