
عالمی معاشی بحران اور اسلامی معاشیات
تحریر :پروفیسرخورشیداحمد
(اب ایک بار پھر کساد بازاری کی باتیں زبان زد عام ہونے لگی ہیں۔معاشی بحران کا خدشہ سر چڑھ کر بول رہا ہے۔معاشی پنڈٹ بھی اس بات سے پریشان ہیں کہ آخر دنیا کو کس طرح معاشی مندی سے بچایا جائے،ذیل میں پروفیسر خورشیداحمد صاحب کا وہ تجزیہ ہے جو حالات کو سمجھنے میں معین و مددگار ثابت ہوگا،افادہ عام کے لئے اسے نذر قارئین کیا جارہا ہے۔’’ادارہ معیشت‘‘)
[جہاں سود کا خاتمہ اور زکواۃ کی بنیاد پر ایک اجتماعی فلاحی نظام کا قیام اسلامی معیشت کا بنیادی ستون ہے، وہیں یہ سمجھنا بھی قطعاً غلط ہوگا کہ پوری اسلامی معیشت ان دو چیزوں کے اندر سمٹ گئی ہے۔ اسلامی معیشت دراصل سوچنے کاایک نیا انداز ہے، سارے معاشی امور کو نئے پہلو سے دیکھنے کا ایک طریقہ ہے، معاشی مسئلے کی ایک مختلف تعبیراور اس کی نئی تعریف (definition ) ہے۔]
( علماء اور مفتی حضرات کے لیے ۲ جولائی ۲۰۱۲ء کو منعقدہ ایک تربیتی پروگرام سے خطاب پر مبنی تحریر)
میری آج کی گفتگو کا محور تین اُمور ہیں: ایک موجودہ معاشی عالمی بحران، دوسرا اسلامی معیشت اور اُس کا کردار، اور تیسرا اس پس منظر میں علمائے کرام کی ذمہ داری۔
موضوع بہت وسیع ہے، میں صرف ضروری اشارات ہی کرسکوں گا، اسلامک ڈویلپمنٹ بنک جدہ میں جو Annual Prize Lecture ہوتا ہے، اپریل ۲۰۱۲ء میں مجھے یہ خطاب کرنے کی سعادت حاصل ہوئی، اور اُس میں میں نے تقریباً اسی موضوع کو لیا، میں اُس کے بنیادی نکات آپ کے سامنے آج کی اس محفل میں چاہتا ہوں کہ پیش کروں۔
عالمی معاشی بحران
یہ بڑی عجیب بات ہے کہ ابھی چند روز پہلے ہی ایک اور بھونچال مغرب کی مالیاتی دنیا میں آیا ہے، اور ایک بہت بڑے بنک–برکلے بنک–کے بہت ہی تکلیف دہ اسکنڈلز (scandals) سامنے آئے ہیں، جس سے معلوم ہوا کہ بنکوں کے بارے میں یہ تاثر کہ وہ بڑے قانون اور ضابطے کے پابند اور اپنی روایات کے مطابق کام کرتے ہیں،درست نہیں ہے۔ بلکہ اس سطح پر بھی کرپشن، گٹھ جوڑ، ہوس، ذاتی منافع اور ہیر پھیر (under hand)، ان سب کا رواج ہے۔ اور بنک آف انگلینڈ کے گورنر نے پرسوں ہی ایک بہت اہم تقریر کی ہے، جس میں اُس نے یہ کہا ہے کہ ہمارا بنکاری نظام پانچ سال سے شدید بحران کا شکار ہے، لیکن ہم نے اس سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔یعنی ۲۰۰۷ء سے یہ بحران شروع ہوا ہے۔ اُس نے یہ بھی کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہمیں اپنے پورے بنکاری طور طریقوں (banking culture)کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر ہم بحران سے نہیں نکل سکتے۔ اور پھر سب سے اہم نکتہ جو آخر میں اُس نے کہا ہے وہ یہ ہے کہ مسئلہ محض مالی اور معاشی نہیں ہے، بلکہ اخلاقی ہے، اور جب تک اخلاقی اصلاح کا کام نہ ہو، جب تک ان تمام معاملات کے لیے اخلاقی اصول اور ضابطے بنانے اور اُن کو متحرک اور مؤثر کرنے کا کام نہ کیا جائے اُس وقت تک اس دلدل سے نکلنا ممکن نہیں۔ یہ وہ چیز ہے جو اس وقت مغرب کی سوچ کو سمجھنے والے اہلِ دانش کہنے پر مجبور ہورہے ہیں۔ بلاشبہ ہمیشہ کچھ لوگ ایسے رہے ہیں جنہوں نے اس بات کا اظہار کیا ہے۔ اور اسلامی مفکرین تو علامہ اقبال سے لے کر آج تک اپنے اپنے انداز میں اس نکتے کو پیش کرتے رہے ہیں۔ اسلامی معاشیات کے باب میں پچھلے چالیس سال میں جو بھی تھوڑی بہت خدمات ہم نے انجام دی ہیں، اس کا بھی ایک مرکزی نکتہ یہی تھا۔ لیکن آج صورتِ حال یہ ہے کہ وہ جو اس بات کے منکر تھے کہ اخلاق اور معیشت کا کوئی تعلق ہے، وہ بھی یہ کہنے پر مجبور ہورہے ہیں کہ اخلاق کے بغیر معیشت کی اصلاح ممکن نہیں ۔
وقت کی کمی کے باعث میں بے شمار حوالے اپنے پاس ہوتے ہوئے بھی اُن کو پیش کرنے کی زحمت نہیں کررہا ہوں۔ صرف آپ کو بتانا یہ چاہ رہا ہوں کہ پچھلے ایک سال میں اور خاص طور سے پچھلے تین مہینے میں ایک درجن سے زیادہ چوٹی کے معاشی لکھنے والوں نے کھل کر یہ بات کہی ہے کہ جو معاشیات ہم نے آج تک پڑھی اور پڑھائی ہے، اور جس پر بنیاد ہے ہمارے پورے نظام کی، اس کی چولیں ہل گئی ہیں۔ جن بنیادوں پر وہ قائم تھی وہ متزلزل ہیں، اور اس کی بہترین عکاسیLondon Economist نے اپنے ایک سرورق پر کی ہے، جس کا عنوان ہی یہ ہے کہ What is wrong with Economics?، اور جو تصویر انہوں نے دی ہے وہ ایک معاشیات کی کتاب ہے جو ٹکڑے ٹکڑے ہوکر گر رہی ہے۔ تو ایک نئی معیشت کی ضرورت، معاشی معاملات کو ایک نئے اپروچ کی ضرورت، یہ اس وقت ایک ایسی طلب ہے جو دنیا بھر میں پائی جاتی ہے۔ اور یہ بڑا سانحہ ہوگا کہ مسلمان، جن کے پاس اﷲ کی کتاب ہے اور اس کی بنیاد پر ایک دوسرے متبادل نظام کا پورا نقشہ موجود ہے، وہ اپنی کوتاہی یا بدعملی کی بناء پر دنیا کے سامنے اُس نظام کو پیش نہ کرسکیں۔
دیکھیے، جدید سرمایہ داری کا بظاہر تو آغاز۱۸ویں صدی کے وسط میں ہوا ہے۔ لیکن سرمایہ داری کی سوچ اس سے پہلے سے موجود ہے، وہ فکری میدان میں بھی، عملی میدان میں بھی ترقی کررہی تھی، لیکن صنعتی انقلاب نے ایک ایسی کیفیت پیدا کردی جس کی بناء پر معیشت کا یہ تصور اور معاشی نظام کا یہ خاکہ ایک غالب قوت کی حیثیت سے سامنے آیا۔ جس نے دنیا کے نقشے کو بدل ڈالا اور معاشی ترقی کے ایسے نئے تصورات کو جنم دیا جنہوں نے معاشی قوت کے توازن کو مغربی اقوام کی طرف منتقل کردیا۔ اُس وقت سے اب تک یہی نظام ایک غالب معاشی نظام رہا ہے۔ اندرونی طور پر اس میں بڑی تبدیلیاں آئی ہیں۔ اس کا آغاز صنعتی سرمایہ داری یعنی Industrial Capitalism سے ہوا تھا۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ معاشی وسائل کو نجی ملکیت اور نجی سرمایہ کاری اور سود اور بنکنگ کے ذریعے منظم اور مرتب کرکے پیداوار کو بڑھانے کا کام انجام دیا جائے۔ اور یہ سوچ کہ ہر چیز جس کسوٹی پر پرکھی جائے وہ یہ ہے کہ پیداوار بڑھے، جس چیز کی طلب ہو، اسے فراہم کیا جائے، بلالحاظ اِس کے کہ وہ طلب جائز ہو یا ناجائز ہو۔ اگر اُس طلب کو پورا کرنے کے لیے قوتِ خرید (purchasing power)موجود ہے تو اس کی رسد کے لیے یہ وجہ کافی ہے۔ اورطلب اور رسد کے یہ تمام فیصلے منڈی کے ذریعے سے انجام دیے جائیں۔ یہی ترقی کا مؤثر ترین راستہ ہے، اور یہی وہ صورت ہے جس میں سرمایہ دار باقی تمام وسائل کو اپنے نقشے کے مطابق استعمال کرکے بہترین معاشی نتائج پیدا کرسکتا ہے۔ اس طرح صنعتی سرمایہ داری(Industrial Capitalism )سے اس کاآغاز ہوا اور مالیات اُس کا ایک بڑا ہی اہم ستون اور ذریعہ تھا۔پھر آہستہ آہستہ بیسویں صدی میں ، اور خاص طور پر پچھلے پچاس برسوں میں یہ صنعتی سرمایہ داری نظام ایک مالیاتی سرمایہ داری نظام یا Financial Capitalism میں تبدیل ہوگیا۔آغاز میں مالیات کا کام یہ سمجھا جاتا تھا کہ وہ حقیقی معاشی قوتوں کو متحرک کرے۔ اُس کے ذریعے سے محنت بھی، مشینری بھی، ٹیکنالوجی بھی اور دوسرے وسائلِ پیداوار بھی استعمال میں لائے جاسکیں۔ لیکن آہستہ آہستہ مالیات کو ایسا غلبہ حاصل ہوگیا کہ محض قرضوں اور مالیات کا تبادلہ یعنی credit اور financesکا تبادلہ پورے معاشی نظام پر چھا گیا، بلالحاظ اس سے کہ ان سے پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے یا نہیں۔ اب عملاً صورت یہ ہے کہ جو معاشی پیداوار اورمادی وسائل(physical resources) ہیں، اُن کے مقابلے میں مالیاتی نظام پچاس گنا زیادہ ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ بنک اور سرمایہ کاری ادارے( investment houses)اور وہ لوگ جو مالیات کو اپنی گرفت میں رکھتے ہیں، وہ ہر چیز پرچھائے ہوئے ہیں۔ ایک طرف دولت میں اضافہ ہورہا ہے، لیکن دوسری طرف غربت ، بے روزگاری اور عدم مساوات میں اضافہ ہورہا ہے۔
آج دنیا کی آبادی سات ارب ہے، اس میں سے ۲ء ۱ ارب خط غربت سے نیچے زندگی گزاررہی ہے۔ اور یہ معاملہ صرف ترقی پذیر اور ایشیا اور افریقہ کے ممالک کا نہیں ہے بلکہ دنیا کے ہر حصے میں، حتیٰ کہ امیر ترین ممالک میں بھی غربت موجودہے۔ امریکہ میں اس وقت غربت ۱۵ فیصد سے بڑھ چکی ہے، بے روزگاری ۱۰ فیصد ہے۔ لیکن اگر آپ معاشی اُمور طور پر سفید اور سیاہ فام لوگوں میں مقابلہ کریں تو سیاہ فام لوگوں میں۲۸ فیصدی بے روزگار ہیں۔ اسی طرح عدمِ مساوات کا پہلو ہے کہ دنیا کی ایک فیصدی آبادی دولت کے۳۷ فیصدی پر قابض ہے۔ ۱۰ فیصدی ۸۰ فیصدی پر قابض ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ اس وقت دنیا میں عوامی سطح پر ایک تحریک چل رہی ہے جسےWall Street Occupationکہتے ہیں، یعنی Wall Street پر جو وہاں مالیاتی منڈی کا مرکز ہے، اُس پر قبضہ کرو۔ یعنی۹۹ فیصدی ایک فیصدی کے خلاف اُٹھ رہے ہیں۔ تو یہ ہے وہ کیفیت ۔
میں آپ کو بہت سے اعداد و شمار دینے کی کوشش نہیں کروں گا، صرف اصولی بات آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ وسائل کی فراوانی کے باوجود وسائل کا غلط استعمال، دولت کا ارتکاز اور احتکار، ایک طبقے کا غلبہ اور معیشت،سیاست، تہذیب و تمدن، میڈیا، ان سب پر اُن کا قابض ہوجانا، اور ان کی قوت میں برابر اضافہ، یہ ہے بنیادی مسئلہ۔
بگاڑ کے اسباب
اب میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ خواہ آپ علمِ معاشیات کودیکھیں یا معاشی نظام کو، جب اس کا تنقیدی جائزہ لیا جائے تو نظامِ سرمایہ داری اور موجودہ معاشی اور مالیاتی نظام کے بگاڑکے پانچ بنیادی اسباب ہیں۔ ان کو اچھی طرح سمجھ لیجیے اور اسی کے تقابل میں پھر ہم دیکھیں گے کہ اسلامی معاشیات اور اسلام کے سوچنے کا رویہ کیا ہے۔
اخلاقیات کا انکار: بگاڑ اور ناکامی کا پہلا سبب زندگی کی تقسیم ہے یعنی مذہبی اور غیر مذہبی، اخلاقی اور اخلاق سے عاری، دنیاوی اور اُخروی کی تقسیم۔ جس کے نتیجے کے طورپر، خواہ وہ علمِ معیشت ہو، خواہ وہ معاشی معاملات ہوں، خواہ وہ حکومت کی کارکردگی ہو، خواہ وہ معاشی پالیسیوں کا بنانا ہو، ان کی بنیاد یہ ہے کہ ہمارے سامنے صر ف مادی فلاح اور مادی فلاح کا پیمانہ بھی پیداوار کی اضافت، دولت میں اضافہ، بلالحاظ اس کے کہ اس کی تقسیم منصفانہ ہے یا نہیں، اور یہ سارا کام بس فراہمی اور طلب کے قوانین کے تحت ہونا چاہیے، اس کے لیے کوئی اخلاقی حدود، کوئی الہامی ہدایت، کوئی بالاتر ضابطہ، نہیں۔ یہ سب سے پہلی خرابی ہے۔
زندگی کی وحدت کو نظر انداز کرنا: دوسری خامی یہ ہے کہ انسانی زندگی کی وحدت کا تصور نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ دراصل انسانی زندگی مجموعہ ہے بے شمار پہلووں کا: روحانی، جسمانی، معاشی، معاشرتی، تعلیمی، سیاسی، قانونی، نفسیاتی۔ یہاں بھی specialization کے نام پر زندگی کی اس وحدت کو پارہ پارہ کردیا گیا ہے اور ہر علم نے کوشش کی ہے کہ زندگی کی پوری اکائی کو صرف اپنے محدود نقطہ نظر سے دیکھے، اُس کی تعبیر کرے اور اُس کو بدلنے کی کوشش کرے۔معاشیات میں بھی زندگی کے باقی تمام پہلو، خواہ اُن کا تعلق نفسیات سے ہو، اخلاقیات سے ہو جس کی بات تو ہم نے پہلے ہی کی ہے سیاست سے ہو، معاشرت سے ہو، ادارات سے ہو،نظر انداز کیے گئے تو اس کے نتیجے کے طور پر ایک غیر فطری نظام بنا اور محض و ہ لوگ جن کے ہاتھ میں مالی قوت تھی، جو ٹیکنالوجی پر حاوی تھے، وہ اس پورے نظام کے کرتا دھرتا ہوگئے ۔ یہ دوسری خرابی ہے۔
منڈی کی غیر منصفانہ اہمیت: تیسری خرابی یہ ہے کہ منڈی اور مارکیٹ کو ضرورت سے زیادہ اہمیت حاصل ہو گئی ہے۔ انسانی زندگی میں کیا آپ چاہیں، کیا آپ نہ چاہیں، کیا پسندیدہ ہے کیا پسندیدہ نہیں ہے، اس کا فیصلہ قیمتوں پر نہیں ہوسکتا۔ اس کا فیصلہ محض اس چیز پر نہیں ہوسکتا کہ کس کے پاس قوتِ خرید ہے اوروہ چیزوں کو خرید سکتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں مارکیٹ ایک اہم ادارہ ہے، اس سے انکار نہیں، مارکیٹ وسائل کو ترقی دینے اور distributeکرنے کے لیے ایک مؤثر چیز ہے، لیکن اگر ہم صرف مارکیٹ کو ہر معاملے کو طے کرنے کا کام سونپ دیں تو یہ زندگی کو بگاڑ دیتا ہے۔ تو تیسری بنیادی خرابی یہ ہے کہ سوسائٹی کو محض معیشت اور معیشت کو محض مارکیٹ تک محدود کردیا گیا ہے، اور پھر ساری پالیسی سازی، انفرادی اور سرکاری سطح پر، اسی پر ہورہی ہے۔
صلاحیت اور عدل میں عدم توازن: چوتھی خرابی یہ ہے صلاحیت اور عدل میں توازن برقرار نہیں رکھاگیا۔بلاشبہ انسان کی معاشی زندگی میں کارکردگی، اہلیت، پیداآوری (productivity)اہم ہیں، جسے معاشیات کی اصطلاح میں efficiency کہتے ہیں۔ لیکن efficiencyسب کچھ نہیں ہے۔ efficiency کے ساتھ ساتھ عدل، انصاف، حقوق کی پاسداری اور اس اہلیت کا، اس صلاحیت کا ایسا استعمال جس کے نتیجے کے طور پر انسانی معاشرہ بہتر ہوسکے، ضروری ہے۔ محض دولت کی فراوانی مطلوب نہ ہو بلکہ تمام انسانوں کی خوشحالی مطلوب ہو۔ تو اصل مسئلہ یہ ہے کہ efficiency اور equity ایک دوسرے سے کٹ گئے، عدل کو بھی ٹکسال باہر کردیا گیا۔
پیسے سے پیسا بنانا: اس سلسلے میں پانچویں اور آخری چیز، جس کی طرف میں نے پہلے بھی اشارہ کیا، وہ یہ تھی کہ مالیات کا اصل کام پیداوار کو، معاشی وسائل کو، وسائلِ حیات کو مناسب مقدار میں مرتب اور منظم کرکے مفید تر بنانا تھا۔ اب ترتیب اُلٹی ہوگئی ہے۔ اب اصل چیز دولت ہے۔ زیادہ سے زیادہ مال بنانا، جائز اور ناجائز ہی نہیں بلکہ بلالحاظ اس کے کہ ان مالی وسائل سے حقیقی پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے یا کمی ہوتی ہے۔ توبگاڑ کا ایک اہم سبب یہ ہے کہ یہاں پیسے سے پیسہ بنتا ہے۔
یہاں میں اشارتاً عرض کردوں کہ اسلام کا یہ ایک بڑا انقلابی تصور ہے کہ زر اور مالیات انسانی زندگی کے لیے بے حد ضروری ہے، لیکن زر سے زر پیدا نہیں ہوتا، محض مالیات سے مزید مالیات پیدا نہیں ہوتیں، مالیات سے فوائد پیدا ہوتے ہیں اگر اس کو حقیقی پیداوا ریا خدمات کو بڑھانے کے لیے استعمال کیا جائے ۔ قرآن نے ایک چھوٹے سے جملے میں اس پورے انقلابی اصول کو بیان کردیا کہ
وَأَحَلَّ اللَّـہُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا ’’حالانکہ اﷲ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام ۔‘‘ (۲:۲۷۵)
رِبا یہ ہے کہ مالیات سے مالیات پیدا ہوں، بلالحاظ اس کے کہ یہ مالیات پیداواری عمل میں کوئی کردار ادا کریں۔ اور بیع یہ ہے کہ مالیات استعمال ہوں شے کو خریدنے، اسے پیدا کرنے، بنانے، اُسے فروخت کرنے میں۔ اس طرح گویا اشیاء اور خدمات کو جنم دینے سے مالیات اپنا اصل کردار ادا کرتی ہیں اور اس طرح سوسائٹی کے اندر value added ہوتا ہے۔ یہ ہے بنیادی نظام۔ مغربی معیشت اور معاشیات دونوں نے آہستہ آہستہ زر اور مالیات کا تعلق، حقیقی معیشت، حقیقی پیداوار اور معاشرے میں اشیائے صرف اور خدمات کے فروغ اور فراوانی سے توڑ دیا۔
یہ پانچ بنیادی خرابیاں ہیں۔ جب تک ان کی اصلاح نہ ہو۔ یہ چھوٹی موٹی چیزیں جو ہورہی ہیں کہ bail out کردو یعنی مزید قرض دے دو اور بنکوں کو کسی طرح بچالیا جائے، یہ اس مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ حتیٰ کہ اب تو حکومتوں کو بچارہے ہیں، اور کھربوں ڈالر اس کے لیے خرچ ہوئے ہیں، عام انسانوں کے۔ اور ظلم یہ ہے کہ اُسی عمل میں امریکہ میں جو دو ملین گھرانے رہن (mortgage) کی بناء پر بے گھر ہوئے، انہیں کسی نے bail outنہیں کیا۔ لیکن بڑے بڑے بنک جن کے مینیجرز اور چیئرمین billions ڈالر بطور تنخواہ اور بونس کے وصول کرتے ہیں اُن بنکوں کو bail out کیا گیا ہے، ٹیکس دہندگان کے پیسے سے۔ اور اب یہ کام حکومتوں کے لیے ہورہا ہے۔ سب سے پہلے آئس لینڈ کو کیا، آئرلینڈ کو کیا۔ اس وقت یونان کو کیا جارہا ہے۔ پھر اسپین اور اٹلی ہیں۔ یعنی یہ بڑے بڑے ممالک ہیں جو اس وقت bail out ہورہے ہیں۔ اس سارے بحران کی بنیادی وجوہات وہ ہیں جو بیان کی گئیں۔ جب تک اصل جڑ تک نہیں پہنچیں گے معاملات درست نہیں ہوں گے۔
اسلامی معیشت اور اس کا کردار
اب آئیے موضوع کے دوسرے پہلو کی طرف۔ اسلامی معاشیات خود ایک مکمل شے نہیں ہے۔ بلاشبہ اسلام نے معاشی اُمور کے بارے میں ہمیں سوچنے کا ایک انداز دیا ہے، ہمیں اس سلسلے میں واضح اصول ، اقدار، قوانین اور قواعد دیے ہیں لیکن یہ اسلام کے مجموعی نظام، پورے دین، کا حصہ ہے۔ مجموعی نظام کے ہر ایک حصے میں خیر ہے اور ہر ایک میں سے کچھ نہ کچھ خیر رونما ہوگا۔ لیکن اس کا پور افائدہ اُس وقت ہوسکتا ہے جب یہ اسلامی نظام کا حصہ ہو، اُس سے کٹ کر نہیں۔ تو پہلی بات یہ سمجھ لیجیے کہ اسلام کی نگاہ میں انسانی زندگی ایک وحدت ہے، جو عقیدہ اور محرکات سے لے کر معاملات، قانون اور معمولات اور انتظامات تک پر حاوی ہے، اور جب تک یہ ہمارا اصل ہدف نہ ہو، ہم اسلام کی پوری برکتوں سے فیضیاب نہیں ہوسکتے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اسلام کے نقطۂ نظر اور مغربی تہذیب، مغربی معاشیات اور سرمایہ دارانہ نظام ان تینوں کے نقطۂ نظر میں بنیادی فرق یہ ہے کہ ہمارے سامنے اولین اور پہلی ترجیحی چیز انسان کی حقیقی فلاح ہے۔ اور اخلاق اور خوشحالی کے مقصد سے انسانی ضروریات کو پورا کرنا ہے۔ یہ ایک دوسرا paradigmاور سوچنے کا دوسرا انداز ہے، اس میں پیوند کاری نہیں ہوسکتی۔ اگر اس میں کچھ چیزیں دوسرے سے مماثل بھی ہوں، تو مماثلت اس بناء پر ہے کہ انسانی زندگی میں شرِ محض نہیں ہوسکتا، کچھ نہ کچھ خیر اُس میں ضرور ہوتا ہے۔ لیکن محض اس مماثلت کی بنیاد پر کہنا کہ ’’اسلامی سرمایہ داری‘‘، یا ’’اسلامی سوشلزم‘‘، تو یہ چیزیں خلطِ مبحث ہیں۔ بلاشبہ ذاتی ملکیت اسلام میں پائی جاتی ہے۔ اور ذاتی ملکیت سرمایہ داری سے پیدا نہیں ہوئی، ذاتی ملکیت انسانی تاریخ کے آغاز سے موجود ہے۔ لیکن ملکیت کا تصور کیا ہو، اس کی کیا شکلیں ہوں اس کے حدود کیا ہوں، اس کے مقاصد کیا ہوں، اس کو regulateکرنے کے ذرائع کیا ہوں؟ یہ ہے اصل چیز۔ نفع کا محرک ایک حقیقی محرک ہے۔ Self-interest ہر انسان میں پایا جاتا ہے۔ اسلام نے اس کا انکار نہیں کیا، لیکن اس کو صحیح پس منظر میں، صحیح محرکات کے ساتھ دیکھا جانا چاہیے۔ اسی طرح مارکیٹ اور منڈی کا تصور بھی اسلام میں موجود ہے۔مارکیٹ سرمایہ داری سے پہلے بھی تھی، سرمایہ داری میں بھی ہے، حتیٰ کہ سوشلزم میں بھی تھی۔ تو اگر ان میں کوئی مماثلت پائی جاتی ہے تو اس کی بناء پر اسلام کو سرمایہ داری کہا جائے، یہ صحیح نہیں ہے۔ اسلام خود ایک مکمل نظام ہے۔ لیکن وہ کیا چیز ہے جو اس کو مکمل نظام بناتی ہے۔
اسلامی نظامِ معیشت کی بنیادیں
جہاں تک میں نے غور کیا ہے، اس میں نو بنیادی چیزیں ہیں، جو اسلام کے معاشی تصور (paradigm) کی صورت گری کرتی ہیں، اور یہ سب ایک دوسرے سے مربوط ہیں، ان میں سے کسی کو ایک دوسرے سے کاٹا نہیں جاسکتا۔
توحید: ان میں سے پہلی چیز ہے توحید۔ یعنی اﷲ کا واحد معبود کی حیثیت سے اقرار، اﷲ سے جڑنا، اﷲ کی حاکمیت کو قبول کرنا اور عبودیت کے راستے کو اختیار کرنا۔ یہ پہلی لازمی چیز ہے۔ اگر یہ نہ ہو، اﷲ سے کوئی باغی ہو، تو باقی چاہے وہ سود کو ختم بھی کردے، چاہے وہ اجتماعی فلاح اور تکافل کا کوئی نظام قائم بھی کردے، لیکن وہ اسلام کے نظام کا حصہ نہیں ہوگا۔ تو پہلی بنیادی چیز توحید ہے۔ اور توحید ہمیں زندگی کا جو تصور دیتی ہے وہ یہ ہے کہ ہر چیز کا مالک اﷲ سبحانہٗ و تعالیٰ ہے۔ وہی خالق ہے، وہی حاکم ہے، اُسی کی طرف ہم نے پلٹنا ہے اور اُسی کی دی ہوئی رہنمائی دنیوی اور اُخروی فلاح کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں، نہ نفسِ انسانی، نہ کوئی ادارہ اور نہ کوئی اورمخلوق۔
ربوبیت: دوسری چیز ربّ کا صحیح تصور ہے ، توحید کے بعد جسے میں root causeکہتا ہوں۔ اس کی خاص اہمیت معاشی پہلو سے یہ ہے کہ اﷲ رب العالمین ہے، اور رب کے معنیٰ ہیں پالنہار کے۔ اُسی نے انسان اور کائنات کو پیدا کیا ہے، اور پیدا کرنے کے بعد وہ کہیں ریٹائر ہو کر بیٹھ نہیں گیا ہے بلکہ وہ اسے پروان چڑھا رہا ہے، وہ اس کی دیکھ بھال کررہا ہے،کائنات کے وجود میں اُس کا ارادہ شامل ہے، اور اُس نے ربوبیت کا ایک ایسا نظام قائم کیا ہے جس میں انسانوں کی تمام ضروریات ابد تک پوری کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اﷲ کے ودیعت کردہ ان وسائل کو ہم دریافت کریں، انہیں استعمال کریں۔ اگر یہ کام ہم نہیں کریں گے تو اﷲ کی ربوبیت کے نظام کے تقاضے پورے نہیں کرسکیں گے۔ لیکن ربوبیت اﷲ کی ہے۔ اس تصور کا نتیجہ یہ ہے کہ جس چیز کو مغربی معاشیات میں قلت (scarcity)کہاجاتا ہے، ہمارا وہ نقطۂ آغاز نہیں ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ربوبیت کی بناء پر انسانوں کی ہمیشہ کی ضروریات کے لیے تمام امکانات موجود ہیں۔ قلت اگر ہے تو ہماری کوتاہی کی بناء پر ہے۔ اُن وسائل کو دریافت کرنے، استعمال کرنے یا اُن کی تقسیم کے غلط نظام کی بناء پر ہے۔ اگر اُن کو دریافت کیا جائے، developکیا جائے اور صحیح تقسیم ہو تو انسانوں کی تمام ضروریات پوری ہوسکتی ہیں۔ ہوس کی کوئی انتہاء نہیں ہے لیکن حقیقی ضروریات خوشحالی کے ساتھ، عزت کے ساتھ سب کو بہم پہنچ سکتی ہیں۔
ہدایت: تیسرا اصول ہدایت ہے۔دیکھیے ربوبیت کے بھی دو پہلو ہیں: ایک ہے مادی اور جسمانی ، کہ انسان کی مادی اور جسمانی ضروریات کے لیے جو کچھ بھی وسائل درکار ہیں، خواہ وہ اس کی شخصیت اور اُس کے بدن میں ہوں یا خدا کی زمین پر، وہ تمام وسائل موجود ہیں۔ اسی طرح انسان کی مادی اور جسمانی ضروریات کے ساتھ ساتھ اُس کی کچھ تہذیبی اور اخلاقی ضروریات بھی ہیں۔ اور یہ ضروریات پوری ہوتی ہیں اﷲ کی ہدایت سے۔ اور اس ہدایت کی دو صورتیں ہیں: ایک اﷲ کے نبی اور دوسرے اﷲ کی کتاب۔ اور یہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ مربوط ہیں۔
رسالت: شاید ہدایت کے لیے کتاب بھی کافی ہوتی، لیکن اﷲ کی حکمت کا تقاضا تھا کہ لوگوں کو دکھایا جاسکے کہ اس کتاب میں جو ہدایت ہے اُس کا جسمانی نمونہ اور مرقع انسان بن سکتا ہے۔ اور اس طرح تمام انسانوں کے لیے اُس ہدایت پر عمل آسان بنادیا گیا اور یہ بتادیا گیا کہ انسانی استعداد کے اندر یہ چیز موجود ہے۔تصور رسالت کو اسلام میں مرکزی مقام حاصل ہے۔ اس تصور کو اس کی صحیح روح کے ساتھ نہ اپنایا جائے تو ایسا معاشرہ بہرحال اسلامی معاشرہ نہیں ہو سکتا۔
استخلاف: اس کے بعد پانچویں چیز جو مرکزی حیثیت رکھتی ہے، وہ ہے استخلاف، یعنی انسان کو جو مقام دیا گیا ہے وہ اﷲ کے خلیفہ اور نائب کاہے۔ یہ ہے انسان کی اس دنیا میں مرکزیت۔ یعنی تصور یہ ہے کہ انسان نے زمین کا نظام سنبھالنا ہے، اﷲ کے نمائندے کی حیثیت سے اُن مقاصد کو پورا کرنے کے لیے جو اﷲ نے اُس کو بتائے ہیں،یعنی اسے دی گئی ہدایت کی روشنی میں۔اس طرح اُسے زندگی کی تعمیر وتشکیل، وسائل کی دریافت اور ترقی، قوت کے حصول اور زندگی کو تعمیر کرنے کے تمام اُمورانجام دینے ہیں۔ استخلاف کا تصور passive نہیں ہے، نہ یہ محض چند معاملات تک محدود ہے، بلکہ اس تصور کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ ہم متحرک ہوں، جو کچھ اﷲ نے اس کائنات میں ودیعت کیا ہے اور جو کچھ صلاحیتیں ہم میں پوشیدہ ہیں اُن کو developکریں، استعمال کریں، اُس مشن اور اُس کام کے لیے جو ہمیں سونپا گیا ہے۔
تزکیہ: چھٹی چیز ہے تزکیہ۔ استخلاف کی ذمہ داریاں ادا کرنے کے لیے انسان کو جہاں عقل دی گئی ہے وہاں ارادہ اور عمل کی آزادی بھی دی گئی ہے۔ یہ آزادی خود انسان کی شخصیت کے لیے نقصان دہ بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ اس لیے ان ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لیے اسے اپنے اخلاق، کردار اور بحیثیت مجموعی اپنی پوری شخصیت کو تعمیری رخ دینا ہے اور اپنا محاسبہ کرتے ہوئے آگے بڑھنا ہے، یہی تزکیہ کی روح ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تزکیہ کے دو پہلو ہیں: ایک زندگی کا نکھار، برائیوں سے بچنا اور بھلائیوں کو پروان چڑھانا، خوبیوں کو پیدا کرنا اور خرابیوں سے بچنا (روحانی، جسمانی ہر اعتبار سے) لیکن دوسرے پہلو سے دیکھیے تو عربی زبان کے اس لفظ کے دوسرے معنیٰ ترقی اور افزائش کے بھی ہیں۔ آپ مجھ سے زیادہ جانتے ہیں کہ عربی زبان میں ایک پودے کی تراش خراش کے عمل کو بھی تزکیہ کہا جاتا ہے، اور اس عمل کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پودا معمول سے زیادہ بڑھتا اور ترقی کرتا ہے۔ زکواۃ کو بھی اسی لیے زکواۃ کہا جاتا ہے کہ زکواۃ کے لیے مال خرچ کرنے سے کم نہیں ہوتا بلکہ دراصل یہ مال کی ترقی کا راستہ ہے۔ قرآنِ پاک میں دوسرے مقامات پر اس کو اس طریقے سے بیان کیا گیا ہے کہ
یَمْحَقُ اللَّـہُ الرِّبَا وَیُرْبِي الصَّدَقَاتِ ’’اﷲ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو نشونما دیتا ہے ۔‘‘(۲:۲۷۶)
تو جسے تم بہتری سمجھتے ہو (ربا)، اُس کو اﷲ نے منع کیا ہے، اور صدقات جس کے بارے میں تمہیں گمان ہے کہ خرچ کرنے سے غریب ہوجاؤگے، دراصل یہی وہ چیز ہے جو بڑھوتری کا ذریعہ ہے۔ تو تزکیہ کا مفہوم ان تمام پہلوؤں پر محیط ہے۔
عدل و احسان: تزکیہ کے بعد اگلی چیز عدل ہے۔ اور یہ عدل اپنے ساتھ احسان کو بھی رکھتا ہے، یعنی عدل تو ہے ہر ایک کو اُس کا حق دینا، اور احسان یہ ہے کہ حق سے بھی زیادہ دینا۔اسلام میں عدل کو جو مرکزی مقام حاصل ہے ، وہ یہ ہے کہ انبیائے کرام علیہم السلام کے اس دنیا میں بھیجے جانے کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد یہی ہے۔ انبیاء کے جو وظائف قرآنِ پاک میں بیان کیے گئے ہیں اُن میں تلاوتِ آیات، تزکیہء نفوس،تعلیمِ کتاب، تعلیمِ حکمت نیز دعوتِ حق، شہادتِ حق، اقامتِ دین اور ان سب کا عملی مطلوب انصاف کا قیام ہے۔ تاکہ انسانوں کے معاملات عدل کی بنیادپر مرتب ہوسکیں۔ یہی وجہ ہے کہ مقاصدِ شریعہ میں آپ دیکھتے ہیں کہ سب سے اہم مقام عدل کو حاصل ہے۔
فلاح : پھر عدل کے بعد ہے فلاح، یعنی ان تمام امورکا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ آپ کو فلاح حاصل ہوگی۔ روحانی بھی، مادی بھی، انفرادی بھی، اجتماعی بھی۔ تمام انسانوں کی فلاح، محض دولت مند اور وسائل والوں کی نہیں۔ اور وہ فلاح جو ذریعہ بنے آخرت میں فلاح کا۔
جواب دہی: آخری نکتہ ہے جواب دہی۔ آخرت اور زندگی کا تسلسل جو دنیا سے ہمیں آخرت میں لے جاتا ہے۔یعنی اس دنیا میں رہتے ہوئے آخرت کی جواب دہی کا احساس تازہ رہے تاکہ گناہوں سے بچا رہے۔
اسلامی اپروچ: نظری پہلو
تو یہ نو بنیادیں ہیں اسلامی تصورِ معیشت کی۔ان اصولوں کی بنیاد پر پہلی اہم بات یہ ہے کہ ہمیں جدوجہد کرنی ہے۔ رزقِ حلال کمانا فرض ہے، بھیک مانگنا ممنوع ہے۔ خودکشی حرام ہے، اور اگر آپ محنت نہیں کرتے، اپنے بدن کو نہیں پالتے اور موت واقع ہوتی ہے تو یہ حرام موت ہے۔ معاشرے میں ایک دوسرے کی ضرورت کو پورا کرنا تاکہ غربت دور ہو، وسائل کی فراوانی حاصل ہو، حتٰی کہ ایک عبادت ایسی مقرر کردی کہ جو ادا ہی اُس وقت ہوسکتی ہے جب مال آپ کے پاس ہو یعنی زکواۃ۔ اور صلحائے اُمت نے یہ بات کہی ہے کہ ہمیں کوشش کرکے دولت پیدا کرنی چاہیے تاکہ زکواۃ دے سکیں۔ اور پھر ایک اور عظیم ترین عبادت — حج — اُس کو استطاعت کے ساتھ وابستہ کیا ہے، کہ اگر مالی استطاعت نہ ہو تو آپ وہ عبادت ہی نہیں کرسکتے۔ تو اس لیے جہاں تک ضروری ہو دنیا کا حصول فرض ہے۔ دنیا کی جو امانت ہمیں دی گئی ہے، اُس کی فکر کرنا ہمارے دین کا مطالبہ ہے۔ اس فرق کے ساتھ کہ اگر دنیا صحیح مقاصد کے لیے ہو، اُن حدود کے مطابق ہو، تو یہ ایک عبادت اور فریضۂ دینی ہے۔ اور اگر دنیا خود مطلوب بن جائے، اور جو اصل مقاصد ہیں وہ آنکھوں سے اوجھل ہوجائیں، یا اُن کی خلاف ورزی ہو تو یہ اس زندگی میں بھی مصیبت کا باعث اور آخرت میں تباہی کا ذریعہ ہے۔ حصولِ معاش اور دین میں یہ تعلق ہے۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ شخصی مفاد (Self-interest)کو اسلام نے ایک معتبر محرک قرار دیا ہے۔ قرآن صاف الفاظ میں کہتا ہے:
فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرَاتِ’’پس بھلائیوں کی طرف سبقت کرو۔‘‘ (۲:۱۴۸)
لیکن شخصی مفادکو بھی اخلاقی حدود اور پھر دنیا اور آخرت دونوں میں کامیابی سے مشروط کردیا تاکہ یہ شخصی مفاد آپ کو اندھا نہ کردے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی معیشت میںself-interest کا جو فوکس ہے وہ محض طلب (want) کے مقابلے میں ضروریات کی تکمیل (provision of needs)کا تصور ہے۔ نتیجہ دونوں کا ایک ہی ہے، کہ چیزیں فراہم کی جائیں۔ لیکن ایک خود مقصود بالذات بن جاتی ہے، اور دوسرا ذریعہ ہے ایک اعلیٰ تر مقصد کو حاصل کرنے کا۔نفع کا حصول ایک جائز معاشی محرک ہے لیکن اگر نفع کا محرک دوسروں کے حقوق مارنے کا ذریعہ بن جائے تو پھر یہ حرام ہے۔
اسلام میں جائز معاشی سرگرمی کے لیے محرک دینے اور ناجائز معاشی سرگرمی کے لیے رکاوٹ پیدا کرنے کا اپنا نظام ہے۔ دیگر معاشی نظاموں کے مقابلے میں اسلام کے معاشی نظام میں ناجائز اُمور پر روک لگانے اور اسے ریگولیٹ کرنے کے کئی درجے ہیں۔ سب سے پہلا ہے فرد کا اپنا احساسِ ذمہ داری، آپ کی اپنی motivation، آپ کی اقدار( values)، آپ کا عقیدہ، آپ کاآخرت کی جوابدہی کا احساس۔ دوسرا ہے معاشرے اور خاندان کی بھلائی۔ (الدین نصیحۃ)۔ ایک دوسرے کی خیر خواہی، ایک دوسرے پر نگاہ رکھنا کہ وہ وسائل کا غلط استعمال نہ کریں۔ تیسری چیز ہے ادارے: مسجد کا ادارہ ہے، مدرسہ کا ادارہ ہے، خاندان بھی ایک ادارہ ہے، حسبہ بھی ہے۔( سرکاری نہیں)۔پھر ریاست کے قوانین اور عدالتی نظام ہے۔ یہ تمام چیزیں اپنا رول ادا کرتی ہیں۔ اور پھر آخری ذمہ داری حکومت کی ہے:
کلکم راع، وکلکم مسؤلُٗ عن رعیتہ(تم میں سے ہر ایک حاکم ہے اور تم سب اپنے محکوموں کے بارے میں جواب دہ ہو۔)
ہر شخص درجہ بدرجہ حاکم ہے اور جو پوری ریاست کا حاکم ہے وہ ریاست کی تمام رعایا کے لیے اﷲ کے سامنے جواب دہ ہے۔ اس طرح معاشی میدان میں ہر سطح پر اسلام نے روک ٹوک کا نظام وضع کیا ہے۔ خواہ market mechanism ہو، خواہ ذاتی نفع کی کوشش ہو۔ پھر اس کے ساتھ ساتھ اسلام نے تقسیمِ دولت کا ایک نظام بنایا ہے،اس کی نظر محض پیداوار پر نہیں بلکہ پیداوار کے ساتھ ساتھ تقسیمِ دولت پر بھی ہے۔ تقسیمِ دولت میں آپ جانتے ہیں ، اور مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ وہ چیزیں جو ہماری فقہ کا حصہ ہیں، ہم انہیں بھولے ہوئے ہیں۔ یعنی ذمہ داری کا احساس ماں باپ سے شروع ہوتا ہے۔ اولاد کے لیے، خاندان کے لیے، بیوی بچوں کے لیے۔ پھر وراثت کا نظام ہے۔ جس طرح دولت کی تقسیم کے لیے وراثت کا نظام ہے، اُس کے بالکل متوازی معاشی ذمہ داریوں کی تقسیم کے لیے نفقۃ العقاربکا نظام ہے۔یعنی جو وراثت میں جتنے حصے کا مستحق ہے، اسی تناسب سے وہ جوابدہ ہے اس کی ولایت کا یعنی یتیم بچے کے نان و نفقہ کا ذمہ دار اس کا قریبی رشتہ دار ہے۔ تو دیکھیے کس طریقے سے معاشی تحفظ کا ایک سسٹم بنایا۔ پھر زکواۃ ہے، صدقات ہیں، ریاست کی ذمہ داری ہے، قرض کے بارے میں پالیسی ہے، ریاست اور قانون کا کردار ہے۔ اسلام میں وہ صورت نہیں ہے جو سرمایہ داری نظام میں ہے کہ سب کچھ افراد کریں اور حکومت ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم۔ اسلام میں حکومت کی ایک مثبت ذمہ داری ہے۔ بلاشبہ ایسی قومی ملکیت جس میں تمام وسائل کو سرکاری تحویل میں لایا جائے، اسلام میں نہیں ہے۔ لیکن اگر وسائل کا غلط استعمال ہورہا ہے تو اُس کو روکنا بھی ذمہ داری ہے۔ اور فقہ میں آپ نے حَجر کا قانون پڑھا ہے۔ کس طرح فرد کی سطح پر بھی اور نظام قضاۃ کی سطح پر بھی اسلام نے اپنے نظام میں اس کو شامل کیا۔ سود کو ختم کرنا، یہ ایک بڑی ہی بنیادی چیز ہے۔ اس لیے کہ یہ مالیات کے استعمال کا بالکل منفرد ماڈل ہے، جو سرمایہ داری اور اشتراکیت دونوں سے بالکل مختلف ہے۔گزشتہ کچھ عرصہ میں غیر سودی بنک کاری اور مالیات کے میدان میں غیر معمولی پیش رفت ہوئی ہے۔ اور ہماری اور آپ کی ذمہ داری ہے کہ ہم دیکھیں کہ جو کچھ حاصل ہوا ہے وہ کیا ہے، اُس میں کیا مثبت چیزیں ہیں، کیا اُس میں خامیاں اور خطرات ہیں اور آگے کے لیے ہم نے اس میں کیا فکر کرنی ہے۔
اسلامی اپروچ: عملی پہلو
میں نے اب تک یہ کوشش کی ہے کہ موجودہ معاشی نظام کے پس منظر میں اسلام کی جو اپروچ ہے اُس کی بنیادوں کی طرف متوجہ کروں۔ اب میں عملی معاملات پر آتا ہوں۔ میری نگاہ میں، اسلامی فنانس اور بنکنگ کے بارے میں گزشتہ چالیس سال میں جو ترقی ہوئی ہے، وہ ایک بڑی اہم اور مثبت پیش رفت ہے۔ حرام سے بچنے اور حلال کی طرف بڑھنے کے لیے علمی، عملی، اداراتی اور سرکاری سطح پر جو کام بھی ہوا ہے وہ قابلِ قدر ہے، اور ہمیں اُس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، اور ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ وہ صحیح سمت میں آگے بڑھے۔ میں بہت صاف الفاظ میں یہ بات کہنا چاہتا ہوں کہ جہاں سود کا خاتمہ اور زکواۃ کی بنیاد پر ایک اجتماعی فلاحی نظام کا قیام اسلامی معیشت کا بنیادی ستون ہے، وہیں یہ سمجھنا بھی قطعاً غلط ہوگا کہ پوری اسلامی معیشت ان دو چیزوں کے اندر سمٹ گئی ہے۔ اسلامی معیشت دراصل سوچنے کاایک نیا انداز ہے، سارے معاشی امور کو نئے پہلو سے دیکھنے کا ایک طریقہ ہے، معاشی مسئلے کی ایک مختلف تعبیراور اس کی نئی تعریف( definition )ہے۔ وسائل کے بارے میں ایک مختلف نقطۂ نظر ہے(scarcity اور fluence کے حوالے سے) اور جن اصولوں کی طرف میں نے اشارہ کیا ہے، اور آپ کو فقہی معاملات میں جس کی تفصیلات بھی ملتی ہیں، وہ سب اس کا لازمی حصہ ہیں۔ اس وضاحت کے ساتھ اس بات کی ضرورت ہے کہ اس وقت سود سے بچنے کے لیے جو کام کیا گیا ہے اُس کو سمجھا جائے اور دیکھا جائے کہ اس کے بارے میں آئندہ آپ کی اور میری ذمہ داری کیا ہے۔
جو کام ہوا ہے، جیسے میں نے عرض کیا، اس کی دو سطحیں ہیں: ایک ہے پرائیویٹ سیکٹر، دوسرا ہے سرکاری میدان۔ پرائیویٹ سیکٹر میں ہمیشہ یہ کوشش ہوتی رہی ہے، ایسا نہیں ہے کہ یہ نئی چیز ہے، آپ دورِ خلافت ِ راشدہ کا اگر مطالعہ کریں تو وہاں آپ کو’’ صراف‘‘ کا ادارہ ملے گا۔ اور صراف کے ادارے کے جو مختلف کام تھے ان میں ایک کام یہ بھی تھا کہ لوگ صراف کے پاس اپنی قیمتی اشیاء ، خاص طور سے سونا چاندی رکھوا دیا کرتے تھے اور اُسی دور میں یعنی پہلی صدی ہجری میں صرافوں نے یہ کام بھی شروع کردیا تھا کہ بین الاقوامی تجارت کے لیے لوگ جب باہر جاتے تھے تو صراف کے پاس سونا رکھ دیتے تھے اور اُس سے رسید لے لیتے تھے اور دوسرے ملک میں جہاں سے اُس نے خریداری کی ہے وہاں وہ رسید دے کر اُس سے مال خرید سکتے تھے۔ اور اس رسید کو ’ صق‘ کہتے تھے۔ جس کو آج آپ چیک کہتے ہیں، یہ اُسی صق سے نکلا ہے۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ کی فقہی خدمات سے آپ سب واقف ہیں۔ ہم سب کے وہ محسن ہیں۔ لیکن اُن کی جو کاروباری زندگی تھی، اگر اُس کا آپ مطالعہ کریں تو آپ یہ دیکھیں گے کہ مضاربت کی بنیاد پر انہوں نے مالیات کی وصولی اور کاروبار میں سرمایے کے استعمال اور نفع کی تقسیم کا ایک ہمہ گیر نظام قائم کیا تھا۔ اور یہ کہ اُس زمانے میں ایسا کاروبار لاکھوں کروڑوں درہم پر پھیلا ہوا تھا۔ بدقسمتی سے اس پر تحقیق کا کام بہت کم ہوا ہے،تاہم مولانا مناظر احسن گیلانی نے اُن پر جو کتاب لکھی ہے اس میں اس کا بڑی تفصیل سے ذکر ہے۔ پھر ہماری پوری تاریخ میں یہ چیز موجود رہی ہے۔ حیدرآباد دکن میں انیسویں اور بیسوی صدی میں institutionalانداز میں لوگوں کا بچت کو جمع کرنا اور قرضے دینامعروف عمل تھا اور اس کے لاکھوں ممبر تھے۔ ڈاکٹر حمید اﷲ مرحوم نے اس پر اسلامک ریویو، لندن میں مضمون لکھا تھا جس میں اُس کی تفصیلات دی تھیں۔ آپ اور میں سب جانتے ہیں کہ گھر کی خواتین جو کمیٹی سسٹم کرتی ہیں، وہ کیا ہے۔ دس افراد مل کر ہر مہینے ایک رقم جمع کرتے ہیں اور کوئی ایک لے لیتا ہے۔ مالیات کا فراہم کرنا، اس کی حفاظت اور اس کا استعمال، آج بنک یہی کام کررہے ہیں، لیکن اُس کا انداز، اُس کا اسلوب بدل گیا ہے۔ میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ یہ معاشرے کی ایک حقیقی ضرورت ہے ۔نجی سطح پر سود کے بغیر کام کرنے والا پہلا منظم کامیاب بنک ۱۹۷۵ء میں دبئی میں قائم ہوا یعنی دبئی اسلامک بنک۔ اور سرکاری سطح پر پہلا عالمی بنک — اسلامک ڈویلپمنٹ بنک –بھی۱۹۷۵ء ہی میں جدہ (سعودی عرب) میں قائم ہوا۔ اور اُس کے بعد سے پھر دنیا کے مختلف ممالک میں اس طرح کے بنک بنے۔ جزوی طور پر ایسے ادارے پاکستان، ملائیشیا ، مصراور خاص طور پر سوڈان میں بنے۔پھر ایران اور اب سعودی عرب، کویت اور اس وقت تقریباً چالیس پچاس ممالک میں ایسے اسلامی بنک کام کررہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک بہت بڑی ڈویلپمنٹ ہے، اور بحیثیتِ مجموعی یہ ادارے ایک ضرورت کو بھی پوراکررہے ہیں، ان کا رُخ بھی درست ہے۔ جو خرابی ہے وہ صرف یہ ہے کہ ابھی مثالی اسلامی ماڈل نہیں۔ جیسا کہ میں نے آپ سے کہا، اسلام کا اصل مقصود معیشت کا ایک نیا نقشہ بنانا ہے۔ سرمایہ کاری، پیداوار، تقسیمِ دولت، ایکسچینج، ان سب کے معاملات کو سرمایہ داری کے اُن اصولوں سے ہٹ کر، جن کے متعلق میں نے آپ کو بتایا کہ یہ ناانصافی پر مبنی ہیں، اسلام کے اصولوں کے تحت ان کی تشکیلِ نو کرنا۔ اس میں بلاشبہ مالیات کا بھی دخل ہے اور اس کے اندر قرض (credit)کا بھی ایک مقام ہے۔ لیکن جس طرح سرمایہ داری نے قرض کی بنیاد پر پوری معیشت کو وضع کیا، اور جس طرح قرض سے قرض پیدا ہوتا ہے، پیسے سے پیسہ بنایا جاتا ہے اور پیداوار اور خدمات میں اضافے کے بغیر دولت کمائی جاتی ہے، یہ بات اسلام کے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتی ۔ اس لیے اسلامی بنکاری کے لیے ضروری ہے کہ وہ صرف کھلی کھلی شرعی خلاف ورزیوں ہی سے نہ بچے، بلکہ ایجابی طور پر اُن تمام تصورات کو اپنائے جو شریعت ہمیں دیتی ہے۔ شریعت معاشی معاملات، کاروبار، صنعت اور معیشت کا ایک منفرد تصور دیتی ہے، جس میں نفع نقصان میں شرکت، تمام عناصر کی شمولیت اور کارکردگی، شفافیت، ہر سطح پر عدل اور ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی شامل ہیں۔ حضورِ پاک صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مزدور کو اُس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے مزدوری دے دو۔ غور کیجیے کہ جہاں اس کا یہ مفہوم ہے کہ اجرت دینے میں تاخیر نہ کرو، اور پوری مزدوری دو، حق مارو نہیں، وہیں اس میں یہ پہلو بھی ہے کہ مزدور کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں پسینہ بہائے۔ یہ بالکل ایک مختلف اپروچ ہے، جس میں دونوں کو فرض کی ادائیگی پر ابھارا گیا ہے۔ یہ ہے دراصل وہ مثالی وژن، اور جب تک ہم اس وژن (vision) کی طرف نہیں بڑھتے، ہم اسلام کے نظام کی برکات سے فائدہ نہیں اٹھاسکتے۔
اسلامی معاشیات کا تصور راسخ کرنے میں جن لوگوں نے کوششیں کیں ان میں مولانا مودودی رحمۃ اﷲ علیہ کا بہت بڑا حصّہ ہے، ڈاکٹر انور اقبال قریشی مرحوم کا بڑاحصہ ہے، ڈاکٹراحمدنجار نے بڑا کام کیا ہے، ڈاکٹرنجات اﷲ صدیقی کی بڑی خدمات ہیں، ڈاکٹر عمر چھاپراہیں۔ مجھے بھی خدمت کا کچھ موقع ملا ہے۔ ہم سب کا vision یہ تھا اور ہے کہ بلاشبہ قرض کی ایک گنجائش ہے، اُس ضرورت کو ہمیں پورا کرنا چاہیے، لیکن سرمائے کا جو استعمال ہے وہ شراکت کی بنیاد پر ہونا چاہیے۔ اور اس میں مضاربت، مشارکہ، اجارہ، مرابحہ، استصناع وغیرہ یہ جائز ہیں لیکن کچھ حدود کے اندر اور کچھ شرائط کے ساتھ۔ ان سب میں قدرِ مشترک یہ ہے کہ ان ماڈلز میں مالی وسائل پیداوار کو بڑھانے، پیداوار کو فروغ دینے، خدمات کو فراہم کرنے، ضروریات کو پورا کرنے اور حقیقی معیشت کو ترقی دینے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ جبکہ ایسے مالی معاملات جس میں قرض کو قرض سے بدل لیا جائے، جیسے تورق یا مرابحہ کا ماڈل، جسے صرف خاص حالات میں جائز قرار دیا گیا ہے، اسے پوری بنکنگ کی بنیاد نہ بنا لیا جائے۔ ورنہ پھر وہ تبدیلی نہیں آسکتی جس کی طرف اسلام پوری معیشت کو اور سارے مالی معاملات کو لے جانا چاہتا ہے۔ میں اُن میں سے نہیں ہوں جو اس کی تنقیص کرتے ہیں۔ میں اس کی تائید کرتا ہوں، لیکن تحدید کرتا ہوں، اور یہ کہتا ہوں کہ اسے اپنی حدود کے اندر استعمال ہونا چاہیے۔
دیکھیے، قرض کی صرف چار ہی ضروریات ہوسکتی ہیں ساری زندگی میں۔ ایک یہ کہ ایک شخص کی آمدنی ناکافی ہے، اور وہ مجبور ہے کہ قرض لے اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے۔ دوسرا یہ کہ اُس کی آمدنی تو اپنی ضروریات پورا کرنے کے لیے کافی ہے لیکن اُس نے اپنا معیارِ زندگی ایسا بنارکھا ہے، جسے انگریزی محاورے میں living beyond meansکہتے ہیں، اور اُس کے لیے اُسے قرض لینے کی ضرورت ہے۔ تیسرا یہ ہے کہ عام حالات میں تو اُس کی ضروریات پوری ہوتی ہیں لیکن کوئی خاص کیفیات ایسی پیدا ہوجاتی ہیں جن میں اسے قرض کی ضرورت پیش آتی ہے۔ مثلاًکوئی حادثہ ہے، کوئی موت ہے، کوئی شادی ہے، کوئی اور غیر معمولی چیز ہے کہ اسے قرض کی ضرورت ہے۔ اور چوتھی چیز یہ ہے کہ وہ کاروبار، صنعت، زراعت، خدمات وغیرہ کے آغاز یا اُس کے پھیلاؤ کے لیے اتنے وسائل نہیں رکھتا جو اُس کی ضرورت کو پورا کرسکیں اور اُسے ضرورت ہے کہ دوسرے اُس کو سرمایہ دیں تاکہ مل کر وہ کام کیا جاسکے۔ ان چار کے علاوہ قرض کی کوئی پانچویں ضرورت نہیں ہوسکتی۔
پہلی ضرورت کا حل قرض نہیں ہے، اس لیے کہ جس قرض کو واپس دینے کی آپ صلاحیت ہی نہ رکھتے ہوں، وہ قرض ایک بوجھ بنے گا، وہ کوئی مدد فراہم نہیں کرے گا۔ اسلامی معاشرے میں اس کے لیے مدد، تعاون، معاونت، انفاق یہ ساری چیزیں ہیں۔اپنے وسائل سے بڑھ کر زندگی گزارنے کے لیے قرض لینا ناجائز ہے۔اسلامی تعلیمات میں تبذیر اور اسراف ممنوع ہے۔ انسان کو وسائل کے مطابق اپنی حدود کے اندر رہنا چاہیے۔ غیر معمولی ضروریات کے لیے نظام ہونا چاہیے، خاندان میں ہو، معیشت میں ہو، ملک میں ہو، بنکاری میں ہو، تاکہ لوگوں کو غیر معمولی ضرورت کے لیے قرض مل سکے، اس میں اخلاقاً اور عقلاً بھی سود جائز نہیں ہے،بعد میں صرف اصل رقم وہ واپس کردے۔ ہاں، اگر چوتھی ضرورت ہے تو وہ پھر شراکت کی بنیاد پر قرض کا معاملہ کرے۔ایسی صورت میں اسلام zero returnکا قائل نہیں ہے۔ اسلام یہ کہتا ہے کہ وہ سرمایہ جو پیداوار میں اضافے کا باعث ہو، جس سے نفع پیدا ہو، اُس نفع میں محنت کرنے والے اور سرمایہ فراہم کرنے والے دونوں کو شریک ہونا چاہیے۔وہ کس طرح سے شریک ہوں، یہ اپنی مرضی سے طے کریں، انصاف سے طے کریں۔ تو آپ یہ دیکھیے کہ اسلام نے ایک بالکل متبادل نظام دیا ہے، اور ہر سطح کے لیے دیا ہے۔ تو ہماری ضرورت یہ ہے کہ ہم مکمل اسلامی معیشت اور مکمل اسلامی نظام کی طرف بڑھیں ۔
اسلامی بنکاری کے حوالے سے اب تک جو کچھ پیش رفت ہوئی ہے اور جو کچھ ہم نے حاصل کیا ہے، اِسے میں یوں کہا کرتا ہوں کہ ہم نے وہ کچھ حاصل کیا ہے جو شرعی حدود کے اندر تھا۔ اور جو کچھ شریعت سے متصادم تھا اُسے ہم نے دور کردیا، کہیں حقیقی انداز میں، کہیں حیلوں کے سہارے۔ لیکن اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارا مالیاتی نظام، ہمارا معاشی نظام اُن بنیادوں پر استوار ہو جو اسلام نے معاشی معاملات کے لیے فراہم کی ہیں۔ اور معاشی سرگرمیاں اُن مقاصد کے لیے استعمال ہوں جنہیں اسلام نے معتبر قرار دیا ہے۔ اس میں فرد، ادارہ، معاشرہ اور حکومت، چاروں اپنا اپنا کردار ادا کریں۔ اور بہتر سے بہتر کی طرف بڑھیں اور اس کی کوئی حد نہیں( Sky is the limit)۔ اصل چیز یہ ہے کہ ہم حدود کا خیال رکھیں، اور جہاں کہیں اُن حدود سے انحراف ہو، اُس کو چیک کرنے کا نظام موجود ہو۔
علماء کی ذمہ داریاں
تو یہ ہے ہمارا وژن۔ اب اس کی روشنی میں آپ دیکھ لیجیے کہ میری اور آپ کی اس میں کیا ذمہ داری ہے۔ دیکھیے، ہماری پہلی ذمہ داری تو یہ ہے کہ ہم مسائل کو ٹھیک ٹھیک سمجھیں اور میں آپ سے کوئی رعایت نہیں برتنا چاہتا ہوں۔ علماء کی میری نگاہ میں سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ جہاں وہ قرآن و سنت اور فقہ کے مطالعہ کا اہتمام کرتے ہیں، وہاں وہ یہ بھی دیکھیں کہ آج کے مسائل کیا ہیں؟ فکری رجحانات کیا ہیں؟ عملی معاملات کیا ہیں؟ نئے ادارے کونسے وجود میں آئے ہیں؟ اُن اداروں سے تعلقات (relationship)کس طرح ہونے چاہئیں؟ اور ان میں صحیح کیا ہے اور غلط کیا ہے؟ نہ آنکھیں بند کرکے منع کریں اور نہ کھلی چھٹی دیں۔ آپ کو معلوم ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ نے جو ایک فقہ مرتب فرمائی ہے وہ ایک فرد کا کام نہیں ہے، وہ چالیس افراد کی ایک کونسل تھی جس میں مفسرین بھی تھے، محدّثین بھی تھے، فقہاء بھی تھے، لغت کے ماہر بھی تھے اور ان کے ساتھ ساتھ جس میں عام کاروباری افراد بھی تھے۔ اور یہ سب مل کر ایک ایک مسئلے کی تنقیح کرتے تھے اور پھر ایک رائے بناتے تھے۔ جس رائے پر اتفاق ہوجاتا تھا اُس کو متفق علیہ کہتے تھے، اور جس پر اتفاق نہیں ہوسکتا تھا دونوں آراء علیہ الجمہور کہلاتی تھیں اس تصریح کے ساتھ کہ یہ اکثریت کی رائے ہے اور یہ اقلیت کی رائے ہے۔ اور آپ واقف ہیں کہ فقہ حنفی میں امام ابو حنیفہ کے دو جلیل القدر شاگردوں یعنی امام محمد اور امام ابو یوسف کو صاحبین کہا جاتا ہے۔ اور بہت سے اُمور پر اگر صاحبین متفق ہیں لیکن امام ابو حنیفہ کی رائے مختلف ہے تو فتویٰ میں امام ابوحنیفہ کے مقابلے میں رائے صاحبین کی مانی جاتی ہے اور اسے ہی حنفی فقہ سمجھا جاتا ہے۔ تو یہ آپ کی اپنی روایت ہے۔ اس کو سامنے رکھتے ہوئے اس بات کی ضرورت ہے کہ آج کے مسائل کو آپ سمجھیں اور اس میں انگریزی جاننا بھی اہم ہے۔ انگریزی زبان کا جاننا کوئی مکروہ چیز نہیں ہے، اس کی حیثیت ایک ذریعے کی ہے۔ اس کی بھی فکر کریں نیز جو چیزیں اردو زبان میں موجود نہیں ہیں اُن کا ترجمہ کروایا جائے، تاکہ آپ معاملات کو سمجھ سکیں۔ میں شریعہ بورڈ کے حق میں رہا ہوں، لیکن شریعہ بورڈ سے مجھے جو توقعات تھیں وہ پوری نہیں ہوئیں، اس لیے کہ وہ اُس سطح سے اوپر نہیں اٹھے جو وقت کا تقاضا ہے۔ اس لیے میں آپ سے یہ بات کہنا چاہتا ہوں کہ آپ اپنے آپ کو جو وقت کا تقاضا ہے اُس کو پورا کرنے کے لائق بنانے کی کوشش کریں، اور یہ تربیتی پروگرام جو ہورہا ہے یہ اس سلسلے کی ایک اہم کوشش ہے۔ اس کو جاری رکھیے۔
تو ذمہ داریوں کے لحاظ سے پہلی چیز حالات اور مسائل کا صحیح ادراک ہے۔ میری نگاہ میں سکوک کے باب میں اور تفرق کے باب میں بہت سے علماء نے جو رائے دی ہے وہ حقائق سے صحیح صحیح واقفیت نہ ہونے کی بنیاد پر ہے، یا اس بارے میں غلط مفروضوں کی بناء پر ہے۔ تو یہ بڑی اہم ذمہ داری ہے آپ کی۔ اس لیے یہ جاننا بڑا بنیادی کام ہے کہ کیا حرام ہے، کیا حلال ہے، کیا جائز ہے، کیا ناجائز ہے، کیا ہم کرسکتے ہیں، کیا نہیں کرسکتے، اور اس کو کرنے کے لیے ضروری ہے کہ محض اپنے علمی مآخذ پر انحصار نہ ہو بلکہ عصرِ حاضر میں ہمارے گردو پیش معاشرے میں جو عملی مسائل ہیں، جو معاملات ہیں، جو عرف ہے، اُس میں عرفِ سیۂ کیا ہے ، عرفِ خیر کیا ہے، ان سب چیزوں کا تعین بہت ضروری ہے۔ اور یہ کام تحقیق سے، جستجو سے، محنت سے اور اس قسم کے پروگراموں کے انعقاد سے ہونا ضروری ہے۔ یہ پہلی چیز ہے۔
دوسری چیز یہ ہے کہ بلاشبہ فقہ اس معاملے میں ہمارا اہم ترین رہنما ہے۔ لیکن یہ بات بھی سامنے رکھیے کہ فقہ کے ارتقاء کا ایک خاص تاریخی پس منظر ہے، اور ہمیں دیکھنا پڑتا ہے کہ جو بات ایک خاص ماحول میں، ایک خاص زمانے میں اختیار کی گئی، آج اُس کی کتنی relevance ہے اور کہاں وہ بالکل غیر متعلق ہو گئی ہے۔ یہ کوئی بغاوت نہیں ہے، یہ کوئی انحراف نہیں ہے۔ یہ اُسی فقہی ارتقاء کے عمل کا جاری رکھنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اجتہادِ مطلق کے بعد اجتہاد فی المذہب، اجتہاد فی المسئلہ ، یہ سب نوعیتیں( categories )آپ کو ملتی ہیں۔ یہ محض کتابی چیزیں نہیں ہیں۔ آج ضرورت ہے کہ ان چیزوں کو پوری دیانتداری کے ساتھ، پورے علم کے ساتھ استعمال کریں۔ ہمارے پاس جو فقہی علم ہے وہ ایک بہت بڑا ذخیرہ ہے، ایک زریں ذخیرہ ہے، اس سے پورا پورا فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھنا ہے کہ آج کے حالات میں کونسی چیز متعلق ہے اور کونسی چیزغیر متعلق ہے۔ اور جیساکہ یہاں ایک بھائی نے اشارہ کیا، جو ہمارے اپنے مکاتبِ فکر ہیں، مختلف آراء جو مذہب میں لوگوں نے ظاہر کی ہیں، ان سب کو سامنے رکھیے، دلیل کی بنیاد پر پرکھیے۔ جن میں وزن ہو ان چیزوں کو قبول کیجیے، تعصب نہ رکھیے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم ایک تازگی کیساتھ اس معاملے کو دیکھیں۔ ساتھ ہی میں یہ کہوں گا کہ یہ بھی بہت ضروری ہے کہ فقہ کے احکام اور جو بھی چیزیں ہم نے اخذ(Drive) کی ہیں اُن کے ساتھ ساتھ جو مقاصدِ شریعہ ہیں اُن کو بھی سامنے رکھیے، اُن کاایک بڑا گہرا ربط ہے۔ قرآن و سنت کی جو اصولی، عمومی تعلیمات ہیں مقاصدِ شریعت بھی اُن کے پس منظر میں ہی پوری طرح ہماری سمجھ میں آتے ہیں۔ ہماری ترتیب ہمیشہ یہ رہنی چاہیے کہ قرآن و سنت، مقاصدِ شریعت، فقہ، تاریخ، تعامل۔ ان سب کو اپنے سامنے رکھیں، کسی ایک کے اسیر نہ ہوجائیں، اور کوشش کریں کہ ہم آج کے حالات میں اﷲ کے دین کے حکم اور روح کو سامنے رکھ کر اپنی استعداد کے اندر صحیح رہنمائی کرسکیں۔ تو یہ دوسرا پہلو ہے جس کی طرف میں آپ کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں۔
تیسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جو کچھ جدید اسلامی معاشیات کے حوالے سے موجود ہے، بڑی ضرورت ہے اُس کی تعلیم و آگہی (awareness)کی۔ یہ آگہی طبقۂ علماء میں بھی ہونی چاہیے لیکن یہ عام لوگوں میں بھی کرنے کی ضرورت ہے۔ میری نگاہ میں اسلامی یونیورسٹی نے اس سلسلے میں بڑی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں اور میں جب دیکھتا ہوں کہ ہماری بہت سی کمزوریوں کے باوجود جو گریجویٹ اس نے تیار کیے ہیں، یہ بہت قیمتی کام ہوا ہے۔ خوشی ہوتی ہے کہ یہ لوگ آج کہاں کہاں اور کس طرح خدمات انجام دے رہیں ہیں، صرف پاکستان ہی میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں۔ لیکن یہ کام بہت ہی ذمہ داری کیساتھ مزید کرنے کا ہے، اور اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ آپ لوگ بھی awareness پیدا کریں۔ آپس میں مذاکرات کریں، گفتگو اور بحث کریں، یعنی ایک دوسرے کی تنقیص اور تکفیر کے چکر سے نکلیں۔ مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس قسم کے مباحث بھی پاکستان میں پچھلے دس پندرہ سال میں میری نظر سے گزرے۔ میں نے استفادے کے لیے اُسے بھی پڑھا۔ لیکن مجھے دکھ ہوا ہے کہ جس گفتگو اور بحث سے بہت خیر نکل سکتا ہے اُس میں ہم ٹانگ کھینچنے میں الجھ جاتے ہیں، یہ نہیں ہونا چاہیے۔ تو ا س لیے یہ بات بھی میں آپ سے کہنا چاہتا ہوں۔
آخری چیز میں آپ سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جس دور سے ہم گزر رہے ہیں اُس میں، حقیقت یہ ہے کہ، دین اور اہلِ دین کو خصوصی طورپر ہدف بنایا جارہا ہے، اور اُن کومعاشرے میں الگ تھلگ کرنے اور بے وقار کرنے کی منظم کوششیں کی جارہی ہیں جو ہمارے ملک میں بھی ہورہی ہیں اوریہ دنیا بھر میں ہورہا ہے۔ ان حالات میں ہماری یہ کوشش ہونی چاہیے کہ ہم غصے میں نہ آئیں۔ ردّعمل میں ہم کوئی ایسی چیز نہ کریں جو تشدد یا اسلام کی جو حسین تعبیر ہے، کسی حیثیت سے بھی اُس کو متأثر کرے۔ مداہنت نہ برتیں۔ محض کسی کو خوش کرنے کے لیے حق کو چھپانا یہ ہمارا شیوہ نہیں ہے۔ لیکن اس بات کی ضرورت ہے کہ علماء خصوصیت سے نوجوانوں کا دل جیتنے کی کوشش کریں، اُن کے اعتراضات کو سنیں، اُن پر حرف زنی اور تنقید کے پہلو سے احتیاط برتیں۔ نصیحت اور اصلاح کی ضرور کوشش کریں، یہ ہمارا فرض ہے۔ اور جو اسلوب اختیار کریں وہ وہی ہونا چاہیے جس کی طرف قرآن نے ہمیں تعلیم دی ہے کہ
اُدْعُ إِلَیٰ سَبِیلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْھُم بِالَّتِي ھِیَ أَحْسَنُ’’اے نبیؐ! اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ، اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقہ پر جو بہترین ہو۔‘‘ (۱۶:۱۲۵)
ان تینوں چیزوں کو اگر ہم سامنے رکھیں تو مجھے توقع ہے کہ ان شاء اﷲ آپ اپنی ذمہ داری ادا کرسکیں گے۔
سوال و جواب
سوال: اسلامی معاشیات یا Islamic economics کی تعریف فرمادیں، جو کم از کم فقہ کی نظر سے سمجھنا آسان ہو۔
پروفیسر خورشید احمد: بڑا مشکل سوال آپ نے کیا ہے، بظاہر بہت آسان بھی ہے۔ جہاں تک میں نے مطالعہ کیا ہے، دنیا میں علوم پہلے develop ہوتے ہیں اور اُن کی تعریف بعد میں متعین ہوتی ہے۔ اسی طریقے سے مباحث اور مواعظ اور دروس برسوں ہوتے رہتے ہیں، ٹیکسٹ بک بعد میں آتی ہے۔ مثلاً میں آپ کو معاشیات ہی کی ایک مثال دوں، کہ معاشی اُمور پر تو بحث شروع سے ہوتی رہی ہے لیکن مغرب میں یہ کہا جاتا ہے کہ معاشیات پر سب سے پہلی کتاب ۱۷۷۶ ء میں آدم سمتھ نے لکھی جس کا عنوان تھا: The Wealth of Nations یعنی یہاں سے معاشیات کا آغاز ہوا، لیکن سو سال سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد غالباً ۱۸۹۰ء میں الفریڈ مارشل نے Principles of Economics کے نام سے پہلی ٹیکسٹ بک یا درسی کتاب تحریر کی۔ تو ہمارا مسئلہ بھی یہ ہے کہ اسلامی معاشیات الحمد لِلّٰہ develop ہورہی ہیں، مباحث بھی اُس میں آرہے ہیں، رہنمائی بھی آرہی ہے، عمل بھی ہورہا ہے، لیکن کوئی متعین تعریف اور کوئی متعین درسی کتب ابھی وجود میں نہیں آئی ہیں، گو ہم اُس کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ لیکن ایک working definition جو ہم نے بنائی ہے وہ یہی ہے کہ ’’انسان کے معاشی مسائل کا اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں مطالعہ اور حل‘‘۔ جس میں یہ بھی شامل ہے کہ معاشی مسئلہ ہے کیا۔ یہ نہیں ہے کہ معاشی مسئلہ وہ define کریں اور پھر ہم بتائیں کہ اسلام نے کیا کہا ہے۔ بلکہ یہ بھی ہم ہی بتائیں کہ دراصل معاشی مسئلہ ہے کیا، اور پھر جو مسئلہ ہے اس کے حل کے لیے اسلام نے کیا راستہ اختیار کیا ہے۔ اب مثال کے طور پر یہ جو پورا تصور ہے معاشیات کا کہ وسائل کم ہیں، انسان کی ضروریات لامحدود ہیں، اور ہم نے سارا کھیل ان دونوں کے درمیان ایک رشتہ قائم کرنے میں کرنا ہے، یہ تصور قابل بحث ہے۔ ایک خاص وقت میں کچھ وسائل محدود ہیں، اس سے کوئی بھی انکار نہیں کرتا ۔ لیکن یہ بات کہ وسائل ناکافی ہیں اور ہمیشہ ناکافی رہیں گے، یہ بات صحیح نہیں ہے۔ اسی طرح ضروریات بھی لامحدود نہیں ہیں، نہ صرف محدود ہیں بلکہ ترجیحات ہیں ۔ اور آپ یہ دیکھیے کہ سوچ میں کتنا فرق ہے کہ جب مغرب کے معاشی مفکرین نے انسان کی ان ضروریات کو متعین کیا تو اُنہوں نے تین نوعیتیں یا categories رکھیں: necessities, comforts and luxuries یعنی وہ چیزیں جو ضروری ہیں، وہ چیزیں جو سہولت ہیں اور وہ چیزیں جن کے اندر تعیش شامل ہے۔ مسلمان مفکرین نے جب اسی مسئلے پر غور کیا تو انہوں نے یہ کہا کہ کیا چیز ضرورت ہے، کیا چیز حاجت ہے اور کیا چیز تحسین ہے۔ یعنی کوئی تصور تعیشات کا اُس کے اندر نہیں لایا گیا۔ تو یہ سوچنے کا فرق ہے۔ ہمارا کہنا یہ ہے کہ انسان کے معاشی مسئلے کی تعریف بھی، اُس کا تعین بھی اور پھر اُس کے حل کے ذرائع اور طریقے قرآن و سنت کی روشنی میں۔ یہ ہے اسلامی معاشیات، اور یہ اسلامی معاشیات اسلام کا ایک حصہ ہے، اسلام سے کٹ کر خود معاشی مسائل حل نہیں ہوسکتے۔ یعنی معاشی مسائل کے حل کے لیے بھی غیر معاشی عوامل کی ضرورت ہوگی، اور یہی ہمارا نقطۂ نظر ہے، جسے آپ holistic یا ایک مجموعی یا ایک ایسا تصور کہہ سکتے ہیں جو انسان کی پوری شخصیت کو، انسانی معاشرے کے تمام پہلوؤں کو بیک وقت لے کر چلنا چاہتا ہے۔ یہ اسلامی معاشیات کا تصور ہے۔
سوال: آپ نے اپنی گفتگو میں فرمایاکہ موجودہ معاشی نظام میں مالیاتی مسائل سے زیادہ اخلاقی مسائل ہیں جو اس کو تباہی کی طرف لے جارہے ہیں۔ تو اخلاقی زوال تو ہمارے معاشرے میں بھی پایا جاتا ہے۔اگر اسلامی نظام والے معاشرے میں بھی اخلاقی خرابی کام کرتی رہی اور کچھ مالی نقصان ہو گیا تو الزام تو اسلامی نظام پر آئے گا۔ اس اخلاقی مسئلہ کو ٹھیک کیے بغیر ہم کیسے آگے بڑھ سکتے ہیں؟ اس مسئلہ کا حل کیا ہے؟
پروفیسر خورشید احمد:آپ نے بہت اہم مسئلہ کی نشان دہی کی ہے ۔دیکھیے، مسئلے کا حل کیا ہے؟ پہلی بات جو میں آپ سے کہہ دوں کہ بلاشبہ ہمارے ہاں بھی اخلاقی مسائل ہیں، اس حوالے سے ہم مسلسل رُوبہ زوال ہیں۔ بگاڑ بڑھ رہا ہے، کرپشن بڑھ رہی ہے اور ہم اس سے چشم پوشی نہیں کرسکتے۔ ساتھ ہی یہ ذہن میں رکھیے کہ ہر دور میں اخلاق سے ہٹ کر کام کرنے والے لوگ بھی رہے ہیں، اور اسی لیے آپ کو پتہ ہے کہ تعزیری نظام بھی ہے، احتساب کا نظام بھی ہے، اصلاح کا نظام بھی ہے، یہ سب چیزیں ہماری پوری تاریخ میں رہی ہیں۔ لیکن اپنے اس سارے بگاڑ کے باوجود میں آپ سے پوری دیانت داری سے کہتا ہوں کہ آج بھی اخلاقی اعتبار سے ہمارا معاشرہ نام نہاد مہذب اور مغربی معاشرے سے بہت بہتر ہے۔ ہاں یہ ہے کہ ہم بھی بگاڑ کی طرف بڑھ رہے ہیں، اسے روکنے کی ضرورت ہے۔ لیکن اب بھی بہت بہتر ہیں۔ اب بھی اس معاشرے میں بڑا خیر موجود ہے۔ ایک مثال آپ کو دیتا ہوں۔ حکومت کے ذرائع سے غربت کو کم کرنے کے لیے جو کام کیا جارہا ہے، اگر اُس کا مقابلہ آپ اُس سے کریں جو زکواۃ، صدقات، خاندانوں میں ایک دوسرے کی مدد کی بناء پر کیا جارہا ہے، تو اس سلسلے میں خود اہلِ مغرب کے اداروں نے جو studiesکی ہیں وہ بھی یہ کہتی ہیں کہ پاکستان میں نجی سطح پر خیرا ور بھلائی کے کاموں میں خرچ کرنے کا بہت رحجان پایا جاتا ہے۔ یہ میں آپ کو سات آٹھ سال پہلے کی بات بتا رہا ہوں،جب کہ اُس وقت کی حکومت کی طرف سے تعلیم اور صحت کے لیے مرکزی بجٹ میں بیس، اکیس بلین روپے رکھے جاتے تھے، جب کہ تحقیقی اداروں کے اندازوں کے مطابق پاکستان میں صدقات، خیرات اور دین کی بنیاد پر نوے سے سو ارب روپے تک خرچ ہورہے ہیں، اور اس رقم میں اُن افراد کی محنت کا معاوضہ شامل نہیں ہے جو اپنا وقت رضاکارانہ طور پر دیتے ہیں۔ حال ہی میں امریکہ میں ہارورڈ سے بھی اسٹڈی آئی ہے کہ اگرچہ امریکہ میں امیروں کی کوئی کمی نہیں ہے، لیکن امریکہ کی جو پاکستانی کمیونٹی ہے، یہ پاکستانی کمیونٹی سب سے زیادہ سخاوت کرنے والی کمیونٹی ثابت ہوئی ہے۔
تو ہمارے معاشرے کے اندر آج بھی خیر ہے، الحمد لِلّٰہ! لیکن بات آپ کی بالکل درست ہے ۔ اور یہ میری اور آپ کی ذمہ داری ہے کہ ہم ہر ممکن طریقے سے اخلاقی زوال کو روکنے کی کوشش کریں۔ اس کا پہلا مرحلہ تو تعلیم و تلقین ہے۔ اس لیے کہ اخلاق کی بنیاد ہے، اﷲ کا خوف، آخرت کی جواب دہی کا احساس۔ یہ احساس جتنا زیادہ ہم پیدا کریں گے، اپنے گھر میں، اپنے بچوں میں، اپنے طلبہ میں، اپنے معاشرے میں، مسجد کے ذریعے سے اور دیگر ذرائع سے، اتنا ہی ہم اس زوال کو روک سکیں گے۔ دوسری توجہ طلب چیز ہے، میڈیا۔ آج میڈیا بگاڑ کا ذریعہ بنا ہوا ہے۔ اس پر گرفت کرنے کی، اس کے اصلاح کرنے کی، اور اس کو صحیح رُخ دینے کی بے حد ضرورت ہے۔ اس کے بعدنظامِ تعلیم، سیاسی قیادت، دینی قیادت، پھر حکومت، یہ سارے ذرائع اس میں ذمہ دار ہیں۔ لیکن اس سب کے باوجود میں یہ بات کہتا ہوں کہ مالی معاملات کو تحریر میں لانے کا پابند کر دیا جائے تو پھر قانون کی خلاف ورزیوں اور بداخلاقیوں کا دروازہ اگر بند نہیں ہوتا تو کم از کم محدود ضرور ہوجاتا ہے۔ قرآن کا حکم بھی یہی ہے کہ مالی معاملات کو تحریر میں لایا جائے۔ اسی طریقے سے میں نے یہ بات لکھی بھی ہے اور کہی بھی ہے کہ اس ملک کے قوانین کے اندر بھی بڑی تبدیلیاں کرنے کی ضرورت ہے۔ یعنی اس وقت معاملہ یہ ہے کہ اگر آپ سود کمائیں تو وہ آپ کی cost of production کا حصہ بن جاتا ہے، لیکن اگر آپ نفع کا حصہ لیں تو وہ taxable کہلاتا ہے۔ یہ قانون کی خرابی ہے۔ اس لیے کہ ایک آدمی مجبور ہوتا ہے کہ وہ اپنے نفع کو نہ دکھلائے، ایک غلط کام کرے۔ تو اخلاقی اصلاح کی بھی ضرورت ہے اور قانونی اصلاح کی بھی ضرورت ہے۔ ساتھ ساتھ اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ ہمارے بنک جو اسلامی کام کررہے ہیں، وہ اس بات کی کوشش کریں کہ عوام میں ایک اخلاقی احساس بھی بیدار کریں کہ ہم آپ کو حلال کی طرف لارہے ہیں، حرام سے بچارہے ہیں، تو اس میں آپ بھی اس بات کا پورا احساس کریں کہ کوئی چیزاگر آپ ہم سے چھپاتے ہیں تو یہ صرف دنیاوی اعتبار سے ہی نہیں بلکہ اُخروی اعتبار سے بھی ایک خسارے کا سودا ہوگا۔ اگر یہ سارے پہلو آپ اختیار کریں تو حالات بدلیں گے۔ اوریہ بات واضح ہے کہ اخلاق کی اصلاح کے بغیر صرف معیشت یا سیاست ہی نہیں، کسی چیز کی بھی اصلاح نہیں ہوسکتی۔
سوال: اسلامی بنکاری کے نام سے جو کچھ ہو رہا ہے اس میں جید علماء پیش پیش ہیں۔ تا ہم کراچی کے چند دیگر جید علماء کی یہ رائے بھی سامنے آئی ہے کہ وہ فقہ اور اجتہاد کی بنیاد پر ہونے والے اس کام کو اسلامی نہیں مانتے۔ عام مسلمان جو اسے اسلامی سمجھ کر اس کی طرف آ رہے ہیں یا ایسے بنکوں میں ملازمت کر رہے ہیں وہ تردد کا شکار ہیں۔ آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟
پروفیسر خورشید احمد: میں نے دبے الفاظ میں اشارہ کردیا تھا اُس بات کی طرف جس کی طرف آپ نے متوجہ کیا ہے۔ مجھے دکھ ہوا اُس بحث سے جس کی طرف آپ نے اشارہ کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ دونوں ہی گروپس کے جو علماء ہیں وہ بڑے قابل عزت ہیں، قابل احترام ہیں۔ لیکن تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ وہ بحث ذاتیات پر پہنچ گئی ہے اور اس کی وجہ سے ایک بڑے مقصد کو نقصان ہوا ہے، اعتماد متأثر ہوا ہے۔ لیکن بڑے ادب سے میں عرض کروں گا کہ میری نگاہ میں جن افراد نے اس قیمتی کام کی تنقیص کی ہے اُن کے دلائل زیادہ قوی نہیں ہیں۔ اور اسی بناء پر میں سمجھتا ہوں کہ جو مثبت کوشش ہوئی ہے اور جس کے پیچھے صرف پاکستان ہی کے نہیں پوری دنیا کے علماء موجود ہیں اُس کو میں ایک زیادہ قابل قدر، زیادہ بہتر اور دلائل کے لحاظ سے زیادہ قوی سمجھتا ہوں۔ ہمیں اس کا خیال کرنا چاہیے۔
سوال: آپ نے بڑی خوبصورت بات کی کہ ہمارے ہاں وراثت میں مال و دولت کا حصہ حاصل کرنے پر تو زور ہوتا ہے لیکن کفالت کی ذمہ داریوں میں جو حصہ ہوتا ہے اسے نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ ان شرعی تعلیمات کو منبر و محراب سے بھی بیان کیا جانا چاہیے۔کیا اس طرح کچھ شعور و بیداری پیدا کی جاسکتی ہے؟
پروفیسر خورشید احمد: بہت شکریہ، جزاک اﷲ خیر! میں نے خود بھی اس طرف اشارہ کیا تھا اور جو علماء کی ذمہ داریاں ہیں اُس کی طرف بھی توجہ دلائی ہے۔ اُس میں شعور و بیداری (awakening)کو ایک بڑے اہم نکتے کی حیثیت سے میں نے آپ لوگوں کے سامنے رکھا ہے۔ اور یہ حقیقت ہے کہ ہماری ذمہ داری ہے کہ شریعت کے تمام احکام کو، خصوصیت سے اجتماعی زندگی سے متعلق جو چیزیں ہیں، اُن کی تعلیم کا فریضہ ادا کریں۔ اس معاملے میں، میری رائے میں، بہت غفلت برتی جارہی ہے۔ چند موضوعات ہیں جن پر صبح و شام اور ہر جمعہ کی خطبے میں بات کی جاتی ہے لیکن جو دوسرے پہلو ہیں جو اُتنے ہی اہم ہیں اُن کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ اگر آپ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب کے ملفوظات دیکھیں، تو آپ یہ پائیں گے کہ سوسائٹی کے چھوٹے چھوٹے مسائل میں بھی، جہاں کہیں اُن کو بگاڑ نظر آیا انہوں نے اُن سب کو لیا۔ بلکہ کبھی کبھی پڑھتے ہوئے آدمی محسوس کرتا ہے کہ یہ انہی جیسے بلند درجہ آدمی کا کمال تھا جو ان معمولی چیزوں کو بھی بیان ضرور کردیتا تھا۔ اور اسی سے پھر ’’شریعت میں کوئی شرم نہیں‘‘ کا محاورہ بھی وجود میں آیا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں اس زمانے میں بڑی غفلت ہے۔ خود وراثت کو آپ لے لیجیے۔ وراثت میں یہ ہے کہ اسلام نے عادلانہ تقسیمِ دولت کا نظام بنایا ہے، ایک بہت بڑی تعداد اُس پر بھی عمل نہیں کرتی۔ نفقۃ العقارب تو دوسری چیز ہے۔ ہمیں اس کو بھی ترقی دینے کی ضرورت ہے۔ خود زکواۃ و صدقات، انفاق، ہمسائے کے حقوق، رشتے داروں کے حقوق، سگے بھائیوں کے حقوق ادا نہیں ہورہے ہیں اور لوگوں کو احساس نہیں ہے اس بات کا۔ اسلام تو یہاں تک گیا ہے کہ اگر ایک محلے میں یا بستی میں ایک شخص قتل ہوجاتا ہے اور اُس کے مجرم نہیں پکڑے جاسکے، تو اُس پوری بستی پر دیت عائد کی گئی ہے۔ ہماری تاریخ میں ایسی مثال نہیں ملتی، خدانخواستہ اگر کہیں فاقے سے کوئی شخص کسی محلے میں مرجائے تو اُس کی ذمہ داری اس علاقے کے لوگوں پر ہے۔ یہ محض اخلاق نہیں، قانون کا حصہ ہے، لیکن لوگوں کو اس کا علم نہیں ہے۔ تو ان چیزوں کو پھیلانے کی، سمجھانے کی ضرورت ہے۔ جوکچھ لوگوں کو پتہ ہے اس سے الحمد لِلّٰہ بہت خیر رونما ہورہا ہے۔ لیکن اگر ہم پوری تعلیمات لوگوں تک پہنچائیں اور اس پر عمل کریں تو آپ دیکھیں گے کہ پورا معاشرہ خیر سے بھر جائے۔ تو یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اسے پہنچائیں۔ اور اسی لیے میں نے یہ بات آپ سے کہی تھی کہ آگہی اور awareness پیدا کرنا میری اور آپ کی ذمہ داری ہے۔ مجھے دکھ ہوتا ہے کہ آج ٹی وی پر جو دینی پروگرام ہوتے ہیں اُن میں ایسی ایسی چیزیں پیش کی جاتی ہیں جو اُلجھاؤ پیدا کرتی ہیں، اُن پر غیر ضروری بحثیں ہوتی ہیں، اور وہ جو کھلی کھلی اور دو اور دو چار کی طرح واضح ہدایات ہیں دین کی، جس کے ذریعے سے انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی بالکل ایک دوسرا نمونہ بن سکتی ہے، اُس کی طرف کوشش نہیں کی جاتی۔ اس لیے یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم ان چیزوں کو اہمیت دیں اور اُن کو پھیلائیں۔
سوال: کیا آپ نے عربوں کی تاریخ کا حوالہ دے کر آج کی کاغذی کرنسی کو جواز فراہم کیا ہے؟
پروفیسر خورشید احمد: دیکھیے، کاغذی کرنسی ایک چیز ہے، اور کاغذی کرنسی کو کسی basis کے بغیر جاری کرنا اور چیز ہے۔ اگر وہ ذریعہ ہو تو کوئی مضائقہ نہیں ہے، لیکن جب وہ خود money creation کا ذریعہ بن جائے تب اُس سے خرابی پیدا ہوتی ہے۔
سوال: موجودہ دور میں جو financial crisis چل رہے ہیں اس میں اسلامی بنک کہاں تک کامیاب ہو سکتے ہیں؟ کیا ایسے ماڈل ہیں جن میں پورے اطمینان سے لوگ اپنی بچتوں کی سرمایہ کاری کر سکیں؟
پروفیسر خورشید احمد: میں نے اس کی طرف اشارہ کیا تھا۔ یعنی بحیثیت مجموعی اس سمت میں قدم تو اٹھایا گیا ہے، لیکن جس تناسب سے ہونا چاہیے وہ صحیح نہیں ہے۔ اس وقت مرابحہ کی بنیاد پر تقریباً ۸۰سے۸۵ فیصدی تک بچتوں کا استعمال ہورہا ہے۔ مضاربت اور مشارکت مشکل سے چار سے آٹھ فیصدی ہیں۔ باقی سرمایہ دیگر قسموں میں استعمال ہورہا ہے۔ کوشش یہ ہونی چاہیے کہ اس کا تناسب برابر بڑھے۔ صرف سوڈان ایک ایسا ملک ہے جس میں مضاربت اور مشارکت کی بنیاد پر معاشی سرگرمیوں کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے، اور جو آخری رپورٹ میں نے پڑھی تھی اُس میں کوئی ۳۸ فیصد اُن کے ہاں اس شکل میں آگیا تھا۔ جو میری نگاہ میں بہت ہی اچھی developmentہے۔ تمام مسلم ملکوں میں ہمیں اس سمت میں بڑھنے کی ضرورت ہے۔ اور جہاں تک مغربی معاشرے کا تعلق ہے، مغربی معاشرہ مجبور ہورہا ہے کہ اس طرف آئے۔ لیکن میری نگاہ میں اب جس مقام پر وہ پہنچ چکے ہیں اُس میں ان کے لیے بڑا مشکل ہے کہ وہ دوبارہ سارے وسائل کو real economy کی طرف لاسکیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مسلسل معاشی بحران کی طرف بڑھ رہا ہے۔