تجارت میں ضروری ہے وعدے اور معاہدے کی پابندی

wada

عمرفاروق راشد
حضرت عبداللہ بن ابی الحمسا رضی اللہ تعالی عنہ کا قصہ عجیب ہے۔ فرماتے ہیں: نزول وحی اور اعلان نبوّت سے پہلے میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے خرید و فروخت کا ایک معاملہ کیا۔ کچھ رقم میں نے ادا کر دی، کچھ باقی رہ گئی۔ میں نے وعدہ کیا کہ میں ابھی ابھی آکر باقی رقم بھی ادا کردوں گا۔ اتفاق سے تین دن تک مجھے اپنا وعدہ یاد نہیں آیا۔ تیسرے دن جب میں اس جگہ پہنچا جہاں میں نے آنے کا وعدہ کیا تھا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی جگہ منتظر پایا۔ مگر اس سے بھی زیادہ عجیب یہ کہ میری اس وعدہ خلافی سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ماتھے پر اک ذرا بل نہیں آیا۔
بس صرف اتنا ہی فرمایا : تم کہاں تھے؟ میں اس مقام پر تین دن سے تمہارا انتظار کر رہا ہوں۔ (سنن ابو داؤد :2/334) ہماری زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جو وعدے یا معاہدے سے خالی ہو۔ جس قدر مبالغے کے ساتھ یہ ہماری زندگیوں کا حصہ ہے، اسی درجے میں ہم اس سے غفلت ، لاپروائی اور بے اعتنائی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ آپ دیکھیے۔ جب آپ کہیں ملازمت کرتے ہیں تو سرکاری یا غیر سرکاری ادارے میں جو اوقات کار متعین ہوں، آپ ان اوقات میں اپنی ڈیوٹی پر حاضر رہنے کا عہد کرتے ہیں۔ اگر آپ ان اوقات کی پابندی نہ کریں، دیر سے دفتر پہنچیں، پہلے دفتر سے نکل جائیں یا درمیان میں دفتر چھوڑ دیں۔ اسی طرح دفتر کے اوقات میں کاموں کو انجام دینے کے بجائے اپنے ذاتی کام کرنے لگیں تو یہ بھی وعدے کی خلاف ورزی میں شامل ہے۔ بعض شعبوں میں ملازمین کو خصوصی الاؤنس دیا جاتا ہے کہ وہ پرائیویٹ طور پر کوئی اور کام نہ کریں۔ مثلاً میڈیکل شعبے میں گورنمنٹ چاہتی ہے کہ ڈاکٹر کی پوری صلاحیت سرکاری دواخانے میں آنے والے مریضوں پر خرچ ہو۔ کیوں کہ انسان کی قوت کار محدود ہے اورجو شخص ہسپتال میں آنے سے پہلے اپنی قوت ڈھیر سارے مریضوں کو دیکھنے پر صرف کر چکا ہو۔ یقینا اب جو مریض اس کے سامنے آئیں گے ، وہ کماحقہ ان کی تشخیص نہیں کرسکے گا۔ اب اگر کوئی شخص گورنمنٹ سے الاؤنس بھی حاصل کرے اور نجی کلینک اور نرسنگ ہوم بھی چلائے تو یہ وعدہ خلافی ہی کے زمرے میں آئے گا۔
وعدے کا تعلق ہماری تقریبات، جلسوں اور دعوتوں سے بھی ہے، مثلاً: دعوت نامہ میں لکھا گیا ہے کہ نکاح عصر کے بعد ہو گا، لیکن جب تقریب میں پہنچے تو معلوم ہوا کہ وہ تو بس یوںہی رواج کے طور پر لکھا تھا۔ اصل وقت بہت دیر بعد ہے۔ کیا یہ وعدے کی خلاف ورزی نہیں ؟ غور کیجیے لوگ ایسی تقریبات میں شرکت اپنے تعلقات کی پاس داری میں کرتے ہیں۔ کسی کے یہاں بیماری ہے ، کوئی خود بیمار ہے ،کسی نے تقریب کے وقت کے لحاظ سے آئندہ پروگرام بنا رکھا ہے۔ ایسے مواقع پر یہ تاخیر اس کے لیے کس قدر گراں گزرتی ہے۔ آپ خود اندازہ کر لیجیے۔
اسلام میں بڑی تاکید کے ساتھ عہد کو پورا کرنے کا حکم دیا گیا اور عہد شکنی کی مذمت کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’عہد کو پورا کرو، کیوں کہ قیامت کے دن عہد کے بارے میں انسان جواب دہ ہو گا۔‘‘( بنی اسرائیل) قرآن نے ان لوگوں کی تعریف کی ہے ، جو وعدے کو پورا کیا کرتے ہوں۔ (البقرۃ)خود اللہ تعالیٰ نے اپنی اس صفت کا بار بار ذکر فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ وعدہ کی خلاف ورزی نہیں کرتے۔ (الحج)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشادات کے ذریعے بھی ایفائے عہد کی اہمیت اور وعدہ خلافی کی برائی کو بیان فرمایا ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس میں تین باتیں پائی جاتی ہوں وہ منافق ہے: جب بات کرے تو جھوٹ بولے، وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے، اگر امانت رکھی جائے تو خیانت کرے ۔‘‘ (بخاری )
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم کی نگاہ میں وعدہ پورا کرنے کی کس قدر اہمیت تھی۔ دوست ہو یا دشمن، اپنا ہو یا بے گانہ او رمسلمان ہو یا غیر مسلم ، ہر ایک کے ساتھ عہد کی پابندی ضروری ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلح حدیبیہ سے جونہی فارغ ہوئے حضرت ابوجندل رضی اللہ عنہ خون میں لہولہان او رپاؤں میں بیڑیاں لگی ہوئی تشریف لے آئے۔ آکر مسلمانوں سے عرض کناں ہوئے کہ انہیں مدینہ لے جایا جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مکہ کو راضی کرنے کی کوشش کی۔ اس دفعہ سے، جو مکہ سے مسلمان ہو کر مدینہ جانے والوں کو واپس کرنے کے سلسلہ میں ہے ، حضرت ابو جندل رضی اللہ عنہ کو مستثنیٰ رکھا جائے ، لیکن اہل مکہ نے نہیں مانا۔ بالآخر آپ نے انہیں واپس فرمادیا۔ اسی طرح غیر مسلم قبائل سے آپ کے معاہدات ہوئے، آپ نے ان معاہدات کا پورا خیال رکھا، بلکہ بعض دفعہ مخالفین کی عہد شکنی کو برداشت کرتے ہوئے بھی آپ اپنے عہد پر قائم رہے۔
لوگوں کے ذہنوں میں آج عہد اور معاہدے کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہ گئی۔ عام طور پر لوگ سمجھتے ہیں قرض وغیرہ کے لین دین ہی سے وعدہ کا تعلق ہے۔، حالانکہ ہم زندگی کے تمام مراحل میں عہد وپیماں سے گزرتے ہیں۔ معاملات جتنے بھی ہیں ، نکاح، خرید وفروخت، شرکت اور پارٹنر شپ، دو طرفہ وعدہ ہی سے عبارت ہے۔ اسی لیے معاملات کو عقد کہا جاتا ہے، عقد کے معنی دو طرفہ وعدہ اور معاہدہ کے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایک سے زیادہ مواقع پر ایفائے عقود کی طرف متوجہ فرمایا ہے۔ (المائدہ)
آج یہ آیات، احادیث اور واقعات تاجر برادری کو سب سے زیادہ اپنی طرف متوجہ کر رہے ہیں۔ ان کے معاملات و معاہدات پاسداری کے لحاظ سے سب سے زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ پاکستان کا تاجر وعدے اور معاہدے کی پابندی کے حوالے سے بین الاقوامی دنیا میں کچھ اچھی شہرت نہیں رکھتا۔ عزم کیجیے ہمارا کوئی بھی چھوٹا یا بڑا وعدہ یا معاہدہ پابندی اور پاسداری کے بغیر نہ ہوگا۔ یہ ہمارا فریضہ بھی ہے اور لین دین کی متعدد الجھنوں کا حل بھی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *