’’خلوص و للہیت ،محنت و ایمانداری کے سہارے بڑے کام کئے جاسکتے ہیں‘‘:محبوب الحق

یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے چانسلرمحبوب الحق کو اپنے خستہ حال کرائے کے گھر کے سامنے:تصویر معیشت
یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے چانسلرمحبوب الحق کو اپنے خستہ حال کرائے کے گھر کے سامنے:تصویر معیشت

نارتھ ایسٹ میں پہاڑوں پر بساریاست میگھالیہ اب چائے کی تجارت کے ساتھ تعلیمی ترقی کا گہوارہ بنتا جارہا ہے۔ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے بانی محبوب الحق ان لوگوں میں ہیں جنہوں نےپہاڑی خطے کو تعلیمی میدان میں تبدیل کردیا ہے ۔پیش ہےمعیشت کے ایڈیٹر دانش ریاض کی یونیورسٹی کے چانسلر محبوب الحق سے ملاقات کی مختصر روداد

۲۰۱۴؁ کے نومبر کا دوسرا عشرہ تھاجب یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (میگھالیہ )کے چانسلر محبوب الحق کا نام سماعت سے ٹکرایا تھا ۔ہم ان لوگوں کو ایوارڈ دے رہے تھے جنہوں نے ملک و ملّت کے حق میں نمایاں خدمات انجام دی ہوں۔بالآخر رات کے کسی پہر ہم نے انہیں برقی پیغام بھیجا اور دوسرے ہی روز ان کا جواب حاضر تھا’’ اگر طبیعت بحال رہی تو حاضررہنے کی کوشش کروں گا‘‘۔میں نے ہمت مجتمع کرکے ایک بار فون بھی ملا لیا کہ ایوارڈ دیتے وقت کسی کی غیر حاضری بدنظمی کا باعث نہ بنے،فون پر محبوب الحق کہنے لگے ’’دعا کریں میں آپ کے پروگرام میں حاضر ہوجائوں‘‘۔اور پھر ۲۱نومبر کی صبح ان کے دوست توحید عالم صاحب کا فون موصول ہو اکہ محبوب الحق صاحب دہلی کے انڈیا اسلامک کلچرل سینٹرمیں تشریف لاچکے ہیں اگر فرصت ہوتو ملاقات کر لیں۔چند لمحوں بعد ہی میں ایک ایسے شخص کے سامنے کھڑا تھا جو چہرے بشرے سے کم از کم کسی یونیورسٹی کے چانسلرکی جگہ کوئی عالم دین نظر آرہا تھا۔ سفید کرتا پاجامہ میں ملبوس محبوب الحق سوتی ٹوپی اور روایتی صدری زیب تن کئے ہوئے تھے۔باریش مسکراتا ہوا چہرہ ان کی بشاش طبیعت کا مژدہ سنا رہا تھا۔بڑے تپاک سے گلے لگاتے ہوئے کہنے لگے’’آپ نے یاد کیا اور میں حاضر ہوگیا‘‘۔

یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے چانسلرمحبوب الحق کو اپنے گھر کے ڈرائنگ روم میں علی گڈھ کے سابق وائس چانسلر اور بمبئی مرکنٹائل بینک کے چیرمین محمود الرحمن سے محو گفتگو:تصویر معیشت
یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے چانسلرمحبوب الحق کو اپنے گھر کے ڈرائنگ روم میں علی گڈھ کے سابق وائس چانسلر اور بمبئی مرکنٹائل بینک کے چیرمین محمود الرحمن سے محو گفتگو:تصویر معیشت

پہلی ہی ملاقات میں گہرے نقوش چھوڑنے کی ادا مجھے پسند آئی لیکن اس کابہتر احساس تو مجھےیونیورسٹی کے دورہ کے بعد ہی ہوا کہ آخرایک شخص نےمختصر مدت میں کس طرح اپنے ادارے کوچار سو ایکڑ تک وسعت دینے میں کامیابی حاصل کر لی ہےجبکہ بیشتر کورسیز بھی کامیابی کے ساتھ چل رہے ہیں اور طلبہ کی بڑی تعداد استفادہ کر رہی ہے۔
محبوب الحق کی پیدائش آسام کے مسلم اکثریتی ضلع کریم گنج کے پربوگل(Purbogool) میں یکم دسمبر ۱۹۷۳؁ کو ہوئی ۔مقامی طور پر ہی ابتدائی تعلیم حاصل کی لیکن سینئر سیکنڈری اسکول کے لئے انہوں نے جی سی کالج سلچر کا رخ کیا جہاں سے سائنس میں انٹرمیڈیٹ کی امتیازی ڈگری لی۔لیکن بی ایس سی اور ایم سی اے کے لئے علی گڈھ مسلم یونیورسٹی کو بہتر سمجھا اور امتیازی نمبرات سے B.ScاورMCAکی سند لی۔۲۰۰۰؁ میں جب انہوں نے آسام واپس جانے کا ارادہ کیا توکئی نوکریاںہاتھ جوڑے کھڑی تھیں لیکن وطن واپسی کی خواہش اور کچھ نیا کردکھانے کا جذبہ ، وطن واپسی پر مجبور کرگیا۔
محبوب الحق معیشت سے گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں’’ہم آٹھ بھائی تھے جبکہ میرے ابّو ’’گائوں پنچایت ‘‘کی نوکری کیا کرتے تھے ۱۹۸۴؁ میںجب میں درجہ ہفتم (7th)کاطالب علم تھا تو میرے والد کا انتقال ہوگیا۔والد صاحب کی موت سے والدہ دلبرداشتہ رہنے لگیں۔ ان کی طبیعت مسلسل خراب رہتی تھی، لہذا میںنے اپنا پورا وقت ان کے ساتھ گذارا لیکن تین سال کے بعد ۱۹۹۱؁ میں جب کہ میں انٹرمیڈیٹ میں زیر تعلیم تھا والدہ بھی ساتھ چھوڑ کر جوار رحمت میں چلی گئیں۔والدہ کا انتقال نومبر میں ہوا تھا اور میں دوماہ بعدجنوری میں ہی علی گڈھ چلاگیا ۔میرے بڑے بھائی قمر الحقپروفیسر تھے جبکہ دوسرے بھائی نورالحق لائبریرین۔گھر میں بھی پڑھنے لکھنے کا ماحول تھا لیکن والدین کے انتقال کے بعد میں اپنی دنیا آپ بنانا چاہتا تھا ۔غربت کے ماحول میں ہی میں نے زندگی گذاری تھی۔ جب علی گڈھ مسلم یونیورسٹی میں پڑھنے کے ارادے سے نکلا تھا تو اس وقت مجھے یہ معلوم نہ تھا کہ میں گذر اوقات کے لئے کونسا شغل اختیار کروں گا۔شروع سے ہی تبلیغی جماعت کے ساتھ گشت کی عادت تھی لہذا علی گڈھ میں بھی جماعت میں جانے لگا ۔ایک دن جماعت کے ساتھی نے کہا کہ تمہاری قراءت اچھی ہے جبکہ لباس بھی تم عالموں والا پہنتے ہو، کیوں نہ تم جمال پور کےکمشنر کالونی کی مسجد میں امامت کا فریضہ انجام دے لو،تمہارے گذر بسر کا انتظام بھی ہوجائے گا اور مسجد کی ضرورت بھی پوری ہوجائے گی۔بالآخر ۱۵۰۰روپئے پر میں نے امامت کی ذمہ داری سنبھال لی اور تین برس تک امامت کرتا رہا چونکہ یونیورسٹی میں میرے اخراجات ۱۰۰۰(ہزار)روپئے میںہی پورے ہوجاتے تھے لہذا مسجد کی طرف سے ملنے والی رقم میںسے(پانچ سو) ۵۰۰روپئے میں مسجد کو ہی واپس کردیتا تھا۔‘‘
زندگی کسمپرسی میں گذرتی رہی لیکن علم کی شمع حیاتِ جاوداں کو تابناک بناتی رہی۔ ہر مقام پر اول رہنے والے محبوب الحق یونیورسٹی سے فراغت کے بعد جب آسام واپس گئے تو علی گڈھ سے ہی ایک کمپیوٹر ساتھ لےگئےاور اندرا گاندھی نیشنل اوپن یونیورسٹی(IGNOU) کے بچوں کوٹیوشن پڑھانے کا سلسلہ شروع کردیا ساتھ ہی سکّم منی پال سے بھی فرنچائزی لے لی لہذا بچوں کی ٹیوشن سے شروع ہونے والا سفر ۱۸بچوں کے داخلے تک پہنچ گیا جو ۲۰۰۱؁ میں سنٹرل آئی ٹی کالج کی بنیاد کا سبب بنا ۔‘‘محبوب الحق کہتے ہیں’’زندگی میں جب تھوڑی سی کشادگی محسوس ہوئی تو ۲۰۰۴؁ میں میں نے شادی کر لی اور ڈھائی ماہ بعد سفر حج پر روانہ ہوگیا۔یہ وہ دور تھا جب کالج میں ۴۰۰ بچے زیر تعلیم تھے اور میری زندگی بھی خاص سمت میں رواں دواں تھی۔بالآخر ۲۰۰۵میں ہم نے ایجوکیشن ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ فائونڈیشن(ERD Foundation)کی بنیاد رکھی اور ۲۰۰۷میں ۷۰۰بچوں کا داخلہ لیا۔اسی دوران ہم نے ریجنل کالج کی بنیاد رکھی جبکہ ابھی وومنس کالج کے قیام کی تیاریاں چل رہی ہیں۔‘‘
وسیع و عریض یونیورسٹیکی بنیاد ڈالنے والے محبوب الحق کیاشاہی خاندان سے وابستہ تھے کہ بٹوارے کی جائداد سے انہوں نے بڑا کام کیا ہو ؟یہ سوال ذہن میں آتے ہی ان کی زندگی کے گوشے واشگاف ہونے لگے ۔محبوب الحق کہتے ہیں’’علی گڈھ میں بھی اکثر میں ایک ہی وقت کا کھانا کھایاکرتا تھا جبکہ کئی بار پیسہ نہ ہونے کی وجہ سے یونیورسٹی کینٹین سے کھانا بند کردیا جاتا تھا۔کبھی دوستوں سے قرض لے کر اپنی بھوک مٹاتا ، علی گڈھ کی زندگی جس کرب میں گذری ہے اس کا بیان بھی دل کو تڑپا جاتا ہے۔لیکن ایسا نہیں ہے کہ جب آسام واپسی ہوئی تو حالات بدل گئے حقیقت یہ ہے کہ جب کالج کا کاروبار چل پڑا اور بڑی تعداد پڑھائی کرنے لگی تو کلاس ختم ہونے کے بعد میں کالج میں ہی صوفہ سیٹ پرسوجاتا جبکہ مسلسل دوسال تک ہوٹل کا کھانا کھاتا رہا۔۲۰۰۲؁ تک تو معاملہ یہ تھا کہ کوئی شخص اس ڈر سے مجھے مکان کرائے پر نہیں دیتا تھا کہ میں اس کا کرایہ ادا بھی کروں گا یا نہیں،نہ تو کوئی گھر دیتا تھا اور نہ ہی کسی طرح کی کوئی رہنمائی مشفق و مربی ،میں دوستوں کا حلقہ بڑھاتا رہا اور جولوگ بھی میرے ساتھ وابستہ ہوئے وہ میرے قریب سے قریب تر ہوتےچلے گئے۔دراصل ہمارا تعارف ہمارے طلبہ وطالبات نے کرایا ،کیونکہ جو بھی یہاں سے پڑھ کرجاتا وہ بعد میں کئی ایک کے داخلے کا سبب بنتا‘‘۔
محبوب الحق کی انسان دوستی اور مقصد میں تمام چیزوں کو وار دینے کے جذبےکی مثال اس سے بہتر اور کیا دی جاسکتی ہے کہ چار سو ایکڑ زمین پر یونیورسٹی قائم کرنے والے آج بھی گوہاٹی میں ایک خستہ حال کرائے کے مکان میں رہتے ہیںجبکہ ان کے ساتھ کام کرنے والے افراد اپنی کوٹھیاں تعمیر کرچکے ہیں۔اپنے قریبی اور مشن میں ساتھ دینے والوں کی ہر لمحہ فکر انہیں ستائے رکھتی ہے اور ان کی بہتری کے لئے وہ کام کرنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں جن لوگوں نے بھی ان کے مشن کو کامیاب کیا ہے ان پر انعام و اکرام کاایک طریقہ یہ بھی ہے کہ انہیں سفر حج پر روانہ کردیتے ہیں۔علی گڈھ مسلم یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر اور بمبئی مرکنٹائل بینک کے چیرمین محمود الرحمن صاحب کی اپنے گھر پرپر تکلف دعوت کے دوران کہتے ہیں’’میری اہلیہ اس بات سے شاقی رہتی ہیں کہ میں اپنے لئے کچھ نہیں کرتا او ر آج بھی کرائے کے مکان میں رہتا ہوںجبکہ میرا مطمح نظر یہ ہے کہ جب زندگی گذارنے کا سامان میسر ہے تو پھر مزید آسائش کی تلاش کیوں کی جائے؟‘‘
ملکی و ملّی مسائل پر گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’اس وقت مسلمانوں کے تعلق سے جو منفی ذہنیت پروان چڑھی ہے اس میں خود مسلمانوں کا بھی رول بہت اہم ہے۔بہت سارے مسائل ہم نے خود پیدا کئے ہیں۔میں خاموشی کے ساتھ کام کرنے پر یقین رکھتا ہوں۔ہم نے اکیڈمک میں بہت کام نہیںکیا ہے حالانکہ اس سلسلے میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘محبوب الحق کہتے ہیں’’میرے ادارے میں ۷۵%طلبہ و طالبات دوسری کمیونیٹی کے ہیںدراصل جب آپ لوگوں کی بہتری کے لئے کام کریں گے تو پھر لوگ بھی آپ کا ساتھ دیں گے۔الحمد للہ آج ہمارے پاس یونیورسٹی ہے اور صرف اللہ کی ذات نے ہی اسے اس بلندی تک پہنچایا ہے۔‘‘
فی الحال یونیورسٹی میں ۲۰۰۰(دوہزار)طلبہ و طالبات زیر تعلیم ہیں لہذامحبوب الحق نارتھ ایسٹ کے لوگوں کو اپنی جانب راغب ہوتا دیکھ کہتے ہیں’’دراصل نارتھ ایسٹ میں کوالیٹی انسٹی ٹیوشن کی کمی تھی ہم نے اس کوالیٹی کو فراہم کرنے کی کوشش کی ہے جس کا نتیجہ ہے کہ ہمارے یہاں طلبہ و طالبات کی بڑی تعداد آرہی ہےاور مجھے امید ہے کہ آئندہ برسوں میں یہاں کے طلبہ کا باہر جانے کا سلسلہ بھی کسی حد تک بند ہوجائے گا۔اس وقت یہاں میڈیکل کالج کی شدید ضرورت ہے اگر کوئی پارٹنرشپ میں بھی یہ کالج کھولناچاہے تو ہم اس کے لئے تیار ہیں۔‘‘
کریم گنج میں گرلس ایجوکیشن پر کام کررہے محبوب کہتے ہیں ’’پورے آسام میں ریسیڈنشیل گرلس کالج نہیں ہے لہذا فی الحال ہم اس پر توجہ دے رہے ہیں‘‘۔طلبہ کے Placementپر محبوب کہتے ہیں’’فی الحال ایک بیچ نکلا ہے جس کے پچیس فیصد بچوں کوبہتر روزگار کے مواقع ملے ہیں جبکہ کچھ ریسرچ کی فیلڈ میں گئے ہیں۔چونکہ یہاں پر انڈسٹری نہیں ہے لہذا تھوڑی پریشانی تو ہے البتہ ہمارا تعلیمی نظام اس قدر مستحکم ہے کہ ہمارے طلبہ ہر جگہ نمایاں مقام حاصل کریں گے ان شاء اللہ۔ہم نے جو پودہ لگایا تھا اب وہ تناور درخت بن چکا ہے۔مختلف یونیورسٹیز کے ساتھ ہم نےMoUبھی سائن کر رکھا ہےجبکہ جامعہ ملیہ اسلامیہ،علی گڈھ مسلم یونیورسٹی کا ٹیسٹ سینٹر قائم ہوچکا ہےIITگوہاٹی سے ہمارے رشتے ہیں۔ان چیزوں نے بھی ہماری امیج بلڈنگ کی ہے جبکہ اسی کے ساتھ ہمارے HoDسے لے کر چھوٹے ملازم تک، جس ایمانداری سے کام کرتے ہیں وہ جذبہ ہمیں تقویت پہنچاتا ہے۔‘‘
مختصر مدت میں ایک امپائر کھڑا کرنے کے سوال پر محبوب الحق کہتے ہیں’’یہ کسی ایک فرد کا کام نہیں بلکہ ٹیم ورک ہے،جو لوگ ہمارے ساتھ کام کرتے ہیں وہ جذبہ خلوص و للہیت،ایمانداری و دیانت داری،اعتماد و وارفتگی کے جذبہ سے پُر ہیں لہذا جن لوگوں کے یہاں بھی یہ چیزیں رہیں گی وہ بہتر طور پر ترقی کرے گا۔‘‘اپنی نیند ،صحت اوربے چینی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں’’میری صحت بہت خراب رہنے لگی ہےجبکہ نیند بھی کم آتی ہےروزانہ مسائل کا انبار سر جوڑے کھڑے رہتے ہیں اس کے باوجود میں نئے پروجیکٹ شروع کردیتا ہوں ،ابتداء میں ایسا لگتا ہے کہ یہ شاید مکمل نہ ہو لیکن پھر کب مکمل ہوجاتا ہے اس کا احساس ہی نہیں ہوتا۔اور ان تمام چیزوں میں مجھے جس طرح کا سکون و طمانیت محسوس ہوتا ہےاس کا حال کسی اور سے بیان نہیں کیا جاسکتا۔‘‘

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *