’’ہندوستان میں بہت سارے طبقات آج بھی کسمپرسی کی زندگی گذار رہے ہیں‘‘: پروفیسر اشتیاق

گیا میں جن سیوا کو آپریٹیو سوسائٹی کے نئے برانچ کے افتتاحی پروگرام میں مگدھ یونیورسٹی کےوائس چانسلر کا خطاب، ’’غیر سودی مالیات اور ہندوستان میں اسلامی بینک کاری پر کامیابسیمینار کا انعقاد
گیا:(معیشت نیوز)’’کہا یہ جاتا ہے کہ ہندوستان میں تمام لوگوں کو یکساں مواقع حاصل ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ بہت سارے طبقات آج بھی کسمپرسی کی زندگی گذار رہے ہیں،تنویر فاطمہ جیسی بچی کو اپنے آپ کو مائیناریٹی میں شامل کروانے کے لئے بھی ایفیڈیوٹ دینا پڑتا ہے حالانکہ اس کا پورا خاندان مسلمان ہے ‘‘ان خیالات کا اظہار مگدھ یونیورسٹی کے وائس چانسلرپروفیسر(ڈاکٹر) اشتیاق نے ریاست بہار کے ضلع گیا میں ریڈ کراس ھال میں منعقدہ ’’غیر سودی مالیات اور ہندوستان میں اسلامی بینک کاری‘‘پر خطاب کرتے ہوئے کیا۔انہوں نے کہا کہ ’’جب ہمارے طلبہ و طالبات کو داخلہ دینے میں اتنی پریشانیاں کھڑی کی جارہی ہیں تو انہیں بینک کے ذریعہ کتنا فائدہ پہنچایا جائے گا یہ سوچنے کا پہلو ہےکیونکہ اب طلبہ و طالبات کو بینک کے ذریعہ ہی اسکالرشپ دی جارہی ہے‘‘۔پروفیسر اشتیاق نے مقامی طور پر زکوۃ سسٹم قائم کرنے کی وکالت کرتے ہوئے کہا کہ ’’زکوۃ کی رقم بڑی تعداد میں مستحقین تک نہیں پہنچ رہی ہے اگر ہم مقامی طور پر ہی اس کا انتظام کرلیں تو اس کے بہتر نتائج پیدا ہوں گے‘‘۔

جن سیوا کو آپریٹیو کریڈٹ سوسائٹی کے چیرمن ڈاکٹر رحمت اللہ نے سوسائٹی کی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’۱۵مارچ ۲۰۱۰ کو جن سیوا کی بنیاد رکھی گئی تھی اور آج کا دن ہے جب پانچ سال مکمل ہورہے ہیں اور الحمد للہ ہم گیا میں۲۴واں برانچ کھولنے جا رہے ہیں۔‘‘سوسائٹی کے ماہانہ دس کروڑ کے ٹرن اوور کا تذکرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر رحمت اللہ نے کہا کہ ’’یہ ہماری طاقت کا مظہر نہیں بلکہ لوگوں کے بھروسے اور اعتماد کا مظہر ہے کیونکہ ہم نے ایک لاکھ ۹۷ہزار سے کام کا آغاز کیا تھا جو آج ۱۵کروڑ کے کیپیٹل پر مشتمل ہے۔‘‘انہوں نے کہا کہ ’’ہم ایک پائیدار انسٹی ٹیوشن بنانا چاہتے ہیں اور الحمد للہ ہم اس سلسلے میں تیزی سے آگے بھی بڑھ رہے ہیں‘‘۔
سیمینار کو خطاب کرتے ہوئے معیشت کے ڈائرکٹر دانش ریاض نے کہا کہ ’’قرآن مجید میں جہاں نماز کا تذکرہ ہے وہیں زکوۃ کی ادائیگی پر بھی زور دیا گیا ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب مسلمان فارغ البال ہو اور اپنی تجارت کو فروغ دے رہا ہوکیونکہ ایک تاجر ہی ہر برس بڑھ چڑھ کر زکوۃ دے سکتا ہے اور اپنی ملّت کی آبیاری میں نمایاں کردار ادا کرسکتا ہے‘‘۔ انہوں نے ہندوستانی معیشت پر مسلمانوں کے اثرات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’’ایک وقت تھا جب لیدر،ٹینری،ٹیکسٹائل،پیتل،قالین،چادر،تالاکے ساتھ مختلف شعبہ حیات میں ہم چھائے ہوئے تھے اور بڑی بڑی انڈسٹریاں ہمارے حوالے تھیں لیکن اب وقت ایسا ہے کہ ہم مزدور بن کر محض دوسروں کی غلامی کر رہے ہیں‘‘تعلیم کی کمی،تجارت میں عدم دلچسپی اور زمانے کی نزاکت کو نہ سمجھنے کا حوالہ دیتے ہوئے دانش ریاض نے کہا کہ ’’اللہ رب العزت اس دنیا کا نظام چلا رہا ہے لہذا وہ دیکھتا ہے کہ اس وقت دنیا کو بہتر طور پر کون لوگ چلا سکتے ہیں جب ہم نے اپنی ذمہ داریوں سے منھ موڑ لیا اورعائد فریضے سے کنارہ کشی اختیار کر لی تو اللہ رب العزت نے ان لوگوں کو لاکھڑا کیا جو ہم سے بہتر دنیا کو چلا سکتے تھے۔‘‘معیشت کے ڈائرکٹر نے کہا کہ ’’ہمیں ہر بات میں دوسروں کو موردالزام ٹھہرانے کے بجائے اپنے گریبان میں بھی جھانکنا چاہئے کہ ہم کیا کر رہے ہیں اور کیسے کر رہے ہیںکیونکہ زمانہ تغیر پذیر ہے اور وہی لوگ زمانے کے ساتھ چل سکتے ہیں جو ہمیشہ زمانے کی رفتار کو سمجھتے ہوں اور اس کا ساتھ دیتے ہوں‘‘۔معیشت کے ڈائرکٹر نے کنزیومر ورلڈکا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’’ایک رپورٹ کے مطابق ۲۰۰۵میں ۲۴۸لاکھ ڈالر کا کنزیومر مارکیٹ ہندوستان میں موجود تھا جو ۲۰۲۵تک بڑھ کر ۱ء۷ٹریلین ڈالر تک پہنچ جائے گا کیا اس مارکیٹ میں ہماری کوئی حصہ داری ہے؟ ہم کارپوریٹ ورلڈ یا کوآپریٹیو سیکٹر میں کس حد تک منہمک ہیں،ہمیں اس کا جائزہ لینا چاہئے۔‘‘انہوں نے طلبہ و نوجوانوں کو خلیجی ممالک نہ جانے اور اپنے ہی ملک میں رہ کر تجارت کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ ’’اب خلیجی ممالک کا خاتمہ ہوا چاہتا ہے ،وہاں کام کے مواقع ختم ہونے والے ہیں جبکہ ہندوستان ابھرتی ہوئی منڈی ہے ،اگر ہم ابھی سے یہاں پر معاشی جد و جہد کا آغاز کریں گے تو یقیناً اس کا فائدہ ہماری نسلوں تک پہنچے گا۔‘‘الخیر کے سابق منیجنگ ڈائرکٹر سرفراز نے کہا کہ ’’عام لوگ جو دن رات پیسہ خرچ کرتے ہیں،پیسے کا لین دین کرتے ہیں ان میں سے بہت کم لوگ ہیں جو یہ جانتے ہیں کہ یہ ورک کیسے کرتا ہے۔‘‘انہوں نے کہا کہ’’عام عوام اس کے مکینکس کو جتنا بہتر سمجھے گی وہ اس کا اتناہی بہتر استعمال کرے گی،فائنانشیل انٹر میڈیری جس کی ایک مثال بینک ہے وہ پیسے کے ساتھ کیا کرتا ہے یہ مانیٹری لٹریسی کا حصہ ہے اگر وہ ہمیں معلوم ہوگا تو صرف شخصی طور پر نہیں بلکہ سوسائٹی کے طور پر بھی پیسے کا بہتر استعمال ہوگا۔لہذا جس سیوا جیسے ادارے انہیں کوششوں کا نتیجہ ہے۔‘‘
واضح رہے کہ پروگرام کے آرگنائزر اور جن سیوا گیا برانچ کے انچارج تمیم الدین حنبل نے پروگرام کے غرض و غایت پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’اب تک ہوتا یہ رہا ہے کہ اسلامی فائنانس اور بینکنگ پر گفتگو کی جاتی رہی ہے لیکن عملی طور پر اس کا نمونہ پیش نہیں کیا گیا ہے۔ہماری کوشش یہ ہے کہ ہم عملی نمومہ بھی پیش کریں تاکہ انٹرسٹ فری فائنانس کی حقیقت سے لوگ روشناس ہو سکیں اور اس کے فوائد سے سماج مستفید ہو سکے۔‘‘ڈاکٹر حامد حسین نے پروگرام کا افتتاح کرتے ہوئے تمام لوگوں کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ ’’اللہ رب العزت نے جس چیز کو حرام قرار دیا ہے اس کا احترام تمام مسلمانوں پر فرض ہے،المیہ یہ ہے کہ معاشی معاملات پر کبھی ہمارے یہاں گفتگو نہیں ہوتی،ہمارے خطبات،تقریروں یا سماجی پروگراموں میں دیگر عبادات پر گفتگو تو آئے دن کا معمول ہے لیکن معاشی پہلو پر اسلام نے گفتگو نہ کیا ہو یہ کیسے ہوسکتا ہے‘‘،انہوں نے کہا کہ ’’جن سیوا جیسے اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسلام کے معاشی پہلو سے بھی لوگوں کو آشنا کریں اور یہ بتائیں کہ اسلام کا معاشی نظام کیسے کام کرتا ہے ۔‘‘
واضح رہے کہ پروگرام میں سووینئر کا اجراء بھی مگدھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر (ڈاکٹر)اشتیاق کے ہاتھوں عمل میں آیا۔