شریعہ کمپلائنس کیا ہےاور اس کے تقاضے کیا ہیں؟

IMG-20150528-WA0071

مفتی اظفر اقبال

شریعہ کمپلائنس کا مطلب: عہد حاضر میں دین کے مختلف حصوں میں فکر مند مسلمان اپنے کاروبار کو شریعت کے مطابق بنانے کے لیے مختلف سطح پر کوششیں کر رہے ہیں اور اس کے لیے کئی جگہوں پر انفرادی و اجتماعی نوعیت کی سرگرمیاں جاری ہیں۔ کاروبار کو شریعت کے مطابق بنانے کے لیے عموماً ’’شریعہ کمپلائنس‘‘ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ اگرچہ اس کا غالب استعمال اسلامی مالیاتی اداروں میں کیا جاتا ہے۔ جہاں اس کا Scope یا دائرہ کار محض سرگرمیوں کو شریعت کے مطابق بنانے تک محدود ہوتا ہے جو اس ادارے کا اصلی بزنس ہوتا ہے۔ مثلاً کسی اسلامی بینک میں ’’شریعہ کمپلائنس‘‘ کا مطلب مختصراً یوں ہو گا: ’’اس بینک میں انجام پانے والے تمام اسلامی تمویلی طریقے درست طور پر شریعت کے اصولوں کی روشنی میں انجام پائیں اور ان میں کوئی خلاف شریعت بات پیش نہ آئے۔‘‘ چنانچہ ان اداروں کے لیے مرکزی بینک کی طرف سے جاری کی جانے والی ’’شریعہ کمپلائنس گائیڈ لائن‘‘ بھی انہی حدود کے اندر رہ کر بات کرتی ہے۔
اگر ہم ’’شریعہ کمپلائنس‘‘ کی اصطلاح کو ایک مکمل کاروبار کے تمام شعبوں کو سامنے رکھتے ہوئے دیکھیں تو اس تناظر میں ایک مسلمان تاجر کے لیے اس کا Scope یا دائرہ کار وسیع ہو گا، یعنی دوسرے لفظوں میں اس کا مطلب یہ ہو گا کہ کاروبار کی نہ صرف بنیادی سرگرمیوں (Core Activities)، بلکہ اس کی تمام معاون سرگرمیاں، تمام شعبہ جات، تمام معاہدات اور تمام پالیسیاں شریعت کے مطابق ہوں اور شریعت کے اصولوں کی روشنی میں انجام پائیں اور ان میں کوئی امر خلافِ شریعت پیش نہ آئے…یہ شریعہ کمپلائنس کا کم از کم درجہ ہو گا۔
شریعہ کمپلائنس کی جہات: ’’شریعہ کمپلائنس‘‘ کے اس وسیع مفہوم کو پیشِ نظر رکھ کر اگر کاروبار کو شریعت کے مطابق بنانے کی کوشش کی جائے تو اس کے لیے درج ذیل جہات اور زاویوں پر کام کرنا ضروری ہو گا:
1 بنیادی ڈھانچے کا جائزہ:بنیادی ڈھانچے سے مراد یہ ہے کہ ادارے یا کاروبار کی بنیاد ذاتی ملکیت، شراکت داری یا کمپنی میں سے کس نوعیت کی ہے؟ اور شرکا کے درمیان سرمایہ کاری، نفع و نقصان کی تقسیم کے حوالے سے جو کچھ بھی معاہدہ یا تفاہم (Understanding) ہے وہ شریعت کے مطابق ہے یا نہیں؟ لہذا اس کا جائزہ لے کر اس کی تصدیق یا اصلاح کرنی چاہیے۔
2 معاہدات کا جائز:ادارے کے وہ تمام معاہدات جو دوسرے اداروں یا کمپنیوں کے ساتھ ہوتے ہیں ان کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔ ان میں خرید و فروخت کے معاہدات، مثلاً: ڈسٹری بیوشن کے ایگریمنٹس یا فرنچائز کا معاہدہ، اسی طرح خدمات (Services) کے معاہدات مثلاً ٹرانسپورٹرز کے ساتھ معاہدہ، سیکیورٹی سروسز کے معاہدات، کرایہ داری کے معاہدات، ٹھیکیداری کے معاہدات سروسز اور سوفٹ ویئرز کے معاہدات وغیرہ اور دیگر معاہدات شامل ہیں، ان کا جائزہ لے کر ان کو شریعت سے ہم آہنگ کرنا ضروری ہے۔
3 اندرونی پالیسیوں کا جائزہ: ادارے کی تمام داخلی پالیسیاں اور SOP’s (Standard Operating Procedures) جو کہ اسٹاف کے لیے ہوتی ہیں،ان تمام پالیسیوں کا جائزہ لے کر ان کی اصلاح ضروری ہے،مثلاً: ہیومن ریسورس ڈیپارٹمنٹ کی تمام پالیسیاں جن میں ملازمین کی تقرری، حاضری و غیرہ حاضری اور لباس کے ضوابط، چھٹیوں اور تنخواہوں کے قواعد، سفری الاؤنس، میڈیکل، پرائیویٹ فنڈ وغیرہ کی پالیسیاں، نیز گاڑی، لیپ ٹاپ وغیرہ کا حصول اور استعمال اور ان جیسی دیگر تمام پالیسیاں بہت باریک بینی سے دیکھنی ضروری ہیں تاکہ ادارے اور اس کے اسٹاف کے مابین ہونے والے معاملات شرعی طور پر بالکل درست انداز میں طے ہوں۔ HR کے علاوہ دیگر ڈیپارٹمنٹس مثلاً فائنانس کا شعبہ، IT کا شعبہ، سپلائی مین اور سیلز وغیرہ کی پالیسیوں اور ضوابط کی چھان پھٹک بھی بہت ضروری ہے، بہت سی پالیسیوں میں غیر محسوس طور پر ایسی شقیں موجود ہوتی ہیں جو شریعت سے متصادم ہوتی ہیں، شقوں کی نشاندہی ضروری ہے اور پھر ان کا جائز متبادل بھی دیکھنا چاہیے۔
پالیسیوں کے علاوہ شریعہ کمپلائنس کا کام کرنے والوں کو ادارے کے تمام آپریشنز یا سرگرمیوں کا بھی باریک بینی سے جائزہ لینا چاہیے یعنی یہ عملی طور پر Sales (خرید و فروخت) کسی طریقے سے انجام پا رہی ہیں، مارکیٹنگ اور ایڈورٹائزنگ میں کون سے طریقے اختیار کیے جاتے ہیں؟ اس جائزے میں ایسے امور کی طرف خاص طور پر توجہ دینی چاہیے جن کی تفصیل پالیسی میں موجود نہیں اور وہ صرف عملی طور پر ہی دیکھے جا سکتے ہیں۔
4 پیشہ ورانہ تربیت: بہت ضروری ہے کہ ادارے میں کام کرنے والے اسٹاف اور شعبوں کے سربراہوں اور منیجرز کے لیے کاروباری زبان میں ان کے شعبوں سے متعلق شرعی ہدایات پر مشتمل تربیتی سلسلے کو قائم کیا جائے۔ تربیتی نشستیں اسٹاف کو ان کے شعبوں سے متعلق شریعت کے بنیادی اصول اور ضروری جزوی مسائل سے آگاہ کریں گی۔ اس طرح ہر فرد اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں اور فرائض کو انجام دیتے وقت شرعی ہدایات کو پیش نظر رکھے گا جس سے ادارے کے Oparations (سرگرمیاں) حقیقی معنوں میں شریعت کے مطابق ہو سکیں گے۔
5 ذہنی تربیت و ماحول سازی: کسی بھی نظام کو حقیقی معنوں میں قائم کرنے میں اس بات کی بہت اہمیت ہوتی ہے کہ اس کو چلانے والے افراد ذہنی و قلبی طور پر کس حد تک اس سے متفق ہیں اور ان کی جذباتی وابستگی کی کیا کیفیت ہے؟ چنانچہ شریعہ کمپلائنس کے کام میں ادارے کے تمام افراد کی شریعت پر چلنے کے حوالے سے نہ صرف ذہن سازی ضروری ہے بلکہ ادارے میں عمومی طورپر ایسا ماحول قائم کرنے کی ضرورت ہے جو شریعت کے ساتھ لوگوں کے تعلق کو پیدا کرنے اور ان کی وابستگی کو بڑھانے کا ذریعہ بنے، لوگ اس ماحول کے زیر اثر شریعت پر بخوشی چلنے پر آمادہ ہو سکیں۔ اس کے لیے ایک طرف تو اسٹاف میں بیانات اور ترغیب کے ذریعے دین سے لگاؤ پیدا کرنے کی کوشش ہو اور اس کے ساتھ ساتھ ای میلز کے ذریعے موقع محل کی مناسبت سے تعلیمی و اصلاحی مضامین ارسال کیے جائیں تاکہ ہر شخص کو دین کی باتیں پہنچتی رہیں اور اس کی ذہن سازی آہستہ آہستہ ہوتی رہے۔
اس کے علاوہ اسٹاف کے لیے دین کے ضروری علم پر مشتمل مختصر کورسز کا سلسلہ بھی ہونا چاہیے جس میں وہ کسی مستند معلم سے اپنے ضروری دینی امور و فرائض کا علم و تربیت حاصل کر سکیں۔ اس میں کلمہ، نماز، وضو و غسل اور خصوصاً تجوید کے مضامین بہت اہم اور مفید ہیں، اسٹاف کی ترغیب کے لیے اس پر سرٹیفیکٹ اور انعامات بھی رکھے جا سکتے ہیں۔
ماحول سازی کے لیے بہت اہم چیز ’’نمازوں کو مکمل اہتمام سے قائم کرنا‘‘ ہے۔ ادارے میں اس بات کا اہتمام کروایا جائے کہ نماز کے اوقات میں اسٹاف اپنے کام کو موقوف کر کے نماز باجماعت میں شریک ہو اور اگر مسجد فاصلے پر ہو تو ادارے کی حدود میں ہی نماز باجماعت کا انتظام مستند امام صاحب کے ذریعے سے کیا جائے۔ اس سے اسٹاف کے درمیان کا ماحول قائم ہو گا اور یہ مکمل دین میں آنے کا سب سے پہلا دروازہ ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *