زکوۃ کی ادائیگی میں عزت نفس کا خیال رکھا جائے

عاملین زکوۃ کی بے عزتی روح اسلام کے خلاف ہے
ممبئی: (معیشت نیوز) مدارس اسلامیہ جنہیں مولانا علی میاں ندویؒ نے اسلامی قلعوں سے تعبیر کیا تھا،اب کسمپرسی کا شکارہیں ۔ایک طرف اگر حکومت مدارس پر نظر بد ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے تو دوسری طرف امت مسلمہ نے بھی اس کی حالت دگر گوں کر رکھی ہے۔مدارس اسلامیہ جہاں کے علماءو فضلاء دین کی آبیاری کے لئے اپنی عمرکا بہترین حصہ لگا دیتے ہیں ان کے معاشی مسائل سے امت چشم پوشی کرتی ہے جس کا نتیجہ ہے کہ جب وہاں کے سفراء مالی امداد کے لئے گشت کرتے ہیں توانہیں اچھی نظروں سے نہیں دیکھا جاتا۔
ملک کے بیشتر مساجد میں مدارس کے سفراء اس طرح چندہ جمع کرتے ہیں گویا وہ گداگری کے پیشہ سے منسلک ہوں۔جبکہ المیہ یہ بھی ہے کہ ان کی عبادت متاثر ہوتی ہے اور وہ خاطر خواہ عبادت بھی نہیں کرپاتے۔اس کے علیٰ الرغم جعلی چندہ کرنے والوں کی بھی لمبی قطار لگی ہوتی ہے جس کی وجہ سے صحیح و غلط میں تمیز کرنا بھی ممکن نہیں ہو پاتا۔
جامعۃ الفلاح اعظم گڈھ کے ناظم اعلیٰ مولانا محمد طاہر مدنی معیشت سے کہتے ہیں’’مدارس کے سفراء کے ساتھ عزت و تکریم کا سلوک کرنا چاہئے،یہ لوگ ہمارے شکریہ کے مستحق ہیں،ان کی عزت نفس کا خیال کرنا چاہئے۔ممکن ہے سفر کی وجہ سے ان کو نوافل ادا کرنے کا موقع نہ مل پاتا ہولیکن جو خدمت وہ انجام دیتے ہیںوہ خود کار ثواب ہے۔جس صبر و قربانی کا مظاہرہ یہ کرتے ہیںاس کا اجر عظیم اللہ انہیں دے گارمضان میں اصل تزکیہ نفس تو انہیں کا ہوتا ہے‘‘۔
مہاراشٹرراجیہ ساہتیہ اردو اکیڈمی کے سابق ذمہ دار شاہد ندیم کہتے ہیں’’جب تک ہمارے یہاں مرکزی بیت المال کا نظم قائم نہ ہو اس وقت تک حالات میں بہتری نہیں لائی جاسکتی،مدارس اسلامیہ کے لوگ جس انداز میں چندہ اکٹھا کرتے ہیں،یہ خود ہم تمام کے لئے قابل افسوس ہے۔نہ صرف ان کی عزت نفس کو چوٹ پہنچائی جاتی ہے بلکہ جس طرح کا سلوک روا رکھا جاتا ہے وہ خود امت کی تذلیل کا باعث بنتا ہے۔‘‘
حال ہی میں معاشیات میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے والے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طالب علم ایوب سبحانی کہتے ہیں۔’’میں کسی مولوی کو چپلوں کے پاس رسید لئے بیٹھا دیکھتا ہوں تو رونا آتا ہے۔چند سال قبل این ڈی ٹی وی نے بھی اس پر اسٹوری کی تھی لیکن ظاہر ہے ان کا فوکس دوسرا تھا،بہت ساری رسیدیں اکٹھاکرکے وہ رسید پر لکھے پتوں کی تلاش میں نکلے تھے اور حیران کن نتائج سامنے آئے۔‘‘
تاسیس کے سابق سینئر ریسرچ اینالسٹ محمد ایوب خان کہتے ہیں’’زکوۃ دینا ہمارا فرض ہے،جو لوگ زکوۃ وصول کرتے ہیں ان کا فرض ہے کہ وہ اسے صحیح مصرف میں استعمال کریں۔دراصل جس مقصد سے زکوۃ کا سسٹم شروع کیا گیا ہے ہمیں اس سسٹم کے مقصد کوپورا کرنا چاہئے تاکہ اسلام کا معاشی نظام مستحکم ہو۔‘‘ایوب مزید کہتے ہیں ’’جو لوگ سفراء کی بے عزتی کرتے ہیں انہیں ایسا نہیں کرنا چاہئے لیکن ہمیں اس بات پر بھی غور کرنا چاہئے کہ یہ صورتحال کیسے پیدا ہوئی،دراصل دینے اور لینے والوں کے مابین اعتماد ہونا چاہئے۔‘‘
ٹا ٹا کیپیٹل فائنانشیل سروسیز لیمیٹڈ کے آپریشن ایکزکیوٹیو محمد ثاقب کہتے ہیں’’یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلمانوںکو زکوۃ ادا کرنا چاہئے لہذا جو عاملین زکوۃ ہیں ان کی عزت افزائی کرنی چاہئے کیونکہ وہ سسٹم کی اہم کڑی ہیں ۔دراصل وہ صاحب نصاب اور فقراء و مساکین کے مابین رشتے کو استوار کرتے ہیں۔لہذا عاملین کی ذمہ داری ہے کہ وہ زکوۃ کی رقم کو مستحقین تک پہنچائیں۔‘‘
اس پورے مسئلہ پر انجمن طلبہ قدیم جامعۃ الفلاح ممبئی یونٹ کے سابق صدرخالد مخدومی کہتے ہیں’’عاملین زکوة كى عزت نفس سے کھلواڑ زکوة دینے والوں کی بد بختی ہے – لیکن غور کیا جائے تو اس کے جزوی ذمہ دار مستند اور معتبر مدرسے خود بھی ہیں -ہمارے پاس ایسا کوئی پیمانہ یا ادارہ نہیں ہے جو کسی مدرسہ کے معتبرہونے کی تصدیق کر سکے -ہر مدرسہ بزعم خود ایک دارالعلوم (یونیورسٹی)ہے – سب کا اپنا اپناراگ،اپنی اپنی بولی کی طرح اپنا من مانا اور من چاہا نصاب ہے – مزید برآں مشہور و معتبر مدرسے بوگس مدرسوں سے چشم پوشی اور صرف نظر کرتےہیں اوران کے خلاف آواز نہیں اٹھاتے اور ان کے جرم میں شریک ہونے کے مجرم ہوتےہیں – اس طرح عوام میں خود اپنی قدرو منزلت کھو دیتے ہیں – مدرسے اگر وقت کے تقاضوں کے لحاظ سے عوام کی توقعات پر پورے اتریں اور معیاری تعلیم دیں تو یہی عوام اپنی گاڑھی کمائی کا لا کھوں خرچ کرنے کو نہ صرف تیار رہیں گے بلکہ خرچ کرکے فخر محسوس کریں گے‘‘
خالد مخدومی مزید کہتے ہیں’’ذاکر نائک صاحب عربی اور قرآن و حدیث کی تعلیم کی مد میں فیس کی شکل میں لاکھوں وصول کرتے ہیں اور لوگ داخلہ لینے کے لئے لائن لگائے رہتےہیں – حقیقت یہ ہے کہ زکوة کی مد کو مدرسے میں استعمال کرنے کا جواز بخشنے کے لئے ہم نے خود غریب و نادار بچوں کو فقراء و مساکین کا نام دیاہے.(قرآن میں کہیں بھی زکوۃ کی مد کی فہرست میں مدرسوں کا ذکر نہیںہے)عوام فقیر و مسکین کے ساتھ جیسا سلوک کرتے ہیں ویسا ہی سلوک سفرائے مدارس کے ساتھ بھی کرتے ہیں- مزید یہ کہ سفراء خود جس طرح دھن پشوئوں اور جہلا کے سامنے دوزانوہو کر بیٹھتے ہیں اور ان کی جھوٹی تعریف کے قلابے ملاتے ہیں اسے دیکھ کر دیکھنے والوں کو شرم آجاتی ہےیہ ہونا تو نہیں چاہئے لیکن بد قسمتی سے ہو رہاہے – ذاکر نائک جتنی نہ سہی لیکن معقول فیس لی جائے اور اچھی تنخواہ دیکراچھے اساتذہ کی خدمات حاصل کی جائیں تاکہ کام چلائواساتذہ سے پنڈ چھوٹے اور مدرسے کی تعلیم کا معیار بلندہو – معیار بلند ہوگا تو عوام کی نگاہ میں مدرسوں کا وقار بڑھے گا اور پھر صرف غریب بچوں کی مد میں زکوۃ کی وصولی میں اتنی ذلت کا سامنا نھیں کرنا ھوگا – کارپوریٹ ھائوسز خود اپنی کمپنی کے CSR کا منھ کھول دیں گی – جھاں چاہ ہے وہاں راہ ہے ضرورت ہے OUT OF THE BOX جاکر سوچنے کی‘‘ –
دراصل ذمہ داری دونوں پر عائد ہوتی ہے جو لوگ زکوۃ دے رہے ہوں یا جو زکوۃ لے رہے ہوں یہ دونوں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں تاکہ زکوۃ کی روح کو سمجھا جاسکے اور اسلام جس عزت نفس کا مطالبہ کرتا ہے وہ کہیں مجروح نہ ہو۔