دیانت داری کا پیامبر اٹلی کاامیر ترین شخص لیونارڈو ڈیل

لیونارڈو ڈیل
لیونارڈو ڈیل

انعام اللہ
میں اس بات کا زندہ ثبوت ہوں کہ آپ دیانت دار رہتے ہوئے دولت بھی کما سکتے ہیں
اٹلی کی اس عورت کے لیے وہ دن بہت کٹھن تھا، جس روز اس کا خاوند اس دنیا سے کوچ کر چکا تھا۔ ڈھیروں ذمہ داریاں اس کے کاندھوں پر ڈال دی تھیں۔ چار بچے اور پانچواں بچہ ماں کے پیٹ میں تھا۔ ان کی پرورش کا بوجھ اسے ہلکان کیے جا رہا تھا۔ چھ ماہ کے بعد پانچواں بچہ بھی اس دنیا میں آوارد ہوا، جہاں غربت اور تنگدستی کی حکومت تھی۔ گھر میں فاقے پر فاقہ ہو رہا تھا۔ پانچ سال کا عرصہ اسی کیفیت میں بیت گیا۔
جب اس کی ماں نے بچوں کی پرورش میں کمی محسوس کی تو اس پانچویں بچے کو قریبی ایک یتیم خانے کے حوالے کر دیا کہ وہ اس کی نگہداشت کریں۔ وہ 7 سال یتیم خانے میں پرورش پاتا رہا۔ جہاں کھانے پینے کے ساتھ ساتھ رسمی تعلیم بھی دلوائی جاتی رہی۔ جب اس یتیم کی عمر 14 سال ہوئی تو یتیم خانے کی انتظامیہ نے اسے مجبور کیا کہ وہ اپنے روزگار کا ذریعہ ڈھونڈ نکالے، لیکن وہ باہر قدم رکھنے سے گھبراتا تھا کیونکہ اسے کوئی کام کرنا نہیں آتا تھا۔اس کی حالت آج کے نوجوان جیسی تھی کہ رسمی تعلیم تو پاس ہے لیکن کوئی ہنر آتا نہیں، جس کے سبب عملی زندگی میں کودنے سے گھبراتے ہیں۔
آخر کار ایک دن یتیم خانے سے اسے دربدر ہونا پڑا۔ اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کہاں جائے؟ گھر کے حالات سے وہ بخوبی آگاہ تھا، جہاں بھوک کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ یتیم خانے کے دروازے کے باہر گھٹنوں میں سر دیے بیٹھا سوچتا رہا۔ یہاں بیٹھے بیٹھے اس نے فیصلہ کیا کہ دوسروں کے ٹکڑوں پر پلنے کی بجائے اپنے ہاتھوں سے کما کر کھاؤں گا۔ یہ فیصلہ اس کی زندگی میں ایک اہم موڑ ثابت ہوا، جہاں سے اس کی ترقی اور کامیابی کے در کھلنا شروع ہو گئے۔
وہ عینک بنانے والی ایک فیکٹری میں مزدوری کرنے لگا۔ اس سے اتنی آمدنی ہونے لگی کہ وہ اپنی والدہ کا بھی ہاتھ بٹانے لگا اور اس کی ذمہ داریوںکا بوجھ سہارنے لگا۔ اس کی ماں اس سے بہت خوش ہوتی اور اسے کامیابی و کامرانی کی ڈھیر ساری دعائیں دیتی نہ تھکتی۔ فیکٹری میں کام کرتے ہوئے اسے احساس ہوا کہ ایسا کام کیا جائے جس میں ہنر ہو، جس کے بل بوتے پر اپنا کاروبار شروع کیا جا سکے۔ جلد ہی اس نے عینک کے مختلف حصے بنانے والے ڈپارٹمنٹ میں کام کرنا شروع کر دیا۔ صبح سے شام تک آگ کی بھٹی میں کام کرتا۔ لوہے کو گرم کرنا اور پھر اسے مختلف سانچوں میں ڈھالنا اس کی ذمہ داری تھی۔ یہ اپنی ڈیوٹی کو احسن طریقے سے نبھاتا رہا۔ یہ اپنے ساتھیوں کے حصے کا کام بھی کر دیتا۔ ہر کوئی اس کی عزت کرتا۔ یہ 20,20 گھنٹے کام کرتا، یہاں تک کہ وہ ایک مکمل کاریگر بن گیا۔ ہر ایک اس کی صلاحتیوں کا معترف تھا۔
اسے کام کے ساتھ کتابیں پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ مشینیں کیسے کام کرتی ہے، اس کا تجسس اسے کتابیں خرید کر پڑھنے پر آمادہ کرتا۔ مطالعے سے اس کے ذہن میں نئے نئے آئیڈیاز جنم لیتے۔ اس نے دیکھا کہ عینک بنانے والی انڈسٹری چشمے اس لیے بناتی ہے کہ آنکھوں کی حفاظت ہو۔ جبکہ اس نے کسٹمرز کا رجحان دیکھا کہ وہ عینک کو آنکھوں کی حفاظت کے ساتھ خوبصورتی کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔ اس آئیڈیے نے اپنا ذاتی بزنس کی بنیاد رکھنے پر مجبور کیا۔ 1961ء میں اس نے ادھار پیسوں سے ایک چھوٹی سی کمپنی کی بنیاد رکھی۔ جس میں اس نے اپنے آئیڈیے کے مطابق کام کرنا شروع کر دیا۔ 12 سال کی محنت اور تجربہ بزنس کے ہر موڑ پر مہمیز کا کام دیتا۔ 6 سالوں میں اس کی کمپنی Luxoffica عینک کے بہترین فریم جگہ جگہ فروخت کرنے لگی۔ مارکیٹ میں اس کی پروڈکٹ کا شہرہ ہونے لگا۔ عینک کی بڑی بڑی کمپنیاں بھی فریم بنانے کے لیے ان سے رابطہ کرنے لگیں۔ اس نے جس کا کام بھی کیا، پوری دیانت داری کے ساتھ سر انجام دیا۔ جو ایک بار اس سے ڈیل کر لیتا، وہ پھر اسے کبھی نہ چھوڑتا۔ ہر کسٹمر کو معلوم تھا کہ جس چیز کا آرڈر دیا جاتا ہے، ویسی چیز ملتی ہے۔ اس کے قول اور عمل میں تضاد نہیں ہے۔ آنکھیں بند کر کے لوگ اس پر اعتماد کرنے لگے۔ ورنہ عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ جب دکان چل نکلتی ہے تو کسٹمرز کے اعتماد سے غلط فائدہ اٹھایا جاتا ہے، جب حقیقت کھلتی ہے تو کمپنی اور بزنس زمین بوس ہو جاتا ہے۔
اس نے اپنی کمپنی کو ترقی کی شاہراہ پر ڈالنے کے لیے اس کے اسٹور مختلف ممالک میں کھولنے شروع کر دیے۔ ہر اسٹور کی مینجمنٹ کو اس نے نصیحت کر رکھی تھی کہ کمپنی کا نقصان ہوتا ہے تو ہو جائے، لیکن دیانت داری کا دامن نہیں چھوڑنا۔
کون جانتا تھا کہ وہ یتیم بچہ لیونارڈو ڈیل اٹلی کا دوسرا اور دنیا کا 71 واں امیر ترین شخص بنے گا۔ 1961ء میں ایک پلانٹ اور 12 مزدوروں سے کمپنی شروع کرنے والا 35 ہزار مزدورں کے ساتھ دنیا بھر میں اپنی پروڈکٹ کے ساتھ موجود ہے۔ اس کی سالانہ فروخت 5ارب ڈالر ہے جو 5ہزار 6سو 27اسٹورز کے ذریعے ہوتی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں لیونارڈو نے کہا: ’’میں اس بات کا زندہ ثبوت ہوں کہ آپ دیانت دار رہتے ہوئے دولت بھی کما سکتے ہیں۔ یہ ایک غلط فہمی میں نے بچپن سے سن رکھی ہے اور آج بھی یہ غلط فہمی زبان زد عام ہے کہ امانت داری اور امیری ایک وقت میں جمع نہیں ہو سکتی، حالانکہ یہ غلط ہے۔‘‘

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *