Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors
Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

مغرب کے تشہیری نظام سے مقابلہ کیسے؟

by | Sep 14, 2015

Boy at Prayer time

اگر یہ دو جذبے بیدار ہو جائیں،یعنی اپنی تہذیب کی حفاظت اور دینی حمیت اور ملی غیرت کا بھرپور مظاہرہ تو بلاشبہ ہم مغرب کے فرسودہ طرز تشہیر کو گندے انڈوں کی طرح اٹھا کر باہر گلی میں پھینک دیں
جب پردہ پوشی کی تشہیر پردہ دری کے ذریعے کی جائے، جب کفایت شعاری کا اشتہار خود ہوس کا سبق پڑھا رہا ہو، جب فلم اور شوبز کے سنسار سے تعلق رکھنے والوں کو ہیرو کے روپ میں لب بام لایا جا رہا ہو، جب غربت کدوں میں معیار زندگی کو بہتر کرنے کی آواز بلند کر کے قنوطیت کے بیج بوئے جا رہے ہوں اور جب عیاشی اور فحاشی کو دل لگی، زندگی اور زندہ دلی کا استعارہ بنا کر پیش کیا جا رہا ہو… تو اس کا کیا مطلب ہو گا؟ یہ سوال آپ سے ہے۔ آپ جواب سوچیے! ہم ایک اور سوال پوچھتے ہیں۔
جب مغرب کی مارکیٹنگ تھیوری کو من و عن اور شد ومد کے ساتھ ہمارے دیار میں پڑھایا جا رہا ہو، جب ملٹی نیشنل کمپنیوں کی چالبازیوں کو تکنیک کا نام دے کر اپنایا جا رہا ہو، جب پروڈکٹ اور دین کا سودا ایک ساتھ کیا جا رہا ہو، جب میڈیا ریٹنگ اور روپے کی دوڑ میں انجام سے بے پروا، بے لگام ہوا جاتا ہو اور جب بہن فروشی کو جدید اصطلاحات کی آڑ میں فن اور فکر کا درجہ مل جائے …تو اسے کیا نام دیا جائے گا؟ یہ سوال بھی آپ کے ذہن رسا کے حوالے۔ ہمیں چند اور باتیں بھی پوچھنی ہیں۔
کیا اسلام بزنس سے منع کرتا ہے؟ کیا اسلام آپ کی ہر ضرورت اور ہر جائز خواہش کا بندوبست نہیں کرتا؟ کیا دین میں کسی حوالے سے کوئی کمی یا کوتاہی محسوس ہوتی ہے؟ کیا ہمارے مذہب میں ہر ناگریز کا جائز متبادل نہیں پایا جاتا؟ کیا آپ کسی ایسے شخص سے ملے جس نے خود کو اپنے تمام تر احوال کے ساتھ دین اور دینداروں کے حوالے کیا ہو اور پھر اپنے فیصلے پر کبھی پشیمان نظر آیا ہو؟ کیا آپ نہیں سمجھتے کہ اللہ کا دین آپ کی ہر ضرورت پوری اور ہر پریشانی کا بہترین حل ثابت ہو گا؟
آپ یقینا اس بنیادی نکتے سے اتفاق کریں گے۔ آپ ایک پکے مسلمان اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے عاشق ہیں۔ آپ دین کو بھی سمجھتے ہیں اور اسے ہر لحاظ سے اور ہر دور کے لیے قابل عمل بھی۔ آپ یہی خیال کرتے ہیں ایک اچھا مسلمان ، ایک اچھا تاجر بھی ہو سکتا ہے۔ اگر وہ چاہے تو اسلام اسے ہر طرح کی خوشی اور ہر طرح کی ترقی سے مالا مال کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
تاہم اصل مسئلہ پہلے دو سوالوں کا اور ان کا مصداق بننے والوں کا ہے۔ آپ جب دیکھیں کہ تشہیر کے نام پر تہذیب کی دھجیاں بکھیر ی جا رہی ہیں اور جب نت نئے آئیڈیاز کے نام پر مادر پدر آزاد معاشرت کو رواج دیا جا رہا ہے تو اس کا مطلب ہے ایسی کمپنیاں عالم اسلام میں اپنے کلچر کو فروخت اور اس کے بدلے میں ہماری ثقافت کو خرید کر لے جا رہی ہیں۔ دوسرے سوال کے تناظر میں مغرب کی من و عن کاپی کرنے والے دراصل غیرت کے سودا گر ہیں۔ انہوں نے اس اندھی تقلید میں غیرت کو اپنے گھر سے پہلے ہی نکال دیا اور اب کدال لیے آپ کے درو دیوار کے درپے ہیں۔ اگر یہ دو جذبے بیدار ہو جائیں،یعنی اپنی تہذیب کی حفاظت اور دینی حمیت اور ملی غیرت کا بھرپور مظاہرہ تو بلاشبہ ہم مغرب کے فرسودہ طرز تشہیر کو گندے انڈوں کی طرح اٹھا کر باہر گلی میں پھینک دیں۔ ہمیں ان کے طرز معاشرت سے گھن اور ابکائی آئے۔ ہم مارکیٹنگ کے اسلامی آئیڈیاز کی طرف دست شوق دراز کریں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’جس شخص نے جس قوم کی مشابہت اختیار کی، وہ انہی میں شمار کیا جائے گا۔‘‘ کیا یہ آج کا طرز تشہیر سارا کا سارا یہود و نصاری کے گھسے پٹے تجربات کا چربہ نہیں۔ پھر ہم کیوں اس پہ لٹو ہوئے جاتے ہیں۔ دوسری حدیث پاک میں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالی بھی غیرت کرتا ہے اور اس کی غیرت کا مقام وہ ہے جب کوئی مومن بندہ اللہ کی حرام کردہ اشیا کا ارتکاب کر نے لگے۔‘‘ کیا ہم اپنے اختیار سے فحاشی و عریانی کو فروغ دے کر اللہ رب العزت کی غیرت کو چیلنج نہیں کر رہے؟
جس تشہیر کو ہم آئیڈیل سمجھ بیٹھے ہیں ذرا ان تازہ بیانات کی روشنی میں غور کیجیے، خود ان کے موجد اس کی زہر ناکیوں سے کس قدر پریشان ہیں۔ وہ فحاشی پر مبنی ایڈورٹائزنگ کی فوری تبدیلی چاہتے ہیں۔برطانوی اخبار ڈیلی ٹیلی گراف کے مطابق:’’یورپی پارلیمنٹ میں میڈیا کے ذریعے پھیلائی جانے والی ہر قسم کی فحاشی پر مکمل پابندی کا مسودہ پیش کیا گیا ہے۔‘‘ وائس آف امریکانے یورپی پارلیمنٹ میں پیش کیے گئے اس مسودے پر اپنا تبصرہ پیش کیا: ’’اس مسودے میں اگرچہ ہرقسم کی فحاشی کی تشہیر پر پابندی کا مطالبہ شامل ہے لیکن خیال ہے کہ اس پابندی کا اطلاق پرنٹنگ اور تشہیر کے لیے استعمال کیے جانے والے عریاں مواد پر ہو گا۔‘‘ برطانوی پارلیمنٹ میں بھی آواز اٹھائی گئی: پارلیمان فلو ایلا بنجامن کا کہنا تھا: ’’یہاں عورت کو محض نمائش کی شے سمجھ لیا گیا ہے۔ہمیں عورت کو شو پیس سمجھنے والوں کی سوچ کو بدلنا ہو گا۔‘‘ اسی طرح فروری2013ء میں آئس لینڈ میں بھی عریانیت کی تشہیر پر مکمل پابندی کا قانون پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا ہے۔

Recent Posts

ہندوستان کی چمڑا صنعت کے موجودہ حالات، چیلنجز، مواقع، تکنیکی ترقی اور مستقبل کے امکانات

ہندوستان کی چمڑا صنعت کے موجودہ حالات، چیلنجز، مواقع، تکنیکی ترقی اور مستقبل کے امکانات

کولکاتہ(معیشت نیوز ڈیسک)ہندوستان کی چمڑا(لیدر) صنعت ملک کی معیشت میں اہم کردار ادا کرتی ہے اور اس کا مستقبل بہت زیادہ امکانات سے بھرپور نظر آتا ہے۔ یہ صنعت نہ صرف روزگار کے مواقع فراہم کرتی ہے بلکہ برآمدات کے ذریعے زرمبادلہ کمانے میں بھی اہم شراکت دار ہے۔ اس مضمون...

شیئرمیں جعلی تیزی پیدا کرنے والوں کے خلاف سیبی کا کریک ڈاؤن

شیئرمیں جعلی تیزی پیدا کرنے والوں کے خلاف سیبی کا کریک ڈاؤن

ممبئی : شیئر بازار میں ایک اصطلاح استعمال کی جاتی ہے جسے ’پمپ اینڈ ڈمپ‘ کہتےہیں۔ اس کا مطلب ہوتا ہے کہ کسی شیئر میں پمپ کے ذریعے ہوا بھرکر اسے خوب بڑھا کیا جائے اور جب یہ بڑا ہوجائے تو ساری ہوا نکال کر اسے ڈمپ یعنی پھینک دیا جائے ۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ چھوٹے...

ہندوستانی شیئر بازار امریکی بانڈز کی بڑھتی شرح سود سے خوفزدہ کیوں

ہندوستانی شیئر بازار امریکی بانڈز کی بڑھتی شرح سود سے خوفزدہ کیوں

ممبئی :گزشتہ روز امریکی اسٹاک مارکیٹس میں گراوٹ دیکھنے میں آئی۔ جس کا اثر مقامی بازاروں پر بھی نظر آرہا ہے۔ امریکی مارکیٹ میں گراوٹ ۱۰؍سالہ ’ٹریزری بانڈز‘ کی شرح سود میں اضافے کی وجہ سے دیکھی گئی ہے اس سے اب شرح سود ۴؍ فیصد سے تجاوز کر گئی ہے۔ ایسے میں سوال یہ پیدا...

 پیاز کے ایکسپورٹ پر کوئی پابندی نہیں ، پیاز کے بیج کے ایکسپورٹ پر پابندی ہے : سرکار کی وضاحت

 پیاز کے ایکسپورٹ پر کوئی پابندی نہیں ، پیاز کے بیج کے ایکسپورٹ پر پابندی ہے : سرکار کی وضاحت

نئی دہلی  حکومت ہند نے ملک سے پیاز کی برآمد پر کوئی پابندی نہیں لگائی ہے۔ حکومت نے صرف پیاز کے بیجوں کی برآمد پر پابندی عائد کی ہے ۔ حکومت نے یہ وضاحت پیاز کی برآمد پر مبینہ پابندی کے حوالے سے سامنے آنے والے بیانات اور خبروں کے درمیان دی ہے۔ وزارت تجارت نے پیر کو...