کیا واقعی روٹا وائرس سے ہوگی بچوں کی حفاظت ؟

Ruta Virusمظفرحسین غزالی۔9810371907

مظفرحسین غزالی
مظفرحسین غزالی

یہ وائرس وہ وائرس جدھر دیکھو وائرس ہی وائرس۔ بات ہورہی ہے روٹاوائرس کی روٹی کی نہیں،نہ ہی کسی فلمی وائرس کی۔ اس وائرس کی جو دوسرے بیکٹریا کے ساتھ ہوا میں تیرتارہتاہے۔ صاف صفائی کی کمی یا گندگی کی صورت میں یہ ڈائریا کی وجہ بنتا ہے۔ بچپن میں بچوں کی زندگی کو لوبرتھ ریٹ، غذائیت کی کمی، خسرہ، نمونیا اور ڈائریا سے زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔ بھارت میں نمونیا اور ڈائریا سے ہرسال قریب سواتین لاکھ بچے کال کے گال میں سما جاتے ہیں۔ صرف ڈائریا سے ہر ایک گھنٹے میں 16بچوں کی موت ہوجاتی ہے۔ ڈائریا کا شکار ہونے والے 40فیصد بچوں کو روٹا وائرس کے انفیکشن کی وجہ سے اسپتال میں بھرتی کرنا پڑتا ہے۔2008میں روٹا وائرس کی وجہ سے دنیا بھر میں چارلاکھ53ہزار بچوں نے اپنی جان کھودی تھی۔2013کے اعدادوشمار پر نظرڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بھارت میں ہرسال 1.22سے 1.53لاکھ بچوںکی جان اسی وائرس کی وجہ سے چلی جاتی ہے۔ یہ ایسا وائرس ہے جو پانی فلٹر کرنے والی عام مشینوں کی پکڑ میں نہیں آتا۔ نہ ہی پانی کو ابالنے کا اس پر کوئی اثر پڑتا ہے۔ لچکدار پھیلنے والے اس وائرس سے تقریباً ہربچے کو خطرہ بنارہتا ہے۔ قطع نظر علاقہ، صفائی، سینی ٹیشن اور ہائجین کے ۔اس وائرس کا کوئی مخصوص علاج بھی موجود نہیں ہے۔ روٹا وائرس سے بچائو یا بچوںکی حفاظت روٹا وائرس ویکسن کے ٹیکہ کے ذریعہ ہی ممکن ہے۔
ڈائریا کو موسم سرما کی بیماری مانا جاتا ہے لیکن اس بار سردی کے موسم میں بھی اس کے مریض سامنے آئے ہیں۔ زیادہ ٹھنڈسے بچوں یا کمزور امیونٹی والے لوگوںکے میٹا بولزم پر اثر پڑتا ہے۔ اس کی وجہ سے کھان پان میں ذرا سی لاپرواہی سے قے دست کی شکایت ہوجاتی ہے۔ جو بڑھ کر ڈائریا (اسہال) کی شکل اختیار لیتی ہے۔ وائرل انفیکشن، پانی کی کمی یا دوائوں کے سائڈ ایفکٹ بھی پریشانی کا سبب بنتے ہیں۔ دہلی کے کچھ بڑے اسپتالوں سے ملی جانکاری کے مطابق سردی میں روزانہ ڈائریا کے 8سے 10معاملے رجسٹرڈ ہوئے ہیں۔ ایمس، لال بہادر شاستری اسپتال، لوک نائک اسپتال، بھیم رائو امبیڈکر اسپتال، دین دیال اسپتال، ڈاکٹر رام منوہر لوہیا اسپتال میں اس طرح کے معاملے زیادہ آئے۔اس سلسلہ میں وزارت صحت کواپنی جانب سے بچائو کیلئے ایڈوائزری بھی جاری کرنی پڑی تھی۔ ایمس کے پروفیسر ڈاکٹر انوپ سرایا کا کہنا ہے کہ ویسے توسردی کے موسم میں ڈائریا کے معاملے کم آتے ہیں لیکن اسے لے کر احتیاط کی ضرورت ہے۔ خاص طورپر بچوںکے معاملے میں لاپرواہی نہ برتی جائے۔ ایمس کے ہی ڈاکٹر سعدعبدالرحمن نے روٹا وائرس، ہائپو تھریمیا سے بچنے کیلئے باسی کھانا کھانے سے، کھلے میں بکنے والی کھانے کی اشیا کو نہ کھانے، کھانے سے پہلے صابن سے ہاتھ دھونے اور رفع حاجت کیلئے ٹائلیٹ استعمال کرنے کی صلاح دی۔ ان کا کہنا ہے کہ قے دست، پیٹ میں درد، ڈائریا کی ابتدائی علامت ہے۔ ایسی حالت میں ڈاکٹر کی صلاح کے بعد ہی کسی دوا کا استعمال کرنا چاہئے۔
ہر سال پیدا ہونے والے 0سے 5سال کی عمر کے 1.5ملین بچے اپنا د وسرا وپانچواں جنم دن نہیں مناپاتے، والدین اور سرپرستوں کے ٹیکہ کاری کی اہمیت کو نہ سمجھنے یا معلومات کی کمی کی وجہ سے 35فیصد بچے اب بھی ایسے ہیں جن کو بچپن میں معمول کے ٹیکے نہیں لگ پاتے۔ ٹیکے نہ لگنے کی وجہ سے ہی بچے نمونیا، پیلیا، ڈائریا، وائرل فیور جیسی بیماریوں کی زد میںآتے ہیں، جوان کی بے وقت موت کا سبب بنتی ہیں۔بچوںکی اموات درکو روکنے کیلئے مرکزی وزارت صحت اور یونیسیف جیسی تنظیمیں بڑے پیمانے پر مہم چلارہی ہیں۔ حال ہی میں یونیسیف نے ریڈیو جرنلسٹوں واخبار نویسوں کو ایک روزہ ورکشاپ منعقد کرروٹاوائرس کی تفصیلی معلومات فراہم کی۔ اس موقع پر یونیسیف کی کمیونی کیشن اسپیشلسٹ سونیا سرکار نے کہا کہ میڈیا ایک طاقت ور ذریعہ ہے۔ وہ اگر اس مسئلہ کو چنوتی کے طورپر قبول کرے توسماج کو بیدار کرسکتا ہے۔ اس کی کوشش سے دیش میں 35 فیصدمعمول کے ٹیکوں سے محروم بچوںکو کور کیاجاسکتا ہے۔
یونیسیف ہیلتھ اسپیشلسٹ ڈاکٹر ستیش گپتا نے بتایاکہ روٹا وائرس کو 1973میں رتھ بشپ اور ان کے ساتھیوں نے دریافت کیاتھا۔ نوزائدہ اور نوخیز بچے اس سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ روٹا وائرس کی وجہ سے معدہ اور چھوٹی آنت کی میوگس چھلی میں انفکشن ہوجاتاہے جسے Stomach Fluبھی کہتے ہیں۔ اس کا انفلواینجا سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ ایک عام بیماری ہے، اس پر بچپن میں آسانی سے قابو پایاجاسکتا ہے۔لیکن پھر بھی دنیا بھر میںپانچ سال سے کم عمر کے 450000بچے روٹا وائرس کی وجہ سے ہرسال مرجاتے ہیں۔ لگ بھگ دوملین بچے اس کی وجہ سے بیماری کا شکار ہوتے ہیں۔ ان میں سے85فیصد بچے ترقی پذیر ممالک میں رہتے ہیں۔ روٹا وائرس سے محفوظ رکھنے کیلئے بچوںکو روٹا وائرس ویکسین منہ کے ذریعہ پلائی جاتی ہے۔ ہر خوراک پانچ بوندوںپر مشتمل ہوتی ہے۔ اس کی تین خوراکیں بچوںکو 14-10-6 ہفتہ پر دی جاتی ہیں۔ روٹا وائرس ویکسین کا ڈراپرگلابی رنگ کا ہوتا ہے۔ اس ویکسین کو فریجر میں نفی25-15ڈگری کے درجہ حرارت پر محفوظ رکھا جاتا ہے۔ استعمال سے پہلے کولڈ روم میں 2-8cڈگری کے درجہ حرارت میں رکھنا ہوتا ہے۔ کولڈ باکس میں بھی یہی ٹمپریچر مین ٹین کیاجاتا ہے۔ اس ویکسین کی شیشی پر گرے رنگ کا ایک چوکور نشان بنا ہوتا ہے جس کا بیچ سفید رہتا ہے۔ ویکسین خراب ہونے کی صورت میں سفید رنگ کی خالی جگہ بھی گرے ہوجاتی ہے۔ پچھلے 20سالوں سے روٹا وائرس ویکسین 79ممالک میں استعمال کی جارہی ہے۔ ہمارے ملک میں گزشتہ کئی سالوں سے لائسنس لے کر پرائیویٹ ڈاکٹر روٹا وائرس ویکسین کا استعمال کررہے ہیں۔ 95فیصد معاملوں میں یہ ویکسین کارگر ثابت ہوتی ہے۔ بازار میں ایک ڈالر سے بھی کم قیمت پر یہ دستیاب ہے۔ مرکزی وزارت صحت نے پہلی مرتبہ بچوں کو ڈائریا سے بچاے کیلئے روٹا وائرس ٹیکہ کو سرکاری ٹیکہ کاری پروگرام کا حصہ بنایا ہے۔ امید کی جارہی ہے کہ اس سے بڑی تعداد میں بچوں کو ڈائریا سے بچایا جاسکے گا۔
ڈائریا کئی مرتبہ مہا ماری کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ اس کا وائرس ہاتھوں کی مدد سے کھانے پینے کی چیزوں کے ذریعہ انسان کے جسم میں داخل ہوکر انفیکشن پیدا کرتا ہے۔ ڈائریا پھیلنے والی چھوت کی بیماری ہے جو ایک سے دوسرے کو منتقل ہوتی ہے۔ مریض کے منہ سے ٹپکی ایک گرام لارمیں بیماری پیدا کرنے والے 10ٹرلین جراثیم موجود ہوتے ہیں۔ جن کے ایک سے دوسرے میں جانے کا امکان بنارہتا ہے۔ روٹا وائرس 9سے 19دنوں زندہ رہتا ہے۔ اس کا انحصار سینی ٹیشن اور حفظان صحت کی صورتحال پر ہوتا ہے۔ روٹا وائرس Aنوے فیصد سے زیادہ انسانوں کو متاثر کرتاہے خاص طور سے بچوں کو۔ اس کی وجہ سے کسی خاص علاقے یا ملک میں بیماری پھیلتی ہے۔ 1977میں یہ برازیل میں بڑی وبا کی شکل میں سامنے آیا تھا۔ 1981میں کولوریڈو ، 1998میں بھارت اور چین میں بڑی تعداد میں لوگ ڈائریا کے شکار ہوئے تھے۔ روٹا وائرس B بڑے لوگوں میں بیماری پیداکرتا ہے۔ جو آلودہ پانی پینے، سیویج کے خراب انتظام کی وجہ سے پھیلتا ہے۔ 2005کے دوران اس نے نکارا گوا میں تباہی مچائی تھی۔ میکسیکو دنیا کا وہ پہلا ملک ہے جس نے2006میں روٹا وائرس ویکسین کو متعارف کرایا۔ ترقی پذیر ممالک میں نکارا گوا وہ پہلا ملک ہے جس نے اس ویکسین کو 2006میں ہی اپنے ملک میں ٹیکہ کاری کا حصہ بنایا۔ اس کی وجہ سے انفیکشن میں 40فیصد کی کمی درج کی گئی اور ایمرجنسی میں آنے والے مریضوںکی تعداد آدھی رہ گئی۔ اس ویکسین کا 100سے زیادہ ملکوں نے لائسنس لیا ہوا ہے لیکن 28ممالک ہی اس کو معمول کے ویکسنیشن پروگرام میں شامل کرسکے ہیں جبکہ 2009میں WHOنے روٹاوائرس کے ٹیکے کو معمول کے ٹیکہ کاری پروگرام کا حصہ بنانے کی سفارش کی تھی۔
روٹا وائرس Cمشکل سے ملنے کا وائرس ہے لیکن کبھی کبھی اس کے معاملے بھی سامنے آتے ہیں۔ یہ وائرس چھوٹی وبا کی شکل میں خاندانوں وبچوں
میں ڈائریا کی وجہ بنتا ہے۔ ڈائریا سے بچائو کے بارے میں یونیسیف کی واش اسپیشلسٹ ممتاٹھاکر کا کہنا ہے کہ کھانا کھانے سے پہلے اور رفع حاجت کے بعد صابن سے ہاتھ دھونے سے ڈائریا کا امکان40فیصد کم ہوجاتاہے۔ اگر دائیاں صابن سے ہاتھ دھوکر بچوںکی پیدائش کرائیں تو 9فیصد بچے روٹا وائرس سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ مائیں صابن سے ہاتھ دھوکر بچوں کو فیڈنگ کرائیں تو 19فیصد بچوںکو ڈائریا کا کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔ کھلے میں رفع حاجت بہت سی بیماریوں کو دعوت دیتی ہے ان میں سے ڈائریا بھی ایک ہے۔ اسکولوں میں پینے کے صاف پانی اور ٹائلیٹ نہ ہونے سے بچے اسکول جانا چھوڑدیتے ہیں۔ یہ ڈراپ آئوٹ کی بھی بڑی وجہ ہے۔ WHOکی سفارش کے باوجود چھ سالوں کے بعد ملک میں روٹا وائرس ویکسین کو معمول کی ٹیکہ کاری پروگرام کا حصہ بنایا جا سکاہے۔ اس کا مشن اندردھنش میں شامل کیاجانا سرکار کا ایک اچھا قدم ہے۔ اس مہم کو کامیاب بنانے کی ذمہ داری ہم سب کی ہے۔ اپنے بچوں کو صحت مند رکھنے کیلئے آگے بڑھ کر اپنی ذمہ داری نبھائیں اورمعمول کی ٹیکہ کاری ضروری کروائیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *