ملک میں معاشی نابرابری پر گفتگو کیوں نہیں؟

مرکزی وزیر خزانہ ارون جیٹلی کا کہنا ہے کہ حالیہ  معاشی سست روی کا بھارت پر اثر نہیں پڑا ہے
مرکزی وزیر خزانہ ارون جیٹلی کا کہنا ہے کہ حالیہ معاشی سست روی کا بھارت پر اثر نہیں پڑا ہے

دانش ریاض

نوٹ بندی (جسے عرف عام میں اب نوٹ بدلی کہا جارہا ہے )کے نتیجے میںجن ایک فیصد کو فائدہ ہوا ہے اس کا تذکرہ شاید کسی اور پیرائے میں ہمارے وزیر خزانہ ارون جیٹلی کرتے نظر آئے ہیں لیکن الفاظ و جملوں کی ساخت ایسی رہی ہے کہ عوام نے کم ہی سمجھا ہے۔ وہ اس بات کا تذکرہ تو کرتے ہیں کہ قومی خزانے میں اضافہ ہوا ہے لیکن عوام کی جیب پر حکومتی ڈاکے کا ذکر اب کھل کر کوئی نہیں کرتا ۔کیونکہ آکسفیم کی جس روپرٹ پر شد و مد کے ساتھ گفتگو ہونی چاہئے تھی اس پر گفتگو خال خال ہی ہوتی نظر آرہی ہے۔اردو زبان میں آکسفیم کی رپورٹ خصوصاً ملک میں مسلمانوں کی معاشی صورتحال پر تو بالکل بھی کچھ نہیں کہا گیا شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ جب سچر سفارشات پر کوئی بات آگے نہیں بڑھی تو مذکورہ رپورٹ پرتوانائی صرف کرکے کیا فائدہ۔
خیر اگرہم مسلمانوں کا تذکرہ نا بھی کریں تو جو عمومی جائزہ ہے اس پر بھی کسی نے تشویش کا اظہار نہیں کیاکہ آخر کس طرح ملک کی ایک فیصد آبادی ۵۳فیصد کی معیشت پر قبضہ جمائے بیٹھے ہے۔ملک میں معاشی ناہمواری اور نابرابری کا سلسلہ دراز سے دراز تر ہوتا جا رہا ہے ،دلچسپ بات تو یہ ہے کہ جس ایک فیصد کے پاس قومی خزانہ سمٹتا جا رہا ہے وہ ان کی محنت نہیں بلکہ ان کی ’’ٹِرک‘‘ کا نتیجہ ہے۔جادوئی چھڑی کا قصہ ہم پرانی کہانیوں میں پڑھتے رہے ہیں ٹیکنالوجیکل ٹِرک کے قصے ابھی عام نہیں ہوئے ہیں۔’’ٹیکنالوجیکل ٹِرک‘‘ کے نتیجہ میں جودھاندھلیا ںعام ہوتی جا رہی ہیںاس پر ممکن ہے بہت سارے قوانین موجود ہوں لیکن ’’جب سیاں بھئیل کوتوال تو ڈر کاہے کا‘‘کی مثل عام ہے۔
کارپوریٹ کمپنیاں جس ڈیجیٹل سسٹم کے ذریعہ عوام کی جیب پر ڈاکہ ڈال رہی ہیں کیا کسی کو اس کا اندازہ ہے ۔جس پے ٹی ایم کی آج ملک میں دھوم ہے وہ آپ کی محنت کی کمائی پر کیسے قبضہ جماتا جا رہا ہے کیا کسی نے سوچا ہے۔چلیے ہم ایک مثال سے ہی اسے سمجھتے ہیں۔عام لین دین میں اگر ہم ایک سو روپئے کا نوٹ کسی کو دیتے ہیں توایک سو لوگوں تک گھومنے کے بعد بھی اس کی قیمت سو روپیہ ہی رہتی ہے لیکن جب وہی رقم پے ٹی ایم کے ذریعہ سرکولیٹ ہو تو کیا سو لوگوں تک پہنچتے پہنچتے اس کی قیمت سو روپیہ ہی رہ جاتی ہے؟ کیا پے ٹی ایم کی طرف سے لگایا جانے والا ٹیکس آپ کی جیب پر ڈاکہ زنی نہیں ہے؟ آپ سو روپئے میں سو سرکولیشن کا سروس ٹیکس لگائیں اور ضرب تقسیم کے ذریعہ خود ہی جائزہ لے لیں،میں نے تو صرف مثال دی ہے۔
ہمارا ملک زرعی ملک کہلاتا ہے ،ساٹھ فیصد آبادی زراعت و باغبانی پر انحصار کرتی ہے ،کسان اور چھوٹے مزدوروں کے اس ملک میں ڈیجیٹل انڈیا کیسے کامیاب ہوگا اب تو ریزروبینک آف انڈیا کے موجودہ گورنر اُرجیت پٹیل کو بھی سمجھ میں آگیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نا چاہتے ہوئے بھی انہوں نے تسلیم کر لیا ہے کہ ملک ’’کیش لیس اکانومی‘‘کے لیے تیار نہیں ہے۔دراصل مسئلہ یہ ہے کہ اس ساٹھ فیصد آبادی پر بھی ایک فیصد کیسے قابض ہوجائے اس کی تیاری زور و شور سے کی جا رہی ہے۔اور شاید اس تیاری کا نتیجہ ہی ہے کہ معاشی نا برابری میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
موجودہ حکومت بھلے ہی اپنی ناکامیوں کا ٹھیکرا سابقہ حکومتوں پر پھوڑکر گلو خلاصی کر لے لیکن سابقہ حکومتوں کو مورد الزام ٹھہرانا یقیناًدرست بھی ہے۔دراصل معاشی نابرابری ایک دن کی بات نہیں ہے بلکہ مسلسل کئی دہائیوں سے اس پر کام چل رہا ہے۔غیر ملکی کمپنیاں جس تیزی کے ساتھ ملکی زرعی پیداوار پر اثرانداز ہو رہی ہیںاس کا بہتراندازہ ان لوگوں کو ہے جو اس میدان میں کام کر رہے ہیں۔معاشی نا برابری کا ہی معاملہ ہے کہ مہاراشٹر سمیت ملک کے بیشتر علاقوں کا کسان کسمپرسی کے عالم میں اپنی زندگی سے ناطہ توڑنے پر مجبور ہے۔بڑی صنعتوں کے بالمقابل چھوٹی صنعتوں کی حالت مزید ابتر ہو رہی ہے،میڈیم اور اسمال اسکیل انڈسٹریز میں مالی اعانت نہ ہونے کی وجہ سے لوگ باگ اسے بند کرنے پر مجبور ہیں۔کیونکہ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ملک کا ایک فیصد حصہ جس فراخدلی کے ساتھ قومی بینکوں کے ساتھ معاملات طے کر لے رہا ہے بیچارے چھوٹے صنعت کار اس میں بری طرح ناکام ثابت ہو رہے ہیں۔
معاشی نابرابری میں حکومت کے ساتھ بینکوں کا کردار بھی اہم ہے۔قومی بینکوںکا بڑے صنعتی گھرانوں سے والہانہ محبت اور ان کے در پر حاضری کی مسلسل روایت دیکھنے کو ملتی ہے ۔جبکہ چھوٹے صنعت کاروں کی لمبی لائن بینکوں کے سامنے کھڑی نظر آتی ہے اور حسب روایت حیلے بہانوں کے ساتھ انہیں ٹال دیا جاتا ہے۔کیونکہ چھوٹے صنعت کار یا تاجر فوری طور پر بہت زیادہ منافع دینے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے اور نہ ہی وہ ’’بخشش‘‘کے طریقوں سے آگاہ ہوتے ہیں لہذااچھے پر پوزلس کے بعد بھی انہیں ناکامی ہی ہاتھ لگتی ہے۔ایس ایم ایز پر ہمارے یہاں وازارت تو قائم ہے لیکن وہ صنعتیں جو ختم ہورہی ہیں کیا کبھی اس پر توجہ دی گئی ہےیا اس وزارت کے ذریعہ قومی بینکوں کو کیا فرمان جاری کیا گیا ہے یہ سوال ہمیشہ ان لوگوں کو پریشان کئے رکھتا ہے جو مجموعی ترقی کی وکالت کرتے ہیں۔
قومی بینکوں کے بالمقابل پرائیویٹ یا کو آپریٹیو بینک کسی حد تک ضرور ان چھوٹے کاروباریوں کو مستفید کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن آر بی آئی کے قوانین اور خودمقامی اثر و رسوخ کبھی حقداروں کو محروم کرنے کا باعث بن جاتا ہے۔ بارہا ایسا دیکھنے کو ملا ہے کہ جو لوگ لائق ہیں اور اپنی صنعت و تجارت کو کسی بلندی پر پہنچانے کا ہنر بھی رکھتے ہیںاگر وہ کسی طرح پرائیویٹ بینکوں یا کو آپریٹیو بینکوں کو قائل کرنے میں کامیاب بھی ہو جاتے ہیں تو آر بی آئی کے ایسے قوانین ہاتھ جوڑے کھڑے ہوتے ہیں کہ بینک کا ذمہ دار تمام سہولتوں کو دینے کا وعدہ کرنے کے باوجود ہاتھ جوڑ لیتا ہے۔بسااوقات تو یہ دیکھنے کو ملا ہے کہ کسی نے تمام معاملات طے بھی کر لیے ،آربی آئی کے نومس کو بھی مکمل کرلیا لیکن ’’مقامی اثر و رسوخ ‘‘نے ایسا گیم کھیلا کہ اس کا بنا بنایا کام بگڑ جاتا ہے۔
ان تمام صورتحال میں جس معاشی نابرابری کا سامنا ملک کی کثیر تعداد کر رہی ہے وہ نہ صرف ملکی پیداوار میں اثر انداز ہو رہا ہے بلکہ ملکی معیشت کو شدید طور پر نقصان پہنچا رہا ہے۔

مذکورہ مضمون سب سے پہلے http://urdu.news18.com/blogs/economic-inequality-in-the-country-209798.html پر شائع ہوچکا ہے ۔معیشت کے قارئین کے لیے ہم اسے یہاں شائع کر رہے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *